Tag: فکر تونسوی کی تحریریں

  • گم شدہ کی تلاش

    گم شدہ کی تلاش

    یہ اشتہار میں اپنے گم شدہ بھائی چنتا منی کے متعلق دے رہا ہوں۔ موصوف ایک مرتبہ پہلے بھی گم ہوگئے تھے، لیکن اس وقت میں نے اشتہار نہیں دیا تھا۔

    کیونکہ میرا خیال تھا کہ موصوف خود دار آدمی ہے، اس لیے اس نے ضرور کنوئیں میں چھلانگ لگا دی ہوگی۔ لیکن چھٹے دن وہ میلی چکٹ پتلون کے ساتھ گھر لوٹ آیا اور بقول ہمارے چچا کے ’’آخر تو ہمارا ہی خون تھا، کیوں نہ لوٹتا، خون نے جوش مارا ہوگا۔‘‘

    ہمیشہ اجلی پتلون پہننے والا کب تک گھر سے باہر رہ سکتا تھا۔ خودی چاہے کتنی ہی بلند ہو جائے پتلون کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مگر اس بار مجھے یقین ہے کہ موصوف لوٹ کر نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ گھر سے دو سو روپے اٹھا کر لے گیا ہے۔ اس لیے اب اس کی رگوں میں ہمارا خون جوش نہیں مارے گا۔ اشتہار دینے کی ایک اور وجہ والدہ محترمہ ہیں، جو موصوف کو ابھی تک ’’نادان لڑکا‘‘ گردان رہی ہیں۔ میں نے لاکھ کہا کہ مادر مہربان! چنتا منی اب بیس برس کا ہوچکا ہے نادان نہیں رہا۔ وہ چہرے مہرے سے ہی گدھا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے کافی کائیاں ہوچکا ہے۔ مگر والدہ محترمہ جس نے اس گدھے کو جنم دیا، اپنی تخلیق پر زیادہ مستند رائے رکھتی ہیں، اس نے مجھے طعنہ دیا، ’’دراصل تم چھوٹے بھائی کی غیرحاضری میں ساری آبائی جائیداد کو تنہا ہڑپ کرنا چاہتے ہو۔‘‘

    ہماری آبائی جائیداد دو کمروں والا ایک مکان ہے جو ہم نے کرائے پر لے رکھا ہے یا پھر والد محترم کے قبضہ میں ایک بہی کھاتا ہے جس میں درج ہے کہ ہمارے خاندان کے پاس ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ہے جس پر آج کل ایک دریا بہہ رہا ہے۔ والد محترم گزشتہ گیارہ برس سے اس دریا کے سوکھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

    اگرچہ والدہ محترمہ کے طعنہ کی بنیادیں دریا برد ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی ایک فرماں بردار فرزند کے طور پر میں یہ اشتہار دینے پر مجبور ہوا ہوں۔

    برادر عزیز چنتا منی کی تصویر مجھے نہیں مل سکی ورنہ اس اشتہار کے ساتھ ضرور چھپواتا۔ دراصل اس کے جتنے فوٹو تھے وہ اس نے اپنی وقتاً فوقتاً قسم کی محبوباؤں میں بانٹ دیے تھے۔ پوچھنے پر چنتا منی کی ہر محبوبہ نے جواب دیا کہ اس کے پاس چنتا منی کی فوٹو تھی، وہ اس نے رسوائی کے خوف سے ضائع کر دی ہے۔ ایک محبوبہ تو اتنی صاف گو نکلی کہ اس نے تنک کر جواب دیا، ’’میں نے شادی ہوتے ہی چنتا منی کی وہ فوٹو لوٹا دی تھی اور آج کل بٹوے میں اپنے خاوند کا فوٹو رکھتی ہوں۔‘‘

    چنانچہ فوٹو دستیاب نہ ہونے کے باعث مجبوراً میں اپنا ہی فوٹو اس اشتہار کے ساتھ شائع کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود گم شدہ میرے بھائی کو سمجھا جائے، مجھے نہیں۔

