Tag: فیشن

  • سعودی ولی عہد کے جوتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے

    سعودی ولی عہد کے جوتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے

    ریاض: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک ملاقات میں پہنے ہوئے جوتے ٹویٹر صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئے، لوگوں نے ان کے اسٹائل اور پسند کو خوب سراہا۔

    اردو نیوز کے مطابق رواں ہفتے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے پہنے جانے والے گہرے بھورے آکسفورڈ کے جوتوں نے ٹویٹر پر فیشن کے دلدادہ افراد کو مبہوت کر دیا۔

    یہ جوتے جنہیں ہالام کہا جاتا ہے، جوتے بنانے والے برطانوی برانڈ کروکٹ اینڈ جونز کے تیار کردہ ہیں اور ان کی قیمت 560 ڈالر ہے۔

    ایک ٹویٹر صارف نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تصویر کے نیچے کمنٹ کیا، ہمیشہ کی طرح شاندار، جبکہ ایک اور صارف نے جوتوں کی قیمت پوچھ لی۔

    بعض صارفین کو یہ جوتے اتنے پسند آئے کہ وہ اس کے سستے متبادل تلاش کرتے رہے۔

    سعودی ولی عہد کے مداحوں کو امید ہے کہ جوتوں کا یہ ماڈل کچھ ہی دنوں میں فروخت ہو جائے گا۔

    ایک مداح نے ٹویٹ کی کہ صرف دو دنوں تک انتظار کریں، یہ (جوتے) دکانوں اور آن لائن پر دستیاب ہی نہیں ہوں گے۔

    بعض افراد کو امید ہے کہ ولی عہد کے یہ جوتے پہننے کے بعد برطانوی برانڈ اب ان کی قیمت بڑھا دے گا۔

    صرف ان کے جوتے ہی نہیں بلکہ کوٹ پر بھی مداحوں کی جانب سے تبصرے دیکھنے میں آئے، ایک صارف نے ٹویٹ کیا، کل ریاض میں ہر کوئی یہ کوٹ پہنے گا۔

    سعودی ولی عہد کا اسٹائل اس سے قبل بھی موضوع بحث بنتا رہا ہے اور لوگ اسے پسند کرتے رہے ہیں۔

  • جرابیں‌ نہ ہوں تو ٹانگوں‌ کو رنگ لیں!

    جرابیں‌ نہ ہوں تو ٹانگوں‌ کو رنگ لیں!

    کہتے ہیں دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب نائلون کی قلت ہو گئی تو اوڑھنے پہننے کی مختلف مصنوعات کی تیاری کا عمل بھی متاثر ہوا اور نائلون سے تیار کردہ ملبوسات اور آرائش و زیبائش کی مختلف مصنوعات بازار سے غائب ہوتی چلی گئیں۔

    سادہ الفاظ میں‌ ہم پلاسٹک کی ایک قسم کو نائلون کہہ سکتے ہیں جو مختلف مصنوعات کی تیاری میں کام آتا ہے۔ نائلون کی تیار کردہ لاتعداد اشیا اور بے شمار مصنوعات دنیا بھر میں استعمال کی جارہی ہیں‌ اور یہی نائلون لباس کی تیاری میں بھی کام آتا ہے۔

    دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں مغربی ملکوں اور یورپ کی خواتین میں نائلون کی لمبی جرابیں پہننے کا فیشن عام تھا۔

    وہاں کے فیشن اور ثقافت کے مطابق عورتیں اسکرٹ کے ساتھ اپنی ٹانگوں پر نائلون کی مہین جرابیں پہنتی تھیں۔ گھر سے باہر نکلنے اور خاص طور پر تقریبات میں شرکت کے لیے ان جرابوں کو لباس کا لازمی جزو تصور کیا جاتا تھا۔

