Tag: فکاہیہ مضامین

  • کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    شاعرِ مشرق، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے اشعار کی تفسیر و تشریح میں اکثر ہم لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ اگر بات علمی مباحث تک ہو تو بھی ٹھیک ہے، مگر جب ان غلط تشریحات کا اطلاق عملی زندگی میں ہونے لگے تو ہمارے لیے پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

    کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی شعر کا مطلب تو صحیح نکالتے ہیں لیکن اس کے انطباق میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ مثلاً اس شعر ہی کو لیجیے؎

    نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تُو شاہیں ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں میں

    اب جسے دیکھو علامہ اقبال کے اس شعر کو راہ نما بنا کر منہ اٹھائے پہاڑوں کی طرف چل دیتا ہے۔ حالاں کہ پہاڑوں کی طرف رختِ سفر باندھنے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ شاعرِ مشرق نے کن پہاڑوں میں سکونت اختیار کرنے کی ”ہدایت“ کی ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ کا اشارہ تورا بورا کے کوہ ساروں کی طرف تھا اور ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ”عقابی حرکتیں“ کرنے والوں کے لیے یہ پہاڑ ہی محفوظ پناہ گاہ بن سکتے ہیں۔ رہے بلوچستان وغیرہ کے پہاڑ تو بھیا! ان ”پہاڑوں“ کا کوئی بھروسا نہیں۔ آپ ان میں جاکے بیٹھیں تو یہ آپ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ نے اپنے شعر میں واضح طور پر تورا بورا کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ ہمارے خیال میں انھوں نے افغانستان کی مناسبت سے ”پٹھانوں کی چٹانوں میں“ لکھا ہوگا، جو ”پٹھانوں“ سے بگڑ کر ”پہاڑوں“ ہوگیا۔ اور پھر اسے ”پہاڑوں“ ہی تسلیم کرلیا گیا کیوں کہ پٹھان بگڑ جائے تو ”بڑے بڑوں“ کو اسے ”پہاڑ“ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

    ہم یہاں کلام اقبال کے حوالے سے کچھ اور غلط فہمیوں کی نشان دہی بھی کیے دیتے ہیں۔

    کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
    مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

    شمشیر بہ دست کافر سے بے تیغ مومن کا رانوں پر ہاتھ مار کر ”کبڈی کبڈی“ کہتے ہوئے بِِھڑ جانا، نری خود کشی ہوگی اور بھلا اقبال مسلمانوں کو خودکشی کا مشورہ کیوں دینے لگے؟ ان کے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ غنیم کو شکست دینے کے لیے تلوار پر بھروسا کرنا تو کافروں کا وتیرہ ہے۔ ”مومن سپاہی“ تو بس قلم اٹھاتا ہے اور کاغذ پر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا ہے۔ اور جب کم از کم ڈیڑھ دو سیر کاغذ دشمن کے خون میں نہا کر سفید سے سرخ اور سرخ سے سیاہ ہوجاتا ہے تو مومن سپاہی اسے ”خود نوشت“ کی صورت میں شایع کر دیتا ہے۔

    اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
    جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

    اس شعر کے مصرعِ ثانی کو صدر ایوب خان نے اپنی ”مبینہ خود نوشت“ کے اردو ترجمے کا عنوان بنایا تھا۔ اس عنوان نے کتاب کی فروخت پر بڑا بُرا اثر ڈالا۔ اکثر لوگوں نے اس کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی سمجھا کہ یہ وہ ”رزق“ ہے جو پرواز میں کوتاہی لاتا ہے اور پھر ”اس رزق سے موت اچھی“ کہہ کر کتاب خریدنے کا ارادہ ترک کردیا۔ نتیجتاً بنیادی جمہوریت، ون یونٹ اور کنوینشنل لیگ کی طرح ایوب خان کی کتاب بھی رزق خاک ہوئی۔
    ہمارے خیال میں امریکی امداد، بھارتی اجناس اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے معاملے میں اس شعر کو حوالہ بنانا مصلحت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ لہٰذا اسے علامہ کا پرندوں کو مشورہ سمجھ لینے ہی میں عافیت ہے۔

    مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
    خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

    غریبوں نے اپنے ممدوح کا یہ شعر پڑھ کر نام پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ اب نام ور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ؎ پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ اور بے چارے غریب تو اپنے کپڑے بنانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ چناں چہ انھوں نے نام وری کے لیے نورِ نظر اور لختِ جگر کی پیداوار دھڑادھڑ شروع کر دی اور ہر بچے کے نام سے اپنا نام جوڑ کر سمجھے کہ نام پیدا کرلیا۔ ہمارے محلّے دار ’ببّن میاں‘ نے کثرت اولاد کی خواہش کو ”یقین محکم“ بنا اور ”محبت فاتحِ بیگم“ کا نعرہ لگا کر جو ”عمل پیہم“ شروع کیا تو ان کے گھر میں بچوں کی بھیڑ لگ گئی۔ موصوف، شبو ببن، نبو ببن، کلو ببن سمیت ایک درجن پسران و دختران کی ولدیت کا اعزاز رکھنے کی وجہ سے اس خیال میں غلطاں ہیں کہ انھوں نے دنیا میں ”ببّنوں“ کی تعداد بڑھا کر اپنا نام زندہ جاوید کر لیا ہے۔

    ببن میاں جیسے حالات اور خیالات کے حامل خواتین و حضرات کو ہمارا مشورہ ہے کہ نام پیدا کرنے کے چکر میں نہ پڑیں اور خودی بیچ کر گھر چلائیں، کیوں کہ ہم جس سرمایہ داری نظام میں زندہ ہیں اس میں افراد واقوام خودی کا سودا کیے بغیر نام نہیں صرف مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

    گیا دورِ سرمایہ داری گیا
    تماشا دکھا کر مداری گیا

    علامہ کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ ”مداری“ بس کچھ دور گیا تھا اور اشتراکیت سے کہہ گیا تھا ”بی بی! تم اپنا پتلی تماشا دکھاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔“ اشتراکی پتلی باز کا تماشا ابھی جاری ہی تھا کہ مداری اپنے سرکس کے ساتھ واپس آگیا۔ اب کے اس کا تماشا ایسا دل چسپ تھا کہ تماش بیں مبہوت ہوکر دیکھا کیے۔ مداری نے بندر کے بہ جائے سفید ریچھ اور کاغذی شیروں کو نچایا۔ مجاہدین سے موت کے گولے اور موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلوائی اور جوکروں سے خود ان کی بَھد اڑوائی۔ اتنے بڑے اور ایسے دل چسپ سرکس کے سامنے بے چارے پتلی باز کی کیا چلتی۔ چار و ناچار وہ خود بھی سرکس میں ملازم ہوگیا۔ ایسے میں کٹھ پتلیاں بے آسرا ہوگئیں، اب ان کی حالت یہ ہے کہ جو بھی ڈور پکڑ لے اس کی انگلیوں پر ناچنے لگتی ہیں۔

    خیر علامہ اقبال کو تو کچھ آثار دیکھ کر سرمایہ داری کے رخصت ہوجانے کی غلط فہمی ہوئی تھی۔ بہتر یہی ہے کہ دور حاضر میں کوئی، علامہ اقبال کی غلط فہمی کو جواز بنا کر، ”گیا دور سرمایہ داری گیا“ کا راگ نہ الاپے اور اگر الاپے تو ہم سے یہ شکایت نہ کرے کہ………..مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں ترے شہر کے لوگ۔

    ترے سوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
    لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

    عہدِ حاضر کے جوانوں کو اس شعر سے نصیحت پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ، ایک تو اس شعر میں سوفوں اور قالینوں کا ذکر کیا گیا ہے، اور مقامی طور پر تیار کردہ یہ اشیاء افرنگی و ایرانی سوفوں اور قالینوں کی ٹکر کی ہیں۔ اس شعر میں ”میڈ ان چائنا“ اشیاء، امریکی مصنوعات، جاپانی و جرمن گاڑیوں، سوئس گھڑیوں، فرانسیسی خوشبوعات اور بھارتی پیاز وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔ لہٰذا یہ اشیا بلاتکلف اور علامہ اقبال کے لہو رونے کے خدشے سے بے نیاز ہوکر خریدی جاسکتی ہیں۔

