Tag: فکشن نگار

  • معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار مشرف عالم ذوقی انتقال کرگئے

    معروف فکشن نگار اور حساس سماجی و سیاسی موضوعات پر اپنی کہانیوں کے ذریعے اردو ادب میں نام اور پہچان بنانے والے مشرف عالم ذوقی 58 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

    مشرف عالم ذوقی ایسے زود نویس تھے جن کا قلم بامقصد اور تعمیری سوچ کے ساتھ متحرک رہا۔ ان کے 14 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہوئے۔ بھارت کے سماجی اور سیاسی حالات پر خصوصا چند برسوں کے دوران بھارت میں افراتفری، عدم برداشت اور انتشار کو انھوں نے اپنی بعض کہانیوں کا موضوع بنایا اور ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ و باشعور قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں لکھے گئے ان کے ناول ’مرگِ انبوہ‘ اور ’مردہ خانے میں عورت‘ کو پاک و ہند میں بھی پڑھا اور سراہا گیا۔ انھوں نے ہم عصر ادیبوں کے خاکے بھی تحریر کیے جب کہ دیگر اصنافِ ادب میں بھی طبع آزمائی کی اور متعدد کتابیں لکھیں۔

    مشرف عالم ذوقی 24 نومبر 1963 کو بہار کے ضلع آرہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اس دوران ہی لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ 1992 میں ان کا پہلا ناول ’نیلام گھر‘ شائع ہوا تھا۔ ان کے دیگر مقبول ناولوں میں ’شہر چپ ہے‘، ‘مسلمان’، ‘بیان’، ‘لے سانس بھی آہستہ’، ‘ آتشِ رفتہ کا سراغ’ شامل ہیں۔

    مشرف عالم ذوقی کا شمار ایسے فکشن نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے متنوع موضوعات کے سبب اردو ادب میں الگ پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں اقلیتوں کے مسائل سے لے کر ہر طبقے کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کا قلم سماجی گھٹن، سیاسی بنیاد پر ظلم اور ناانصافی کے خلاف متحرک رہا۔

    چند دنوں سے مشرف عالم ذوقی علالت کے سبب دلی میں ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں 19 اپریل کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • سیمنٹ فیکٹری کا ملازم عبداللہ حسین

    سیمنٹ فیکٹری کا ملازم عبداللہ حسین

    عبداللہ حسین کا نام اردو ادب میں بطور فکشن نگار ہمیشہ زندہ رہے گا۔

    اداس نسلیں اور باگھ جیسے مقبول ناولوں کے خالق 84 سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ ان کے تخلیقی سفر کی ابتدا اور قلم سے تعلق کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔ یہ قصہ انھوں‌ نے ایک علمی اور ادبی محفل میں حاضرین کے سامنے یوں بیان کیا تھا۔

    مجھے پہلی ملازمت ملی اور میں کام پر گیا تو وہاں روزانہ چھے، آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے تھے، جن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔

    یہ بات جان لیں کہ جہاں سیمنٹ فیکٹری ہوتی ہے، وہ ایک مکمل سنگلاخ یا پہاڑی علاقہ ہوتا ہے اور ایسا ویران کہ عام طور پر درخت تک نہیں ہوتے۔ چند دن یونہی گزر گئے، پھر میں نے سوچا کہ کچھ لکھنا چاہیے، لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ کہانی لکھوں۔ کہانی شروع کی اور کہانی چلی تو چلتی چلی گئی اور مجھے لگا کہ میں نے ایک مصیبت گلے میں ڈال لی ہے، خیر میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاتی ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے سیکڑوں صفحوں پر پھیل گئی۔ جب اسے پڑھا اور دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ تو ناول سا بن گیا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔

    لاہور میں چار جاننے والوں سے بات کی تو انھوں نے کتابیں چھاپنے والے ادارے کا بتایا۔ میں نے جا کر ناول ان کو دے دیا، انھوں کہا چند ہفتوں میں بتاتے ہیں کہ چھاپیں گے یا نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند ہفتوں بعد معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ ناول تو ٹھیک ہے اور ہم چھاپیں گے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی جانتا نہیں۔ اس لیے پہلے آپ کچھ کہانیاں لکھ کر دیں، ہم انھیں چھاپیں گے، اس طرح لوگ آپ کو جاننے لگیں گے اور پھر ہم اس ناول کو چھاپ دیں گے۔

