Tag: فیس بک

  • واٹس ایپ میں ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائے جانے کا امکان

    واٹس ایپ میں ڈیجیٹل کرنسی متعارف کروائے جانے کا امکان

    فیس بک کمپنی کی نام میں تبدیلی کے بعد اس کی زیر ملکیت ایپس میں بھی تبدیلیوں اور نئی سہولیات کی رپورٹس سامنے آرہی ہیں، ایسی ہی ایک نئی سروس واٹس ایپ میں متعارف کروائے جانے کا امکان ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں میٹا (فیس بک) نے اپنا ڈیجیٹل والٹ نووی متعارف کروایا تھا، جو ایک ایسا بلاک چین پلیٹ فارم ہے جو ترسیلات زر میں مدد فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لیے چیلنج ثابت ہوگا۔

    اس ڈیجیٹل کرنسی کو صارفین والٹ میں سنبھال سکتے ہیں اور مقامی کرنسی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

    فیس بک اس والٹ کو اپنی ڈیجیٹل کرنسی ڈائم کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر اس کے لیے امریکی ریگولیٹرز کی منظوری کی ضرورت ہوگی۔

    اب رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ کمپنی کی جانب سے اس والٹ کو اپنی دیگر سروسز میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    واٹس ایپ کی اپ ڈیٹس پر نظر رکھنے والی سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبول میسجنگ سروس کی جانب سے نووی والٹ کو ایپ میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے، جس کی مدد سے امریکا میں صارفین ایپ سے نکلے بغیر براہ راست رقوم بھیج یا موصول کرسکیں گے۔

    اس سے پہلے بھی کمپنی نے اس ڈیجیٹل والٹ کو اپنے زیر ملکیت ایپس اور سروسز کا حصہ بنانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی مگر یہ پہلی مرتبہ ہے جب اسے کسی ایپ کا حصہ بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔

    رپورٹ میں اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا گیا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ واٹس ایپ میں صارفین اپنے بینک اکاؤنٹ کو ایڈ یا اپنے کارڈ کو لنک کرکے بینک اکاؤنٹ سے رقم نکال سکتے ہیں۔ اسی طرح اپنی ٹرانزیکشنز اور بیلنس کو بھی اس کی مدد سے دیکھ سکیں گے۔

    مگر فی الحال والٹ کو واٹس ایپ کا حصہ بنانے کا کوڈ ہی سامنے آیا ہے اور اس سروس کو بیٹا صارفین بھی استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ابھی صرف اندرونی ٹیسٹنگ کے لیے دستیاب ہے۔

  • میٹاورس کیا ہے؟ کیا یہ انٹرنیٹ کا مستقبل ہوگی؟

    میٹاورس کیا ہے؟ کیا یہ انٹرنیٹ کا مستقبل ہوگی؟

    امریکی ٹیکنالوجی کمپنی فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ وہ میٹاورس تیار کرنے کے لیے یورپ میں 10 ہزار افراد کی خدمات حاصل کرنے جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس پر لوگ انٹرنیٹ کے مستقبل کے طور پر بات کر رہے ہیں، لیکن یہ کیا ہے؟

    بظاہر یہ ورچوئل رئیلٹی کے سوپ اپ ورژن کی طرح لگ سکتا ہے، لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میٹاورس انٹرنیٹ کا مستقبل ہو سکتا ہے۔ درحقیقت وی آر ایسا ہی ہے، جیسے سنہ 1980 میں پہلے عام موبائل کے دور میں جدید اسمارٹ فون کی ایجاد تھی۔

    کمپیوٹر پر ہونے کے بجائے میٹاورس میں آپ ہر طرح کے ڈیجیٹل ماحول کو جوڑنے والی ورچوئل دنیا میں داخل ہوسکتے ہیں، اس کا احساس حقیقی دنیا کی طرح ہی ہوگا۔ اس میں سرحدوں سے پرے اور لامحدود سماجی زندگی کا احساس ہوگا۔