    تب خواتین نے نائلون کی قلت کا ایک زبردست حل نکالا۔ انھوں نے ٹانگوں کو ڈھانپنے کے لیے رنگوں کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ عورتیں پسندیدہ رنگ کا انتخاب کرکے نہایت مہارت سے مخصوص برش یا کسی کپڑے کی مدد ٹانگوں کو رنگنے کے بعد گھر سے باہر جانے لگیں۔ یہ کام اس قدر مہارت سے کیا جاتا تھا کہ پہلی نظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھاکہ کسی عورت نے نائلون کی جرابیں پہنی ہوئی ہیں یا جلد کو رنگا گیا ہے۔

    ایک طرف تو خواتین نے اس طرح فیشن اور اپنی ضرورت پوری کی اور دوسری جانب مختلف اقسام کے رنگ بنانے والی کمپنیوں کی بھی چاندی ہو گئی۔ اس زمانے میں اشتہارات کے ذریعے ہر کمپنی عورتوں کو یہی یقین باور کرواتی تھی کہ ان کا تیار کردہ پینٹ استعمال کرنے دیکھنے والے کو یہی گمان گزرے گا کہ آپ نے نائلون کی جرابیں پہن رکھی ہیں۔

  • 140 لیٹر پانی سے تیار ہونے والا کافی کا ایک کپ

    140 لیٹر پانی سے تیار ہونے والا کافی کا ایک کپ

    کیا آپ روزانہ صبح اٹھ کر کافی پیتے ہیں؟ تو کیا آپ جانتے ہیں آپ کی ایک کپ کافی میں کتنا پانی شامل ہوتا ہے؟ شاید آپ کہیں کہ ایک کپ، لیکن درحقیقت آپ کی ایک کپ کافی میں 140 لیٹر پانی شامل ہوتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق ایک کپ کافی میں استعمال ہونے والے بیجوں کو اگانے، تیار کرنے اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے 140 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

    درحقیقت زراعت پانی استعمال کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے۔ زمین پر موجود صاف پانی کا 70 فیصد حصہ زراعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گویا آپ کے سامنے رکھی کھانے پینے کی کوئی بھی شے کئی سو لیٹر پانی سے اگائی گئی۔

    جب ہم کوئی کھانے پینے کی شے پھینکتے یا ضائع کرتے ہیں تو اس کئی سو لیٹر پانی کو بھی ضائع کرتے ہیں جو کسی بھی طرح ایک احسن عمل نہیں ہے۔

    صرف کافی ہی نہیں ہر خوردنی شے بے تحاشہ پانی کے استعمال کے بعد اس حالت میں ہمارے سامنے ہوتی ہے کہ اسے کھایا جاسکے۔ جیسے گائے کا ایک کلو گوشت 15 ہزار 415 لیٹر پانی کے استعمال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔

    اسی طرح ایک سیب 70 لیٹر پانی کے استعمال کے بعد تیار ہوتا ہے۔

    پانی کا اس قدر استعمال کرنے میں زراعت واحد شعبہ نہیں، فیشن انڈسٹری بھی کچھ اسی طرح پانی استعمال کرتی ہے۔

    فیشن کی صنعت ایک سال میں اتنا پانی استعمال کرتی ہے کہ اس سے اولمپک سائز کے 3 کروڑ 20 لاکھ سوئمنگ پولز بھرے جا سکتے ہیں۔

    آپ کے روزمرہ استعمال کی ایک سادی ٹی شرٹ بنانے میں 2 ہزار 720 لیٹر جبکہ ایک جینز بنانے میں 10 ہزار لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پانی بچانے اور ماحول دوست بننے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف اشیا کو کم سے کم خریدا جائے اور پھینکنے کے بجائے کسی اور طرح استعمال کیا جائے۔

