Tag: فیروز شاہ تغلق

  • سلطان محمد بن تغلق: تاریخ کی ایک متنازع اور متضاد شخصیت

    سلطان محمد بن تغلق: تاریخ کی ایک متنازع اور متضاد شخصیت

    سلاطینِ دہلی کے معروف خاندانوں میں سے ایک تغلق خاندان تھا، جس نے طویل عرصے تک تخت سنبھالے رکھا اور حکم رانی کی۔ اس خاندان کے تین مشہور اور نام وَر سلطان گزرے ہیں جن میں‌ بانی حکم راں غیاث الدین تغلق شاہ، سلطان محمد بن تغلق شاہ اور سلطان فیروز شاہ تغلق شامل ہیں۔

    سلاطینِ دہلی کی تاریخ میں سلطان محمد تغلق شاہ سے زیادہ متنازع بادشاہ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اس کی شخصیت خامیوں اور خوبیوں کا ایسا مجموعہ تھی جنھیں الگ الگ کر کے دیکھنا مشکل کام ہے۔ ایک طرف تو وہ سخت گیر منتظم اور ترقی پسند بادشاہ مشہور تھا اور دوسری طرف اسے ایک سفاک اور بے رحم حکم ران بھی کہا جاتا ہے۔ محمد تغلق شاہ کو تعلیم یافتہ اور جدت پسند حاکم کہا جاتا ہے، مگر اس کے اکثر منصوبے اور مہمات ناکام رہیں۔ مؤرخین نے اسے اپنے مخالفین کو عبرت ناک اور غیر شرعی سزائیں دینے والا حکم ران بھی لکھا ہے۔

    یحییٰ بن احمد سرہندی سلطان محمد تغلق کی بادشاہت کے نتائج پر لکھتے ہیں: ’’اُمورِ سلطنت بالکل چوپٹ ہوگئے اور نظامِ مملکت مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ گیا، جب ایک طرف سے مملکت میں رونما ہونے والے فتنوں کا سدِ باب کرنے پر توجہ دی جاتی تو دوسری طرف سے فتنوں کا دروازہ کھل جاتا۔ جب ایک طرف ملک میں امن و امان برقرار کرنے کا خیال اس (سلطان) کے دل میں آتا تو دوسری طرف کوئی زبردست خلل واقع ہوجاتا اور وہ (اپنی تدبیروں کے الٹا ہوجانے پر) حیران و پریشان ہو کر رہ جاتا۔ سلطنت کی بنیاد جو کہ گزشتہ بادشاہوں نے ڈالی تھی پوری طرح متزلزل ہوگئی۔ وہ جس کام کا تہیہ کر لیتا تھا (اس کے نتیجے میں) اختلالِ مملکت، نقصانِ دین، اپنی تشویش، ملک داری اور دست گاہِ شہریاری میں سے (اس کے پاس) کچھ بھی باقی نہ رہا۔‘‘

    سلطان محمد بن تغلق کی ذات و صفات اور اس کے طرزِ حکم رانی پر اگرچہ مؤرخین میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن اسے ایک بہادر، جری اور ظالم سپہ سالار کہا گیا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو معمولی جرائم پر بھی درد ناک سزائیں دیتا۔ کہتے ہیں محل کے سامنے شاید ہی کوئی دن گزرتا جب کسی انسان کی لاش نہ لٹک رہی ہوتی۔ سلطان کی زندگی میدانِ جنگ اور برسرِاقتدار اس کا زیادہ تر وقت بغاوتوں کو کچلنے کی منصوبہ بندی میں صرف ہوا۔

    سلطان محمد بن تغلق نے مملکتِ ہند اور چین کے درمیان حائل علاقہ قراچل فتح کرنے کے لیے 80 ہزار سواروں پر مشتمل لشکر ترتیب دیا۔ اس مہم کامقصد کیا تھا؟ مذکورہ اَمر میں مؤرخین میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ وہ چین فتح کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ وہ قراچل علاقے کی عورتوں کو اپنے حرم میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہ اَمر سلطان کے کردار کے تمام جائزوں کے برخلاف ہے۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ پہاڑی علاقے کے سرداروں کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے زیرِ اثر لانا چاہتا تھا۔ یہ رائے معتبر ہے کیونکہ اشوکِ اعظم کے بعد وہ واحد حکم ران تھا کہ جو’’جنوبی ہند اور شمالی ہند ایک اکائی‘‘ کے نظریہ کا علم بردار تھا۔ یحییٰ بن احمد سرہندی کے مطابق ’’اس نے اپنے سواروں کو حکم دیا کہ وہاں سے جب وہ نشیبی علاقے میں آئیں تو واپسی کے راستے میں (سلسلۂ مواصلات برقرار رکھنے کے لیے) چوکیاں بنائیں تاکہ لوٹتے وقت دشواری نہ ہو۔ جب لشکر وہاں پہنچا تو حسبِ دستور چوکیاں قائم کی گئیں اور سارا لشکر سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل (بھی) ہو گیا لیکن رسد کی کمی اور راستے کی دشواری اِس پر غالب آئی۔ جو چوکیاں قائم ہوئیں تھیں اُن پر پہاڑی لوگوں نے قبضہ کرکے سب چوکیداروں کو قتل کر دیا۔ وہ لشکر جو کہ سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل ہوا تھا سارے کا سارا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اکثر سردار گرفتار ہوگئے اور کافی عرصہ تک (وہاں) کے راجاؤں کی قید میں رہے۔‘‘