    میں نے انھیں کہانی لکھ کر دی۔ یہ کہانی ‘‘ندی’’ کے نام سے ان کے رسالے سویرا میں چھپی۔ اس کے بعد میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ اور کہانی کب دینی ہے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اور لکھیں، نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔ ناول کی اشاعت کے لیے جتنی پہچان چاہیے وہ تو اس ایک کہانی نے ہی آپ کو دلا دی ہے۔ اس طرح ناول چھپ گیا۔

    یہ بات تو بعد میں پتا چلی کہ جب میں انھیں ناول دیا تو انھوں نے اسے حنیف رامے، محمد سلیم الرحمٰن اور صلاح الدین کو پڑھنے کے لیے دیا اور انھوں نے رائے دی تھی کہ ناول اچھا ہے، اسے چھپنا چاہیے۔

    اپنے انگریزی ناول کے بارے میں انھوں بتایا کہ جب وہ لندن گئے اور وہاں ایک بار لے لیا تو ان لوگوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا جو ہمارے ہاں سے غیر قانونی طور پر جاتے ہیں اور پھر وہاں چھپ کر رہتے ہیں۔

    لندن میں ان کے بار میں ایسے لوگ بھی آتے تھے جن کا ادب، آرٹ اور فلم وغیرہ سے تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا، ایک نوجوان ڈائریکٹر، جو خاصا نام بنا چکا تھا، اس نے ایک رسالے پر میری تصویر دیکھی تو پوچھا کہ یہ تصویر کیوں چھپی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ ادبی رسالہ ہے اور میں ادیب ہوں۔

    اس نے یہ سنا تو مجھ سے میری تخلیقات اور موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں ایک ناولٹ بھی لکھ رہا ہوں۔ اس کے پوچھنے پر میں نے مختصراً کہانی بھی بتا دی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے ایک صفحے کا سناپسس لکھوایا اور فلم ساز کے پاس لے گیا۔ اسے کہانی پسند آئی اور یوں اس پر فیچر فلم بن گئی۔

  • اسپین: 87 سالہ فکشن نگار نے اڑن طشتری بنا ڈالی

    اسپین: 87 سالہ فکشن نگار نے اڑن طشتری بنا ڈالی

    میڈرڈ: اسپین کے 87 سالہ فکشن نگار نے ایک ان دیکھے سیارے کی سمت سفر کے لیے اڑن طشتری بنا ڈالی.

    تفصیلات کے مطابق اپنی کہانیوں‌ میں‌ پیش کردہ تصورات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے لوکو بیلسٹیروز نامی ادیب نے اپنے گھر کے لان میں‌ اڑن طشتری تیاری کر لی.

    لوکو بیلسٹیروز کا کہنا تھا کہ مرنے سے پہلے وہ سیارہ دیکھنا چاہتا ہوں، جس کا تصور کیا، جو میرے تخیل میں‌ ہے.

    یہ اڑن طشتری برسوں کی محنت اور مہارت سے تیار کی گئی ہے، جو ان اڑن طشتریوں کے بے حد قریب ہے، جنھیں ہم فلموں‌ میں دیکھتے آئے ہیں.

    یہ فقط ایک شوقیہ کاوش نہیں، اس میں‌ انجن نصب ہے اور تمام درکار مشینیں لگی ہوئی ہیں. لوکو بیلسٹیروز کی اس انوکھی تخلیق میں‌ 32 سولر پینل ہیں اور یہ سورج کی توانائی کو کام میں‌ لائے گی.

    بزرگ فکشن نگار نے اب تک اسے اڑانے کا تجربہ نہیں‌ کیا. ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے انھیں اسپینی قانون کے مطابق حکومتی اجازت درکار ہے.


    مزید پڑھیں: آئر لینڈ کے ساحل پر اڑن طشتریوں کی پرواز


    اڑن طشتری کا قطر 20 میٹر ہے، جب کہ اس کا وزن بارہ سو کلو ہے. اس پر لگ بھگ گیارہ لاکھ ڈالر خرچ ہوئے ہیں.

    موجد جس سیارے کا سفر کرنے کے خواہش مند ہیں، اسے 10/7کا نام دیا گیا ہے. توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ مستقبل قریب میں‌ لوکو بیلسٹیروز کی اس سیارے پر مبنی کہانی کو فلم کے قالب میں‌ ڈھالا جائے گا.