Tag: فیروز نظامی

  • فیروز نظامی: ایک بے مثل موسیقار

    فیروز نظامی: ایک بے مثل موسیقار

    موسیقار فیروز نظامی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنے فن اور لازوال دھنوں‌ کی بدولت بڑا نام و مقام پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر ریکارڈ کیے گئے نغمات کئی کام یاب اور سپر ہِٹ پاکستانی فلموں‌ میں‌ شامل ہوئے۔ فیروز نظامی روایتی فلمی موسیقار ہی نہیں تھے بلکہ فنِ موسیقی پر متعدد کتب کے مصنف بھی تھے۔

    آج پاکستان کے اس نام ور موسیقار کی برسی ہے۔ وہ 1975ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ ان کی عمر 65 سال تھی۔

    1910ء میں لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے فیروز نظامی نے اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا اور اسی عرصے میں موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے اور متعدد فلموں‌ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن، دوپٹہ اور غلام شامل تھیں۔ ممتاز گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    ان کی دھنوں پر گائے ہوئے مشہور فلمی نغمات میں‌ تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے، آج کی رات ، ساز دل پردرد نہ چھیڑ، تم زندگی کو غم کا فسانہ بنا گئے، چاندنی راتیں، سب جگ سوئے، ہم جاگیں، تاروں سے کریں باتیں….، بات ہی بات میں جی، چاندنی رات میں، جیا میرا کھو گیا….، روتے ہیں چھم چھم نین، بچھڑ گیا چین رے، روٹھ گیا میرا پیار…. شامل ہیں۔

    فیروز نظامی ایک مصنّف بھی تھے جنھوں نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں اور باریکیوں پر لکھا۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا ہو۔ فیروز نظامی کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات شامل ہیں۔

    موسیقار فیروز نظامی لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات

    آج پاکستان کے نام وَر موسیقار فیروز نظامی کا یومِ وفات ہے۔ انھیں‌ اپنے فن میں‌ ماہر اور بے مثل مانا جاتا ہے۔ وہ ایسے موسیقار تھے جس نے اپنے علم اور اس فن میں‌ مہارت و تجربات کو کتابی شکل بھی دی جس سے موسیقی کا شوق رکھنے والوں نے استفادہ کیا۔

    1975ء میں 65 سال کی عمر فیروز نظامی نے آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    1910ء میں لاہور کے ایک فن کار گھرانے میں‌ پیدا ہونے والے فیروز نظامی نے اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کیا اور اسی عرصے میں موسیقی کے اسرار و رموز بھی سیکھے۔ وہ اپنے ہی خاندان کے مشہور موسیقار استاد عبدالوحید خان کیرانوی کے زیرِ تربیت رہے۔

    1936ء میں جب لاہور سے آل انڈیا ریڈیو نے نشریات کا آغاز کیا تو فیروز نظامی وہاں بطور پروڈیوسر ملازم ہوئے۔ انھو‌ں نے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشنوں پر بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ تاہم تھوڑے عرصے بعد ریڈیو کی ملازمت چھوڑ کر بمبئی کی فلمی صنعت سے ناتا جوڑ لیا اور وہاں بھی خود کو منوانے میں‌ کام یاب رہے۔

    بمبئی میں ان کی ابتدائی فلموں میں بڑی بات، امنگ، اس پار، شربتی آنکھیں اور نیک پروین شامل تھیں۔ فیروز نظامی کی وجہِ شہرت شوکت حسین رضوی کی فلم جگنو تھی جس میں دلیپ کمار اور نور جہاں نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی بدولت فیروز نظامی کے فن و کمال کا بہت چرچا ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فیروز نظامی لاہور لوٹ آئے تھے جہاں انھوں نے متعدد فلموں‌ کے لیے لازوال موسیقی ترتیب دی۔ ان کی فلموں میں سوہنی، انتخاب، راز، سولہ آنے، سوکن اور غلام شامل تھیں۔ نام ور گلوکار محمد رفیع کو فلمی صنعت میں متعارف کروانے کا سہرا بھی فیروز نظامی کے سَر ہے۔

    فیروز نظامی ایک مصنّف بھی تھے جنھوں نے سُر اور ساز، دھن اور آواز کی نزاکتوں اور باریکیوں پر لکھا۔ ایسے موسیقار بہت کم ہیں‌ جنھوں‌ نے اس فن کو اگلی نسل تک پہنچانے اور موسیقی و گائیکی کی تعلیم و تربیت کے لیے تحریر کا سہارا لیا ہو۔ فیروز نظامی کی کتابوں‌ میں اسرارِ موسیقی، رموزِ موسیقی اور سرچشمۂ حیات سرِفہرست ہیں۔

    پاکستان کے اس نام وَر موسیقار کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