    مہم جوئی کے اخراجات اور بے جا فیاضی کے سبب جب شاہی خزانہ خالی ہوگیا تو سلطان محمد بن تغلق نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سونے کے سکّوں کی جگہ تانبے کے سکّے رائج کرنے کا حکم دیا۔ اس غلط فیصلے کے مضر اثرات نے سلطان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔ فریبی لوگوں نے شہروں اور قصبوں میں ٹکسال قائم کر کے دھڑا دھڑ تانبے کے سکّے بنائے اور ان کے عوض سونا، چاندی، گھوڑے، ہتھیار اور دیگر قیمتی اشیا خریدنا شروع کر دیں۔ ایسا کرنے کا منطقی نتیجہ کساد بازاری ہی تھا جس کے بعد سلطان کو ایک بار پھر شاہی فرمان جاری کرنا پڑا کہ لوگ تانبے کے سکّے شاہی خزانے میں جمع کروا کے سونے کے سکّے حاصل کریں۔ اس سے شاہی خزانے کا بھرکس نکل گیا۔

    سلطان محمد بن تغلق نے دکن میں دَیو گری کا شہر آباد کیا جسے بعد ازاں دولت آباد کہا جانے لگا اور پھر اسے سلطنت کا نیا انتظامی شہر قرار دیا۔ اس کے بعد فرمان صادر کیا کہ دہلی اور مضافات کے تمام باشندوں کو کارواں در کارواں دولت آباد میں منتقل کیا جائے اور ان کے لیے مکانات خریدنے کے لیے شاہی خزانے سے پیسے دیے گئے۔ کہتے ہیں کہ اس اَمر سے دہلی شہر ایسا اجڑا کہ چند دنوں بعد یہاں سے بلّی اور کتّے کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی نہ دیتی تھیں۔ ایسے میں اوباش لوگ دہلی میں داخل ہوگئے اور جو شہری یہاں رہ گئے تھے ان کو لوٹ لیا گیا لیکن دوسری جانب تمام اطرافی قصبات سے علماء اور مشائخ تک کو دولت آباد میں بسایا گیا۔ حالانکہ دہلی ایک سو ساٹھ سال سے سلطنت کا دارُالحکومت چلا آ رہا تھا۔ دہلی کی بربادی اور دولت آباد کی آبادی بھی سلطان کا غلط فیصلہ تھا۔

    1290ء کو ملتان میں پیدا ہونے والا یہ تغلق حکم ران بادشاہ غیاث الدّین تغلق کا بیٹا تھا جو 1351ء میں ٹھٹھہ میں بیماری کے بعد وفات پاگیا۔ تاریخِ وفات میں اختلاف ہے۔ اکثر مؤرخین نے 20 مارچ اس کی تاریخِ وفات بتائی ہے۔

    سلطان محمد بن تغلق کی وفات کے بعد اس کا چچا زاد بھائی فیروز تغلق سلطان بنا اور سلطنتِ دہلی میں اسے امرا نے بخوشی قبول کر لیا۔

  • بیمار بادشاہ کی دیکھ بھال نے فیروز شاہ کو ریاست کا سلطان بنا دیا

    بیمار بادشاہ کی دیکھ بھال نے فیروز شاہ کو ریاست کا سلطان بنا دیا

    ہندوستان میں سلطان غیاث الدین تغلق نے دہلی پر حکومت قائم کی تھی جس کے خاندان کا ایک مشہور حکم راں فیروز شاہ تغلق تھا۔ اس کا دور 1351ء سے شروع ہوا اور 1388ء میں‌ آج ہی کے دن اس کی وفات تک جاری رہا۔

    وہ محمد تغلق کا چچا زاد بھائی تھا جس کی بیماری کے دوران فیروز شاہ نے اس کی خوب تیمار داری کی جس سے متاثر ہو کر محمد تغلق نے اسے اپنا جانشین نام زد کر دیا تھا۔ کہتے ہیں فیروز شاہ نے بھی محمد تغلق کے بعد ملک میں ابتری اور بد انتظامی کو بہت اچھے انداز سے ختم کر کے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کر دکھایا۔

    فیروز شاہ تغلق کے باپ کا نام سپہ سالار رجب تھا جو سلطان غیاث الدین تغلق کا بھائی تھا۔ فیروز شاہ سات سال کا تھا جب اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد تغلق شاہ نے ہی اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی۔