    والد اور والدہ محترمہ دونوں کی متفقہ رائے ہے کہ چنتا منی کی ناک تم سے ملتی ہے، اس لیے پہچاننے میں آسانی رہے گی۔ ہمارے نانا مرحوم کی ناک بھی تم دونوں نواسوں سے ملتی تھی اور وہ بھی گھر سے بھاگ گئے تھے (عجیب ناک ہے، نانا کے وقت سے کٹ رہی ہے) بہرکیف فوٹو میں میری ناک حاضر ہے۔ ناک کے علاوہ میرے جتنے اعضا ہیں وہ میرے ذاتی ہیں۔ برادر عزیز چنتا منی کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

    برادر موصوف چنتا منی کے باقی ناک نقشہ کے متعلق پوزیشن یہ ہے کہ اس کا رنگ بچپن میں دودھ کی طرح گورا تھا (ان دنوں وہ صرف ماں کا دودھ پیا کرتا تھا) لڑکپن میں وہ دودھیا رنگ گندمی ہوتا گیا، کیونکہ اس نے گندم کھانا شروع کردی تھی۔ جوان ہوتے ہی رنگ کا میلان سیاہی کی طرف ہوگیا، نہ جانے جوانی میں چوری چھپے اس نے کیا کھانا شروع کردیا تھا۔ البتہ جب والد محترم اسے ہیبت ناک قسم کی گالیاں اور بھبکیاں دیا کرتے تو لمحہ بھر کے لیے اس کا رنگ پیلا بھی پڑ جاتا تھا۔ گویا چنتا منی بڑا رنگا رنگ آدمی تھا (خدا اسے ہر رنگ میں خوش رکھے۔)

    آنکھیں بڑی بڑی مگر گونگی قسم کی، جیسے کوئی حسینہ بغیر بیاہ کے بیوہ ہو گئی ہو۔ کئی بار میں نے اسے مشورہ دیا، ’’ارے پگلے! ان پر کالا چشمہ لگالے، بات بن جائے گی۔‘‘ مگر وہ نہیں مانا۔ ایک بار میں نے اپنی بیوی کی آنکھ بچا کر اپنا چشمہ اسے دے بھی دیا مگر وہ اس نے ایک دوست کو دے دیا۔ دوست نوازی میں تو وہ بے مثال تھا۔

    والد محترم اسے دوست نوازی پر ہمیشہ چھڑی سے پیٹا کرتے تھے اور اس پٹائی کو وہ کمال صبر و شکر سے سہ لیتا تھا۔ صبر و شکر میں بھی بے مثال تھا۔ والد محترم نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی شریف اور صابر لڑکا پیدا کیا ہے اور وہ چنتا منی ہے۔ بزرگوں کے سامنے چوں تک نہیں کرتا۔ آہ اس کے بھاگنے کے بعد اب ان بزرگوار کی چھڑی کسی کام نہیں آرہی۔

    چنتا منی کی پیشانی پر ایک داغ ہے۔ ایک بار وہ چھت پر کھڑا ایک لڑکی کو گھور رہا تھا۔ لڑکی مذکورہ نے جواباً ایک اینٹ دے ماری۔ اگرچہ چنتا منی نے اس خشت محبت کا ذکر کسی سے نہیں کیا مگر بعد میں اس ناشائستہ لڑکی نے اپنی سہیلیوں سے ذکر کردیا تو بات پھیل گئی اور اس ڈاکٹر تک بھی جاپہنچی جس نے علاج کا بل ایک دم یہ کہہ کر بڑھا دیا کہ اینٹ کا زخم زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

    چنتا منی کے جسم کے باقی حصے صحیح سلامت ہیں۔ وہ ایک مضبوط الجثہ نوجوان ہے۔ غلہ کی بوری اٹھا کر تین میل تک چل سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وقت بھی کسی غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کر رہا ہو اور منڈی کے بیوپاری اسے نہایت قلیل اجرت دے رہے ہوں۔ کیونکہ چنتا منی کو بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا۔ اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ سوائے خاموش رہنے کے۔ سوائے ستم سہنے کے۔ مگر میں بیوپاریوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس ستم پسندی کا زیادہ استحصال نہ کریں، ورنہ وہ ان کے ہاں سے بھی بھاگ جائے گا۔ کیونکہ بھاگنے کے لیے اس کے پاس پاؤں موجود ہیں۔ چنتا منی کی زبان کام نہیں کرتی، پاؤں کام کرتے ہیں۔

