Tag: فیس بک

  • کرونا وائرس ویکسین کے بارے میں جعلی خبروں کو روکنے کے لیے فیس بک سرگرم

    کرونا وائرس ویکسین کے بارے میں جعلی خبروں کو روکنے کے لیے فیس بک سرگرم

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے کرونا وائرس ویکسین کے بارے میں جعلی خبروں اور دعووں کی روک تھام کے لیے کام شروع کردیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق فیس بک نے کووڈ 19 کے بارے میں گمراہ کن تفصیلات کی روک تھام کی پالیسی کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اب ویکسینز کے حوالے سے جعلی دعوے ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے۔

    فیس بک کی جانب سے یہ اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب برطانیہ میں فائزر کی کرونا وائرس ویکسین کے استعمال ک منظوری دی جا چکی ہے جبکہ امریکا اور دنیا کے دیگر حصوں میں جلد ایسا کیے جانے کا امکان ہے۔

    اس سے قبل پالیسی میں بتایا گیا تھا کہ ایسی پوسٹس کو سوشل نیٹ ورک سے ہٹا دیا جائے گا جس میں وائرس کے بارے میں جعلی تفصیلات دی جائیں گی جو نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

    اب فیس بک نے اس پالیسی کو توسیع دی ہے اور اب ایسی پوسٹس کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا جن میں ویکسینز کے حوالے سے ایسے دعوے کیے جائیں گے جو تحقیقاتی نتائج کے متضاد ہوں گے۔

    فیس بک کی جانب سے ویکسینز کے حوالے سے سازشی خیالات جیسے ویکسینز میں مائیکرو چپس کی موجودگی کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا جبکہ ویکسین کے محفوظ ہونے، افادیت، اجزا یا سائیڈ افیکٹس کے بارے میں جعلی دعوے کرنے پر بھی صارفین کو کمپنی کے ایکشن کا سامنا کرنا ہوگا۔

    فیس بک کا کہنا تھا کہ پالیسی کا اطلاق راتوں رات نہیں ہوگا اور کووڈ 19 ویکسینز میں ارتقا کے ساتھ دعوؤں کی فہرست کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

    تاہم یہ واضح نہیں کہ اس پالیسی کو اختیار کرنے میں تاخیر کے نتیجے میں ویکسین کے حوالے سے پھیلنے والی گمراہ کن رپورٹس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کیسے ممکن ہوسکے گی۔

    برطانیہ کے حقائق جانچنے والے ادارے فل فیکٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ اس وقت جب کرونا وائرس ویکسین ممکنہ طور پر چند ماہ میں متعارف ہوسکتی ہے، اس کے حوالے سے گمراہ کن رپورٹس اور تفصیلات کی لہر ویکسین کے حوالے سے لوگوں کے اعتماد کو ختم کرسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ پروجیکٹ ماضی کی اس طرح کی مہمات سے سیکھے گئے سبق کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، تاکہ ہم اگلے بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکنے کے قابل ہوجائیں۔

  • کرونا ویکسین: ٹویٹر، فیس بک اور گوگل کا مشترکہ اہم قدم

    کرونا ویکسین: ٹویٹر، فیس بک اور گوگل کا مشترکہ اہم قدم

    کرونا ویکسینز کے بارے میں سازشی تھیوریز کے خلاف ٹویٹر، فیس بک اور گوگل نے اتحاد کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق تین بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، ٹویٹر اور گوگل نے کرونا وائرس کی ویکسینز کے حوالے سے گمراہ کن تفصیلات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    یہ کمپنیاں اپنے اس مقصد کے لیے دنیا بھر میں حقائق جانچنے والے اداروں اور حکومتی ایجنسیز کے ساتھ مل کر کام کریں گی، اور اینٹی ویکسین تفصیلات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے فریم ورک تیار کیا جائے گا۔

