Tag: فکر تونسوی

  • بیویوں کی ٹریڈ یونین

    بیویوں کی ٹریڈ یونین

    چند دن ہوئے رات کو جب گھر لوٹا اور مردانہ روایت کے مطابق دیر سے لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری پہلی اور آخری بیگم نے اپنے گورے گورے کندھے پر ایک سیاہ بلّا لگا رکھا ہے۔ میں نے عرض کیا ” یہ کیا ہے حضور؟”………..وہ بولی "جھنڈا اونچا رہے ہمارا”۔

    میرا ماتھا ٹھنکا کہ آج دال میں کالا ہے۔ چاند سا چہرا جو کل تک رشکِ بتاں تھا آج کسی انجمنِ خدام وطن کا پوسٹر معلوم ہو رہا تھا۔ جس پر تحریر تھا "اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو۔”​ میں نے کچھ مسکرا کر (اور کچھ ڈر کر) کہا "اے انقلاب زندہ باد! کھانا لے آؤ۔”

    وہ اپنی سڈول بانہوں کو کسی جھنڈے کی طرح لہرا کر بولی: آج کھانا نہیں ملے گا۔ آج چولھا ڈاؤن اسٹرائک ہے۔” شبہ یقین میں بدلنے لگا کہ معاملہ گمبھیر ہے اور اب بیگم کے ساتھ رومانٹک گفتگو کرنا فضول ہے۔ یہ کس ستمگر نے گھر پر انقلابی چھاپا مارا ہے کہ آج محترمہ کی آنکھوں میں کاجل کی تحریر کے بجائے مطالبات کا چارٹر دکھائی دیتا ہے۔ معاملے کی سنجیدگی کو دیکھ کر میں نے ہی اپنا لب و لہجہ بدل دیا اور مالکانہ وقار کے ساتھ کہا

    "بیگم تمھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تم میری بیوی ہو۔”………..تڑاخ سے جواب آیا : "ہاں مگر میں ایک ورکر بھی ہوں اور آپ میرے مالک ہیں اور میری محنت کا استحصال کرتے ہیں۔”

    "مگر ڈارلنگ!” میں نے پھر اپنا لہجہ بدل لیا۔ "مالک تو تم ہو، میرے دل و جان کی مالک، اس سلطنت کی، تم نواب واجد علی شاہ ہو۔ بتاؤ ہو کہ نہیں؟”

    ایک دن پہلے تک میرا یہی فقرہ طلسم ہوشربا کا کام کر جاتا تھا اور بیگم تڑپ کر میرے بازوؤں میں آ گرتی تھی لیکن آج آغوش میں آنے کے بجائے اس نے اپنی نرم و نازک مٹھی دکھائی اور میز پر مارتے ہوئے بولی "سیٹھ جی! لچھے دار لفظوں کے یہ چھلاوے اب نہیں چلیں گے۔ صدیوں سے ظلم کی چکی میں پستی ہوئی بیویاں اب بیدار ہو چکی ہیں اور اب اپنے حقوق منوا کر دم لیں گی۔ جو ہم سے ٹکرائے گا چور چور ہو جائے گا۔”

    میں نے کہا : ” کیا آج ہمارے گھر کوئی ترقی پسند شاعر آیا تھا؟” وہ بولی "شاعر میرے اندر سویا ہوا تھا۔ آج جاگ اٹھا ہے، لہٰذا میرے مطالبات مانیے نہیں تو ۔۔۔۔”

    "کون سے مطالبات ؟”

    "سب سے پہلے” بیگم نے حلق میں تھوک نگلتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں گھنگھروؤں کی مانوس جھنکار نہیں تھی بلکہ طبلِ جنگ کی سی گھن گرج تھی۔ "سب سے پہلے میرا مطالبہ یہ ہے کہ میرے کام کے اوقات گھٹائے جائیں۔ صبح پانچ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام کرتی ہوں، انھیں کم کر کے نو گھنٹے کیے جائیں۔ ہر مہذب سماج میں یہی دستور ہے۔”

    "مگر ڈارلنگ ! یہ تو ہندوستانی سماج ہے۔” وہ پھڑک اٹھی۔” اور بائی دی وے، جب تک مطالبات کی گفتگو جاری رہے آپ مجھے ڈارلنگ کے لقب سے مخاطب نہ کریں۔ ہاں تو ہندوستانی سماج کو مہذب بنانے کے لئے نو گھنٹے کے اوقات آپ کو منظور ہیں؟”

    میں نے کہا :” دیکھو ( ڈارلنگ نہیں) ورکر بیگم! گھر میں اگر صرف نو گھنٹہ کام ہوا تو اس سے پروڈکشن پر برا اثر پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کام کی دو شفٹیں کرنا پڑیں گی۔ دو شفٹیں اور دو بیویاں۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں اس گھر میں دوسری بیوی لے آؤں؟”

