Tag: فکشن

  • بے ترتیب کہانیوں کا کہانی کار، ارشد رضوی

    بے ترتیب کہانیوں کا کہانی کار، ارشد رضوی

    مضمون نگار: سید کامی شاہ

    ایک کہانی اس جملے سے شروع ہوتی ہے:

    ’’دن اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور وہ ڈھونڈتا رہتا ہے، مگر ڈھونڈ محض خود کو مصروف رکھنے کا عمل ہے۔ ورنہ زندگی تو ایسے بھی گزر جاتی ہے اور ویسے بھی۔ کھوج بے معنی ہے، ایک بے کار مشقت، جس کا حاصل فقط تھکن ہے۔‘‘

    اسی تھکے ہوئے، بکھرے ہوئے ہجوم میں ایک کہانی کار ہے، جس کا نام ارشد رضوی ہے اور وہ ایک انوکھا کہانی کار ہے۔

    اس کی کہانیاں پڑھیں تو لگتا ہے کہ ارشد رضوی وقت سے کٹ کر گرا ہوا لمحہ ہے جو کہیں خلائوں میں بھٹک گیا ہے۔ وہ سانس لیتے سایوں کا ہم سفر ہے۔ وہ بلیوں، سانپوں، بچھوئوں، مینڈکوں اور اندھیروں کے سانسوں میں جلتی کہانی ہے، وہ کونوں کھدروں میں بھٹکتی بے چین آنکھ ہے، جس کے گھر پر چوہوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ اس کا دماغ اوہام سے بھری پٹاری ہے، جس میں تشکیک کلبلاتی ہے اور تجسس کو ہوا دیتی ہے۔

    وہ انجان جزیروں پر بھٹکتا جہاز راں ہے، جسے سمندر  نے  پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ہزار سال پرانا جوگی ہے جو بھیس بدل کر سانپ بن جانا چاہتا ہے۔ وہ بے حس معاشرے کا حساس دماغ ہے اور  اسی لیے بے چین اور مضطرب رہتا ہے اور کھولتا رہتا ہے۔ وہ غضب کا کہانی کار ہے، اس کے جھولے میں کہانیوں کی بہت سی پٹاریاں ہیں جن میں رنگ برنگی، چمکیلی، اندھیری، سانپوں سی پُرپیچ کہانیاں ہیں۔ جیسے باغ کے کسی نیم تاریک گوشے میں کوئی چمکیلا سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو۔

    ڈاکٹر ارشد رضوی

    ارشد رضوی واحد کہانی کار ہے۔ جس کی کہانی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس کے دروازے تک لے گئی، اس کی کہانیاں عجیب کہانیاں ہیں۔ ایک عجیب سی فینٹسی میں وقوع پزیر ہوتی ہیں، جیسے کوئی نشے کی کیفیت ہو یا کوئی گہری نیند کا خواب یا آسمان پر بادلوں کو جوڑ کر منظر نامہ تشکیل دیا جارہا ہو۔ اس کی کہانیاں آدمی کے اندر کی کہانیاں ہیں۔ جو ہمارے باہر بکھری پڑی ہیں۔ اس کی ساری کہانیاں تلخ ہیں۔ ان میں ننگا سچ اُبلتا ہے اور خون کھولاتا ہے۔ وہ ایک سفاک کہانی کار ہے۔ اپنی کہانیوں کے بارے میں کہتا ہے:

    ’’یہ نہیں ہے کہ کہانیاں لکھی نہیں گئیں یا یہ خود فریبی کہ میرے بعد لکھی نہیں جائیں گی یا یہ کم عقلی کہ میری کہانیاں تخلیق نہ ہوتیں، تو کائنات کا یہ پرانا، مگر ہر لمحہ تبدیل ہونے والا چکر رک جاتا، کیا ہوتا اگر میری کہانیاں تخلیق کے جرم سے نہ گزرتیں؟ شاید میرا کتھارسس نہ ہوتا، ذات اندر ہی اندر مچلتی رہتی۔ خون اندر ہی اندر بہتا رہتا۔ زخم اندر ہی اندر جگہ بناتا رہتا۔‘‘

