Tag: فکاہیہ تحریریں

  • اردو کی خدمت اور دادا

    اردو کی خدمت اور دادا

    اردو ادب میں مشاہیر کا تذکرہ، علمی و ادبی خدمات اور کارناموں کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی کے مختلف گوشے، اُن کی باتیں، یادیں اور مختلف واقعات ہمیں‌ کتابوں میں‌ پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں‌ خاص طور پر سوانح عمریاں اور شخصی خاکوں‌ پر مبنی کتابیں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی دل چسپ اور پُر لطف تحریر ہے، جو اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ‌ حسین کے قلم سے نکلی ہے اور ان کے ممدوح ہیں شاہد علی خاں۔

    شاہد علی‌ خاں بھارت میں ماہنامہ "کتاب نما” کے مدیر اور مکتبہ جامعہ دہلی کے جنرل منیجر کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہوئے۔ مجتبیٰ حسین اپنے مضمون میں‌ شاہد علی خاں کے بارے میں لکھتے ہیں، "کچھ لوگ ہوتے ہیں جو انعام حاصل کرنے کو ہی اہم کام سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کام کو ہی سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں۔ شاہد علی خاں کا شمار مؤخر الذّکر لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ سنتے تو سب کی تھے لیکن کام اپنا ہی کئے جاتے تھے۔ لیکن ادھر جب سے ان کی سماعت کسی قدر متاثر ہوئی ہے تب سے وہ کام میں کچھ زیادہ ہی ڈوبتے چلے جارہے ہیں۔ اب وہ یا تو کہنے والے کی بات کو سنی ان سنی کردیتے ہیں یا پھر بالکل ہی نہیں سنتے، ہر دم کام میں لگے رہتے ہیں۔ اگر آپ سلام کے بعد ان کی خیریت پوچھیں تو جواب ملے گا:

    ” جی ہاں! اس بار’کتاب نما‘ کی پوسٹنگ میں تین دنوں کی تاخیر ہوگئی۔”

    آپ پوچھیں گے”اس بار رمضان میں کتنے روزے رکھے؟”

    تو جواب ملے گا "ذرا مکتبہ جامعہ کی اسٹاک چیکنگ (Stock cheking) ہو جانے دیجئے پھر بتاؤں گا۔”

    غرض ان سے تبادلۂ خیال کے نتیجے میں فریقین کی طرف سے ادا ہونے والے جملوں کو اگر آپ ہو بہو کاغذ پر منتقل کر دیں تو بخدا کسی کام یاب نثری نظم کا لطف آجائے۔

    گرمی ہو یا سردی، آندھی ہو یا طوفان، کام کا دن ہو یا چھٹی کا دن، ان کی خدمات ہمیشہ جاری و ساری رہتی ہیں۔ میز پر مضامین کا انبار لگا ہوا ہے، خطوط کے پلندے بندھے ہوئے ہیں، کتابوں کے پروفس رکھے ہوئے ہیں، جا بجا کاغذات کا ڈھیر ہے۔ ان کے کام کرنے کی میز کو اگر کوئی دیکھ لے تو اسے اندازہ ہو گا کہ انتشار میں تنظیم، بکھراؤ میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کا نام ہی اردو کی خدمت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ایسے انتشار میں اردو کی خدمت کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔

    شاہد علی خاں سے لگ بھگ تیس برس پہلے ممبئی میں پہلی ملاقات ہوئی تھی جب وہ مکتبہ جامعہ کی ممبئی برانچ میں منیجر تھے۔ وہاں بھی ان کا وہی حال تھا، وہی بے ترتیبی میں ایک ترتیب اور وہی بکھراؤ میں ایک رچاؤ۔ وہ اسی کو اردو تہذیب بھی کہتے ہیں۔ اردو میں ایسی بے لوث خدمت کرنے والے اب کم ہی پائے جاتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ اردو کے سارے ادیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ان کا تعلق ادیبوں کے کسی گروہ سے نہیں ہے۔ "کتاب نما” اور "پیامِ تعلیم” کے مدیر کی حیثیت سے بھی ان کی کوششیں یہ ہوتی ہیں کہ اردو کے سارے گروہوں کی نمائندگی ان کے رسالوں میں تو ہو لیکن ان کے رسالے کسی گروہ کے ترجمان نہ بن جائیں۔ اس مقصد کے لئے ہر ماہ وہ ایک ” مہمان مدیر” کو پکڑ کر لاتے ہیں۔ (اردو صحافت میں ‘مہمان مدیر’ کی ایجاد کا سہرا بھی شاہد علی خاں کے سر جاتا ہے۔)