    سوتن کا جلاپا عورت کی نازک رگ ہے۔ میں نے اس رگ پر جان بوجھ کر انگلی رکھ دی کہ ٹریڈ یونین کے اندر انتشار پیدا ہو مگر بیگم کے اندر جیسے ہو قدیم حاسد عورت مر چکی تھی۔ وہ بولی "یہ مالک کی اپنی پرابلم ہے، آپ چاہیں تو کوئی ملازمہ رکھ سکتے ہیں۔” بیگم سوتن والے پہلو سے صاف بچ کر نکل گئیں۔ اس کی یہ چالاکی میرے لئے پریشان کن تھی۔ چنانچہ میں نے ایک اور ہتھیار نکالا۔ "مگر اسے تنخواہ کہاں سے دیں گے؟ جتنی تنخواہ ملتی ہے تمہارے گورے گورے ہاتھوں پر لا کر رکھ دیتا ہوں، تم چاہو تو اس تنخواہ میں سے ملازمہ رکھ سکتی ہو۔”

    "اس تنخواہ میں ملازمہ نہیں رکھی جا سکتی۔”

    "تو پھر کیا کیا جائے؟ میں نے کہا نا۔ یہ مالک کی اپنی پرابلم ہے، اسے خود سوچنا چاہیے۔”

    "آل رائٹ ۔”میں نے تنگ آکر کہا۔ "مینجمنٹ اس پر ہمدردانہ غور کرے گا۔اب اگلا مطالبہ پیش کیا جائے۔”

    "دوسرا مطالبہ چھٹیوں کا ہے۔”

    "مستقل چھٹی کا؟ اس کی تو میں کئی بار پیش کش کر چکا ہوں مگر ہر بار تم نے اسے حقارت سے ٹھکرا دیا۔”

    "دیکھیے، آپ اسے مذاق میں مت ٹالیے۔ (حالانکہ اللہ قسم یہ مذاق بلکل نہیں تھا۔) ہندوستان بھر کے سارے کام گاروں کو اتوار کی ہفتہ وار چھٹی ملتی ہے مگر مجھے اتوارکو سب سے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ہر اتوار کو آپ کے احباب آ دھمکتے ہیں، کوئی لنچ کھانے اور کوئی ڈنر، اور کوئی یوں ہی گھومتے گھماتے چائے پینے آ ٹپکتا ہے۔ دیوالی، دسہرہ، عید، بقرعید کوئی چھٹی بھی تو نہیں ملتی۔ نہ میڈیکل چھٹی اور نہ ایمرجنسی چھٹی۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے؟” یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگی۔

    میں بھی رونا چاہتا تھا مگر مینجمنٹ میں رونے کا رواج نہیں تھا۔ مطالبہ (خدا جھوٹ نہ بلوائے) بلکل جائز تھا لیکن مینجمنٹ کا رویہ بھی اس کے متعلق بڑا واضع تھا کہ کسی بھی مطالبے کو جائز قرار نہ دیا جائے بلکہ اگر مطالبہ تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کے بجائے احسان کا درجہ دیا جائے، چناچہ میں نے کہا "دیکھو بیگم! عورت ذات کی تاریخ گواہ ہے اسے موت سے پہلے چھٹی نہیں ملتی۔”

    "لیکن میں تاریخ کا دھارا موڑنا چاہتی ہوں ۔”……….”میری پیاری ہٹلر! اگر تم عقل کا تھوڑا سا بھی استعمال کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ سماج کی تاریخ کا سارا ڈھانچہ عورت کے کندھے پر کھڑا ہے جس دن بھی عورت نے چھٹی کی سماج میں ایک تعطل آ جائے گا۔ بھائیں بھائیں کرتی ہوئی ایک ویرانی گھر پر مسلط ہو جائے گی۔ سارا کام اس روز چوپٹ ہو جائے گا۔ یوں لگے گا فیکٹری پر جبری تالہ بندی کردی گئی ہے۔ بچے روئیں گے، میں روؤں گا، گھر کی بلّی اور طوطا اور سبھی روئیں گے۔ میں پوچھتا ہوں تمہاری چھٹی کے دوران کام کون کرے گا؟”

    "آپ کیجیے گا۔”جذبات سے بلکل آری ہو رہی تھی ظالم! اب میں نے پینترا بدلا اور کہا "اچھا چلو تمہاری ہفتہ وار چھٹی منظور کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ اس چھٹی پر تم کروگی کیا؟”

    بس بیٹھی رہوں گی، سوئی رہوں گی، سہیلیوں کے ساتھ گھومنے جاؤں گی، فلم دیکھوں گی۔” لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ بیگم صرف میری نقل کرنا چاہتی ہیں۔ اوریجنل بلکل نہیں ہے۔ ایک بار دل میں یہ شیطانی خیال آیا کہ اسے اوور ٹائم کا لالچ دے دوں یعنی چھٹی کے دن کام کرو گی تو دگنی اجرت ملے گی۔ اوور ٹائم کی رقم سے ایک ساڑی خرید لینا؛ لیکن بیوی کو اوور ٹائم کی ترازو سے تولنا کچھ اچھا نہیں لگا ،لہٰذا میں نے مردانہ فراخ دلی کی انتہائی بلندی پر کھڑے ہو کر آواز دی، "ویکلی چھٹی منظور کی جاتی ہے مگر ایک شرط پر کہ تم اس دن بال بچوں کو ہمراہ لے کر میکے چلی جایا کرو۔”

