Tag: فیدل کاسترو

  • کاسترو، جس کی انقلابی جدوجہد اور امریکا کی بے بسی تاریخ کا حصّہ ہے

    کاسترو، جس کی انقلابی جدوجہد اور امریکا کی بے بسی تاریخ کا حصّہ ہے

    یکم جنوری 1959ء کو فیدل کاسترو نے کیوبا کے عوام کے سامنے ایک بالکونی میں کھڑے ہو کر اپنے انقلاب اور اپنی فتح کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد ایک کریبیئن جزیرہ کمیونسٹ ملک میں تبدیل ہو گیا۔

    کیوبا پر اس وقت ایک آمر باتستا مسلط تھا جسے امریکا کی حمایت حاصل تھی۔ کیوبا وہ ملک ہے جو امریکا سے محض 145 کلومیٹر دور ہے اور فیدل کاسترو امریکا کے دشمنوں کی فہرست میں‌ شامل تھے جنھوں‌ نے امریکا کے حمایت یافتہ باتستا کو زیر کیا۔

    کاسترو کا سنہ پیدائش 1926ء ہے۔ کیوبا کے ایک امیر اور جاگیردار گھرانے کے فرد ہونے کے ناتے اگرچہ ان کی زندگی عیش و عشرت اور ہر سہولت سے آراستہ تھی، لیکن کاسترو نے یہ سب اپنی انقلابی فکر اور جنون پر قربان کر دیا۔ انھوں نے ایک نہایت مشکل اور کٹھن راستہ منتخب کیا۔ وہ اپنے سماج میں اونچ نیچ اور لوگوں کے مصائب دیکھ کر باغی ہوگئے اور گھر بار چھوڑ کر انقلابی جدوجہد شروع کی جو کام یاب رہی۔

    کیوبا میں باتستا کی حکومت میں عوام کی مشکلات بڑھ گئی تھیں اور بدعنوانی اور عدم مساوات کے علاوہ قانون حکام اور امرا کے تابع تھا جس میں سزا کا تصوّر صرف عوام کے لیے تھا۔ جرائم عام تھے اور جسم فروشی، جُوا اور منشیات کیوبا کے لیے سرطان بن چکی تھی۔

    کاسترو نے اسے بدلنے کا عہد کیا اور امریکا کی پشت پناہی سے حکومت میں‌ آنے والے کو آمر کہتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کردیا، ان کے ہم خیال اور ساتھی بھی ان کے حکم پر پہاڑوں میں جمع ہوگئے اور بغاوت کردی جس میں‌ ناکامی کے بعد کاسترو کو 1953ء میں جیل بھیج دیا گیا، دو سال بعد انھیں‌ عام معافی دے دی گئی اور ان کی رہائی عمل میں‌ آئی۔

    فیدل کاسترو نے جیل سے باہر آنے کے بعد دوبارہ جدوجہد کا آغاز کیا اور اس بار انھیں‌ اپنے وقت کے گوریلا لڑائی کے ماہر چی گویرا کا ساتھ اور مدد بھی حاصل تھی۔ 1956ء میں جو گوریلا جنگ انھوں نے شروع کی اس میں بتیستا کو شکست دینے کے بعد کاسترو کیوبا کے حکم راں بنے۔

    1960ء میں کاسترو نے کیوبا میں وہ تمام کاروبار قومی ملکیت میں لے لیے جن سے دراصل امریکا مالی طور پر فائدہ سمیٹ رہا تھا۔ اس اقدام پر کیوبا کو تجارتی و اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فیدل کاسترو پر متعدد قاتلانہ حملے بھی ہوئے، لیکن وہ محفوظ رہے۔

    1960ء میں کاسترو نے اپنے دور میں‌ بے آف پگ میں سی آئی کی سرپرستی میں ہونے والی ایک بغاوت کو بھی ناکام بنایا۔ 1976 میں کیوبا کی قومی اسمبلی نے انھیں صدر منتخب کر لیا۔ تاہم بعد میں جہاں ان کے انقلاب کے زبردست حامی اور پرستار کیوبا میں موجود تھے، وہیں ان کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی بھی پیدا ہونے لگی۔ 80 کی دہائی کے نصف تک سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا جس میں کاسترو کا انقلاب بھی ڈوب گیا۔

    بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کاسترو کی طبیعت ناساز رہنے لگی تو 2008 میں وہ اپنی ذمہ داریوں سے الگ ہوگئے اور منظرِ عام سے بھی ہٹ گئے۔ کیوبا میں کمیونسٹ انقلاب کے اس سربراہ کا انتقال 2016 میں آج ہی کے دن ہوا۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت تقریباً نصف صدی تک رہی۔