    جب فیروز شاہ تخت نشین ہوا تو اس وقت وہ کوئی پچاس برس کا تھا۔ فیروز شاہ کو مؤرخین نے ایک عالم فاضل اور نیک انسان لکھا ہے۔ عدل اس کے کردار کی نمایاں خوبی تھی۔

    فیروز شاہ نے 40 سال کے قریب حکم رانی کی اور بوقتِ وفات 90 سال کا تھا۔

    بادشاہ کے خود تحریر کردہ حالات ایک کتاب میں موجود ہیں جو کہ فتوحات فیروز شاہی کے نام سے مشہور ہے۔

  • فیروز شاہ تغلق کا بسایا ہوا وہ شہر جسے شیرازِ ہند بھی کہا جاتا ہے

    فیروز شاہ تغلق کا بسایا ہوا وہ شہر جسے شیرازِ ہند بھی کہا جاتا ہے

    ہندوستان کے تاریخی شہر کو جون پُور(جونپور) کو فیروز شاہ تغلق نے بسایا تھا۔ اس حکم راں نے اپنے چچا زاد بھائی جونا شاہ کے نام پر 1361ء یہ شہر آباد کیا تھا۔

    چودھویں صدی عیسوی کے اواخر میں ملکُ الشّرق خواجہ جہاں ملک سرور نے اسے ’’دارُ السرور‘‘ کا نام دیا۔ اس کے ڈھائی سو سال بعد مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اسے ’’شیرازِ ہند‘‘ اور ’’دارُ العلم‘‘ جیسے لقب سے نوازا۔

    تاریخی تذکروں میں لکھا ہے کہ فیروز شاہ تغلق اپنے دورۂ بنگال کے بعد دہلی واپس جارہا تھا تو موسم کی صعوبتوں سے بچنے کے لیے اس نے کچھ مدّت ظفرآباد میں قیام کیا۔ اس دوران دریائے گومتی کی دوسری جانب شمال مغرب کی سمت اس کو ایک ٹیلہ نظر آیا جسے جائے وقوع کے اعتبار سے اس نے بہت پسند کیا اور یہاں قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دے دیا اور اسی قلعہ کے دامن میں شہر جونپور آباد کیا۔

    وامق جون پوری لکھتے ہیں کہ فیروز شاہ تغلق نے نہ صرف اس شہر کو آباد کیا بلکہ اس کو مختلف علوم و فنون کا مرکز بنایا۔ ’’شہر کو با وقار اور با رونق بنانے کے لیے دور دراز مقامات سے عالموں، دانشوروں اور صنعت گروں کو بلوا کے یہاں بسایا۔ اس طرح تھوڑی ہی مدت میں جونپور ترقی کر کے ہندوستان کے مشہور و ممتاز شہروں میں شمار ہونے لگا۔‘‘

    چودھویں صدی عیسوی میں جون پور علم و فن کا مرکز اور گہوارہ تھا جہاں مصر و عراق، ایران و عرب سے طالبانِ علم چلے آرہے تھے۔

    مذہبی تحریکات ہوں یا ادبی و سماجی خدمات جون پور کو ہر میدان میں سبقت و برتری حاصل رہی ہے۔

    فنِ موسیقی سے بھی جون پور کے شرقی بادشاہوں خصوصاً حسین شاہ شرقی کو خاص دل چسپی تھی اور اس میدان میں بھی مختلف ایجادات کا سہرا حسین شاہ مشرق کے سر جاتا ہے۔

    بقول قرۃ العین حیدر، ’’حسین شاہ شرقی کو جب بھی دلی کے سلطان بہلول اور سلطان سکندر سے جنگ کرنے سے فرصت ملتی وہ اپنا طنبورہ لے کے بیٹھ جاتا۔ راگوں کی دنیا کی نئی نئی سیاحتیں کرتا یا قدیم نسخوں کی ورق گردانی میں مصروف رہتا۔‘‘

    حسین شاہ شرقی نے بہت سے راگ و خیال اور ساز ایجاد کیے۔ اسی کے عہد میں دھرپد کی جگہ ’’خیال‘‘ عام طور پر مقبول ہوا۔ اسی دور میں موسیقی کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’شرومنی‘‘ کی تخلیق ہوئی۔ اس طرح بحیثیتِ مجموعی شرقی دورِ حکومت کو جون پور کی تاریخ کا سنہرا دور کہا جاسکتا ہے۔

    اردو ادب میں اشرف جہانگیر سمنانی سے رشید احمد صدیقی تک، سجاد ظہیر سے لے کر افتخار اعظمی تک، حفیظ جون پوری سے لے کر وامق جون پوری تک ایک طویل سلسلہ ہے جن سے جون پور کی ادبی فضا منوّر ہے۔

    (ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت پر تحریر کردہ ایک مضمون سے اقتباسات)