    چنتا منی کیوں بھاگا؟ اس کے متعلق مؤرخین کی آراء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ والد محترم یعنی ابوالچنتا منی کا خیال ہے کہ لڑکا شادی کا خواہش مند تھا مگر اسے دور دور تک شادی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مگر عم الچنتا منی یعنی چچا جان اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ چنتا سرے سے شادی سسٹم کے ہی خلاف تھا اور برہم چریہ میں یقین رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک ذمہ دارانہ سوجھ بوجھ کا مالک تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی دو بہنیں ابھی تک کنواری بیٹھی ہیں۔ یعنی برہم چریہ کے لیے اس کے پاس ٹھوس وجہ موجود تھی۔۔۔ تیسرے مؤرخ ام الچنتا منی یعنی والدہ محترمہ کی رائے چچا جان سے کسی حد تک ملتی ہے، صرف اس ترمیم کے ساتھ کہ بہو (یعنی میری زوجہ) نے ہی اسے یہاں سے فرار ہونے میں مدد دی ہے۔

    خود بہو بھی اس قسم کی ایک الگ رائے رکھتی ہے۔ یعنی جو ساس کہے اس کے الٹ۔

    قارئین! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ چنتا منی کی خاطر مجھے اپنے کنبہ کی اندرونی حالت ظاہر کرنا پڑی اور باعزت کنبے کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ لیکن پورا پس منظر دیے بغیر چنتا منی کی تلاش ناممکن ہے، بہرکیف مؤرخین کے ان شدید اختلافات کی موجودگی میں وثوق سے کہنا ناممکن ہے کہ چنتامنی کیوں بھاگا؟ بیکاری، بیزاری، کنوارپن، کند ذہنی، پٹائی، ڈیموکریسی، صنعتی ارتقا، برہم چریہ، قربانی، بے وقوفی۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک وجہ بھی ہوسکتی ہے یا ساری وجہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ شاید چنتا منی ان تمام وجہوں کو اپنے ذہن میں پالتا رہا، پالتا رہا اور اس دن یہ تمام وجہیں منزل مقصود کو پہنچ گئیں جب اچانک دو سو رپے اس کے ہاتھ لگ گئے۔

    یہ دو سورپے میرے ایک دوست کی امانت تھے اور اب اس نے مجھ پر مقدمہ کر رکھا ہے۔

    عزیز چنتا منی کی تلاش میں ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ڈھونڈا، جیل خانے چھانے، جوئے خانوں میں گئے، فلم کمپنیوں سے پوچھا۔ میری ماں درختوں سے پوچھتی پھری۔ والد محترم نے مختلف ریل گاڑیوں پر سفر کیا لیکن چنتا منی جیسے ایک خدا تھا کہ کہیں نہیں ملا۔

    (ممتاز اردو ادیب اور معروف مزاح نگار فکر تونسوی کی ایک شگفتہ تحریر)

  • فکر تونسوی اور ‘وارنٹ گرفتاری’

    فکر تونسوی اور ‘وارنٹ گرفتاری’

    بڑے لوگوں کی بڑی باتیں‌۔ ارفع و بلند خیالات، اجلی اور روشن فکر مگر انکسار، عاجزی ایسی کہ کیا کہیے۔ ہر ایک سے شفقت سے پیش آنا، سکھانا، خوش دلی سے اصلاح کرنا اور اس طرح کہ دوسرے کو ناگوار نہ گزرے اور تیسرے کو خبر نہ ہو۔ ایسے ہی تھے فکر تونسوی!