    اس بے یقینی اور عدم اطمینانی سے نکلنے کے لئے ارشد رضوی نے کہانی کا سہارا لیا، مگر کیا کہانی لکھنے کے عمل نے اس کے سلگتے ہوئے دماغ میں کچھ اطمینان بھرا یا اسے اور زیادہ بے چین کردیا؟

    اس بات کا جواب تو ارشد رضوی ہی دے سکیں گے، مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہانیاں لکھنے کے عمل نے ارشد رضوی کو اور زیادہ بے چین اور مضطرب کردیا ہے۔

    کہانی ارشد رضوی کا زخم بھی ہے اور مرہم بھی۔ کہانی دکھ بانٹنے والا دوست بھی ہے اور گھات میں بیٹھا دشمن بھی۔ کہانی اذیت پسند محبوبہ بھی ہے اور اکتائی ہوئی بیوی بھی۔

    [bs-quote quote=”کہانی ارشد رضوی کا زخم بھی ہے اور مرہم بھی۔ کہانی دکھ بانٹنے والا دوست بھی ہے اور گھات میں بیٹھا دشمن بھی” style=”style-8″ align=”left” author_name=”سید کامی شاہ”][/bs-quote]

    ارشد رضوی کو کہانی کے سارے رویوں سے محبت ہے۔ اس کی کہانیاں پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ کہانی بھی ارشد رضوی سے محبت کرتی ہے، جب ہی تو وہ اپنا آپ اسے سونپ دیتی ہے اور پھر دور کھڑی ہو کر اس کا تخلیقی انہماک دیکھتی ہے۔

    کہتے ہیں تخلیق انکشافِ ذات ہوتی ہے۔ ارشد رضوی کی کہانیوں کے کچھ ٹکڑے دیکھیے:

    ’’انہیں پاگل خانے بھیج دیجیے۔‘‘

    ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔ ’’میں نے لکھ دیا ہے، مریض ٹھیک ہونے کی حالت سے نکل چکا ہے۔،،

    ’’پاگل خانے؟‘‘ وہ بڑبڑایا

    ’’تو یہ سب کیا ہے، یہ بڑا سا پاگل خانہ۔ آسمان اور زمین کی بے معنی حدوں میں اسیر پاگل خانہ، جو مردہ خانے میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔،،

    کہتے ہیں، کسی بھی عہد کا قلم کار، شاعر ادیب جو کچھ بھی اپنے بارے میں لکھتا ہے در حقیقت وہ معاشرے کے بارے میں ہوتا ہے۔ ارشد رضوی نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ ایسا ہی ہے۔ بے ترتیب، بیمار، بیکار اور فرسٹرڈ۔ ایک بڑا سا پاگل خانہ جو ایک اور بڑے پاگل خانے کی سرحدوں میں واقع ہے۔ ارشد رضوی کی کہانیاں اگر بے ترتیب ہیں، تو ا س کا مطلب ہے سارا معاشرہ ہی بے ترتیب ہے۔ اگر اس کی کہانیاں بیمار ہیں اور پریشان کرتی ہیں، تو اسکا مطلب ہے کہ سارا معاشرہ ہی بیمار ہے اور پریشان کرتا ہے۔

    ارشد رضوی کا مشاہدہ جتنا مضبوط ہے، اس کی تخلیقی قوت بھی اتنی ہی طاقتور ہے، وہ ایسے غضب کے فقرے لکھتا ہے کہ دماغ سلگ اٹھتا ہے۔

    مضمون نگار

    اپنی کتاب کے دیباچے میں اس نے کہا:

    ’’یہ کہانیاں ہیں، جن کے سانس لیتے کردار ہیں، کرداروں کی پُرپیچ، پُراسرار، دیکھی ان دیکھی عادتیں ہیں، عادتوں میں عیاری ہے، تجسس ہے، نفرت ہے اور محبت بھی ہے، اندر کہیں مساموں سے پھوٹتی ہوئی، اس لئے کہ یہ پکے رنگ ہیں، جس بے ترتیب معاشرے میں مَیں نے آنکھ کھولی اس نے مجھے ایسے ہی کردار دیے ہیں۔ معاشرے کی بےترتیبی کرداروں میں نظر آسکتی ہے۔ اندر اور باہر دونوں طرف کی نفسیاتی دیواروں میں دیمک کی چھوڑی ہوئی لکیروں کی صورت۔‘‘

    ایسے بیسیوں جملے آپ کو اس کتاب میں ملیں گے، جو آپ کے حلق کڑواہٹ سے بھر دیں گے اور آپ کو سوچنے پر مجبور کردیں گے، مگر ایک بات ہے کہ ارشد رضوی کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایک تاثر غیر تکمیلیت کا ابھرتا ہے۔ کہیں کچھ چیزیں اور کردار ہیں، کچھ مناظر ہیں جو واضح نہیں ہیں۔ کہیں کچھ باتیں ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو آدھے ادھورے ہیں۔ اور ان کے رویے، ان کی باتیں، ان کے خواب، ان کے جذبے سبھی کچھ ادھورا ہے۔ کچھ واقعات کا ڈھیر ہے۔ جو ابہام کی دھند میں لپٹا ہے اور چیزوں نے اپنی ترتیب بدل لی ہے۔

    ایک عجیب سا موسم، ایک سا موسم آکر ٹھہر گیا ہے۔ عجیب شک زدہ، بے یقین، اور اداس سا موسم، اسی ٹھہرے ہوئے موسم میں خلق ہونے والی یہ بے ترتیب کہانیاں پڑھنا کسی کراس ورڈ پزل کو حل کرنے کے برابر ہے۔ جلدی جلدی تیز تیز جملے آتے جاتے ہیں اور اپنی ترتیب بناتے جاتے ہیں۔ بہت دیر تک تو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان سلگتے ہوئے، کڑوے اور بے ترتیب جملوں کے انبار تلے کوئی کہانی بھی پنپ رہی ہے۔ پھر کہیں سے اچانک ایک کہانی نمودار ہوتی ہے، میری کہانی، آپ کی کہانی، اس معاشرے کی کہانی،اس کائنات کی پرانی کہانی، مگر یہ طے نہیں ہے کہ کوئی بھی کہانی کسی قاری پر پوری کھلتی ہے یا نہیں۔

    [bs-quote quote=”ارشد رضوی کا مشاہدہ جتنا مضبوط ہے، اس کی تخلیقی قوت بھی اتنی ہی طاقتور ہے، وہ ایسے غضب کے فقرے لکھتا ہے کہ دماغ سلگ اٹھتا ہے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”سید کامی شاہ”][/bs-quote]

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی کوئی کہانی مکمل بھی ہوتی ہے؟

    میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی کہانی مکمل نہیں ہوتی بلکہ چلتی رہتی ہے، نئے مناظر، نئے کردار و واقعات کے ساتھ!

    کہیں کوئی منظر نامہ مکمل ہوجاتا ہے اور کرداروں کے پاس مزید کچھ کہنے کو باقی نہیں بچتا، مگر کہانی نہیں رکتی۔ کہانی چلتی رہتی ہے۔

    ایسی ہی بے ترتیب کہانیوں کا خالق ارشد رضوی فقط حیرت سے مسئال کو دیکھتا نہیں ہے، بلکہ وہ ان مسائل کے اندر اتر جاتا ہے اور جب باہر آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ایک کہانی دبی ہوتی ہے اور آنکھوں میں تخلیق کا شعلہ لپک رہا ہوتا ہے۔