    حقائق جاننے والے ایک برطانوی ادارے فل فیکٹ کا کہنا ہے کہ چند ماہ میں کرونا ویکیسینز سامنے آ سکتی ہیں جس کے بعد آن لائن غلط اور گمراہ کن معلومات لوگوں کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، لہٰذا ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے یہ پروجیکٹ مرتب کیا گیا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق اس پراجیکٹ میں مذکورہ تین اداروں کے ساتھ امریکا، برطانیہ، اسپین، بھارت، ارجنٹائن اور افریقا کے حقائق جاننے والے ادارے بھی کام کریں گے۔

    ادارے فل فیکٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ گروپ گمراہ کن تفصیلات کی روک تھام کے لیے اصول مرتب کرے گا اور ایک مشترکہ فریم ورک تیار کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ ویکسینز کے خلاف سازشی تھیوریز کے خلاف پہلے ہی کام شروع ہو چکا ہے، فیس بک حال ہی میں ویکسینز کی حوصلہ شکنی پر مبنی اشتہارات پر پابندی کا اعلان کر چکا ہے، تاہم فیس بک گروپس اور انسٹاگرام پر اس کی تشہیر ابھی بھی ممکن ہے۔

    حال ہی میں ٹویٹر بھی کرونا ویکسینز کے حوالے سے غلط رپورٹس پر پابندی لگانے کا اعلان کر چکا ہے۔

  • فیس بک کا ‘سپریم کورٹ’: آئیڈیا حقیقت بن گیا!

    فیس بک کا ‘سپریم کورٹ’: آئیڈیا حقیقت بن گیا!

    سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک کے اپنے مواد کی نگرانی اور متنازع مواد کو ہٹائے جانے یا اسے ویب سائٹ پر موجود رکھنے کا جائزہ لینے کے لیے بنائے گئے اوور سائٹ بورڈ نے کام کا آغاز کردیا۔

    فیس بک نے رواں برس مئی میں ایک آزاد بورڈ تشکیل دیا تھا، جسے اوور سائٹ بورڈ کا نام دیا گیا ہے اور ابتدائی طور پر اس کے مختلف ممالک سے 20 ارکان منتخب کیے گئے ہیں۔

    بورڈ میں پاکستان سے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی سربراہ اور سماجی کارکن نگہت داد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

    ان کے علاوہ بورڈ میں یمن کی انسانی حقوق کی کارکن، صحافی اور نوبل انعام یافتہ خاتون توکل کرمانی، یورپی ملک ڈنمارک کی سابق وزیر اعظم ہیلے تھارننگ سکمدت، سابق امریکی فیڈرل کورٹ کے جج مائیکل مکنول، برطانوی اخبار دی گارجین کے سابق ایڈیٹر ایلن رسبریجر اور کولمبیا کی ماہر تعلیم کیٹالینا بوتیرو سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے 20 سیاستدان، ماہر قانون، ماہر تعلیم، ادیب، صحافی و انسانی حقوق کے علمبردار شامل ہیں۔

    مذکورہ بورڈ کو فیس بک کی سپریم کورٹ کہا جا رہا ہے، یہ بورڈ عدالت کی طرح ہی کام کرے گا اور اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنا فیس بک کے لیے لازم ہوگا۔

    یہ بورڈ قوائد و ضوابط میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر فیس بک پر شائع ہونے والے مواد کی نگرانی کرے گا اور یہ فیصلہ کرے گا کہ کس طرح کے مواد کو فیس بک پر شائع کیا جائے اور کس طرح کے مواد کو روکا جائے۔

    یہ بورڈ فیس بک سمیت انسٹا گرام پر مواد کو شائع کرنے کے حوالے سے بھی فیصلے کرے گا اور فیس بک کو ایسی سفارشات اور فہرست فراہم کرے گا کہ کس طرح کا مواد روکا جا سکتا ہے اور کس طرح کے مواد کو روکا نہیں جا سکتا۔