    وہ زندہ دل اور شگفتہ بھارتی ادیب کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ادب کی دنیا میں رام نارائن بھاٹیہ نے فکر تونسوی کا نام اپنایا اور شہرت و مقام پایا۔ تونسوی لاہور کے کئی ادبی رسالوں کے مدیر رہے۔ شاعری کی، لیکن وجہِ شہرت طنز و مزاح ہے۔

    ان کا آبائی گاؤں تونسہ شریف، ضلع ڈیرہ غازی خان ہے۔ ان کی زندگی بہت مفلسی کے عالم میں گزری، بہت جد وجہد کی۔ انہی کے لفظوں میں کہ کئی پیشے اختیار کیے، ٹیچری، خوش نویسی، تاجروں کی ایجنسی، گھٹیا اور سستے اخباروں کی ایڈیٹری وغیرہ۔

    یہاں ہم ان کی کتاب ‘وارنٹ گرفتاری’ کا وہ پارہ نقل کر رہے ہیں جس میں انھوں نے اپنا تعارف ‘مصنّف کا کچا چٹھا’ کے عنوان سے لکھا ہے۔ یہ 1966ء کی تحریر ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ‘مصنف کا نقلی نام فکر تونسوی ہے (اصلی نام کافی واہیات تھا) پہلی جنگِ عظیم میں پیدا ہوا اور تیسری جنگِ عظیم میں کوچ کر جائے گا۔ والدین غریب تھے اس لیے والدین یعنی غریبوں کے حق میں لکھنے کی عادت پڑ گئی۔ اس کی خواہش ہے کہ غریب ہمیشہ قائم رہیں کہ کوئی ہمیشہ لکھتا رہے۔ شروع شروع میں نظمیں لکھتا تھا جو اس کی اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی تھیں۔ بڑی مشکل سے اس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ گھٹیا شاعر اور بڑھیا نثر نگار ہے۔ چنانچہ نثر میں مزاحیہ اور طنزیہ چیزیں لکھنے لگا۔ پہلے اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اچھا لکھتا ہے۔ لیکن جب قارئین نے شور مچا دیا کہ وہ اعلیٰ ترین طنز نگار ہیں، تب اسے بھی اپنے اعلیٰ ترین ہونے کا یقین آگیا۔ جس دن یہ یقن ٹوٹ گیا وہ خود کشی کر لے گا۔

    شکل بھونڈی ہے، تحریر خوب صورت ہے اور یہ دونوں چیزیں خداداد ہیں۔لوگ اس کی تحریر پڑھ کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں، جب دیکھ لیتے ہیں تو اس کی تحریریں پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے مصنّف دنیا سے منھ چھپاتا پھرتا ہے۔ عزّت قائم رکھنے کے لیے انسان کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ اب تک ہزاروں صفحے لکھ چکا ہے اور لاکھوں مداح پیدا کرچکا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں صفحے اور کروڑوں مداح اس کی ارتھی کے ساتھ جائیں گے۔ جن میں زیرِ نظر کتاب اور اس کے پڑھنے والے بھی شامل ہوں گے۔

  • ’’خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

    ’’خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

    میری بیماری اچھلتی کودتی، چھلانگیں لگاتی ہوئی جب کئی ہفتے عبور کرگئی تو مجھے شک ہونے لگا کہ ڈاکٹر حضرات کو خدمتِ خلق سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔

    ان کی حالت اس عورت سے بہتر نہیں ہے جو شوہر کے لیے کھانا تیّار کرتی ہے۔ شام کو سبزی وغیرہ لاتی ہے اور صبح دودھ کے ڈپو کی لمبی قطار میں دو بوتلیں لانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتی ہے۔ عام اصطلاح میں اسے گرہست کی خدمت کہا جاتا ہے لیکن گرہستن سے پوچھا جائے تو وہ اسے اکتا دینے والی روٹین کا نام دیتی ہے۔