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
    اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

    یہ شعر آپ کو حکم رانوں کی تقاریر، علما کے وعظ و خطبوں اور سرکاری و نجی عمارات کی دیواروں پر آویزاں کلامِ اقبال میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ پس، سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ”حکم“ منسوخ ہو چکا ہے۔ ویسے بھی اس شعر کی پیروی کرنے والا دہقان خود بھوکا مر جائے گا۔ کیوں کہ اسے روزی سے محروم رکھنے والے ”چوہدری صاحب“ کے گودام میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ خوشہ ہائے گندم جل گئے تو وہ اس نقصان کے نام پر حکومت سے سہولتیں اور بینک سے قرضہ لے کر اپنے دھن میں اضافہ کریں گے اور کھیت بیچ کر کارخانہ لگا لیں گے۔ رہی جلی ہوئی گندم تو وہ حکومت کے توسط سے کسی بھی ملک برآمد کردی جائے گی۔ گندم کے جلنے سے اس کی پیداوار کو جو نقصان ہوگا وہ امریکا سے ایف 16 طیاروں کے منسوخ شدہ سودے کے عوض گندم لے کر پورا کر لیا جائے گا۔ سو میاں دہقان! جس کھیت سے تم کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کو اپنا لہو پلاتے رہو۔

    کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
    مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
    یہ شعر نائٹ شفٹ کے اخبار نویسوں، رات گئے تک کام کرنے والوں اور دن چڑھے سو کر اٹھنے والے ہم جیسے ”کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے“ کے مصداق خواتین و حضرات کے لیے نہیں۔ علاوہ ازیں فلیٹوں کے مکین، باوجود کوشش اس شعر کی پیروی سے قاصر رہیں گے۔ زمین، فلک اور فضا کے نام پر وہ فرش، چھت اور کھڑکی کے باہر پھیلا دھواں دیکھ کر صرف ”حجتِ شرعی“ پوری کر پائیں گے۔ رہا ابھرتے سورج کا نظارہ تو اس مقصد کے لیے فرائی انڈے کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس شعر کے ذریعے حضرت علامہ نے مسلمانوں کو تڑکے تڑکے، پو پھٹنے سے پہلے اٹھنے کی تلقین کی ہے۔ اور کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس شعر میں جہاں بینی و سیر بینی کی تاکید کی جارہی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کہہ رہے ہیں،

    ”ارے بے وقوف! اتنے سویرے کیوں اٹھ گیا۔ خوابیدہ نظروں سے گھڑی کیا تک رہا ہے۔ اب اگر اٹھ ہی گیا ہے تو؎ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ…. کہیں کوئی کام کرتا نظر آرہا ہے۔ ابھی تو سورج ابھر ہی رہا ہے اور تجھے اٹھنے کی پڑگئی۔ چَل! منہ ڈھک کے سوجا۔“

    (ادیب، شاعر اور معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی کتاب "کہے بغیر” سے ایک شگفتہ پارہ)

  • کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    یوں تو ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“ اور ہر تمنا پوری نہیں ہوتی لیکن یار لوگ تادم مرگ دل میں کوئی نہ کوئی آرزو پالے رکھتے ہیں اور اس کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

    بعض صاحبان اگر اپنی خواہشات من وعن پوری نہ کرسکیں تو بھی کسی نہ کسی طرح دل کا ارمان نکال ہی لیتے ہیں۔ مثلاً شاعر کہلانے کے آرزومند خواتین و حضرات ایک عرصے تک طبع آزمائی اور قافیہ پیمائی کے باوجود جب اپنے کلام کو باوزن کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں تو ”نثری نظمیں“ کہہ کر شاعر کہلانے کا ارمان پورا کرلیتے ہیں یا ڈاکٹر بننے کے خواہش مند اگر ایم بی بی ایس میں داخلے سے محروم رہ جائیں تو ہومیوپیتھ بن کر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا لیتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