    مذکورہ بورڈ عالمی قوانین، انسانی حقوق اور ریاستی قوانین سمیت معلومات تک رسائی، اخلاقیات اور دیگر اہم مسائل کے تناظر میں یہ فیصلہ کرے گا کہ کس طرح کے مواد کو فیس بک یا انسٹاگرام پر شائع نہیں کیا جا سکتا اور کس طرح کے مواد کو روکا نہیں جا سکتا۔

    اوور سائٹ بورڈ کی شریک چیئرمین کیٹالینا بوتیرو مرینو کا کہنا ہے کہ ان کی باڈی اب درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہے تاہم ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ان کی ٹیم ہر شکایت کا جائزہ لینے کے قابل نہیں ہوگی۔

    کیٹالینا بوتیرو مرینو کے مطابق شکایات اور درخواستوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے اوور سائٹ بورڈ صرف اہم درخواستوں کا جائزہ لے گا اور ایسی درخواستوں کو دیکھا جائے گا، جن میں بہت زیادہ صارفین، ممالک یا خطے کے مقاصد منسلک ہوں گے۔

    ان کے مطابق یہ بورڈ خاص طور پر ایسی درخواستوں کو ہنگامی بنیادوں پر سنے گا جن میں کسی مواد کو ہٹائے جانے یا شائع کرنے کے معاملے پر بہت بڑی تعداد متاثر ہوگی۔

  • دوستوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کے لیے فیس بک کا شاندار فیچر

    دوستوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کے لیے فیس بک کا شاندار فیچر

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران مختلف سمجی رابطوں کی ویب سائٹس نے نئے نئے فیچرز متعارف کروائے ہیں جن کا مقصد صارفین کو اسمارٹ فون سے جوڑے رکھنا ہے تاکہ وہ گھر میں رہیں، ایسا ہی ایک فیچر فیس بک کی جانب سے بھی متعارف کروایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق فیس بک میسنجر میں ویڈیو کالز یا ویڈیو کانفرنسنگ ٹول رومز استعمال کرنے والے صارفین اب اپنے دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ اسمارٹ فونز پر ریئل ٹائم میں اکٹھے ویڈیوز دیکھ سکیں گے۔

    فیس بک کی جانب سے اس فیچر کا اعلان 14 ستمبر کو کیا گیا۔

    کمپنی کا کہنا تھا کہ اس فیچر کے ذریعے صارفین سوشل نیٹ ورک کے ویڈیو حب فیس بک واچ سے ویڈیوز اور شوز منتخب کر کے اپنے پیاروں کے ساتھ اکٹھے دیکھ سکیں گے۔

    یہ فیچر اینڈرائیڈ اور ایپل موبائل ڈیوائسز کے صارفین کے لیے دنیا بھر میں متعارف کروایا جارہا ہے۔

    یہ نیا فیچر فیس بک کی جانب سے ویڈیوز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران لوگ سماجی رابطے کی ویب سائٹس میں اپنا زیادہ وقت ویڈیوز دیکھتے ہوئے گزار رہے ہیں۔

    فیس بک کے مطابق اس وقت روزانہ 15 کروڑ سے زائد ویڈیو کالز میسنجر پر کی جارہی ہیں جس کو دیکھتے ہوئے میسنجر روم نامی ٹول متعارف کرایا گیا جس میں 50 افراد کو ویڈیو چیٹ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔

    فیس بک واچ ویڈیو حب میں مختصر اور طویل ویڈیوز موجود ہوتی ہیں اور انہیں دیکھنے کے لیے کسی سبسکرپشن کی بھی ضرورت نہیں، بنیادی طور پر یہ حب یوٹیوب کے مقابلے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

    دوستوں اور گھروالوں کے ساتھ اکٹھے ویڈیو دیکھنے کے لیے میسنجر ویڈیو کال یا میسنجر روم کو اسٹارٹ کر کے اور پھر سوائپ اپ کر کے مینیو میں جا کر واچ ٹوگیدر کو منتخب کرنا ہوگا۔