    شاہد علی خاں بچّوں کے مقبول ماہنامہ "پیامِ تعلیم” کے مدیر بھی ہیں اور اردو میں بچّوں کے ادب کو فروغ دینے کے معاملے میں ہر دم سنجیدہ رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم جیسوں کی بچکانہ تحریروں کے لئے تو "کتاب نما” کے صفحے موجود ہیں لیکن "پیامِ تعلیم” میں ایسی تحریریں چھپنی چاہییں، جن سے واقعی بچّوں کی تربیت ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ "کتاب نما” کے مقابلے میں "پیامِ تعلیم” کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

    بچّوں سے شاہد علی خاں کی محبّت اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب چھ سات مہینے پہلے مکتبہ جامعہ کے رکشاران نعمت کا چار سالہ بیٹا اپنے باپ کے پاس کچھ عرصہ رہنے کے لئے بہار کے کسی گاؤں سے دہلی آیا۔ وہ بہار کی کسی مقامی بولی میں بات چیت کرتا تھا لیکن شاہد علی خاں نے اسے اردو اور اردو تہذیب سے واقف کرانے کا بیڑہ اٹھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین چار مہینوں میں وہ اردو تہذیب سے اتنا واقف ہوگیا کہ اس نے شاہد علی خاں کو اپنا دادا بنا لیا اور ان کے ملنے والوں کو حسبِ عمر چچا، تایا، انکل وغیرہ بنانے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مکتبہ جامعہ کا ایک اہم کردار بن گیا اور مکتبہ جامعہ میں اس کی اہمیت خود شاہد علی خاں سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

    وہ اکثر شاہد علی خاں کی گود میں بیٹھا رہتا اور نت نئی فرمائشیں کرنے کے علاوہ وہ دل چسپ باتیں بھی کرتا جاتا۔ رات کو بھی وہ ان ہی کے پاس سو جاتا تھا۔ ایک دن وہ ہمیں مکتبہ جامعہ کے گیٹ پر مل گیا تو اس نے حسبِ معمول بہ آوازِ بلند ہمیں سلام کیا۔ (شاہد علی خاں کی وجہ سے اسے ہر ایک سے بہ آواز بلند بات کرنے کی عادت ہوگئی تھی) پھر مخصوص انداز میں ہماری خیریت پوچھنے لگا۔ ہم نے پوچھا:

    "شمشیر علی ! تمہارے دادا اس وقت کیا کر رہے ہیں؟”

    بولا:”وہی ہاتھ میں قلم لے کر کاغذوں کے پلندوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔”

    ہم نے اسے ٹوکا کہ میاں شمشیر کوئی تم سے ایسا سوال کرے تو تمہیں اس طرح جواب نہیں دینا چاہیے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ: "دادا اس وقت اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔” اس کے بعد جب بھی وہ ہمیں ملتا اور ہم اس سے یہ سوال کرتے تو وہ فوراً جواب دیتا:” دادا! اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔”

    ایک دن ہم مکتبہ گئے تو پھر وہ ہمیں صحن میں مل گیا۔ ہم نے پوچھا:” تمہارے دادا کیا کر رہے ہیں؟”

    روتے ہوئے بولا: وہ اردو کی خدمت نہیں کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں کل سے بہت تیز بخار ہے، آپ لوگ خود اردو کی خدمت کیوں نہیں کرتے، میرے دادا سے کیوں خدمت کرواتے ہیں؟”

    اس کی بات کو سن کر ہم ہنسنے لگے تو غصے سے بولا:” میرے دادا کی طبیعت خراب ہے اور آپ ہنس رہے ہیں، میں آئندہ سے دادا کو کبھی اردو کی خدمت نہیں کرنے دوں گا۔”

    (ماخوذ از کتاب: شاہد علی خاں: ایک فرد – ایک ادارہ.)