    میرا خیال تھا اور افسوس ناک حد تک غلط خیال تھا کہ ڈاکٹر جب مریض کی خدمت کرتے ہیں تو اسے انسانیت کا عروج سمجھتے ہیں۔ لیکن جب میں نے ذرا قریب ہوکر دیکھا تو یوں محسوس ہوا کہ وہ انسانیت سے اکتا چکے ہیں۔ وہ جب مریض کا بلڈ پریشر دیکھتے ہیں یا اس کے ہارٹ، جگر اور پھیپھڑے کی رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں یوس محسوس ہوتا ہے جیسے آلو چھیل رہے ہوں یا سبزی میں نمک مرچ مسالے کا تناسب پیدا کر رہے ہوں۔

    ڈاکٹر سچ مچ ایک انار ہوتے ہیں جس کے ایک سو نہیں ہزاروں بیمار ہوتے ہیں، ہر بیمار سمجھتا ہے یہ انار میرے ہی کھانے کے لیے ہے اور ڈاکٹر کی بے بسی یہ ہے کہ وہ کسی مریض سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا ’’دوست! انار کے متعلق تم جو بھی نقطۂ نگاہ بنا لو، میں دخل نہ دوں گا لیکن ظالم! مجھے پانچ منٹ کی تنہائی تو عطا کر دو تاکہ میں خدمتِ خلق سے بلند ہوکر ایک سگریٹ پی سکوں۔‘‘

    ایک دن میں نے ایک ڈاکٹر سے پوچھ لیا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ کیوں مر گیا؟‘‘

    وہ جیسے دو دونی چار کا پہاڑا پڑھتے ہوئے بولا۔ ’’وہ تو اسی دن مرگیا تھا جب میں نے اس اسپتال میں نوکری کے لیے برسوں اپنے گھٹنے اور ماتھا رگڑا۔ ایک نہایت ہی بھونڈے، غیرانسانی شکل کے ڈپٹی منسٹر کو وقت کا جہانگیر اور یوسف کہا تھا۔ انسانیت تو اس سماج کے لیے اچھوت کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘

    یہ سُن کر مجھے شک ہوا کہ میرے جذبے اچھوت ہیں۔ ڈاکٹر میرے جذبوں کو ہاتھ لگانا نہیں چاہتا۔ وہ صرف اسپتال کے مردہ قاعدے قانون کے چوکھٹے میں گھومے جا رہا ہے۔ اس چوکھٹے کے باہر کی دنیا اچھوتوں کی دنیا ہے۔ اس چوکھٹے میں انسانیت داخل نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹر اس چوکھٹے سے باہر آکر اچھوتوں کو چھونا نہیں چاہتا۔ جو مریض اسپتال میں اس خیال سے داخل ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اس کا انتظار کر رہا ہے اور لپک کر مریض کے جسم میں خدمتِ خلق کاانجکشن دے دے گا اور ناچ اٹھے گا۔ ایسے مریض کو چاہیے کہ وہ اچھوت ہی رہے تو اچھا ہے۔ ڈاکٹر کے لیے سب مریض برابر ہیں، سب بور ہیں، سب اچھوت ہیں۔

    بھونڈے ڈپٹی منسٹر نے ڈاکٹر سے انسانیت چھین لی۔ اب تو وہ کسی لیڈی ڈاکٹر سے بھی پیار کرنے سے پہلے دیکھ لیتا ہے کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے؟

    احباب اور رشتے داروں تک میرے وارڈ اور بیڈ نمبر کی باقاعدہ اطلاع پہنچا دی گئی تھی۔ ایک دوست نے خلوص کی بلندیوں پر کھڑے ہو کر مشورہ دیا کہ بیڈ نمبر اخباروں میں چھپوا دیا جائے۔ چھپ جانے کے بعد وہ اپنے فرضِ منصبی سے چھٹکارا پاگئے اور کبھی اسپتال میں نہ آئے۔ باقاعدہ اطلاع کے باوجود (سُنا ہے) یار دوست ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے۔

    ’’بھائی! فکر صاحب کا بیڈ نمبر کون سا ہے؟‘‘

    شروع شروع میں خلوص کے ماروں کی آمد زوروں پر رہی۔ ان کی آمد پر میرا دل بلیوں اچھلتا اور میں پھول جاتا کہ میں بیمار ہوں۔ ہر ملاقاتی یہ جھوٹ بول کر بہت خوش ہوتا ’’جی آپ تو بالکل بھلے چنگے ہیں ورنہ ایسے اعصابی امراض میں تو انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے۔‘‘