    موجودہ وی آر کے برعکس جو زیادہ تر گیمنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس ورچوئل دنیا کو عملی طور پر کسی بھی چیز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس میں کام، کھیل، کنسرٹ، سینما یا صرف گھومنے پھرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    دولت مند سرمایہ کاروں اور بڑی ٹیک فرمز میں میٹاورس کے بارے میں بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے اور اگر یہ انٹرنیٹ کا مستقبل ثابت ہوتا ہے تو کوئی بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ یہ احساس بھی ہے کہ پہلی بار یہ ٹیکنالوجی منظر عام پر آرہی ہے۔ وی آر گیمنگ اور کنیکٹیوٹی میں ترقی کے ساتھ اس کی ضرورت ہو سکتی ہے۔

    فیس بک نے میٹاورس کی تعمیر کو اپنی بڑی ترجیحات میں سے ایک بنایا ہے۔ اس نے ورچوئل رئیلٹی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، جس کی وجہ سے وہ حریفوں سے سستا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔

    یہ سماجی ہینگ آؤٹس اور کام کی جگہ کے لیے وی آر ایپس بھی بنا رہا ہے۔ اپنے حریفوں کو خریدنے کی تاریخ کے باوجود فیس بک کا دعویٰ ہے کہ میٹاورس ایک کمپنی راتوں رات نہیں بنائے گی اور اس نے تعاون کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

    اس نے حال ہی میں غیر منافع بخش گروپوں کی مالی اعانت میں 50 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ ذمہ داری سے میٹاورس بنانے میں مدد کی جا سکے، لیکن حقیقی میٹاورس آئیڈیا میں مزید 10 سے 15 سال لگیں گے۔

  • فیس بک کمپنی کا نام تبدیل ہونے کے بعد واٹس ایپ میں بھی تبدیلی

    فیس بک کمپنی کا نام تبدیل ہونے کے بعد واٹس ایپ میں بھی تبدیلی

    امریکی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی میٹا (فیس بک) کی زیر ملکیت میسجنگ ایپ واٹس ایپ میں تبدیلی کی جارہی ہے، کمپنی کے سربراہ مارک زکر برگ نے حال ہی میں کمپنی کا نام فیس بک سے بدل کر میٹا رکھا ہے۔

    فیس بک نے حال ہی میں اپنی پیرنٹ کمپنی کا نام فیس بک ان کارپوریٹڈ سے تبدیل کر کے میٹا ان کارپوریٹڈ کیا تھا اور اب واٹس ایپ میں بھی اس حوالے سے تبدیلی کردی گئی۔

    فیس بک کی ملکیت واٹس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کیے جانے کے وقت عام طور پر فرام فیس بک لکھا آتا تھا، تاہم اب اس میں تبدیلی کردی گئی۔

    واٹس ایپ سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ویب ایٹ انفو کے مطابق اب واٹس ایپ کے نئے ورژن میں فرام فیس بک کی جگہ فرام میٹا لکھا ہوا نظر آئے گا۔

    فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے 28 اکتوبر کو کمپنی کا نام تبدیل کر کے میٹا رکھا تھا اور اب مذکورہ کمپنی کی زیر ملکیت تمام ایپس اور ویب سائٹس کے اپڈیٹ ورژنز پر فرام فیس بک کے بجائے فرام میٹا کا پیغام لکھنا شروع کردیا گیا۔

    واٹس ایپ کے بعد اب جلد ہی انسٹاگرام، اوکولس اور خود فیس بک کی ایپلی کیشن پر بھی فرام میٹا لکھا ہوا نظر آئے گا۔

    کمپنی کے نئے نام سے اس کی ملکیت رہنے والی تمام ویب سائٹس اور ایپلی کیشن کے نام وہی رہیں گے اور وہ اسی طرح کام کرتی رہیں گی، جسے اب تک کرتی آئی ہیں۔

    البتہ مستقبل میں میٹا کمپنی نئی ٹیکنالوجیز اور ویب سائٹس سمیت ایپس متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس وجہ سے اس کا نام بھی تبدیل کیا گیا ہے۔

    میٹا کا مستقبل میں سب سے اہم کام میٹاورس نامی ورچوئل ریئلٹی کا انٹرنیٹ نظام بنانا ہے، جس کے لیے کمپنی اگلے پانچ سال میں یورپ بھر میں 10 ہزار افراد کو ملازمتیں بھی فراہم کرے گی۔