    ہمیں آرزو تھی کہ ملکوں ملکوں سفر کریں اور سفرنامے لکھیں۔ اب آپ سے کیا پردہ، ہماری اس خواہش کے پیچھے سیاحت سے زیادہ ابن بطوطہ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ تک تقریباً تمام سیاحوں کی رنگیں بیانیوں کا عمل دخل تھا۔ سوچا تھا کہ ابن بطوطہ کی طرح فی سفر ایک شادی نہ بھی کرسکے تو تارڑ صاحب کی طرح فی سیاحت ایک رومان تو کر ہی ڈالیں گے، لیکن مجبوری حالات نے ملکوں ملکوں گھومنا تو کجا پنڈی بھٹیاں اور رن پٹھانی کا سفر بھی نہیں کرنے دیا۔ لیکن ہم بھی ایک ڈھیٹ، تہیہ کرلیا کہ سفر کریں نہ کریں سفر نامہ ضرور لکھیں گے سو ”میں نے آسٹریلیا دیکھا“، ”ہٹلر کے دیس میں“ اور ”جہاں انگریز بستے ہیں“ کے زیر عنوان بالترتیب آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ کے سفر نامے لکھ اور چھپوا ڈالے۔

    یہ سفر نامے کیا تھے معلومات کے خزانے تھے، ان میں ہم نے ایسے ایسے انکشافات کیے تھے کہ اگر یہ کسی اور ملک میں چھپتے تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور ہمیں سیاح اور مصنف کے بہ جائے محقق کا درجہ عطا کردیا جاتا۔ مثلاً ”ہٹلر کے دیس میں“ میں ہم نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ جرمنی کا نام جرمنی اس لیے پڑا کہ وہاں جرمن رہتے ہیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں ہماری یہ تحقیق ملتِ بیضا کے لیے کتنی دل خوش کُن ہونا چاہیے تھی کہ یہ ملک ”آسٹر علی“ نامی ایک یورپی نژاد مسلمان نے دریافت کیا تھا اور اسی سے منسوب ہوا، بعد میں کچھ زیادہ ہی بگڑ کر یہ نام ”آسٹر علی“ سے آسٹریلیا ہوگیا، ویسے ہم تو یہ بھی ثابت کرسکتے تھے کہ آسٹریلیا جون ایلیا نے کسی آسٹر نامی انگریز کے اشتراک سے دریافت کیا تھا، اور اس ملک کا اصل نام ”آسٹر ایلیا“ تھا، لیکن (ہمارے یا آسٹریلیا کے) ایک بہی خواہ نے مسودہ دیکھ کر ہمیں سمجھایا کہ جون صاحب نے ”پیالۂ ناف“ کے سوا کچھ دریافت نہیں کیا اور یوں بھی وہ آسٹریلیا کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح ”جہاں انگریز بستے ہیں“ میں ہم پہلی مرتبہ یہ حقیقت سامنے لائے کہ برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ، ان تینوں ملکوں میں بڑی ثقافتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن ایسی خرد افروز اور علم افزا تصانیف کا صلہ ناقدین نے ہمیں ”جاہل مطلق“ ٹھہراکر دیا۔ انھوں نے ہماری ذکر کردہ معلومات اور ہمارے کچھ فقروں کو جواز بنا کر ہم پر وہ لعن طعن کی کہ خدا کی پناہ۔ ہماری تصانیف کے جو فقرے طنزوتضحیک کا نشانہ بنے ان میں سے چند یہ ہیں:

    ”میں نیاگرا آبشار کے کنارے خاموش بیٹھا اس جھرنے کی صدا سن رہا ہوں جو آسٹریلیا کی تاریخ بیان کررہا ہے۔“(”میں نے آسٹریلیا دیکھا“ صفحہ 3)