  • ‘فیس بک’ سے غلطی ہوئی: مارک زکربرگ کا اعتراف

    ‘فیس بک’ سے غلطی ہوئی: مارک زکربرگ کا اعتراف

    سان فرانسسکو: فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے تشدد آمیز پوسٹ کو تاخیر سے ہٹانے کی غلطی کا اعتراف کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی پولیس کی جانب سے جیکب بلیک کو گولی مارنے کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے ایک ہفتے بعد فیس بک کے سی ای او نے ملیشیا گروپ کے صفحے کو تاخیر سے ہٹانے کی غلطی قبول کر لی۔

    مارک زکر برگ نے کہا کہ جیکب بلیک کو گولی مارنے کے بعد پرتشدد مظاہروں کا آغاز ہوا جس کے بعد ملیشیا گروپ کے ایک پیج کے ذریعے لوگوں کو ورغلایا گیا۔

    انہوں نے اس غلطی پر معذرت نہیں کی اور کہا کہ ابھی تک فیس بک کو کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ کینوشا گارڈ کے صفحے یا اس مسلح ملیشیا کے اراکین کی جانب سے عوام کو تشدد کے لیے بھڑکایا گیا۔

    مارک زکر برگ نے فیس بک پر شیر کی گئی ایک ویڈیو میں کہا کہ کیونوشا گارڈ کے صفحے نے فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی تھی اور اسے بہت سے لوگوں نے لائک کیا تھا۔

    خیال رہے کہ فیس بک نے حالیہ ہفتوں میں ان گروپوں کی پوسٹوں کو ہٹانے یا اس پر پابندی لگانے کے لیے نئے رہنما خطوط اختیار کیے ہیں جن سے عوام میں تشویش بڑھ گئی ہے۔

    سوشل میڈیا کے بڑے ادارے نے اعتراف کیا ہے کہ رواں سال نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران بھی فیس بک کا غلط استعمال ہوسکتا ہے جس کے لیے احتیاط برتنے کی تیاری ضروری ہے۔

  • نامزد نائب صدر کے بارے میں نازیبا پوسٹ پر امریکی شہری ملازمت سے فارغ

    نامزد نائب صدر کے بارے میں نازیبا پوسٹ پر امریکی شہری ملازمت سے فارغ

    واشنگٹن: امریکا میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی نامزد امیدوار برائے نائب صدر کاملا ہیرس اپنی نامزدگی کے بعد جنسی و نسلی تعصب کی زد میں ہیں، ایسے ہی ایک مخالف شخص کو ان کے بارے میں نازیبا پوسٹ کرنے پر نوکری سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بل بپٹسٹ نامی شخص نے کاملا ہیرس کے حوالے سے نہایت نازیبا پوسٹ کی، ان کی اس پوسٹ پر ہزاروں افراد نے اپنا ردعمل دیا اور نہایت غم و غصے کا اظہار کیا۔

    سوشل میڈیا صارفین نے مذکورہ شخص کی پروفائل سے کھوج نکالا کہ وہ این بی اے (نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن) سے منسلک ہے اور فوٹوگرافر ہے جس کے بعد ایسوسی ایشن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔

    جلد ہی ایسوسی ایشن نے بھی اپنا ردعمل دیتے ہوئے مذکورہ پوسٹ کو شرمناک اور قابل مذمت قرار دیا۔

    باسکٹ بال ایسوسی ایشن کی جانب سے واضح کیا گیا کہ مذکورہ فوٹو گرافر ادارے کا باقاعدہ ملازم نہیں ہے اور آزادانہ طور پر (فری لانس) کنٹریکٹ پر کام کرتا ہے، تاہم مذکورہ پوسٹ کے بعد اس کا کنٹریکٹ منسوخ کردیا گیا ہے۔

    ایسوسی ایشن کے مطابق بل اب ادارے کا حصہ نہیں ہے۔

    سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے این بی اے کے اقدام کو بے حد سراہا گیا اور کہا گیا کہ خواتین کے بارے میں جنسی تعصب پر زیرو ٹالرینس کی پالیس اپنائی جانی چاہیئے۔