    میکے کی پخ پر بیگم کچھ بوکھلا گئی۔ میکہ ہر عورت کی کمزوری ہے۔ میکے کے سامنے سارا ٹریڈ یونین ازم منتشر ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بیگم کی سمجھ میں فوراً نہیں آئی کہ اس کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے یا مطالبہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ مطالبے کے ساتھ میں شرط کی پخ لگا کر میں نے ایک تیر سے دو شکار کر دیے تھے۔ میں نے سوچا کہ اس سے بیگم بھی خوش ہو جائے گی اور میں بھی۔ بیگم کی غیر حاضری میں خاوند کو جو آزادی نصیب ہو جا تی ہے اس کا اندازہ وہی شادی شدہ مرد لگا سکتے ہیں جو ایک مستقل یکسانیت سے نالاں رہتے ہیں۔

    بیگم نے زیِِر تبسم سے اس فیصلے پر صاد کیا اور میں نے دل ہی دل میں خوش ہو کر کہا کہ
    "مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
    انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات”

    بیگم کا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ گھر کے اخرجات کے لیے اسے جو رقم دی جاتی ہے ،اس میں اضافہ کیا جائے، کیوں کہ اشیا کے پرانے ریٹ قائم نہیں رہے۔ ہر چیز پہلے کے مقابلے میں دوگنی مہنگی ہو گئی ہے مگر اخرجات کی رقم بدستور وہی ہے۔

    گویا یہ مہنگائی الاؤنس کا مطالبہ تھا جو بیک وقت جائز اور نا جائز ہے۔ میں نے جھٹ کہا۔ "بیگم مجھے تمہارے اس مطالبے سے ہمدردی ہے بلکہ صرف ہمدردی ہے۔” وہ تڑپ اٹھی "مگر ہمدردی سے تو بنیان بھی نہیں آ سکتی۔”

    تو بنیان نہ خریدو۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ روکھی سوکھی روٹی کھا کے ٹھنڈا پانی پی تو اس کا کچھ مطلب تھا، کچھ فلاسفی تھی؛ افسوس یہ ہے بیگم کہ تم ٹریڈ یونین ازم کے بزرگوں کی فلاسفی بھول گئیں۔”

    اس کے جواب میں بیگم نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ بہت اذیت ناک تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ روکھے سوکھے کی فلاسفی پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ معیارِ زندگی کو گرا کر محلے میں اپنی ناک کٹوانا نہیں چاہتی۔ اس نے آنسوؤں کا ہتھیار نکال کر مجھ پر بار بار حملے کیے اور دھمکی دی۔ "گھر کے اخراجات کی ذمہ داری تم خود سنبھال لو۔ خالی خولی ہمدردی اور بزرگوں کی فلاسفی کے ساتھ تم ایک ہفتہ میں ہی دیوالیہ نہ بن گئے تو میں بیگم کہلانا چھوڑ دوں گی۔”

    "تو پھرمیں کیا کروں ڈارلنگ؟ جتنی آمدنی ہے اس سے زیادہ کہاں سے لاؤں؟”

    "اپنی آمدنی بڑھاؤ۔” انقلابی بیوی نے نعرہ لگایا۔

    "کیسے؟”

    "رشوت لو، جیب کتری شروع کر دو، اسمگل کیا ہوا مال بیچو، کوئی پرمٹ لائسنس لے لو۔ ساری دنیا اسی طرح ترقی کر رہی ہے ۔” اور میرا جواب یہ تھا کہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔ گزشتہ ایک سو برس سے جو خاندانی شرافت ہمارے سر پر سایہ کیے ہوئے ہے میں اسے چند کرسیوں، اناج کے چند دانوں، بنیانوں اور آلو گوبھی کی خاطر تباہ و برباد نہیں کرسکتا۔ مگر بیگم مصر تھیں۔ اس نے مجھے بزدل کہا۔ میرے شوہر پن کو مشکوک قرار دیا۔ جنرل اسٹرائیک کی دھمکی دے کر گھر کے مفاد پر ضرب لگانے کا اعلان کیا۔ یہ رویہ سیدھا طلاق کی منزل کی طرف بڑھا جا رہا تھا مگر میں نے بھی تہیہ کر لیا کہ بیوی کو طلاق دے دوں گا خاندانی اخلاق کو نہیں۔ چند منٹ کی بحرانی خاموشی کے بعد بولی "تو کیا ارادے ہیں؟”

    "مطالبہ رد کیا جاتا ہے۔” میں نے تاریخ انسانیت کا عظیم ترین اعلان کیا۔ "لیکن یہ بنیادی مطالبہ ہے۔ اگر اسے رد کیا گیا تو میں غور کروں گی کہ پہلے دو مطالبے بھی منظور کروں یا نہ کروں!”