    ”دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دوحصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک کا نام رکھا گیا مغربی جرمنی اور دوسرا مشرقی جرمنی کہلایا۔ ہمارے ہاں تو مشرقی پاکستان میں بنگالی بستے تھے، لیکن حیرت ہے کہ یہاں مغربی کی طرح مشرقی جرمنی میں بھی جرمن ہی آباد ہیں، ہمیں تلاش بسیار کے باوجود یہاں ایک بھی بنگالی نظر نہیں آیا۔ اس صورت حال سے اندازہ ہوا کہ ان کے ٹکا اور یحییٰ خان ہمارے والوں سے کہیں زیادہ سفاک تھے۔ یہ امکان بھی ہے کہ جرمنوں کے ساتھ رہتے رہتے مشرقی جرمنی کے بنگالی بھی جرمن ہوگئے ہوں۔ اس امکان نے ہمیں خوف زدہ کردیا اور ہم اپنا سفر مختصر کر کے اس ڈر سے پاکستان واپس آگئے کہ کہیں کچھ روز اور جرمنی میں رہ کر ہم بھی جرمن نہ ہوجائیں۔“ (”ہٹلر کے دیس میں“ صفحہ 608)

    ”برطانیہ میں جہاں دیکھو انگریز نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ انگلستان سے آکر یہاں بسے ہوں گے اور ایسے بسے کہ سارے ملک پر چھاگئے۔“

    اب آپ ہی بتائیے کہ ان تحریروں میں آخر ایسا کیا ہے جس سے ہماری جہالت یا لاعلمی ثابت ہوتی ہو؟ اس ضمن میں تنقید کرنے والوں سے ہم نے کہا کہ جہاں تک نیاگرا آبشار کا تعلق ہے تو ہم نے یہ کب لکھا کہ یہ جھرنا کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا میں گرتا ہے۔ بات بس اتنی ہے کہ آسٹریلیا جانے سے پہلے ہم کینیڈا گئے تھے اور نیاگرا کے قریب بیٹھے آسٹریلیا کے خیالوں میں گم تھے۔ یہ منظر ہم نے ذرا شاعرانہ انداز میں بیان کردیا اور کینیڈا کا تذکرہ کرنا بھول گئے اور نقادوں نے اتنی سی بات کا بتنگڑ بنادیا۔ جب یہی وضاحت ہم نے ایک نقاد جناب ”اعتراض الدین معترض“ کے سامنے پیش کی تو فرمانے لگے:

    ”اچھا تو بتائیے کہ آخر نیاگرا آبشار کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا کی تاریخ کیوں بیان کرنے لگا۔“

    ہم نے دل ہی دل میں انھیں ”احمق“، ”گاؤدی“ اور ”گھامڑ“ جیسے القابات سے نوازا اور گویا ہوئے ”حضرت! کینیڈا میں تو ہم بہ نفس نفیس موجود تھے، چناں چہ اس ملک کے ماضی و حال کے بارے میں سب کچھ جان سکتے تھے تو نیاگرا آبشار ہمیں کینیڈا کے بارے میں کیوں بتاتا؟ لہٰذا اس نے ہمیں اس ملک کی تاریخ سے آگاہ کیا جہاں ہم جانے والے تھے۔“

    اعتراض الدین صاحب منہ پھاڑے ہماری وضاحت وصراحت سنا کیے پھر جانے کیا بڑبڑاتے ہوئے چل دیے۔ اسی طرح جرمنی اور برطانیہ کے باب میں ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری ذہانت اور سوچ کی گہرائی کا واضح ثبوت ہے، نہ کہ اسے ہماری ناواقفیت کی دلیل بنایا جائے۔