    جوں جوں وہ میرا دل بڑھاتے، میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا چلا جاتا۔ لیکن پھر بھی میرا جی چاہتا میری ہڈیوں کی مزید تعداد نمایاں ہوتی چلی جائے تاکہ میں پرسانِ حال کی محبت کے لذیذ جام لنڈھاتا رہوں۔ لیکن معلوم ہوتا تھا کہ میری اس سازشی پلاننگ کا علم احباب اور رشتے داروں کو ہوگیا ہے، آہستہ آہستہ ان کی تعداد کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئی اور میرے بیڈ کے پاس صرف چند شیشیاں، ایک میڈیکل چارٹ اور ایک بیوی رہ گئی۔

    اور یوں آہستہ آہستہ میں غیر دل چسپ ہوگیا۔ ہمدردی اور خلوص کا سیلاب ایک دم تیزی سے شام کے سورج کی طرح ڈوب گیا۔ یہاں تک کہ ڈوبتی شعاعوں کی سرخی بھی نظروں سے اوجھل ہوگئی اور میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ مرض کو عادت نہ بنانا چاہیے۔ اتنی بڑی کائنات ہے اور ایک انسان اس میں ایک بے حد مدھم ہوتا ہوا نقطہ ہے جس سے کوئی لفظ نہیں بنتا، کوئی لکیرنہیں بنتی۔ اس نقطے پر انسانیت اور محبت اور خلوص وغیرہ وغیرہ چیزوں کی بنیاد رکھنا خالی خولی جذباتی پن ہے۔

  • ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    میں بے حد پریشان بلکہ شرمندہ تھا۔ شرمندگی کا باعث میرا نصیب تھا کہ مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی بیماری آتی وہ نزلہ زکام میں بدل جاتی۔

    زیادہ سے زیادہ سر کا درد، پیٹ کا درد یا کوئی پھوڑا ابھرتا اور مجھے جُل دے کر نو دو گیارہ ہو جاتا۔ احباب اور رشتے دار زیرِ ناف قسم کا طعنہ دیا کرتے کہ ان غیر ضروری بیماریوں پر کوئی آپ سےکیا ہمدردی کرے۔ میری بیوی تو کنکھیوں سے کئی بار اشارے بھی کرچکی تھی کہ میں آپ کی خاطر مَر مٹنے کے لیے تیار ہوں لیکن اس مَر مٹنے کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی تو پیدا کیجیے۔

    اور نہ جانے میرے کس پیارکی دعا قبول ہوئی کہ ایک دن میں صبح کو شیو کرکے اٹھا تو میری ایک لغزشِ پا نے پکارا۔ ’’لینا کہ چلا میں!‘‘

    میری بیوی جوشاید اسی نادر لمحے کے انتظار میں ادھیڑ ہوگئی تھی، فوراً ڈاکٹر کو بلا لائی۔ ڈاکٹر نے کہا ’’یہ لغزشِ پا نہیں ہے، سیریس بیماری ہے!‘‘

    بیوی کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ہائے اللہ! یہ سریس بیماری ان کی بجائے مجھے لگ جائے۔‘‘

    ڈاکٹر نے رولنگ دیا۔ ’’یہ فیصلہ اسپتال میں جاکر ہوگا کہ بیماری کس جسم کے لیے موزوں ہے، یہ متنازع مسئلہ ہے۔‘‘

    اتنے میں میرے بہت سے احباب اور رشتے دار جمع ہوگئے تھے۔ انھو ں نے ڈاکٹر سے ’’ونس مور‘‘ کہا اور باری تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ آخر میں تھرڈ ریٹ بیماریوں کے چنگل سے نکل آیا اور اب راہِ راست پر چل پڑا ہوں۔ ان کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو بھر گئے۔ انھوں نے تالیاں بجائیں کئی ایک فرطِ انبساط سے رقص کرنے لگے۔ میری بیوی نے جذبات سے کانپتے لفظوں میں اعلان کیا کہ وہ میرے غسلِ صحت پر یتیموں کو کھانا کھلائے گی۔ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے سرگوشی میں ایک دوست کو بتایا کہ نروس بریک ڈاؤن کی بیماری ہے۔ ہوسکتاہے، کئی سال لگ جائیں۔