    "مجھے یہ چیلنج منظور ہے۔” اس مرحلے پر آ کر سمجھوتے کی بات چیت ٹوٹ گئی۔ مصلحت کے تحت بیگم پلنگ پر جا لیٹیں۔ خصلت کے مطابق میں یوں ہی کوئی پرانا رسالہ اٹھا کر ورق گردانی کرنے لگا۔ گھڑی کی ٹک ٹک ہمارے غم اور مسرت دونوں کو پیچھے چھوڑ کر وقت کی بے نیاز منزلیں طے کرتی رہی۔ میں نے کھانا نہیں کھایا۔ شاید بیگم نے بھی نہیں کھایا اور پھر یوں لگا جیسے ہم دونوں ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔ شاید ہم اندر ہی اندر روتے روتے سوگئے تھے، کھو گئے تھے۔

    اور جب بھوک کی گھڑیال نے دو بجائے تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ایک گرم گرم آنسو میری پیشانی پر آگرا۔ اور پھر ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز۔ اور نرم و نازک ہاتھوں کا لمس اور چوڑیوں کی مترنم جھنکار۔

    "یہ کون تھا؟” یہ کوئی ٹریڈ یونین لیڈر نہیں تھا۔ یہ کوئی انقلابی بھی نہیں تھا۔ یہ میری اکلوتی پہلی اور آخری بیگم تھی جو کہہ رہی تھی،
    "اٹھو! کھانا کھا لو۔ مجھے نیند نہیں آ رہی ہے۔”

    (بھارت کے معروف ادیب اور طنز و مزاح نگار فکر تونسوی کی ایک تحریر)

  • فکر تونسوی: اردو زبان معروف طنز و مزاح نگار کا تذکرہ

    فکر تونسوی: اردو زبان معروف طنز و مزاح نگار کا تذکرہ

    رام لال نارائن نے دنیائے ادب فکر میں تونسوی کے قلمی نام سے پہچان اور طنز و مزاح کی حیثیت سے خاص شہرت پائی۔ وہ 1987ء میں آج ہی کے روز چل بسے تھے۔ فکر تونسوی نے ادب کی کئی اصناف میں تحریریں‌ یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں نے طنز و مزاح‌ پر مبنی اپنی تحریروں میں‌ اس خطّے کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی اور رویوں کو بیان کیا ہے۔

    فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر تونسہ شریف میں‌ پیدا ہوئے، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ اسی آبائی علاقہ کی نسبت اپنے نام کے ساتھ تونسوی کا لاحقہ لگایا اور یہی ان کی پہچان رہا۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاعری سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا اور ان کی غزلیں مختلف چھوٹے چھوٹے جرائد اور اخبار میں شائع ہوتی رہیں۔ 1942ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے مؤقر ادبی رسالے "ادبی دنیا” میں ان کی ایک نظم "تنہائی” شائع ہوئی جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ 1945ء میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں فکر تونسوی نے میگزین "سویرا” شائع کیا۔ بعد میں "ادبِ لطیف” سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے اور تب 1947ء میں تقسیمِ ہند کا اعلان ہو گیا جس کے بعد فسادات کے باعث وہ بھارت ہجرت کرگئے جہاں دلّی میں‌ وفات پائی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی فکر تونسوی نے نثر اور مزاح لکھنا شروع کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا” ہے جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ فکر تونسوی نے کالم نگاری کی، ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچر لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ترنیم کش، ماڈرن الہ دین، بدنام کتاب، پیاز کے چھلکے، چھلکے ہی چھلکے کے علاوہ آپ بیتی بھی شامل ہے۔

  • فکر تونسوی اور ‘وارنٹ گرفتاری’

    فکر تونسوی اور ‘وارنٹ گرفتاری’

    بڑے لوگوں کی بڑی باتیں‌۔ ارفع و بلند خیالات، اجلی اور روشن فکر مگر انکسار، عاجزی ایسی کہ کیا کہیے۔ ہر ایک سے شفقت سے پیش آنا، سکھانا، خوش دلی سے اصلاح کرنا اور اس طرح کہ دوسرے کو ناگوار نہ گزرے اور تیسرے کو خبر نہ ہو۔ ایسے ہی تھے فکر تونسوی!

    وہ زندہ دل اور شگفتہ بھارتی ادیب کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ادب کی دنیا میں رام نارائن بھاٹیہ نے فکر تونسوی کا نام اپنایا اور شہرت و مقام پایا۔ تونسوی لاہور کے کئی ادبی رسالوں کے مدیر رہے۔ شاعری کی، لیکن وجہِ شہرت طنز و مزاح ہے۔

    ان کا آبائی گاؤں تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان ہے۔ ان کی زندگی بہت مفلسی کے عالم میں گزری، بہت جد وجہد کی۔ انہی کے لفظوں میں کہ کئی پیشے اختیار کیے، ٹیچری، خوش نویسی، تاجروں کی ایجنسی، گھٹیا اور سستے اخباروں کی ایڈیٹری وغیرہ۔

    یہاں ہم ان کی کتاب ‘وارنٹ گرفتاری’ کا وہ پارہ نقل کر رہے ہیں جس میں انھوں نے اپنا تعارف ‘مصنّف کا کچا چٹھا’ کے عنوان سے لکھا ہے۔ یہ 1966ء کی تحریر ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ‘مصنف کا نقلی نام فکر تونسوی ہے (اصلی نام کافی واہیات تھا) پہلی جنگِ عظیم میں پیدا ہوا اور تیسری جنگِ عظیم میں کوچ کر جائے گا۔ والدین غریب تھے اس لیے والدین یعنی غریبوں کے حق میں لکھنے کی عادت پڑ گئی۔ اس کی خواہش ہے کہ غریب ہمیشہ قائم رہیں کہ کوئی ہمیشہ لکھتا رہے۔ شروع شروع میں نظمیں لکھتا تھا جو اس کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی تھیں۔ بڑی مشکل سے اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ گھٹیا شاعر اور بڑھیا نثر نگار ہے۔ چنانچہ نثر میں مزاحیہ اور طنزیہ چیزیں لکھنے لگا۔ پہلے اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اچھا لکھتا ہے۔ لیکن جب قارئین نے شور مچا دیا کہ وہ اعلیٰ ترین طنز نگار ہیں، تب اسے بھی اپنے اعلیٰ ترین ہونے کا یقین آگیا۔ جس دن یہ یقن ٹوٹ گیا وہ خود کشی کر لے گا۔