    بہرحال، ہمارے یہ تینوں سفرنامے ہم سے ناشر اور ناشر سے دکان دار تک کا سفر طے کر کے ہمارے پاس واپس آگئے اور اس کے بعد ہم نے بنا سفر کے سفرنامے لکھنے سے توبہ کرلی۔ لیکن سفرنامہ لکھنے کی خواہش سے دست بردار نہیں ہوئے، تاہم، اس تجربے نے ہمیں یہ ضرور باور کرادیا کہ جو دیکھو وہی لکھو۔ چناں چہ ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی کا سفر نامہ لکھیں گے ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا کہ یہ سفر نامہ کتاب کے بہ جائے مضمون کی صورت میں تحریر کریں گے، کیوں کہ ایک تو نہیں ہوتی اس میں محنت زیادہ اور دوسرے پیسے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ تو ہمارا ”سفرنامۂ کراچی“ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم نے اپنے سفر کا آغاز سہراب گوٹھ سے کیا۔ ہم واضح کر دیں کہ اس جگہ کا رستم و سہراب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ یہاں سہراب سے کہیں زیادہ زورآور بستے ہیں اور جو کام ان سے ہورہے ہیں وہ رستم سے بھی نہ ہوں گے۔ نہ ہی یہ روایتی معنوں میں گوٹھ ہے۔ ایک سہراب گوٹھ کیا کراچی کے اکثر علاقے اسی طرح ”اسم بے مسمیٰ“ ہیں مثلاً گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں کہیں دور دور تک گُلوں کا نام ونشان نہیں، گیدڑ کالونی میں گیدڑ ناپید اور دریا آباد میں دریا تو کجا کوئی تالاب تک نہیں۔ سہراب گوٹھ میں کبھی کوئی گوٹھ آباد ہوگا، مگر اب تو یہ علاقہ افغان مہاجرین کے دم سے غزنی یا جلال آباد دکھائی دیتا ہے۔ سہراب گوٹھ پر بسوں ٹرکوں ”وغیرہ“ کے اڈے ہیں اور امی ابو نے ہمیں ہر قسم کے اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کر رکھی ہے، لہٰذا ہم نے اس علاقے میں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔

    اب ہم فیڈرل بی ایریا پہنچے۔ یہ علاقہ فیڈرل اس نسبت سے کہلاتا ہے کہ جب یہ آباد ہوا تو کراچی وفاقی دارالحکومت تھا۔ بعدازاں ”الحکومت“ اسلام آباد چلی گئی اور کراچی میں دار ہی دار رہ گئی، لیکن یہ علاقہ آج بھی فیڈرل کہلاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک کو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کہا جاتا ہے۔ کافی عرصے سے لوگ فیڈرل بی ایریا کو ”فیڈرل بھائی ایریا“ کہنے لگے ہیں۔ ہمیں اس نام کی دو وجوہ تسمیہ بتائی گئیں ایک تو یہ کہ اس علاقے میں الطاف بھائی کی قیام گاہ اور ان کی جماعت کا مرکز واقع ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس بستی اور فیڈرل گورنمنٹ کے درمیان بڑی مدت بعد بھائی چارے کی فضا قایم ہوگئی ہے!

    فیڈرل بی ایریا کے بعد لیاقت آباد شروع ہوتا ہے۔ یہ کبھی لالو کھیت کہلاتا تھا، جہاں مختلف حکومتوں نے بے روزگاری اور افلاس کی فصل کاشت کی اور پھل کی صورت میں پتھر کھائے۔ شہید ملت لیاقت علی خان سے منسوب اس بستی میں ایک زمانے میں شہادت بلامطلوب ومقصود عام تھی۔ شہادتیں اس علاقے کے باسیوں کا مقدر بنیں اور مال غنیمت اور کشور کشائی دوسروں کے حصے میں آئی۔

    اب ہم ناظم آباد سمیت کئی بستیوں کو چھوڑتے ہوئے لیاری میں داخل ہوئے۔ یہ شہر کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے، چناں چہ ”اولڈ از گولڈ“ کے محاورے کے تحت اسے چمکتا دمکتا علاقہ ہونا چاہیے تھا، مگر یہ علاقہ غربت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، جہاں واحد چمکتی چیز وہ ”سفید سفوٖف“ ہے جو ”ولن“ ہونے کے باوجود ہیروئن کہلاتا ہے۔