    بعد ازاں بل نے بھی اپنے فیس بک پر معذرت کی اور کہا کہ مذکورہ پوسٹ صرف ایک میم تھی جو ان کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتی۔

    انہوں نے ایسی حساس پوسٹ پر ناراض ہونے والوں کو درست قرار دیتے ہوئے ان سے دلی معذرت طلب کی۔

    خیال رہے کہ کاملا ہیرس امریکی تاریخ میں وہ پہلی سیاہ فام جنوبی ایشیائی خاتون ہیں جنہیں نائب صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے، کاملا کی والدہ کا آبائی وطن بھارت جبکہ والد کا تعلق جمیکا سے ہے۔

  • انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ کو بڑا جھٹکا

    انتخابات سے قبل صدر ٹرمپ کو بڑا جھٹکا

    سان فرانسسکو: سماجی رابطے کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاون سمیت 4 افراد کے فیس بک اکاؤنٹ بند کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات سے قبل لگا بڑا جھٹکا، فیس بک نے کمپنی کے پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاون راجر اسٹون سمیت 4 افراد کے اکاؤنٹ بند کر دیے۔

    اس حوالے سے فیس بک انتظامیہ نے بتایا کہ بند کیے گئے اکاؤنٹس کو کنیڈا، برازیل، اکواڈور، یوکرین اور جنوبی امریکی ممالک اور امریکا میں بنایا گیا تھا۔کمپنی کا کہنا تھا کہ ان اکاؤنٹ کو فرضی، غیرملکی مداخلت اور غیر معتبر مواد شائع کرنے سے متعلق پالیسیوں کے تحت بند کیا گیا ہے۔

    فیس بک کے مطابق اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث لوگ فرضی اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہیں جن میں سے کچھ کو ہمارے خودکار نظام نے پتہ لگا کر بند بھی کر دہا ہے۔

    کمپنی نے بتایا کہ ہماری جانچ کے مطابق راجر اسٹون اور ان کے معاون ایسی سرگرمیوں کو انجام دینے والے نیٹ ورک سے جڑے ہوئے تھے۔

  • فیس بک نے ایکشن لے لیا

    فیس بک نے ایکشن لے لیا

    سان فرانسسکو: سماجی رابطے کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے سفید فام قوم پرست تنظیم سے تعلق رکھنے والے کئی صارفین کے اکاؤنٹس بلاک کردیے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بلاک شدہ اکاؤنٹس کے ذریعے نسل پرستی کے خلاف تحریک کو بدنام کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی جس کے تحت ایکشن لیا گیا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن فیس بک اکاؤنٹس کو بلاک کیا گیا ان کا تعلق سفید فام قوم پرست سے تھا جو سیاہ فاموں کو بدنام کرنے اور حالیہ نسل پرستی کی تحریک کو دہشت گردی کی شکل دینے کی کوشش کررہے تھے۔

    بلاک کیے جانے والے اکاؤنٹس کے روابط سفید فام گروپ ’پراؤڈ بوائز‘ سے بھی رہے ہیں اور فیس بک انتظامیہ پہلے ہی مذکورہ گروپ کو خطرناک قرار دے چکی ہے۔

    فیس بک کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ ایکشن سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے لیا گیا۔ کمپنی نے پہلے سے ہی مذکورہ بلاک شدہ اکاؤنٹس کو نظر میں رکھا ہوا تھا۔

  • سوشل میڈیا کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ٹرمپ کا بڑا قدم

    سوشل میڈیا کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ٹرمپ کا بڑا قدم

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کر دیے، جس کے بعد سوشل میڈیا کو ضابطہ اخلاق کا پابند ہو گیا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ایک صدارتی حکم نامے کے تحت سوشل میڈیا کو ضابطہ اخلاق کا پابند کر دیا گیا ہے، اب فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر پلیٹ فارمز کو کئی معاملات پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے گا۔