  • میٹا اسمارٹ واچ جو تصاویر اور ویڈیوز لے سکے گی

    میٹا اسمارٹ واچ جو تصاویر اور ویڈیوز لے سکے گی

    مارک زکر برگ کی کمپنی میٹا (پرانا نام فیس بک) ایسی اسمارٹ واچ تیار کررہی ہے جو تصاویر اور ویڈیوز لینے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔

    بلومبرگ کی رپورٹ میں میٹا اسمارٹ واچ کی ایک تصویر لیک کی گئی ہے جس میں یہ ڈیوائس ایپل واچ سے ملتی جلتی نظر آتی ہے، میٹا واچ میں ڈسپلے پر نوچ میں ایک کیمرا موجود ہے۔

    ایپ ڈویلپر اسٹیو موسر نے یہ تصویر کمپنی کی اس ایپ میں دریافت کی جو رے بین اسٹوریز اے آر سن گلاسز کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ اسی ایپ کو مستقبل میں یہ نئی اسمارٹ واچ کنٹرول کرنے کے لیے بھی استعمال ہوسکے گی۔

    راؤنڈ کارنر اور ایک کیمرے کے علاوہ یہ اسمارٹ واچ اسٹین لیس اسٹیل کیسنگ اور ڈی اٹیچ ایبل اسٹریپ سے لیس نظر آتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق ایپ کے کوڈ سے عندیہ ملا ہے کہ اس ڈیوائس کو میلان کا نام دیا جاسکتا ہے، جس سے ویڈیوز اور تصاویر لی جاسکیں گی جن کو کسی فون میں ڈاؤن لوڈ کیا جاسکے گا۔

    بلومبرگ نے بتایا کہ میٹا کو توقع ہے کہ ایک اسمارٹ واچ 2022 تک متعارف کرائی جاسکتی ہے مگر ابھی سب کچھ طے نہیں ہوسکا ہے۔

    مختلف رپورٹس کے مطابق فیس بک کی سرپرست کمپنی کی جانب سے پہلے ہی پراڈکٹ کی 3 جنریشن پر کام کیا جارہا ہے جن کو مختلف اوقات میں ریلیز کیا جائے گا۔

    ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ لیک تصویر ان میں سے کسی ایک اسمارٹ واچ کی ہے یا اسے لانچ بھی کیا جائے گا یا نہیں۔

  • فیس بک کے نام کی تبدیلی سے ایک گمنام کمپنی کی ویلیو آسمان پر پہنچ گئی

    فیس بک کے نام کی تبدیلی سے ایک گمنام کمپنی کی ویلیو آسمان پر پہنچ گئی

    مارک زکر برگ کی جانب سے فیس بک کمپنی کا نام بدل کر میٹا کیے جانے کے بعد ایک گمنام کمپنی کو بے حدا فائدہ ہوا اور اس کی مارکیٹ ویلیو اچانک کئی گنا بڑھ گئی۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق فیس بک نے 28 اکتوبر کو کمپنی کا نام بدل کر میٹا رکھ دیا اور اس کے نتیجے میں ایک گمنام کینیڈین صنعتی میٹریل کمپنی کے حصص کی قیمتیں بڑھ گئیں جو بظاہر نام کی مماثلت کا نتیجہ ہے۔

    فیس بک کی جانب سے پرانے نام کو الوداع کہہ کر نئے کو خوش آمدید کہنے پر میٹا میٹریل ان کارپوریشن کے حصص کی قیمتیں 29 اکتوبر کو ٹریڈنگ کے آغاز سے ہی 6 فیصد اضافہ ہوا جو چند گھنٹوں میں 26 فیصد تک پہنچ گیا۔

    اس کے برعکس فیس بک کے حصص کی قیمتوں میں محض 1.6 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    یہ کینیڈین کمپنی مختلف اقسام کی صنعتوں بشمول الیکٹرونکس اور ایرو اسپیس کے لیے استعمال ہونے والے میٹریلز کو ڈیزائن کرنے میں مہارت رکھتی ہے اور اس کی مارکیٹ ویلیو 1.3 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔

    یہ پہلا موقع نہیں جب ناموں کی مماثلت سے کسی کو فائدہ پہنچا ہو۔

    زوم ٹیکنالوجیز کمپنی کے حصص کرونا کی وبا کے دوران آسمان پر پہنچ گئے تھے جس کی وجہ اسی کے نام سے ملتی جلتی مقبول ویڈیو کانفرنسنگ سروس زوم کی مقبولیت تھی۔

    مگر یہ واضح نہیں اس بار ناموں کی مماثلت سے ایسا ہوا یا میم اسٹاک انویسٹرز نے دانستہ میٹا میٹریلز کے حصص کی قیمتوں کو پر لگائے۔ میٹا میٹریلز کے سی ای او جارج پالیکاراس نے بھی اس صورتحال پر پرمزاح تبصرہ کیا۔

    انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کی میٹا مٹیریل کی جانب سے میں فیس بک کا میٹا ورس میں پرجوش استقبال کرتا ہوں۔

    انہوں نے 28 اکتوبر کو اپنی کمپنی کی جانب سے کیے جانے والے ایک اعلان کی طرف توجہ دلائی جس میں ایک آن لائن ٹاک کا بتایا گیا تھا جس میں میٹا میٹریلز، فیس بک کے ورچوئل رئیلٹی ڈویژن اور دیگر عہدیداران شریک ہوں گے۔

    خیال رہے کہ فیس بک کی جانب سے نام میں تبدیلی یا ری برانڈنگ کا مقصد سوشل میڈیا نیٹ ورک کی جانب سے میٹا ورس کی اہمیت کو ظاہر کرنا بھی ہے جسے مارک زکر برگ نے انٹرنیٹ کا مستقبل قرار دیا ہے۔

    اس تبدیلی کے بعد اب فیس بک سائٹ یا ایپ اس کمپنی کا مرکز نہیں رہی بلکہ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی طرح ایک ذیلی شاخ بن گئی ہے مگر سوشل نیٹ ورک کا نام بدستور فیس بک ہی رہے گا۔

    مارک زکربرگ میٹا کے سی ای او اور چیئرمین ہوں گے یعنی مکمل کنٹرول ان کے پاس ہی ہوگا۔

  • فیس بک نے کمپنی کے نئے نام کا اعلان کردیا

    فیس بک نے کمپنی کے نئے نام کا اعلان کردیا

    فیس بک نے کمپنی کا نام بدل کا نیا نام ’میٹا‘ رکھنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں خبریں منظر عام پر آئی تھیں کہ فیس بک اپنا نام تبدیل کرنے جارہی ہے اب فیس بک نے سالانہ کانفرنس میں اپنی کمپنی کے نئے نام کا اعلان کردیا۔

    فیس بک نے کمپنی کا نام بدل کر نیا نام ’میٹا‘ رکھا ہے۔

    فیس بک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب ہمارا نام وہ ہے جو ہم کرتے ہیں، صارفین ورچوئل ماحول میں کام، بات چیت اور گیم کھیل سکیں گے۔

    فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کا کہنا تھا کہ یقین ہے میٹا موبائل انٹرنیٹ کا جانشین ہوگا، نئے ورژن میں صارفین محسوس کریں گے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

    زکربرگ کا کہنا تھا کہ نیا پلیٹ فارم صارفین کو ڈیجیٹل اسپیس مرضی کے مطابق بنانے کی اجازت دے گا، ڈیجیٹل آفس کو تصویروں، ویڈیوز اور یہاں تک کتابوں سے سجایا جاسکے گا۔

    رپورٹ کے مطابق فیس بک انتظامیہ نے اپنے میٹا پروجیکٹ میں 10 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے،  سابق ملازم کی جانب سےالزامات کے بعد فیس بک نے نام تبدیل کرنےاعلان کیا۔

    دی ورج کا کہنا تھا کہ مارک زکربرگ 28 اکتوبر کو کمپنی کی سالانہ کنیکٹ کانفرنس میں اس حوالے سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن وہ اس کا اعلان اس سے بھی پہلے کرسکتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ کمپنی کی خواہش ہے کہ سوشل میڈیا کے نام سے آگے بڑھ کر اس کی پہچان بنے۔