    کاسترو کی نوجوانی کا زمانہ ہنگامہ خیز اور نہایت مصروف گزرا اور بعد کے برسوں میں اپنی حکومت، عوام اور عالمی سطح پر اپنی مخالفت، حمایت اور سازشوں سے نمٹنے رہے، لیکن کاسترو کو جب موقع ملا تو ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب بھی سامنے آئی۔ یہ کیوبا کے عظیم لیڈر اور ایک انقلابی کی وہ داستان تھی جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ اس میں‌ کاسترو نے کیوبا میں‌ آمر کے خلاف اپنی گوریلا جنگ سے متعلق تصاویر، نقشے اور اپنے لڑائی کے منصوبوں کا ذکر کیا ہے۔

    کاسترو کی کتاب میں ان کے پچپن کی یادداشتیں‌ بھی شامل ہیں جس میں‌ یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کیسے گوریلا جنگجو بنے۔ فیدل کاسترو وہ انقلابی لیڈر تھے جن کے بارے میں دنیا بھر میں‌ کتابیں شایع ہوئیں اور مشہور مصنّفین کے لاتعداد مضامین ان کی عام زندگی، انقلابی جدوجہد اور ان کے سیاسی سفر کے علاوہ بالخصوص امریکا اور کاسترو کی وہ کہانیاں سناتے ہیں جن پر ہمیشہ پردہ ڈالنے اور راز رکھنے کی کوشش کی گئی۔

  • کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    دنیا فیدل کاسترو کو ایک باغی اور ایسے انقلابی کے طور پر جانتی ہے جو امریکا کے دشمنوں کی فہرست میں‌ شامل تھے۔ وہ طویل عرصے تک اپنے وطن کے سربراہ رہے۔

    فیدل الیہاندرو کاسترو کا سنِ‌ پیدائش 1926ء ہے۔ وہ کیوبا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ جاگیردار گھرانے کے فرد تھے اور عیش و آرام کی ہر سہولت انھیں میسّر تھی، لیکن وہ اپنے سماج میں اونچ نیچ اور امتیاز اور لوگوں کے مصائب اور مفلسی کو دیکھ کر باغی ہوگئے اور انقلابی سوچ نے انھیں گھر بار اور ہر سہولت کو چھوڑ کر جدوجہد شروع کرنے پر آمادہ کرلیا۔

    اس وقت کیوبا پر فلجینسیو بتیستا کی حکومت تھی جن کا اقتدار عوام کی مشکلات بڑھاتا جارہا تھا اور ملک میں بدعنوانی اور عدم مساوات کے ساتھ ایسی فضا بن گئی تھی جس میں گرفت اور سزا صرف عوام کا مقدّر بن رہی تھی۔ جرائم عام تھے اور جسم فروشی، جوئے بازی اور منشیات کی اسمگلنگ کا کوئی علاج نہ تھا بلکہ کیوبا ایسے کاموں کا گڑھ بن گیا تھا۔

    کاسترو نے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور ایسے ساتھی اکٹھے کیے جو سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں میں اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا مہم شروع کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت کردی۔ 1953ء میں انھیں بتیستا حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی سربراہی کرنے پر جیل جانا پڑا لیکن دو سال بعد عام معافی کے تحت رہا ہوگئے۔

    فیدل کاسترو نے 1956 حکومت کے خلاف عظیم باغی اور گوریلا لڑائی کے ماہر چی گویرا کے ساتھ مل کر ایک بار پھر مقصد کے حصول کے لیے اپنی لڑائی کا آغاز کیا اور 1959 میں بتیستا کو شکست دینے کے بعد کیوبا کے وزیر اعظم بنے۔

    1960 میں کاسترو نے کیوبا میں موجود ان تمام کاروباروں کو قومی ملکیت میں لے لیا جو دراصل امریکا کی ملکیت تھے۔ اس پر امریکا نے کیوبا پر تجارتی و اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ انھیں قتل کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، لیکن وہ ہر بار بچ نکلنے میں کام یاب ہوگئے۔

    1960 میں انھوں نے بے آف پگ میں سی آئی کی سرپرستی میں ایک بغاوت کو بھی ناکام بنایا۔ 1976 میں کیوبا کی قومی اسمبلی نے انھیں صدر منتخب کرلیا۔ فیدل کی تمام زندگی گویا محاذ پر گزری۔ لیکن ایک وقت آیا جب کیوبا کے عوام بدترین حالات سے دوچار ہوئے اور جہاں انھیں چاہنے والے موجود تھے، وہیں ان کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا جانے لگا۔ 80 کی دہائی کے نصف تک سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا جس میں کاسترو کا انقلاب بھی ڈوب گیا۔

    کاسترو کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ 2008 میں وہ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر منظرِ عام سے ہٹ گئے تھے۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت تقریباً نصف صدی تک رہی اور سابق صدر اور کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ نے 2016 میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ ان کی عمر 90 سال تھی۔