    شکل بھونڈی ہے، تحریر خوب صورت ہے اور یہ دونوں چیزیں خداداد ہیں۔لوگ اس کی تحریر پڑھ کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں، جب دیکھ لیتے ہیں تو اس کی تحریریں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے مصنّف دنیا سے منھ چھپاتا پھرتا ہے۔ عزّت قائم رکھنے کے لیے انسان کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ اب تک ہزاروں صفحے لکھ چکا ہے اور لاکھوں مداح پیدا کرچکا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں صفحے اور کروڑوں مداح اس کی ارتھی کے ساتھ جائیں گے۔ جن میں زیرِ نظر کتاب اور اس کے پڑھنے والے بھی شامل ہوں گے۔

  • کام یاب یتیم خانہ

    کام یاب یتیم خانہ

    یتیم خانے کے انچارج نے مجھے بتایا، ’’ان سب بچّوں کے ماں باپ مَر چکے ہیں۔‘‘

    ’’افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں۔ ہم انہیں پالیں پوسیں گے۔ انہیں کام سکھائیں گے، انہیں با روزگار بنائیں گے، ان کی شادیاں کریں گے۔ ان کے بچّے پیدا ہوں گے۔‘‘

    ’’اور پھر ان میں سے کئیوں کے بچّے یتیم ہوجائیں گے۔ افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ ہم انہیں پھر یتیم خانے میں داخل کر دیں گے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ ہمارا یتیم خانہ گزشتہ ایک سو سال سے قائم ہے اور بڑی کام یابی سے چل رہا ہے۔‘‘

    (اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار فکر تونسوی کے قلم سے)

  • فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    فکر تونسوی: اردو طنز و مزاح نگاروں میں ایک معتبر نام

    رام لال نارائن نے فکر تونسوی کے قلمی نام سے جہانِ اردو میں خوب شہرت پائی اور اپنے وقت کے معروف و مقبول طنز و مزاح نگاروں میں ان کا شمار ہوا۔ 1987ء میں آج ہی کے دن فکر تونسوی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    فکر تونسوی 7 اکتوبر 1918ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر تونسہ شریف میں‌ پیدا ہوئے، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔

    گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکول کی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ شاعری سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا اور ان کی غزلیں مختلف چھوٹے چھوٹے جرائد اور اخبار میں شائع ہوتی رہیں۔ 1942ء میں مولانا صلاح الدین احمد کے مؤقر ادبی رسالے "ادبی دنیا” میں ان کی ایک نظم "تنہائی” شائع ہوئی جو حلقۂ اربابِ ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہونے لگا اور ان کی شہرت کا سبب بنا۔ 1945ء میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں فکر تونسوی نے میگزین "سویرا” شائع کیا۔ بعد میں "ادبِ لطیف” سے بطور مدیر وابستہ ہوگئے اور تب 1947ء میں تقسیمِ ہند کا اعلان ہو گیا جس کے بعد فسادات کے باعث وہ بھارت ہجرت کرگئے جہاں دلّی میں‌ وفات پائی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہی فکر تونسوی نے طنز و مزاح اور نثر لکھنا شروع کیا اور عوام میں مقبول ہوئے۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا” ہے جو فسادات پر ایک درد ناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ فکر تونسوی نے کالم نگاری کی، ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچر لکھے اور کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان میں ترنیم کش، ماڈرن الہ دین، بدنام کتاب، پیاز کے چھلکے، چھلکے ہی چھلکے کے علاوہ آپ بیتی بھی شامل ہے۔

  • ’’خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

    ’’خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

    میری بیماری اچھلتی کودتی، چھلانگیں لگاتی ہوئی جب کئی ہفتے عبور کرگئی تو مجھے شک ہونے لگا کہ ڈاکٹر حضرات کو خدمتِ خلق سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔

    ان کی حالت اس عورت سے بہتر نہیں ہے جو شوہر کے لیے کھانا تیّار کرتی ہے۔ شام کو سبزی وغیرہ لاتی ہے اور صبح دودھ کے ڈپو کی لمبی قطار میں دو بوتلیں لانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتی ہے۔ عام اصطلاح میں اسے گرہست کی خدمت کہا جاتا ہے لیکن گرہستن سے پوچھا جائے تو وہ اسے اکتا دینے والی روٹین کا نام دیتی ہے۔

    میرا خیال تھا اور افسوس ناک حد تک غلط خیال تھا کہ ڈاکٹر جب مریض کی خدمت کرتے ہیں تو اسے انسانیت کا عروج سمجھتے ہیں۔ لیکن جب میں نے ذرا قریب ہوکر دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ انسانیت سے اکتا چکے ہیں۔ وہ جب مریض کا بلڈ پریشر دیکھتے ہیں یا اس کے ہارٹ، جگر اور پھیپھڑے کی رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں یوس محسوس ہوتا ہے جیسے آلو چھیل رہے ہوں یا سبزی میں نمک مرچ مسالے کا تناسب پیدا کر رہے ہوں۔