    اس ری برانڈنگ کے بعد ممکنہ طور پر نیلے رنگ کی فیس بک ایپ کو بھی کمپنی کی ملکیت میں موجود انسٹاگرام، واٹس ایپ، اوکولس اور دیگر کی طرح ایک ایپ کی طرح ایک سب برانڈ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔

    دی ورج کے مطابق فیس بک کے ترجمان نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔

    واضح رہے کہ فیس بک کے پاس پہلے سے ہی 10 ہزار سے زائد ملازمین ’اے آر گلاسز‘ جیسے ہارڈ ویئر بنانے پر کام کر رہے ہیں جو کہ مارک زکربرگ کے خیال میں بالآخر اسمارٹ فون کی طرح ہر جگہ ہو گا۔

    جولائی میں ، مارک زکربرگ نے دی ورج کو بتایا کہ ، اگلے کچھ سالوں میں ہم مؤثر طریقے سے صرف سوشل میڈیا کمپنی ہونے کے تاثر کو ختم کرکے ایک میٹاورس کمپنی ہونے کی پہچان قائم کریں گے۔

    یاد رہے کہ فیس بک نے کچھ دن پہلے ہی یورپ میں میٹاورس پر کام کرنے کے لیے مزید 10 ہزار ملازمین کی خدمات حاصل کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

  • فیس بک استعمال کرنے سے قبل بچوں‌ کے لیے بڑی شرط

    فیس بک استعمال کرنے سے قبل بچوں‌ کے لیے بڑی شرط

    سڈنی: آسٹریلیا میں اب فیس بک کے استعمال کے لیے بچوں کو والدین کی اجازت ضروری ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا میں ایک مجوزہ قانون کے تحت 16 سال سے کم عمر بچوں کو فیس بک اور انسٹاگرام میں لاگ ان ہونے کے لیے اپنے والدین کی اجازت درکار ہوگی۔

    اس قانون کا اطلاق فیس بک، انسٹاگرام، ریڈٹ، اونلی فینز، بومبل، واٹس ایپ اور زوم پر بھی ہوگا، ان تمام کمپنیوں کو صارفین کی عمر کا درست تعین کرنے اور والدین کی اجازت کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

    واضح رہے کہ آسٹریلیا میں پہلے ہی فیس بک اور انسٹاگرام استعمال کرنے کے لیے 13 سال سے زائد عمر ہونا ضروری ہے اور عمر کا صحیح تعین کرنے کے لیے مذکورہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں۔

    قانون کی خلاف ورزی کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیوں پر آسٹریلیا میں 20 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اور اب جرمانے کو بڑھا کر ایک کروڑ ڈالر کیا جا رہا ہے۔

    نئے قانون کا مقصد رضا مندی کے بغیر بچوں کو معلومات دینے کو روکنا ہے۔

    مجوزہ قانون میں کہا گیا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز کے رازداری کے موجودہ طریقے بچوں اور کمزور افراد کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں، بشمول اشتہاری مقاصد کے لیے ڈیٹا شیئر کرنا یا نقصان دہ ٹریکنگ، پروفائلنگ یا ٹارگٹڈ مارکیٹنگ۔

    اس قانون کے تحت دیگر بڑے آن لائن آپریٹرز جیسا کہ ایمازون، گوگل اور ایپل کے لیے بھی نئے اصول بنائے جائیں گے، جن کے 25 لاکھ سے زیادہ آسٹریلوی صارفین ہیں۔

  • ایک سے زائد اکاؤنٹس رکھنے والے صارفین فیس بک کے لیے درد سر بن گئے

    ایک سے زائد اکاؤنٹس رکھنے والے صارفین فیس بک کے لیے درد سر بن گئے

    کیا آپ کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جن کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک سے زیادہ اکاؤنٹس ہیں؟ اگر ہاں تو جان لیں کہ ایسے افراد فیس بک کے لیے آج کل درد سر بنے ہوئے ہیں۔

    امریکی روزنامے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق فیس بک کو آج کل ایک عجیب مشکل کا سامنا ہے اور وہ یہ جاننا ہے کہ اس کے پلیٹ فارم میں صارفین کی حقیقی تعداد کتنی ہے۔