  • اب لائیے ادھر کان!

    اب لائیے ادھر کان!

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تُو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کرسکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کرگئے۔ جاتے ہوئے وصیت کرگئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مقبول مزاح نگار ابنِ‌ انشاء کے قلم کی شوخی)

  • اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں!

    اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں!

    پچھلے دنوں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جنہیں ”رنگ برنگی آنکھوں“ کا شوق ہے۔ اگر آپ رنگی برنگی آنکھوں کی اصطلاح پر حیران ہورہے ہیں تو آپ کو اس کی پوری اجازت ہے کیوں کہ میں بھی پہلے اسی طرح حیران ہوئی تھی۔

    غالبؔ کی پیش گوئی تو قصّۂ پارینہ ہوئی کہ:

    لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

    سائنس نے تو وہ ترقی کی ہے کہ دل و جاں پر کیا منحصر ہے گردہ، پھیپھڑا، آنکھیں، زبان، ہاتھ، پاؤں غرض انسانی جسم کے تمام اعضاء یعنی ”اسپیئر پارٹس“ باآسانی ”بازارِ شفا“ میں دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بازار میں خریداروں کے شوق کی تسکین کے لئے ”اسپیئر پارٹس“ کی مختلف ”ورائٹیز“ بھی تیار کی جارہی ہیں۔ تجربے کے طور پر ”بازارِشفا“میں سب سے پہلے آنکھوں کی مختلف ورائٹیز لائی گئی ہیں۔ آنکھوں کو فوقیت دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ ”بازارِ شفا“کے کاری گر یعنی ڈاکٹر صاحبان بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ”انکھیاں بڑی نعمت ہیں بابا۔“

    پہلے اگر کسی کی آنکھوں کے دیے بجھنے لگتے تھے تو ڈاکٹر صاحبان اس کی زندگی کا چراغ گل ہونے سے قبل اس کے دیے کی لو دوسرے دیے سے جوڑ کر اسے پھر سے منّور کردیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسے قرنیہ کی تبدیلی کہتے ہیں۔ یہ قرنیہ کسی مرنے والے کی وصیت کے مطابق اس کی وفات کے فوراً بعد آنکھوں سے نکال لیا جاتا ہے۔

    اب ایک چیز اور ایجاد ہوئی ہے۔ نام اس کا ”کنٹیکٹ لینس“ ہے۔ رنگ بھی اس کے کئی ہیں اور خوبی یہ کہ اسے آپ اپنے قرنیے پر لگا دیں، دیکھنے والے کو آپ کی ”ہوشیاری“ کا پتا بھی نہیں چلے گا اور آپ کی آنکھوں کی رنگت بھی بدل جائے گی۔

    کنٹیکٹ لینس بغیر رنگ کے بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحبان اب صرف قرنیہ کا آپریشن نہیں کرتے بلکہ آپ کی آنکھوں کو آپ کا پسندیدہ رنگ بھی دیتے ہیں۔ آپ کنٹیکٹ لینس لینے کی خواہش کا اظہار کریں تو فوراً دریافت کیا جائے گا۔ ”کس رنگ میں چاہئے؟ نیلا، لال، ہرا، کتھئی ہر رنگ موجود ہے۔“ بالکل اسی طرح جیسے کپڑے کی دکان پر بزاز تھان پھیلا کر کہتا ہے۔”بہن جی، ڈیزائن پسند کر لیں، رنگ اور بھی مل جائیں گے۔ نیلا، پیلا، لال، ہرا، اودا، پانچ ورائٹیز ہیں اس میں۔“

    اس لینس کی ایک خوبی اور بھی ہے، یعنی اسے لگانے کے لئے خدانخواستہ کسی کا نابینا ہونا یا اس کی بینائی کا کمزور ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ کی بینائی کمزور ہے تو آپ اپنی آنکھیں ٹیسٹ کرا کے چشمے کی طرح لینس کا نمبر لے لیں ورنہ آپ کے سامنے بغیر نمبر کے تمام رنگ کے لینس رکھے ہیں۔ ”نظرِ انتخاب“ ڈالئے اور کوئی بھی رنگ پسند کرلیجئے۔