    ڈاکٹر سچ مچ ایک انار ہوتے ہیں جس کے ایک سو نہیں ہزاروں بیمار ہوتے ہیں، ہر بیمار سمجھتا ہے یہ انار میرے ہی کھانے کے لیے ہے اور ڈاکٹر کی بے بسی یہ ہے کہ وہ کسی مریض سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا ’’دوست! انار کے متعلق تم جو بھی نقطۂ نگاہ بنا لو، میں دخل نہ دوں گا لیکن ظالم! مجھے پانچ منٹ کی تنہائی تو عطا کر دو تاکہ میں خدمتِ خلق سے بلند ہوکر ایک سگریٹ پی سکوں۔‘‘

    ایک دن میں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھ لیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

    وہ جیسے دو دونی چار کا پہاڑا پڑھتے ہوئے بولا۔ ’’وہ تو اسی دن مرگیا تھا جب میں نے اس اسپتال میں نوکری کے لیے برسوں اپنے گھٹنے اور ماتھا رگڑا۔ ایک نہایت ہی بھونڈے، غیرانسانی شکل کے ڈپٹی منسٹر کو وقت کا جہانگیر اور یوسف کہا تھا۔ انسانیت تو اس سماج کے لیے اچھوت کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘

    یہ سُن کر مجھے شک ہوا کہ میرے جذبے اچھوت ہیں۔ ڈاکٹر میرے جذبوں کو ہاتھ لگانا نہیں چاہتا۔ وہ صرف اسپتال کے مردہ قاعدے قانون کے چوکھٹے میں گھومے جا رہا ہے۔ اس چوکھٹے کے باہر کی دنیا اچھوتوں کی دنیا ہے۔ اس چوکھٹے میں انسانیت داخل نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر اس چوکھٹے سے باہر آکر اچھوتوں کو چھونا نہیں چاہتا۔ جو مریض اسپتال میں اس خیال سے داخل ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اس کا انتظار کر رہا ہے اور لپک کر مریض کے جسم میں خدمتِ خلق کاانجکشن دے دے گا اور ناچ اٹھے گا۔ ایسے مریض کو چاہیے کہ وہ اچھوت ہی رہے تو اچھا ہے۔ ڈاکٹر کے لیے سب مریض برابر ہیں، سب بور ہیں، سب اچھوت ہیں۔

    بھونڈے ڈپٹی منسٹر نے ڈاکٹر سے انسانیت چھین لی۔ اب تو وہ کسی لیڈی ڈاکٹر سے بھی پیار کرنے سے پہلے دیکھ لیتا ہے کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے؟

    احباب اور رشتے داروں تک میرے وارڈ اور بیڈ نمبر کی باقاعدہ اطلاع پہنچا دی گئی تھی۔ ایک دوست نے خلوص کی بلندیوں پر کھڑے ہو کر مشورہ دیا کہ بیڈ نمبر اخباروں میں چھپوا دیا جائے۔ چھپ جانے کے بعد وہ اپنے فرضِ منصبی سے چھٹکارا پاگئے اور کبھی اسپتال میں نہ آئے۔ باقاعدہ اطلاع کے باوجود (سُنا ہے) یار دوست ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے۔

    ’’بھائی! فکر صاحب کا بیڈ نمبر کون سا ہے؟‘‘

    شروع شروع میں خلوص کے ماروں کی آمد زوروں پر رہی۔ ان کی آمد پر میرا دل بلیوں اچھلتا اور میں پھول جاتا کہ میں بیمار ہوں۔ ہر ملاقاتی یہ جھوٹ بول کر بہت خوش ہوتا ’’جی آپ تو بالکل بھلے چنگے ہیں ورنہ ایسے اعصابی امراض میں تو انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔‘‘

    جوں جوں وہ میرا دل بڑھاتے، میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا چلا جاتا۔ لیکن پھر بھی میرا جی چاہتا میری ہڈیوں کی مزید تعداد نمایاں ہوتی چلی جائے تاکہ میں پرسانِ حال کی محبت کے لذیذ جام لنڈھاتا رہوں۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ میری اس سازشی پلاننگ کا علم احباب اور رشتے داروں کو ہوگیا ہے، آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئی اور میرے بیڈ کے پاس صرف چند شیشیاں، ایک میڈیکل چارٹ اور ایک بیوی رہ گئی۔

    اور یوں آہستہ آہستہ میں غیر دل چسپ ہوگیا۔ ہمدردی اور خلوص کا سیلاب ایک دم تیزی سے شام کے سورج کی طرح ڈوب گیا۔ یہاں تک کہ ڈوبتی شعاعوں کی سرخی بھی نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ مرض کو عادت نہ بنانا چاہیے۔ اتنی بڑی کائنات ہے اور ایک انسان اس میں ایک بے حد مدھم ہوتا ہوا نقطہ ہے جس سے کوئی لفظ نہیں بنتا، کوئی لکیرنہیں بنتی۔ اس نقطے پر انسانیت اور محبت اور خلوص وغیرہ وغیرہ چیزوں کی بنیاد رکھنا خالی خولی جذباتی پن ہے۔

  • ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    میں بے حد پریشان بلکہ شرمندہ تھا۔ شرمندگی کا باعث میرا نصیب تھا کہ مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی بیماری آتی وہ نزلہ زکام میں بدل جاتی۔

    زیادہ سے زیادہ سر کا درد، پیٹ کا درد یا کوئی پھوڑا ابھرتا اور مجھے جُل دے کر نو دو گیارہ ہو جاتا۔ احباب اور رشتے دار زیرِ ناف قسم کا طعنہ دیا کرتے کہ ان غیر ضروری بیماریوں پر کوئی آپ سےکیا ہمدردی کرے۔ میری بیوی تو کنکھیوں سے کئی بار اشارے بھی کرچکی تھی کہ میں آپ کی خاطر مَر مٹنے کے لیے تیار ہوں لیکن اس مَر مٹنے کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی تو پیدا کیجیے۔

    اور نہ جانے میرے کس پیارکی دعا قبول ہوئی کہ ایک دن میں صبح کو شیو کرکے اٹھا تو میری ایک لغزشِ پا نے پکارا۔ ’’لینا کہ چلا میں!‘‘

    میری بیوی جوشاید اسی نادر لمحے کے انتظار میں ادھیڑ ہوگئی تھی، فوراً ڈاکٹر کو بلا لائی۔ ڈاکٹر نے کہا ’’یہ لغزشِ پا نہیں ہے، سیریس بیماری ہے!‘‘

    بیوی کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ہائے اللہ! یہ سریس بیماری ان کی بجائے مجھے لگ جائے۔‘‘

    ڈاکٹر نے رولنگ دیا۔ ’’یہ فیصلہ اسپتال میں جاکر ہوگا کہ بیماری کس جسم کے لیے موزوں ہے، یہ متنازع مسئلہ ہے۔‘‘

    اتنے میں میرے بہت سے احباب اور رشتے دار جمع ہوگئے تھے۔ انھو ں نے ڈاکٹر سے ’’ونس مور‘‘ کہا اور باری تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ آخر میں تھرڈ ریٹ بیماریوں کے چنگل سے نکل آیا اور اب راہِ راست پر چل پڑا ہوں۔ ان کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو بھر گئے۔ انھوں نے تالیاں بجائیں کئی ایک فرطِ انبساط سے رقص کرنے لگے۔ میری بیوی نے جذبات سے کانپتے لفظوں میں اعلان کیا کہ وہ میرے غسلِ صحت پر یتیموں کو کھانا کھلائے گی۔ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے سرگوشی میں ایک دوست کو بتایا کہ نروس بریک ڈاؤن کی بیماری ہے۔ ہوسکتاہے، کئی سال لگ جائیں۔

    کئی سال؟ مجھے یتیموں کا مستقبل خطرے میں نظر آیا۔

    اسپتال کے پیڈ پر لیٹتے ہی مجھے بے حد اطمینان ہوا۔ نہ پریشانی باقی رہی تھی نہ شرمندگی ہی۔ بلکہ فخر سے پھولا نہ سماتا تھا کہ اب اس سیریس بیماری کی بدولت کئی لوگوں کو ابلائیج کرسکوں گا۔ میرے احباب خلوص اور ہمدردی کا فراخ دلانہ استعمال کرسکیں گے۔ رشتے داروں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے اور آنسو تھر تھرانے کا موقع نصیب ہوگا۔ میری ایک جنبشِ لب پر وہ اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔

    میری آنکھ کا ایک ہلکا سا اشارہ ان کی زنگ آلود روح کے سبھی بند دروازے کھول دے گا۔ میرے بدن میں ایک چھوٹی سی ٹیس اٹھے گی تو احباب مرغِ بسمل کی طرح اسپتال کے سڑک پر تڑپتے ہوئے نظر آئیں گے۔ میری بیوی ہر پرسانِ حال کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہہ سکے گی،

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

    غرض میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ زندگی میں کسی کے کام تو آیا۔ دوسروں کی خوشنودی کے چند لمحے بھی میسر آجائیں تو وہ سُنبل و ریحاں اور لعل و یاقوت وغیرہ سے کم نہیں ہوتے ورنہ اس سے پہلے تو زندگی جیسے بے برگ و گیاہ ریگستان میں گزر رہی تھی۔ نہ کسی کے آنسو، نہ تبسم، نہ جذبات سے چُور چُور ہونٹ، نہ کسی کی ہمدردی، نہ کسی کا خلوص، نہ کسی کا امتحان، نہ کوئی ممتحن۔

    اسپتال میں جاتے ہی سب سے پہلے تو میرے ایک منسٹر دوست نے میرے ریگستان میں ایک پھول کھلا دیا۔ یعنی ایک دوست کے ٹیلیفون پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا کہ اس مریض کو فوراً ایک بیڈ عطا کیا جائے۔ اسپتال میں بیڈ میسر آنے کا مطلب ہوتا ہے جیسے کسی بے روزگار کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے۔ میرے ایک پروفیسر دوست نے میری ہوا باندھتے ہوئے کہا ’’جی! بیڈ کیوں نہ ملتا۔ ان کی رسائی تو منسٹروں تک ہے۔‘‘