    کئی سال؟ مجھے یتیموں کا مستقبل خطرے میں نظر آیا۔

    اسپتال کے پیڈ پر لیٹتے ہی مجھے بے حد اطمینان ہوا۔ نہ پریشانی باقی رہی تھی نہ شرمندگی ہی۔ بلکہ فخر سے پھولا نہ سماتا تھا کہ اب اس سیریس بیماری کی بدولت کئی لوگوں کو ابلائیج کرسکوں گا۔ میرے احباب خلوص اور ہمدردی کا فراخ دلانہ استعمال کرسکیں گے۔ رشتے داروں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے اور آنسو تھر تھرانے کا موقع نصیب ہوگا۔ میری ایک جنبشِ لب پر وہ اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔

    میری آنکھ کا ایک ہلکا سا اشارہ ان کی زنگ آلود روح کے سبھی بند دروازے کھول دے گا۔ میرے بدن میں ایک چھوٹی سی ٹیس اٹھے گی تو احباب مرغِ بسمل کی طرح اسپتال کے سڑک پر تڑپتے ہوئے نظر آئیں گے۔ میری بیوی ہر پرسانِ حال کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہہ سکے گی،

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

    غرض میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ زندگی میں کسی کے کام تو آیا۔ دوسروں کی خوشنودی کے چند لمحے بھی میسر آجائیں تو وہ سُنبل و ریحاں اور لعل و یاقوت وغیرہ سے کم نہیں ہوتے ورنہ اس سے پہلے تو زندگی جیسے بے برگ و گیاہ ریگستان میں گزر رہی تھی۔ نہ کسی کے آنسو، نہ تبسم، نہ جذبات سے چُور چُور ہونٹ، نہ کسی کی ہمدردی، نہ کسی کا خلوص، نہ کسی کا امتحان، نہ کوئی ممتحن۔

    اسپتال میں جاتے ہی سب سے پہلے تو میرے ایک منسٹر دوست نے میرے ریگستان میں ایک پھول کھلا دیا۔ یعنی ایک دوست کے ٹیلیفون پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا کہ اس مریض کو فوراً ایک بیڈ عطا کیا جائے۔ اسپتال میں بیڈ میسر آنے کا مطلب ہوتا ہے جیسے کسی بے روزگار کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے۔ میرے ایک پروفیسر دوست نے میری ہوا باندھتے ہوئے کہا ’’جی! بیڈ کیوں نہ ملتا۔ ان کی رسائی تو منسٹروں تک ہے۔‘‘

    مجھے منسٹروں کی اس پستی پر رحم کھانا چاہیے تھا لیکن منسٹر کی خوشی مجھے بیڈ میں مل جانے میں مضمر تھی۔ اس لیے میں اس پستی کو شہد کا گھونٹ سمجھ کر پی گیا۔

    بیڈ مل جانے کے بعد میں تین چار دن تک یہ دیکھتا رہا کہ احباب اور رشتے دار نہایت سرگرم ہوگئے ہیں۔ چاروں طرف بھاگے بھاگے پھرتے ہیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی دوڑ دھوپ کی رپورٹ لے آتے اور میرے حلق میں انڈیل دیتے۔ کوئی بتاتا اسپتال کا ہارٹ اسپیشلسٹ میرے کالج کا ساتھی ہے اور مجھ سے میتھمیٹکس کی گائڈ بک لے جایا کرتا تھا۔ کوئی انکشاف کرتا، بلڈ بنک کے انچارج سے میں نے کہہ دیا ہے کہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ آپ کے اسپتال میں ایک عظیم مریض داخل ہوا ہے۔ یہ انچارج میری خالہ کا چوتھا بیٹا ہے۔ اگرچہ خالہ نے اسے جائداد سے عاق کردیا ہے لیکن اس کی لو میرج سے پہلے کے سبھی لو لیٹر میں نے ہی قلم بند کرکے دیے تھے۔