    میری ملاقات جس خاتون سے ہوئی تھی وہ رنگوں کی میچنگ کے معاملے میں اتنی ”حسّاس“ ہیں کہ لباس، نیل پاش اور لِپ اِسٹک سے لے کر آنکھوں تک سب میچنگ کلر میں چاہتی ہیں۔ اس روز وہ ”بازارِ شفا“ میں رنگ برنگی آنکھوں (لینس) کی خریداری کے سلسلے میں ہی آئی تھیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انہوں نے کس کس رنگ کی آنکھیں خریدیں لیکن اتنا اطمینان ضرور ہے کہ وہ بے ضرر سی خاتونِ خانہ تھیں۔ لہٰذا، ان کے ”آنکھیں بدلنے“ سے کسی کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ گھر والے بھی چند دنوں میں ان کی اس عادت سے بخوبی واقف ہوجائیں گے اور ان کی رنگ بدلتی آنکھوں کی پروا نہیں کریں گے۔

    ہم اس بات سے بھی خوف زدہ نہیں ہیں کہ معاشرے کے جرائم پیشہ افراد کنٹیکٹ لینس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے یعنی کوئی چور کالی آنکھوں کے ساتھ چوری کرنے کے بعد نیلی آنکھیں لگا کر مجمع میں شامل ہو کر ”چور چور، لینا، پکڑنا، جانے نہ پائے“ کی صدائیں لگانے لگے گا۔ ظاہر ہے ہم اس سے کیوں خوف زدہ ہوں۔ یہ دردِ سر تو محکمۂ پولیس کا ہے۔ ہم تو صرف ایسے ”عاشقِ صادق“ کے لئے پریشان ہیں جو اپنی محبوبہ کی نیلی آنکھیں دیکھ کر بڑے پیار سے کہے گا۔ ”جان! تمہاری آنکھوں میں جھیل جیسی گہرائی ہے۔ تمہاری نیلگوں آنکھوں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔“ اور اس بات پر محبوبہ بجائے شرمانے کے جھٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گی۔ ”لو ڈوب سکتے ہو تو ڈوب جاؤ، مرو گے تھوڑی۔“

    عاشق بے چارہ چکرا کر محبوبہ کی طرف دیکھے گا تو نیلگوں آنکھوں میں ”شبِ دیجور“ کی سیاہی نظر آئے گی۔ یا کبھی کسی محبوبہ کو غصہ آیا اور اس کی اصلی آنکھیں لال پیلی ہونے لگیں تو عاشق اسے منانے کی بجائے
    شانِ بے نیازی سے کہے گا۔ ”دیکھو جی! میرے پاس بھی نیلے اور پیلے رنگ کے کنٹیکٹ لینس ہیں۔ اگر تمہاری آنکھیں لال پیلی ہوسکتی ہیں تو میری آنکھیں بھی نیلی پیلی ہوسکتی ہیں۔“ تصّور کیجئے اس وقت بیچاری محبوبہ کی آنکھوں سے برستی برسات کا کیا منظر ہو گا۔

    برستی برسات پر خیال آیا کہ ان آنکھوں کے ساتھ رونا منع ہے کیوں کہ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں بھی بہہ جائیں۔ کنٹیکٹ لینس کے استعمال کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ کبھی کسی نے غصّے میں آنکھیں دکھانی شروع کیں تو دوسرا نہایت پیار سے داغؔ کا شعر پڑھتے ہوئے اپنے کنٹیکٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گا۔

    داغؔ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
    اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں

    (سینئر صحافی، فکاہیہ نگار حمیرا اطہر کے کالموں کے مجموعہ” بات سے بات” سے انتخاب، ان کی یہ تحریر 1979ء میں پاکستان کے ایک مؤقر جریدے میں شایع ہوئی تھی)

  • وہ معاملہ جس میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں!