  • کیا آپ نے جم جانے کے لیے وارڈروب بنایا ہے؟

    کیا آپ نے جم جانے کے لیے وارڈروب بنایا ہے؟

    کیا آپ اپنی فٹنس کا خیال رکھنے کے لیے باقاعدگی سے جم جاتے ہیں ، اگر ہاں تو پھر اس کے لیے ایک باقاعدہ وارڈروب آپ کی روز کی مشقت کو دلچسپ بنا سکتا ہے۔

    عموماً باڈی بلڈنگ یا فٹنس کے لیے جم جانے والے افراد ایک عام سے ٹی شرٹ اور اسپورٹ ٹراؤزر میں جم کا رخ کرتے ہیں جس میں ورک آوٹ کرنا ان کے لیے آرا م دہ ہو، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جم جانے کے لیے بھی ایک وارڈروب ہونا چاہیے ۔

    اگر نہیں سوچا تو آج سے سوچنا شروع کریں کہ یہ عمل آپ کی روزمرہ کی باڈی بلڈنگ کا ایک پیشہ ورانہ رخ دے گا، اور آپ اپنے روٹین کے ورک آؤ ٹ میں حیرت انگیز اور خوشگوار تبدیلی محسوس کریں گے۔

    اگر آپ واقعی یہ وارڈروب بنانے جارہے ہیں تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس وارڈروب میں کیا کیا ہونا چاہیے۔

    شرٹ

    ایکسرسائز کے لیے بغیر آستینوں والی شرٹ آپ کو جم میں لگے آئینوں کے ذریعے اپنے ورک آؤٹ کے مسلز پر فوری اثرات جانچنے میں مدد دیتی ہے ، اگر آپ ہلکے رنگوں کی شرٹ استعمال کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ اب تک کتنا پسینہ بہا چکے ہیں۔

    ٹراؤزر کا انتخاب

    بہت سے لوگ اکثر جینز کی پتلون یا شارٹ نیکر میں جم چلے جاتے ہیں، جبکہ ورک آؤٹ کرنے کے لیے سویٹ پینٹس یا پاجامے انتہائی مناسب ہیں، اگر آپ گہرے رنگوں کے پاجامے استعمال کریں تو اور بھی بہتر ہے ۔ اس سے پسینہ بہنے پر آپ کے زیریں جسم کے خدوخال نمایاں نہیں ہوں گے۔

    فٹ وئیر

    یقیناً آپ نے دفتری استعمال کے جوتے الگ اور پارٹی کے جوتے الگ کررکھے ہوں گے ، اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے جم کے لیے بھی جوتے مختص کریں ، بہتر یہ ہے کہ یہ جاگرز یا اسنیکرز ہوں ، چپل میں جم جانا انتہائی معیوب لگتا ہے اور کبھی کبھار ہاتھ سے ویٹ لفٹنگ کا سامان گر جانے کی صورت میں آپ کے پاؤں کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی رہتا ہے

    ہیڈ بینڈ

    کسی بھی کھیل یا ورک آؤٹ کی طرح باڈی بلڈنگ میں بھی بال حد سے زیادہ تنگ کرتے ہیں، اگر آپ جم جاتے ہیں تو آپ کو اس کا اندازہ ضرور ہوگا، سو ایک اچھا سا ہیڈ بینڈ آپ کے ان مسائل کو حل کرسکتا ہے۔

  • آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    آپ کا فیشن ماحول کے لیے نقصان دہ

    اچھا لباس اور اچھے جوتے پہننا خوش ذوقی کی علامت ہے اور شخصیت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تاہم آپ کی یہ خوش لباسی ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہم ہر سال ایک کھرب کپڑے اور 20 ارب جوتے بنا رہے ہیں۔ یہ تعداد 1980 کی دہائی میں بنائے جانے والے کپڑوں اور جوتوں کی تعداد سے 5 گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آج کا فیشن سوشل میڈیا پر چلتے ٹرینڈز کا مرہون منت ہے جو ہر روز بدلتا ہے۔ اس ٹرینڈ کو اپنانے کے لیے ہم خریداری زیادہ کرتے ہیں، تاہم اس خریداری کو پہنتے کم ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ایک خاتون کسی لباس کو پھینکنے سے پہلے 7 بار استعمال کرتی ہیں۔

