Tag: فہمیدہ ریاض

  • فہمیدہ ریاض جنھوں نے شعور کی بہار کے ہر مخالف کو ’پتّھر کی زبان‘ میں‌ جواب دیا

    فہمیدہ ریاض جنھوں نے شعور کی بہار کے ہر مخالف کو ’پتّھر کی زبان‘ میں‌ جواب دیا

    ’’جب تک غربت ہے، فہمیدہ ریاض کی شاعری زندہ رہے گی۔‘‘ مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب نے یہ بات فہمیدہ ریاض کے لیے کہی تھی۔ آج فہمیدہ ریاض‌ کی برسی ہے۔

    فہمیدہ ریاض ترقی پسند ادیب، شاعر ہی نہیں، سماجی کارکن اور پاکستان میں‌ حقوقِ نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ اس راستے میں فہمیدہ ریاض نے مشکلات ہی نہیں‌ جھیلیں‌ بلکہ کئی تنازعات کا بھی سامنا بڑی ہمّت اور بہادری سے کیا۔ انھیں اپنی نظموں‌ اور تحریروں میں بعض‌ حقیقتوں کو کھل کر بیان کرنے کی وجہ سے عریاں نگاری کا الزام بھی سہنا پڑا۔ خالدہ حسین نے ان کے متعلق کہا تھا،’’فہمیدہ ریاض وہ پہلی شاعرہ ہیں، جنھوں نے عورت کا اصل (Archetypal) تشخص اُجاگر کیا ہے۔ وہ عورت کے منصب اور مسائل کو جسمانی اور روحانی سرشاری کے ساتھ منسلک دیکھتی ہیں۔ زندگی کے تسلسل کے لیے عورت کا کردار صرف جبلتی نہیں بلکہ ایک ماورائی جہت بھی رکھتا ہے۔ فرید الدین عطار کی سات سو برس قدیم فارسی کلاسِک’منطق الطیر‘ پر مبنی ایک خوبصورت تمثیلی کہانی ’قافلے پرندوں کے‘ لکھنا روحانی واردات سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ رومی کی غزلیات کی سرمستی اور روحانی کیفیت کو اردو کا پیرایہ دینا خود اس سرخوشی میں گلے گلے ڈوبنے کا اشاریہ ہے۔ ان کے نزدیک تخلیقی فن میں اس کا اظہار پانا ایک فطری عمل بلکہ فن کا فریضہ ہے۔ ان کی شاعری کا رنگ انقلابی ہے مگر وہ نعرہ باز ہرگز نہیں۔ تحریر میں جمالیات کا ایک پورا نظام ہے اور الفاظ میں حسیت کی شدت ہے۔‘‘

    فہمیدہ ریاض نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور شیخ ایاز کی کتابوں کو سندھی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا۔ فہمیدہ ریاض پاکستان کی ان ادبی شخصیات میں سے ایک ہیں‌ جنھیں ان کے تانیثی خیالات اور فن و تخلیق کی بدولت عالمی سطح پر بھی پہچان ملی۔

    فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945ء کو میرٹھ، برٹش انڈیا کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اس کنبے نے پاکستان میں‌ حیدر آباد سندھ میں اقامت اختیار کی۔یہاں فہمیدہ ریاض‌ کی عمر چار برس ہی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور والدہ نے ان کی پرورش کی۔ حیدرآباد میں فہمیدہ نے سندھی زبان سیکھی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں فہیمدہ نے پہلی نظم لکھی، جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے میں شائع ہوئی۔ فہمیدہ ریاض زرخیز ذہن کی مالک اور بیدار مغز خاتون تھیں۔ دورانِ تعلیم ہی انھوں نے طلبہ سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا اور 60 کی دہائی میں وہ طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف لکھتی رہیں۔ پاکستان میں ضیاء کے دور میں انھیں‌ حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی اور بعض‌ فیصلوں‌ پر تنقید کے بعد 10 سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دور میں‌ فہمیدہ ریاض نے بھارت میں جلاوطنی کاٹی اور تقریباً سات سال بعد وطن واپس آئیں۔

    فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ اس وقت شایع ہوا جب ان کی عمر 22 سال تھی۔ اس کا نام ’پتھر کی زبان‘ تھا اور یہ 1967ء میں شائع ہوا۔ ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973ء میں شادی کے بعد شایع ہوا۔ اس وقت فہمیدہ ریاض انگلینڈ میں مقیم تھیں اور پھر تیسری کتاب ’دھوپ‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئی۔ فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں۔ انھیں‌ حکومتِ پاکستان اور ادبی و انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔

    فہمیدہ ریاض‌ کا انتقال 21 نومبر 2018ء کو ہوا اور انھیں لاہور میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی دیگر تصانیف ’حلقہ مری زنجیر کا‘، ’ہم رکاب‘، ’ادھورا آدمی‘، ’اپنا جرم ثابت ہے‘، ’ میں مٹی کی مورت ہوں‘، ’آدمی کی زندگی‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

  • اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    اردو کی نامور شاعرہ و ادیبہ فہمیدہ ریاض لاہور میں سپردِ خاک

    لاہور: نامور شاعرہ، مترجم اور افسانہ نویس فہمیدہ ریاض کو لاہور کے ایک مقامی قبرستان میں سپردِ خا کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز نظم نگار اور افسانے لکھنے والی ترقی پسند 73 سالہ ادیبہ فہمیدہ ریاض گزشتہ روز انتقال کر گئیں تھیں، انھیں آج لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

    [bs-quote quote=”شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فہمیدہ ریاض کی نمازِ جنازہ میں ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات نے شرکت کی۔

    نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں معروف شاعر امجد اسلام امجد بھی شامل تھے، شاعروں اور ادیبوں نے فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

    فہمیدہ ریاض نے اپنی ادبی اور سماجی زندگی میں ملک میں جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور خواتین کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے جدوجہد کی۔

    خیال رہے فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا۔


    یہ بھی پڑھیں:  نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں


    ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔

    فہمیدہ ریاض کے انتقال پر آج پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی اظہارِ افسوس کیا۔

  • معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ عثمان بزدار

    معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کی ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘ عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ فہمیدہ ریاض منفرد اسلوب کی شاعرہ تھیں، ان کی ادبی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کے انتقال پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فہمیدہ ریاض منفرد اسلوب کی شاعرہ تھیں۔

    سردار عثمان بزادر نے کہا کہ مرحومہ کی ادبی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔

    دوسری جانب وزیرصحت پنجاب یاسمین راشد نے ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کے انتقال پرافسوس کا اظہارکیا ہے۔

    یاسمین راشد نے کہا کہ فہمیدہ ریاض حقوق نسواں کی ایک توانا آواز تھیں، ان کا انتقال اردو ادب کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔

    نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں


    اردو کی نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض گزشتہ رات انتقال کر گئی تھیں، ان کی عمر 73 سال تھی اور کافی عرصے سے شدید علیل تھیں۔

    فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں اور طالب علمی کے زمانے میں حیدرآباد میں پہلی نظم لکھی جو ’فنون‘ میں چھپی۔

    معروف شاعرہ کا پہلا شاعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا اور ان کا دوسر مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973 میں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں شائع ہوا جبکہ تیسرا مجموعہ ’کلام دھوپ‘ تھا۔

  • نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں

    نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں

    لاہور: اردو کی نامور شاعرہ اور ادیبہ فہمیدہ ریاض انتقال کر گئیں، ان کی عمر 73 سال تھی اور کافی عرصے سے شدید علیل تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی ممتاز شاعرہ اور فکشن نگار فہمیدہ ریاض لاہور میں جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں، وہ 28 جولائی 1945 کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔

    [bs-quote quote=”خواتین کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کے حوالے سے بھی مشہور تھیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    فہمیدہ ریاض کا تعلق بھارتی ریاست اُتر پردیش کے ایک ادبی خاندان سے تھا، ان کے والد ریاض الدین احمد ایک ماہرِ تعلیم تھے، تقسیم کے بعد ان کا خاندان حیدر آباد سندھ میں قیام پذیر ہوا تھا۔

    فہمیدہ ریاض شاعری میں اپنی تانیثی (فیمنسٹ) آواز کے لیے معروف تھیں، وہ اپنے غیر روایتی خیالات کے باعث اردو ادبی منظر نامے میں تیزی سے مقبول ہو گئی تھیں۔

    وہ خواتین کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کے حوالے سے بھی مشہور تھیں، جمہوریت کی خاطر انھیں جنرل ضیا الحق کے دور میں ملک بھی چھوڑنا پڑا تھا، ضیا الحق کے انتقال کے بعد وہ بھارت سے واپس پاکستان آئیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے


    فہمیدہ ریاض نے لندن سے فلم ٹیکنک میں ڈپلومہ بھی حاصل کیا، طالب علمی ہی کے زمانے میں حیدر آباد میں پہلی نظم لکھی جو معتبر ادبی پرچے ’فنون‘ میں چھپی۔

    ان کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘ 1967 میں آیا، تاہم جب ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ منظرِ عام پر آیا تو اس نے بولڈ نسائی اظہار کے باعث قارئین کو چونکایا۔

    ان کی شعری تصانیف میں پتھر کی زبان، بدن دریدہ، دھوپ، کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے، اپنا جرم ثابت ہے، ہم رکاب اور کلیات میں مٹی کی مورت ہوں شامل ہیں۔