    رپورٹ میں فیس بک کی داخلی دستاویزات کی بنیاد پر بتایا گیا کہ سوشل نیٹ ورک کو یہ تعین کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کہ اس کے متحرک صارفین کی تعداد کیا ہے کیونکہ متعدد افراد نے اپنے ایک سے زیادہ اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں۔

    رواں سال موسم بہار میں کمپنی کے اندر پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نئے اکاؤنٹس میں اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ یہ ایسے افراد کے ہوں گے جن کے پہلے ہی سوشل نیٹ ورک پر اکاؤنٹس ہیں۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فیس بک نے 5 ہزار حالیہ سائن اپس کی جانچ پڑتال کی تو دریافت ہوا کہ 32 سے 56 فیصد اکاؤنٹس ایسے صارفین نے بنائے جن کے پہلے بھی اس سوشل نیٹ ورک پر اکاؤنٹس تھے۔

    اسی طرح مئی 2021 کے ایک اور میمو میں مبینہ طور پر دریافت کیا گیا کہ امریکا میں عمر کی تیسری دہائی میں موجود متحرک صارفین کی تعداد اس عمر کی مجموعی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔

    اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ فیس بک کے روزانہ کی بنیاد پر متحرک صارفین کی تعداد زیادہ قابل اعتبار نہیں۔

    رپورٹ کے مطابق صارفین کی تعداد کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کمپنی کی جانب سے اشتہاری کمپنیوں سے شیئر کی جانے والی تفصیلات کے مستند ہونے پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    اس حوالے سے فیس بک کے ایک نمائندے نے بتایا کہ یہ کوئی انکشاف نہیں کہ ہم ایک سے زیادہ اکاؤنٹس والے صارفین پر تحقیق کررہے ہیں مگر اس رپورٹ میں مکمل کہانی بیان نہیں کی گئی۔

    نمائندے کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں ڈپلیکیٹ اکاؤنٹس کے تخمینے کو بدلا گیا ہے۔

    فیس بک کی جانب سے ایسے افراد کو بین کیا جاتا ہے جن کے متعدد ذاتی اکاؤنٹس ہوتے ہیں کیونکہ کمپنی خود کو حقیقی شناخت والا پلیٹ فارم قرار دیتی ہے۔

  • فیس بک سماجی کارکنوں اور صحافیوں کے لیے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کرے گا

    فیس بک سماجی کارکنوں اور صحافیوں کے لیے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کرے گا

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک مشہور شخصیات کے ساتھ ساتھ سماجی کارکنوں اور صحافیوں کے لیے بھی حفاظتی اقدامات میں اضافہ کرے گا جس کے تحت ان کے خلاف ہراسانی کی روک تھام ہوسکے گی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فیس بک کے گلوبل سیفٹی چیف نے کہا ہے کہ فیس بک انکارپوریشن اب سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو از خود عوامی شخصیات میں شمار کرے گی اور اس طرح ان پر ہراسانی اور بلنگ کے خلاف تحفطات میں اضافہ کیا جائے گا۔

    سوشل میڈیا کمپنی، جو نجی افراد کے مقابلے میں عوامی شخصیات پر زیادہ تنقیدی تبصرہ کرنے کی اجازت دیتی ہے، صحافیوں اور انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو ہراساں کرنے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کر رہی ہے جو کمپنی کے مطابق اپنے عوامی کردار کے مقابلے میں اپنے کام کی وجہ سے عوام کی نظروں میں ہیں۔

    فیس بک کے گلوبل سیفٹی چیف اینٹی گون ڈیوس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کمپنی حملوں کی ان اقسام کو بھی بڑھا رہی ہے جنہیں وہ اپنی سائٹس پر عوامی شخصیات پر کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ خواتین اور ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کے غیر متناسب حملوں کو کم کرنے کی کوشش کے ایک حصے کے طور پر سختیاں بڑھائی جائیں گی۔

    فیس بک اب شدید اور ناپسندیدہ جنسی مواد، توہین آمیز جنسی فوٹو شاپڈ تصاویر یا ڈرائنگ یا کسی شخص کی ظاہری صورت پر براہ راست منفی حملوں کی اجازت نہیں دے گا، جیسا کہ کسی عوامی شخصیت کی پروفائل پر منفی تبصرے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