    ارشد رضوی آدمی کو بھی جانتا ہے اور ادب کو بھی۔ انسانی نفسیات پر اس کی گرفت بہت کامیاب ہے۔ آدمی کے اندر کے معاملات کو اس نے اتنی عمدگی سے برتا ہے کہ باہر کا آدمی صرف باہر سے اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ارشد رضوی اپنے اندر اور باہر پھیلی دونوں دنیائوں کا عکاس ہے۔ ان بے ترتیب کہانیوں کو پڑھتے ہوئے آپ کو ایک عجیب و غریب سحر زدہ سی بستی نظر آئے گی جو اپنے ہی مکانوں کی چھتوں پر گر پڑی ہے، جس کے سارے ہی قواعد و ضوابط مختلف ہیں۔

    ارشد رضوی کو ان کہانیوں کو یکجا کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے، اس کے اندر ایک نامختتم اندھیرا کسی وہم کی صورت پھیلا ہے اور وہ کسی الوہی روشنی کا متلاشی ہے، اسے آسمان سے پرندوں کے روٹھ جانے کا دکھ ہے۔۔ وہ زندہ گھروں پر منڈلاتی موت کی بو سونگھتا ہے اور پوچھتا ہے۔۔

    زندگی کب تک مرنے اور جینے کے خانوں میں بٹی رہے گی؟

    اس کے اندر کی سلیٹ پر سوال لکھے جاتے ہیں، مگر جواب کہیں نہیں ہے۔ وہ انسانیت کے بدن کو دکھوں اور پپڑی جمے زخموں سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے مگر دکھ اس کے اندر ہی اندر جگہ بناتے رہتے ہیں اور وہ سوالوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

    ہم سب تیسری دنیا کے بے چہرہ، بے شناخت اور بے ترتیب لوگ ہیں۔

    بے ترتیبی بے یقینی کو جنم دیتی ہے یوں بے ترتیبی بڑھتی رہی اور کہانیاں لکھی جاتی رہیں، اسی زمین و کائنات کی اور ہم سب کی کہانیاں جن کے نام اور کردار بدل جاتے ہیں مگر کہانی کبھی نہیں بدلتی اور نہ رکتی ہے۔ کہانی کا سفر جاری رہتا ہے۔ کہانی ہمیشہ نئے کرداروں او رنئے منظرناموں کے ساتھ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ اور شناخت کے بحران کا عمل اسی طرح جاری ہے اور کہانی کی بُنت کا سفر بھی۔

    فی الحال ایک کہانی اس جملے پر ختم ہوتی ہے۔

    ’’میرے تلوؤں پر سرخ گلاب کھلا ہے اور انگلیوں میں تخلیق کا شعلہ ابھی بھی لپک رہا ہے۔،،

    مجھے یقین ہے کہ اتنے بھرپور لہجے میں بات کرنے والے ڈاکٹر ارشد رضوی کو جدید کہانی کے سفر میں ایک اہم کہانی کار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • اورحان پامک منزل ہے، باقی سب راستہ ہے

    اورحان پامک منزل ہے، باقی سب راستہ ہے

    قصبہ برف باری کی لپیٹ میں‌ ہے، رابطے منقطع، راستے منجمد ہوئے۔ اور  یہاں، قارص نامی قصبے میں ہمارا شاعر، جو عشق سے سرشار ہے، ایک طویل عرصے بعد ایک الوہی اطمینان کے ساتھ نظمیں‌ کہنے لگا ہے.

    ہمارا جلا وطن ترک شاعر، ہمارا پیارا "قا”، جرمنی سے اپنے وطن لوٹتا ہے، تو ترکی کے ایک دور افتادہ، تباہ حال، برف سے ڈھکے، انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں‌ جانے کو تیار شہر میں پہنچتا ہے۔ اور اس کا سبب وہ عورت ہے، جسے وہ دل دے بیٹھا ہے، آئپک.

    اس عہد کے بے بدل فکشن نگار، نوبیل انعام یافتہ اورحان پامک نے اپنے اس کردار کے حسن کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا انگشت بدنداں رہ جائے. ہر وہ شخص جو اس قصبے میں، اس ناول میں آئپک کے روبر آتا ہے، اس کے حسن کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے.