    وہ معاملہ جس میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں!

    نامہ بَر تُو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
    کیسے ہوتے ہیں وہ خط ”جو پہنچائے جاتے ہیں“

    خطوط کی ترسیل میں تاخیر یا ان کی گم شدگی صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ اس معاملے میں ہم یورپ و امریکہ کے ہمسر ہیں۔

    ہماری جو سہیلیاں ہمیں امریکہ سے خطوط لکھتی ہیں وہ ہمیں آٹھ دس دن کے بجائے ہمیشہ ڈیڑھ دو ماہ بعد ملتے ہیں اور لندن سے آنے والی ڈاک اس اعتبار سے سب پر بازی لے گئی ہے کہ اوّل تو موصول نہیں ہوتی اور جو موصول ہوتی ہے تو لفافہ کسی کنواری اور اَن چھوئی دوشیزہ کے دامن کی طرح بے داغ ہوتا ہے۔

    گزشتہ چھ ماہ میں ہمیں لندن سے صرف دو خطوط موصول ہوئے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ پہلا خط سپردِ ڈاک کئے جانے کے پورے ڈیڑھ ماہ بعد ملا تو اس طرح کہ نہ صرف اس پر چسپاں ٹکٹ بلکہ پورا لفافہ کورا تھا۔ اس پر پاکستان تو کجا لندن کے بھی کسی ڈاک خانے کی کوئی مہر نہیں لگی تھی۔ میں نے جوابی خط میں اپنی دوست عذرا کو وہ ٹکٹ اتار کر بھیجتے ہوئے لکھا کہ یہ خط نہ جانے کس طرح دونوں ممالک کے ڈاک خانوں سے نظریں بچا کر چُھپ چُھپا کر میرے گھر تک پہنچ گیا۔ شاید اسی لئے اس نے دس دن کا سفر ڈیڑھ ماہ میں طے کیا ہے۔ بہر کیف یہ میرے تو کسی کام نہیں آئے گا، تم دوبارہ استعمال کر لو مگر تاکید کر دینا کہ اس مرتبہ یوں چُھپتے چُھپاتے سفر نہ کرے۔ عذرا نے میرے لکھے پر عمل کیا مگر خط نے اس کی ایک نہ سنی اور پھر اسی طرح چُھپتے چُھپاتے مجھ تک پہنچا۔ اس مرتبہ اس کے سفر کا دورانیہ پورے دو ماہ پر محیط تھا۔ میں نے پھر اس ٹکٹ کو احتیاط سے اتار کر جوابی خط میں روانہ کر دیا کہ ”برکتی“ ٹکٹ ہے۔ ساری زندگی کام آئے گا۔

    لگتا ہے دونوں ممالک کے محکمہ ہائے ڈاک تم سے بہت خوش ہیں۔ تمہارے سارے خطوط اسی ایک ٹکٹ پر بھیجنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔ عذرا نے پھر اسی ”برکتی“ ٹکٹ کو استعمال کرتے ہوئے جواب ارسال کیا۔ پندرہ روز پہلے اس کا فون آیا تو معلوم ہوا کہ اسے اس ”برکتی“ ٹکٹ کے ساتھ جواب ارسال کئے دو ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر وہ ہنوز مفقود الخبر ہے۔مذکورہ خط کے بموجب مجھے اس عرصہ میں یہاں اس کے کچھ کام کروا کے ان کی رپورٹ بھیجنی تھی مگر یہاں چوں کہ خط ہی نہیں ملا تو کیسا کام اور کیسی رپورٹ؟ اب اس نے گھبرا کے فون کیا تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ خط تو اب تک یہاں پہنچا ہی نہیں۔ یقیناً اسے پھر لندن اور کراچی کے محکمہ ہائے ڈاک کے اہلکاروں کی نظروں سے بچنے کی کوشش میں دیر ہورہی ہے۔ اصل ماجرا تو اس کے موصول ہونے پر ہی معلوم ہوگا (اگرموصول ہوگیا۔) سرِدست ہم اسی بات پر خوش ہیں کہ کسی معاملے میں سہی، ہم انگریزوں کے برابر تو ہوئے۔ ہمارے اور ان کے محکمۂ ڈاک کی کار گزاری کا معیار یکساں ہے۔