    مجھے منسٹروں کی اس پستی پر رحم کھانا چاہیے تھا لیکن منسٹر کی خوشی مجھے بیڈ میں مل جانے میں مضمر تھی۔ اس لیے میں اس پستی کو شہد کا گھونٹ سمجھ کر پی گیا۔

    بیڈ مل جانے کے بعد میں تین چار دن تک یہ دیکھتا رہا کہ احباب اور رشتے دار نہایت سرگرم ہوگئے ہیں۔ چاروں طرف بھاگے بھاگے پھرتے ہیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی دوڑ دھوپ کی رپورٹ لے آتے اور میرے حلق میں انڈیل دیتے۔ کوئی بتاتا اسپتال کا ہارٹ اسپیشلسٹ میرے کالج کا ساتھی ہے اور مجھ سے میتھمیٹکس کی گائڈ بک لے جایا کرتا تھا۔ کوئی انکشاف کرتا، بلڈ بنک کے انچارج سے میں نے کہہ دیا ہے کہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ آپ کے اسپتال میں ایک عظیم مریض داخل ہوا ہے۔ یہ انچارج میری خالہ کا چوتھا بیٹا ہے۔ اگرچہ خالہ نے اسے جائداد سے عاق کردیا ہے لیکن اس کی لو میرج سے پہلے کے سبھی لو لیٹر میں نے ہی قلم بند کرکے دیے تھے۔

    ایک دوست نے تین اخباروں میں میری فوٹو اور بیماری کی خبر بے حد ولولہ انگیز انداز میں شائع کروا کے مسرت حاصل کی جیسے اس نے مجھے مرنے کے بعد جنت کی سیٹ دلوادی ہو۔ چار پانچ دوستوں نے کافی ہاؤس میں ایک ریزولیوشن پاس کروادیا کہ خدانخواستہ اگر فکر تونسوی کی موت واقع ہوگئی تو پورے کافی ہاؤس کے ممبران نہ صرف باجماعت شمشان بھومی تک جائیں گے بلکہ پسماندگان کے لیے چندہ بھی اکٹھا کریں گے۔

    یہ جان توڑ سرگرمیاں دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سارا ہندوستان میری بیماری کی خاطر زندہ ہے ورنہ درگور ہوگیا ہوتا! ہر روز کئی ڈاکٹر باری باری آتے اور مجھے لیبارٹری سمجھ کر تجربے شروع کر دیتے۔ جیسے یہ ڈاکٹر نہ ہوں، اسکول کے طالب علم ہوں اور میں ایک کاپی ہوں جس پر وہ ہوم ورک کر رہے ہوں۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ میرے مرض سے خوش ہونے کی وجہ سے سرگرم ہیں لیکن ایک بار میں نے ان کی خوشی سے بور ہو کر ایک ڈاکٹر سے پوچھا ’’جناب! کیا آپ کو مریض سے محبت ہے یا مرض سے؟‘‘

    وہ بولا ’’مرض سے! کیونکہ ہم مریض پر ریسرچ کرکے مرض تک پہنچتے ہیں۔ آپ پر ریسرچ کرنے سے بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘

    ’’اور اگر میں نہ آتا تو بنی نوع انسان کا کیا بنتا؟‘‘

    اس کے جواب میں ڈاکٹر نے اپنے اسسٹنٹ کو حکم دیا۔ ’’اس مریض کی بی۔ سی۔جی بھی کرائی جائے۔ دماغ میں توقع سے زیادہ خلل معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    لیکن میں جانتا تھا کہ میرے دماغ کے خلل کا سبب میری بے پناہ مسرت ہے، جو مریض بن کر مجھے حاصل ہو رہی ہے۔ میں یہ سوچ کر جھوم اٹھا کہ اسپتال میں مجھے بے حد رومانٹک ماحول ملے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ کئی آرٹسٹ لوگ اسپتال میں جاکر ناول تک لکھتے ہیں اور بیماری کو ادبِ عالیہ میں اضافہ کا باعث بناتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نرسوں سے پیار بھی کرنے لگتے ہیں بلکہ کئی نرسیں تو نوکری پر لات مار دیتی ہیں اور ناول نگار کی روح کے نرم گوشے میں دلہن بن کر گھس جاتی ہیں۔

    دوسرے دن جب میں چھم سے کسی نرس کی آمد کی انتظار میں آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ کسی نے میرا کندھا جھنجھوڑا۔ یہ واقعی نرس تھی (میرے متوقع ناول کی متوقع ہیروئن۔) میں نے آنکھ کھول کر دیکھا نرس خوبصورت نہ تھی، خوبصورت دنیا کے جسم پر ایک چیتھڑا تھی! اس نے پہلے مجھے سونگھا پھر ماحول کو سونگھا اور جیسے اسے احساس ہواکہ ماحول نامکمل ہے۔ اس لیے اس نے میرے بیڈ کے سرہانے ایک مَیلے سے گتے پر میڈیکل چارٹ لٹکا کر ماحول کو مکمل کردیا۔

    اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے میری قبر پر دِیا جلا دیا ہو۔

    (طنز و مزاح نگار اور شاعر فکر تونسوی کے قلم سے شگفتہ پارے)