    لیاری کے بعد ہماری منزل ایم اے جناح روڈ تھی۔ یہ کبھی بندرگاہ کے حوالے سے بندر روڈ کہلاتی تھی، لیکن اب ریلیوں اور جلوسوں کی وجہ سے یہ سڑک اکثر بند رہتی ہے، لہٰذا لوگ اسے بند روڈ کہنے لگے ہیں۔ اس شاہ راہ پر واقع اہم ترین مقام مزار قائد ہے۔ حکومت نے مزارقائد کے گرد ایک خوب صورت باغ لگا دیا ہے۔ نوجوان جوڑوں کی کھیپ کی کھیپ ہر روز مزار قائد پر حاضری دینے آتی ہے اور باغ قائد اعظم میں بیٹھ کر ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران“ گاتی ہے۔ اس شاہ راہ پر آگے چلیں تو نشتر پارک آتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ”الاسٹک“ کا بنا ہوا پارک ہے، جس میں چند ہزار نفوس کی گنجایش ہے، لیکن سیاسی جلسوں کے دوران یہ پارک لاکھوں افراد کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ اپنی اس خصوصیت کی بنا پر نشتر پارک کو ”گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز“ میں جگہ ملنی چاہیے، مگر مغربی دنیا کے مسلمانوں سے تعصب کے باعث یہ پارک اس اعزاز سے اب تک محروم ہے۔

    ایم اے جناح روڈ کی دھوئیں سے آلودہ فضا اور گاڑیوں کے شور نے ہماری طبیعت ایسی مکدر کی کہ شہر کی گنجان آباد غریب بستیوں کے سفر کا ارادہ ترک کرکے ہم ڈیفنس سوسائٹی اور کلفٹن کی جانب رواں ہوگئے۔ یہ آبادیاں درحقیقت دو سمندروں کے درمیان واقع جزائر ہیں، جن کے سامنے بحیرۂ عرب ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور عقب میں غربت، بھوک بیماری، بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مصائب کے بحر ظلمات کی لہریں ساحل امید پر سر پٹخ پٹخ کر ناکام ونامراد لوٹ رہی ہیں۔ وسیع وعریض محلات سے مزین ان علاقوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے آپ کسی ایسے الف لیلوی شہر کی سیر کررہے ہوں، جس کے باسی کسی عذاب کا شکار ہوکر اپنے قصور خالی چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن کسی کوٹھی کے اونچے دروازے سے زن سے نکلتی کوئی بیش قیمت گاڑی آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دیتی ہے۔ ان بستیوں کے مکینوں کی اکثریت صرف شہریت اور پاسپورٹ کے اعتبار سے پاکستانی ہے ورنہ ان کے انداز واطوار، بول چال، چال ڈھال اور طرز رہایش و ذہنیت سب بدیسی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ انگریز حکم رانوں کی نشانیاں اور امریکی تہذیب کا نشان ہیں۔ ان علاقوں میں ہم جیسے ”مڈل کلاسیے“ کا پاپیادہ سفر ہمیں مشکوک بناکر مشکل میں ڈال سکتا تھا، اس لیے ہم نے ان بستیوں کی مختصر سیاحت کے بعد اپنے گھر کی راہ لی۔

    آپ کے لیے ہمارا یہ مختصر سفر نامہ اس لحاظ سے خاصا بے زار کردینے والا اور مایوس کُن ہو گا کہ یہ وجود زن سے تہی ہے۔ مگر کیا کریں، مستنصر حسین تارڑ اور دیگر سیاحوں نے جن علاقوں کا سفر کیا وہاں خواتین و حضرات بسوں اور ٹرینوں میں ساتھ ساتھ براجمان ہوتے ہیں، چناں چہ اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ کوئی حسینہ ان سیاحوں کے کندھے پر سر رکھ کر سورہے اور زیب داستاں بن جائے، لیکن کراچی کی بسوں میں خواتین کے حصے میں سلاخیں لگا کر اسے مردوں کے لیے (ماسوائے کنڈیکٹر) ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے، اس باعث کسی کم عمر حسینہ تو کجا کسی ادھیڑ عمر بدصورت بی بی کے قربت کی امید بھی ناپید ہوگئی ہے۔ لہٰذا مختلف بسوں میں دوران سفر ہمارے شانے پر کوئی نہ کوئی خان صاحب اپنی بھاری بھرکم ”سری“ رکھے خراٹے لیتے اور اپنے لعاب کا خزانہ ہماری دھلی دھلائی قمیص پر لٹاتے رہے۔ ہم نے ان مناظر کا تفصیلی تذکرہ محض اس لیے نہیں کیا کہ یہ مناظر زیب داستاں کے بہ جائے ”عیب داستاں“ بن جاتے۔

    (معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر” سے انتخاب)