    بعض ناشکرے لوگ محکمۂ ڈاک کی اس کار گزاری پر ناراض رہتے ہیں اور اس نے جو اپنا معیار بڑھانے کی خاطر ارجنٹ میل سروس کا شعبہ بنایا ہے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب کھانے کمانے کے دھندے ہیں۔ ایک روپے کی جگہ سات روپے لیتے ہیں اور ڈاک پھر بھی وقت پر نہیں پہنچاتے۔ حالاں کہ دیکھا جائے تو اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر محکمۂ پولیس اپنی پرانی کار گزاری پر ایگل اسکواڈ، ہاک اسکواڈ اور پولیس سٹیزن لائژن کمیٹی قائم کرسکتا ہے تو محکمۂ ڈاک کو ایسا کرنے کا حق کیوں نہیں دیا جاتا؟ آخر وہ کیوں نہ کھائے کمائے؟

    جہاں تک ڈاک کی بروقت ترسیل کا تعلق ہے تو اس کے لئے جگہ جگہ کوریئر سروس کمپنیاں قائم کردی گئی ہیں۔ اگر آپ اپنا خط واقعی پہنچانا چاہتے ہیں یا یوں کہئے کہ خط بھیجنے میں سنجیدہ ہیں تو ان کی خدمات حاصل کیجئے۔ ٹھیک ہے ان کا معاوضہ بھی زیادہ ہے مگر آپ یہ بات کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ ان کا اہل کار آپ کی ڈاک کو مکتوب الیہ کے ہاتھوں میں دے کر آتا ہے۔ نہ صرف ہاتھوں میں دے کر آتا ہے بلکہ ان سے وصولی کی سنَد بھی لکھواتا ہے تاکہ ان کے پاس مکرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ اس لحاظ سے کام کے مقابلے میں دام زیادہ نہیں۔

    اوپر ہم نے لفظ واقعی کا استعمال یوں کیا ہے کہ بعض عاشق اسی مقولے پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ

    خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
    ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

    سوچئے۔ ایسے بے مقصد خطوط محبوب تک نہ بھی پہنچ پائیں تو کیا حرج ہے؟ لہٰذا، اگر آپ کا تعلق بھی ایسے ہی عاشقوں سے ہے اور آپ بغیر مطلب کے خط پہ خط لکھتے ہیں تو پھر انہیں بلا کھٹکے سپردِ ڈاک بھی کرتے جائیے۔ محکمۂ ڈاک انہیں وہیں پہنچائے گا جو ان کا اصل مقام ہونا چاہئے یعنی کوئی برساتی نالہ یا کچرا کنڈی۔۔۔ یوں جب آپ کے فضول اور بے مطلب کے محبت نامے محبوب تک نہیں پہنچ پائیں گے تو وہ آپ سے ناراض بھی نہیں ہوگا۔ لیجئے محکمۂ ڈاک کی ایک مثبت کار گزاری تو سامنے آئی کہ اس نے آپ کو محبوب کی ناراضگی سے بچالیا۔

    اب جب کہ محکمۂ ڈاک کا ایک مثبت پہلو سامنے آہی گیا ہے تو اس کو مزید طعن و تشینع کا نشانہ بنانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ اس کالم کو یہیں ختم کردیا جائے۔ یوں بھی اچھا ہے یا بُرا ہے پر محکمۂ ڈاک ہے تو ہمارا۔ اتنی گنجائش تو رہنی ہی چاہیے کہ وہ ہمارے خطوط دیر سے سہی، پہنچا تو دیا کرے۔

    (حمیر اطہر سینئر صحافی، ادیب اور کالم نویس اور متعدد کتب کی مصنّف ہیں، پیشِ نظر اقتباسات ان کے 1992 کے مطبوعہ فکاہیہ کالم سے لیے گئے ہیں، جو حمیرا اطہر کی منتخب فکاہیہ تحریروں پر مشتمل کتاب "بات سے بات” میں بھی شامل ہے)