    ایک دوست نے تین اخباروں میں میری فوٹو اور بیماری کی خبر بے حد ولولہ انگیز انداز میں شائع کروا کے مسرت حاصل کی جیسے اس نے مجھے مرنے کے بعد جنت کی سیٹ دلوادی ہو۔ چار پانچ دوستوں نے کافی ہاؤس میں ایک ریزولیوشن پاس کروادیا کہ خدانخواستہ اگر فکر تونسوی کی موت واقع ہوگئی تو پورے کافی ہاؤس کے ممبران نہ صرف باجماعت شمشان بھومی تک جائیں گے بلکہ پسماندگان کے لیے چندہ بھی اکٹھا کریں گے۔

    یہ جان توڑ سرگرمیاں دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سارا ہندوستان میری بیماری کی خاطر زندہ ہے ورنہ درگور ہوگیا ہوتا! ہر روز کئی ڈاکٹر باری باری آتے اور مجھے لیبارٹری سمجھ کر تجربے شروع کر دیتے۔ جیسے یہ ڈاکٹر نہ ہوں، اسکول کے طالب علم ہوں اور میں ایک کاپی ہوں جس پر وہ ہوم ورک کر رہے ہوں۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ میرے مرض سے خوش ہونے کی وجہ سے سرگرم ہیں لیکن ایک بار میں نے ان کی خوشی سے بور ہو کر ایک ڈاکٹر سے پوچھا ’’جناب! کیا آپ کو مریض سے محبت ہے یا مرض سے؟‘‘

    وہ بولا ’’مرض سے! کیونکہ ہم مریض پر ریسرچ کرکے مرض تک پہنچتے ہیں۔ آپ پر ریسرچ کرنے سے بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘

    ’’اور اگر میں نہ آتا تو بنی نوع انسان کا کیا بنتا؟‘‘

    اس کے جواب میں ڈاکٹر نے اپنے اسسٹنٹ کو حکم دیا۔ ’’اس مریض کی بی۔ سی۔جی بھی کرائی جائے۔ دماغ میں توقع سے زیادہ خلل معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    لیکن میں جانتا تھا کہ میرے دماغ کے خلل کا سبب میری بے پناہ مسرت ہے، جو مریض بن کر مجھے حاصل ہو رہی ہے۔ میں یہ سوچ کر جھوم اٹھا کہ اسپتال میں مجھے بے حد رومانٹک ماحول ملے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ کئی آرٹسٹ لوگ اسپتال میں جاکر ناول تک لکھتے ہیں اور بیماری کو ادبِ عالیہ میں اضافہ کا باعث بناتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نرسوں سے پیار بھی کرنے لگتے ہیں بلکہ کئی نرسیں تو نوکری پر لات مار دیتی ہیں اور ناول نگار کی روح کے نرم گوشے میں دلہن بن کر گھس جاتی ہیں۔

    دوسرے دن جب میں چھم سے کسی نرس کی آمد کی انتظار میں آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ کسی نے میرا کندھا جھنجھوڑا۔ یہ واقعی نرس تھی (میرے متوقع ناول کی متوقع ہیروئن۔) میں نے آنکھ کھول کر دیکھا نرس خوبصورت نہ تھی، خوبصورت دنیا کے جسم پر ایک چیتھڑا تھی! اس نے پہلے مجھے سونگھا پھر ماحول کو سونگھا اور جیسے اسے احساس ہواکہ ماحول نامکمل ہے۔ اس لیے اس نے میرے بیڈ کے سرہانے ایک مَیلے سے گتے پر میڈیکل چارٹ لٹکا کر ماحول کو مکمل کردیا۔

    اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے میری قبر پر دِیا جلا دیا ہو۔

    (طنز و مزاح نگار اور شاعر فکر تونسوی کے قلم سے شگفتہ پارے)