    تو کیا اورحان پامک کا ناول "سنو” محبت کی کہانی ہے؟ ایک عاشق کی، جو برسوں بعد اپنے وطن لوٹا ہے، اور نظمیں کہنے لگا ہے، کیوں کہ وہ خوش ہے؟

    بے شک پلاٹ کے ساتھ چلتے قصوں میں، اس کی کلیدی تھیم کے متوازی ظاہر ہوتے تھیمز میں ہم محبت، رقابت، خوشی جیسے جذبات، ان جذبات کے تشکیل، ان کی شکست و ریخت سے بھی روبرو ہوتے ہیں، البتہ اصل مدعا تو وہ سیاسی تقسیم، وہ لسانی انتشار، جغرافیائی اختلاف، جمہوریت اور آمریت کے درمیان جاری کشمکش ہے، طاقت اور کمزور میں تلخ تعلق ہے، جو صرف ترکی کا موضوع نہیں، بلکہ ہر ترقی پذیر مسلم ملک میں ہم اس کا  عکس دیکھ سکتے ہیں.

    یوں‌ اورحان پامک کی یہ کتاب یک دم اپنا کینوس وسیع کرتے ہوئے ہمیں اپنا قصہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس ناول کو، جو ایک دل موہ لینے والی کہانی ہے، ٹکڑوں‌ میں بانٹ کر ہم شاید بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔

    ناول کی Setting کیا ہے؟

    ناول کے واقعات ترکی کے ایک پس ماندہ قصبے قارص اور جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں رونما ہوتے ہیں۔ الگ الگ وقت میں۔ زمانہ نئے ہزارے سے کچھ پہلے کا ہے، جو لگ بھگ پانچ سال پر محیط ہے۔ ہمارے پیارے، جلا وطن شاعر کا ماں کے انتقال پر ترکی لوٹنا اور پھر اپنی محبت پانے کے لیے قارص کا رخ کرنا، یہ سب ان برسوں میں محیط ہے۔ البتہ بڑا حصہ تو قارص میں گزرے مرکزی کردار کے شب و روز کے گرد گھومتا ہے۔

    برف پر نقش چھوڑتے کردار:

    اورحان پامک ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ہمیں ایسے کرداروں سے متعارف کرواتا ہے، جو دلیر ہیں، بزدل ہیں، متذبذب اور نیک ہیں، رقابت اور رشک محسوس کرتے ہیں۔

    کرداروں کی ایک کہکشاں ہے، جس کا ہر ستارہ روشن ہے۔ قا میں قاری خود کو دیکھتا ہے، ہیرو نہیں، ایک سچا Protagonist ۔ کہیں کمزور، کہیں اڑیل۔ اور آئپک، جو کہانی کی روح ہے۔ پراسرار  ہے۔ آئپک کی بہن کدیفے، جو ضدی ہے، اپنی بہن سے محبت رکھتی ہے، اور  اس سے حسد محسوس کرتی ہے۔ سونے زائم؛ ایک تھیٹر اداکار، جو قصبے میں فوجی بغاوت کے بعد سربراہ چن لیا جاتا ہے۔ اور پھر ہمارا دل عزیز، اورحان، جو خود ایک انتہائی اہم موڑ پر کہانی میں داخل ہوتا ہے۔ اور ہمارے دلوں میں برف باری شروع ہوجاتی ہے۔

    پوائنٹ آف ویو:

    آئیں ہم دیکھیں کہ اس کہانی کا Narrator کون ہے اور Narrative کی نوعیت کیا ہے؟

    یہ تھرڈ پرسن میں تخلیق کردہ بیانیہ ہے، گو اس میں مصنف ٹالسٹائی اور دوستوفسکی کی طرح کہیں آسمان پر موجود نہیں، جو سب جانتا ہے، یہ مصنف تو مرکزی کردار قا کا دوست اورحان ہے، ہمارا ناول نگار۔ البتہ اورحان نے یہ قصہ اتنی مہارت سے بیان کیا ہے کہ وہ آسمانوں سے کرداروں کے ذہنوں میں جھانکتے ہوئے ہمیں ساتھ ساتھ لیے چلتا ہے اور جہاں ضرورت پیش آتی ہے، قاری کی صف میں آن کھڑا ہوتا ہے،  کاندھے اچکا کر، ایک لاعلم شخص کی مانند۔