    خیال رہے کہ فیس بک کو عالمی قانون سازوں اور ریگولیٹرز کی طرف سے اپنے مواد کے اعتدال کے طریقوں اور اس کے پلیٹ فارم سے منسلک نقصانات کی وسیع پیمانے پر جانچ پڑتال کا سامنا ہے جبکہ ایک وسل بلور کی جانب سے لیک کی گئی اندرونی دستاویزات گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی سماعت کی بنیاد بن گئیں۔

    فیس بک جس کے تقریباً 2.8 ارب ماہانہ فعال صارفین ہیں، عوامی شخصیات اور ان کی جانب سے یا ان سے متعلق پوسٹ کیے جانے والے مواد کے ساتھ کس طرح سلوک کرتی ہے، یہ ایک موضوع بحث بن چکا ہے۔

    حالیہ ہفتوں میں کمپنی کا کراس چیک سسٹم، جس کے بارے میں وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ کچھ ہائی پروفائل صارفین کو فیس بک کے معمول کے قوانین سے مستثنیٰ ہونے کا اثر نمایاں رہا ہے۔

  • فیس بک نفرت اور تشدد پر مبنی پوسٹس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے: سابق ملازمہ کا انکشاف

    فیس بک نفرت اور تشدد پر مبنی پوسٹس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے: سابق ملازمہ کا انکشاف

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کی ایک سابق ملازمہ نے انکشاف کیا ہے کہ فیس بک کمائی کی خاطر نفرت اور تشدد پر مبنی پوسٹس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فیس بک کی ایک سابقہ ملازمہ نے انکشاف کیا ہے کہ کمائی کی خاطر سوشل ویب سائٹ کا الگورتھم اس انداز کا بنایا گیا ہے کہ وہ پرتشدد اور نفرت انگیز مواد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

    فیس بک کی سابق ملازمہ فرانسس ہافن نے امریکی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیس بک کو صارفین کی ذہنی صحت یا فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف اپنی کمائی کو اہمیت دیتا ہے۔

    فرانسس ہافن کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ فیس بک، تشدد اور نفرت انگیز مواد سمیت غلط معلومات پر مبنی پوسٹس کو ہذف کرتا ہے یا انہیں ہٹا دیتا ہے، تاہم ایسا نہیں ہے۔ ان کے مطابق فیس بک صرف 5 فیصد تک نفرت انگیز جب کہ ایک فیصد سے بھی کم پرتشدد مواد کو ہٹاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وہ رواں سال کے آغاز تک فیس بک کی ٹیم کا حصہ تھیں، بعد ازاں وہ ان سے الگ ہوگئیں اور ماضی میں وہ گوگل اور پن ٹرسٹ جیسی ویب سائٹس کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں۔

    انہوں نے گوگل اور پن ٹرسٹ سے فیس بک کا موازنہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فیس بک ان سے زیادہ خطرناک اور پرتشدد مواد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

    سابق ملازمہ نے الزام عائد کیا کہ فیس بک کا الگورتھم اس طرح کا بنایا گیا ہے کہ وہ مبہم اور غلط معلومات کو فروغ دیتا ہے، تاکہ لوگ کافی دیر تک ویب سائٹ پر چیزوں کو سرچ کرکے حقائق جاننے کی کوشش کریں، کیوں کہ ایسے عمل سے اس کی کمائی بڑھتی ہے۔

    خاتون نے مذکورہ انکشافات حال ہی میں فیس بک کی جانب سے اندرونی طور پر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کے پس منظر میں کیے۔

    فیس بک کی اندرونی طور پر کی جانے والی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ انسٹاگرام نوجوانوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    مذکورہ تحقیق فیس بک کے زیر انتظام اندرونی طور پر 3 سال تک جاری رہی تھی جس میں دریافت کیا گیا تھا کہ انسٹاگرام نوجوان صارفین بالخصوص لڑکیوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج 2019 میں کمپنی کو پیش کیے گئے تھے جن میں دریافت کیا گیا کہ انسٹاگرام استعمال کرنے والی ہر 3 میں سے ایک نوجوان لڑکی کو باڈی امیج ایشو کا سامنا ہوتا ہے۔