    نئے حکم نامے کو پری وینٹنگ آن لائن سنسر شپ کا نام دیا گیا ہے، صدارتی حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل سوشل میڈیا کے خلاف شکایات پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیں گے۔

    امریکی صدر نے اس سلسلے میں پریس کانفرنس میں کہا کہ آج کا دن شفافیت کے حوالے سے بڑا دن ہے، سوشل میڈیا کی طاقت پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا بہت ضروری ہے، ٹوئٹر کا فیکٹ چیک کا مقصد سیاسی ہے، آج کا ایگزیکٹو حکم نامہ اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ ہے، کیوں کہ ٹوئٹر نیوٹرل پلیٹ فارم نہیں ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سیکشن 230 کے تحت سوشل میڈیا کے لیے نیا ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جا رہا ہے، سوشل میڈیا کی اجارہ داری کو ختم کریں گے، ٹیکس کا پیسا کسی سوشل میڈیا کمپنی کو نہیں جانے دیں گے، سوشل میڈیا چلانے والوں کے پاس بہت پیسا ہے، ان بڑی سوشل میڈیا کارپوریشنز کو اب امریکیوں کو تنگ نہیں کرنے دیں گے۔

    پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے دل چسپ سوال کیا کہ کیا آپ اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر رہے ہیں، ٹرمپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا، مجھے ٹوئٹر پر 186 ملین لوگ فالو کرتے ہیں، ٹوئٹر کو شٹ ڈاؤن کرنا پڑا تو قانونی طور پر کروں گا۔

    پریس کانفرنس کے دوران چین بھارت تنازعے پر انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دونوں مضبوط ممالک ہیں، میری بھارتی وزیر اعظم مودی سے بات ہوئی ہے، وہ اس وقت خوش نہیں، میں چین اور بھارت میں ثالثی کے لیے تیار ہوں، چین کے ساتھ تجارتی معاملے پر کل فیصلہ کرنے جا رہے ہیں۔

    دریں اثنا، امریکی صدر کی سب سے بڑی ناقد اسپیکر نینسی پلوسی نے نئے حکم نامے پر ملا جلا رد عمل دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز حقائق کے نام پر مال بنا رہے ہیں۔ ادھر نئے حکم نامے پر فیس بک اور ٹوئٹر کی انتظامیہ میں بھی اختلافات سامنے آئے ہیں۔

  • فیس بک کا 100ملین ڈالرز کی پیشکش کا اعلان

    فیس بک کا 100ملین ڈالرز کی پیشکش کا اعلان

    سان فرانسسکو: فیس بک نے عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث متاثر ہونے والے کاروبار کو سہارا دینے کے لیے 100 ملین ڈالرز کی گرانٹ دینے کا اعلان کردیا۔

    دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے ہلاکت خیز کورونا وائرس سے جہاں قیمتی جانی نقصان ہوا ہے وہیں عالمی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔

    عالمی تجارت کی معطلی، اقتصادی سرگرمیوں اور سیاحت میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے جس کے سبب بینکوں نے شرح سود میں کمی ہے۔

    کاروبار پر پڑنے والے منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیس بک نے امدادی پروگرام شروع کرتے ہوئے 100 ملین ڈالرز مختص کیے ہیں جو کہ 30ملکوں میں چھوٹےکاروبار کرنے والوں کو سہارے کے طور پر دیے جائیں گے۔

    فیس بک نے بلاگ پوسٹ میں کہا ہے کہ عالمی وبا کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں چھوٹی سی مالی معاونت آپ کو کتنا آگے لے جاسکتی ہے، اس چیلنجنگ صورتحال میں ہم 100 ملین ڈالرز کیش بطور گرانٹ اور ادھار دینے کے لیے پیش کر رہے ہیں۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش ان 30 ممالک کے لیے ہو گی جہاں فیس بک آپریٹ ہوتی ہے اور اس گرانٹ یا ادھار کے لیے آئندہ ہفتوں میں درخواستیں وصول کی جائیں گی۔