    کہانی ایک خاص مرحلے پر یک دم صیغہ واحد متکلم میں جست لگاتی ہے، اور ہمیں پلاٹ میں، مستقبل میں، رونما ہونے والے ایک اہم واقعے کی خبر دیتی ہے۔ ہمارے مصنف کی ناکامی اور موت۔ اور یوں اورحان ہمیں تجسس کو آسمان پر لے جاتا ہے۔ کہانی کے آخری چند ابواب میں کہانی پھر صغیہ واحد متکلم کی سمت پلٹ آتی ہے۔ اب اورحان ہمارے ساتھ ہے۔

    بے شک یہ ایک Non Liner Narrative ہے، مگر یہ یوں لکھا گیا ہے کہ اس کا بڑا حصہ سیدھے سبھاؤ، ایک لکیر کی صورت آگے بڑھتے ہوئے واقعات کو بیان کرتا ہے۔

    اورحان علامتیں تو تخلیق کرتا ہے، مگر تجرید اس کا میدان نہیں۔ وہ ماجرے کا آدمی ہے۔ یہ بھی ماجرائی بیانیہ ہے، البتہ برف اور خوشی کو معنویت عطا کرکے مصنف نے انھیں ذرا گہرا معاملہ بنا دیا ہے۔

    پلاٹ کا معاملہ

    قا، مرکزی کردار، قارص کے قصبے کیوں آتا ہے؟ بہ ظاہر قارص میں لڑکیوں میں بڑھتی خودکشیوں کے واقعات کے باعث، ان پر ایک رپورٹ لکھنے کے لیے، مگر دراصل آئپک نامی ایک حسین و جمیل عورت کی وجہ سے، جو کبھی اس کی ہم جماعت تھی، آئپک کون تھی؟ ایک ایسے شخص کی مطلقہ، جو اسلام پسند جماعت کے پرچم تلے میئر کے الیکشن میں کھڑا ہورہا ہے۔

    اور جب ہمارے ہیرو ہیروئن ملتے ہیں، تب ایک قتل ہوتا ہے۔ تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر کا قتل۔ (قتل اورحان کے پلاٹس میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں)۔ یہ پہلے ایکٹ کاInciting incident ہے۔ اور یوں اسکارف کے حق میں آواز اٹھاتی لڑکیوں پر رپورٹ مرتب کرنے والا ہمارا کردار یک دم اسلام پسندوں کے لیڈر لاجورت سے رابطہ میں آجاتا ہے، جو  ہے تو Antagonist ہے، مگر وجیہہ، متاثر کن اور دل موہ لینے والا شخص ہے۔

    اور تب ایک فوجی بغاوت ہوتی ہے۔ سمجھ لیجیے، دوسرے ایکٹ میں Turning Point.

    ایک طویل، ضخیم ناول میں، جس میں واقعات ایک محدود مدت میں رونما ہوتے ہیں، ایک مضبوط، مربوط پلاٹ کی وجہ سے ہمیں برف باری کی طرح لطیف اور دل پذیر لگتا ہے۔ اس کے باوجود کے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، اور راستے مسدود ہیں۔

    موضوع یا Theme:

    کہیں اوپر تذکرہ آیا، اس کا مرکزی تھیم زرخیز، پرپیچ ہے۔ برف کے گالے کی طرح، جو ہشت پہلو ہوتا ہے۔ مصنف سیاست، انتہاپسندی، فوجی بغاوت، محبت اور رقابت جیسے جذبوں کو کام میں لاتے ہوئے بہ ظاہر اس جبر اور استحصال کو  منظر کرتا ہے، جس کا کمزور  طبقہ صدیوں سے سامنا کر رہا ہے،، جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ عقائد اور نظریات کا سہارا لیتا ہے، مگر  گہرائی میں مصنف ہمیں یہ سوچنے پر بھی اکسانا چاہتا ہے کہ ہم کسی شے کی خوشی خیال کرتے ہیں، کیسے ہم محبت اور نفرت کرتے ہیں، اور کیوں کہ ہم جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے فیصلے کرتے ہیں، جو ہماری زندگیاں بدل دیتے ہیں۔

    کتاب کا ایک Miner Theme یہ بھی ہے، گو اسے Miner Theme کہنے کو جی نہیں کرتا ہے، کہ تخلیق کار کیسے جمود کا شکار ہوتا ہے، پھر کیسے اس پر تخلیقات کی بارش ہونے لگتی ہے، وہ نظمیں ’’سننے‘‘ لگتا ہے، اور کیسے کتاب اس کے لیے اہم ترین شے بن جاتی ہے، عزیز ترین شے۔ زندگی کا حاصل۔

    شناخت کا بحران تو ایسا موضوع ہے، جو اورحان کو ہمیشہ عزیز رہا۔

    تصادم کا تذکرہ

    اورحان کے کرداروں کی تشکیل کے لیے ہر نوع کے تصادم (Conflict) کو استعمال کیا ہے۔ ایک سمت قا اپنی ذات سے برسرپیکار ہے، تذبذب، جذباتیت، خواہشات۔ اور دوسری طرف ایک Conflict اس کے اور Antagonist ، یعنی لاجورت کے درمیان ہے۔ یعنی رقابت۔ اور پھر وہ معاشرہ، جہاں اسے عقیدت سے دیکھا جارہا ہے کہ وہ استنبول سے آیا شاعر ہے، مگر قبول بھی نہیں کیا جارہا کہ وہ بے دین ہے۔

    اور قا ہی نہیں، آئپک، کدیفے، سونے زائم اور لاجورت جس نوع کے مسائل سے دور چار ہوتے ہیں، وہ قاری کے ذہن میں ان کرداروں کے تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

    حروف آخر

    ’’سنو‘‘ اورحان پامک کا ایک ماسٹر پیس ہے۔ایک خاص تھیم، جو اس کی ہر کتاب میں ہوتا ہے، اس میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ دو کرداروں کا مختلف ہونے کے باوجود یک ساں ہونا۔ حیران کن حد تک۔ یہاں تک کہ لوگ انھیں ایک دوسرے سے خلط ملط کر دیں۔

    یہی چیز ہم اورحان کے دو شاہ کار ’’دی بلیک بک‘‘ اور ’’سفید قلعہ ‘‘میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے، پر اورحان کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔

    مارکیز نے کہا تھا کہ ’’ادیب دراصل زندگی میں ایک ہی کتاب لکھتا ہے۔‘‘ مارکیز کے ہاں وہ تنہائی کی کتاب تھی، اور اورحان پامک کے ہاں وہ شناخت کی کتاب ہے۔ میں کون ہوں اور وہ کون ہے؟ میں کہاں پر ختم ہوتا ہوں اور وہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟

    ہما انور مبارک باد کی مستحق ہیں، جو اس سے قبل بھی اورحان کی تخلیق کو اردو روپ دے چکی ہیں۔ اور مستقبل میں اردو کے قارئین کو مزید حیرتوں سے دور چار کریں گی۔

    یہ اردو ترجمہ جناب فرخ سہیل گوئندی کے اشاعتی ادارے جمہوری پبلی کیشنز سے شایع ہوا ہے، جو اس سے قبل اورحان کے شاہ کار "سرخ میرا نام” بھی شایع کر چکے ہیں، اور ان کے ایک اور ناول پر کام کر رہے ہیں۔

    اگر آپ نے یہ کتاب نہیں پڑھی، تو  ہر لاحاصل کام چھوڑ کراس کی سمت پیش قدمی کریں۔

    اورحان ہی منزل ہے۔

    باقی سب راستے ہیں۔

  • ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتا کہانی کار(تبصرہ)

    ایک ٹوٹی ہوئی سڑک پر سفر کرتا کہانی کار(تبصرہ)

    ‎تحریر: آمنہ احسن

    محمد جمیل اختر سے پہلا تعارف ان کی ایک مختصر کہانی سے ہوا۔ کہانی، جسے ایک فکشن نگار نے اپنی فیس بک وال پر شیئر کیا تھا۔ وہ کہانی مصنف سے باقاعدہ دوستی کا آغاز ہوا تھا۔ میں نے مصنف کو ایک کم گو اور نفیس انسان پایا، کم الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے والا  وہ ایک پیدائشی آرٹسٹ۔

    آرٹسٹ کا خدا سے، خدا کی بنائی ہر شے سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ محمد جمیل اختر کی کتاب ٹوٹی ہوئی سڑک، جو ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کی پہلی کتاب ہے، ہاتھ میں آنے اور اسے آخر تک پڑھ لینے کے دوران یہ احساس بار بار ہوتا رہا کہ مصنف کا قدرت سے، اس کی بنائی ہر شے سے اور ارد گرد موجود ہر انسان سے کتنا گہرا تعلق ہے۔

    [bs-quote quote=”جمیل اختر کے کردار درختوں، پرندوں اور ہواؤں سے باتیں کرتے ہیں۔ خوف اور خاموشی سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ ” style=”style-2″ align=”left” author_name=”آمنہ احسن” author_job=”تبصرہ نگار”][/bs-quote]

    مصنف کو کمال حاصل ہے کہ ٹرین کے ٹکٹ چیکر کی کہانی لکھتے لکھتے ایسا سماں باندھ دیتا ہے کہ آپ خود کو اس ٹرین میں بیٹھا ایک مسافر سمجھنے لگتے ہیں۔

    جمیل کے لکھے افسانے ہمارے تعفن زدہ معاشرے میں پھیلے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان افسانوں کو پڑھتے پڑھتے افسانے کے کرداروں پر رحم آتا ہے، کبھی ان کی بے بسی پر رونا آتا ہے، کبھی کبھی غصہ آنے لگتا ہے۔

    کبھی یوں لگتا، جمیل نے صرف افسردہ اور اداس لوگوں کے بارے میں ہی لکھا ہے، لیکن اپنے ارد گرد جب جمیل کے تراشے کرداروں سے مشابہ انسان چلتے پھرتے نظر اتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی اساس میں سچ لکھا ہے۔ ہر طرف اداسی ہے۔


    دنیا میں‌ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی دس کتب


    ابھی ان کے افسانوں کا سحر اترا نہیں ہوتا کہ دوسرے حصے میں موجود مختصر کہانیوں کی باری آجاتی ہے۔ جمیل کم سے کم الفاظ میں بات کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ کوئی پیغام دینا ہو، کسی اہم مسئلے پر توجہ دلانی ہو یا کوئی درد ناک خبر سنانی ہو، مصنف سب کچھ چند الفاظ میں کہہ سکتا ہے ۔

    یہ کتاب مختصر افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے اور دو گھنٹوں کی مستقل توجہ سے ایک ہی نشست میں مکمل پڑھی جاسکتی ہے۔ اور یہی شاید اس کتاب میں پائی جانے والی واحد خامی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر تشنگی رہ جاتی ہے۔ خیال آتا ہے ایک آدھ افسانہ اور ہوتا۔ چند کہانیاں مزید ہوتیں، تو اچھا ہوتا۔

    پاکستان ادب پبلشر کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کے صفحات 120 ہیں۔ کتاب کی قیمت  300 روپے ہے، اسے ڈسٹ کور کے ساتھ اچھا گیٹ اپ کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔


    اگاتھا کرسٹی، جس نے شیکسپئر کی مقبولیت کو چیلنج کر دیا تھا


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