    فیشن کے بدلتے انداز اور ہمارا کپڑوں کو استعمال کرنے کا انداز ماحول کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ آج جس طرح سے ملبوسات کی صنعتیں دن رات کام کر رہی ہیں وہ ہماری زمین کے کاربن اخراج میں 10 فیصد کی حصہ دار ہیں۔

    اسی طرح آبی آلودگی کا 17 سے 20 فیصد حصہ کپڑا رنگنے اور دیگر ٹیکسٹائل شعبوں سے آتا ہے۔

    کپاس کی فصل ٹیکسٹائل کی صنعت کا اہم ستون ہے اور اس وقت ازبکستان دنیا میں کپاس کی پیدوارا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ چونکہ کپاس کی فصل کو بہت زیادہ پانی درکار ہے لہٰذا کپاس کی بے تحاشہ فصلوں نے ملک کی ایک بڑی جھیل ارل جھیل کو صرف 2 دہائیوں میں خشک کردیا ہے۔

    ارل جھیل

    ارل جھیل دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی اور اب یہ تاحد نگاہ مٹی اور ریت سے بھری ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں موجود میٹھے پانی کا 2.6 فیصد حصہ صرف کپاس کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل صنعت کے ماحول پر ان اثرات کو کم کرنے کے لیے آپ بھی کوشش کرسکتے ہیں۔

    وہ کپڑے جو آپ مزید پہننا نہیں چاہتے، پھینکنے کے بجائے اپنے دوستوں کو دیں اور اسی طرح ان سے ان کے استعمال شدہ کپڑے لے لیں۔

    معمولی خراب کپڑوں اور جوتوں کی مرمت کر کے انہیں پھر سے استعمال کے قابل بنائیں۔

    اس وقت کچھ برانڈز ماحول دوست ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی تیاری میں ماحول کو کم سے کم نقصان پہنچائیں، انہیں استعمال کرنے کو ترجیح دیں۔

    معیاری اور مہنگے ملبوسات اور جوتے خریدیں جو زیادہ تر عرصے تک چل سکیں۔

  • کراچی میں رنگا رنگ فیشن پاکستان ویک کا آغاز،  خوبرو ماڈلز کے  جلوے

    کراچی میں رنگا رنگ فیشن پاکستان ویک کا آغاز، خوبرو ماڈلز کے جلوے

    کراچی: شہر قائد میں رنگا رنگ فیشن پاکستان ویک کا آغاز ہوگیا ہے، موسم سرما کی مناسبت سے دیدہ زیب ملبوسات متعارف کرائے گئے اور خوبرو ماڈلز نے جلوے بکھیرے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں فیشن کے بدلتے جدید انداز اور نظروں کو چونکاتے عروسی لباس کی نمائش کا میلہ سج گیا، فیشن پاکستان ویک جہاں ملک کی مایا ناز ماڈلز موسم سرما کے دل لباتے لباس پیش کررہی ہیں۔

    مشرقی میک اپ اور عروسی لباس زیب تن کئے ماڈلز جب ریمپ پر جلوہ گر ہوئیں تو ناصرین کی نظریں کچھ ٹھیر سے گئیں۔

    فیشن کے پہلے روز معروف ڈیزائنرز نے اپنے ملبوسات متعارف کرائے، جن میں ٹینا درانی نے عروسی ملبوسات ، ایچ ایس وائے ، زینب چھٹانی ، ہما عدنان ، آمنہ عقیل ، اینا علی نے اپنی کلیکشن پیش کیں۔

    ایچ ایس وائے

    ٹینا درانی

    زینب چھوٹانی

    ہما عدنان

    آمنہ عقیل

    اینا علی

    پاکستان فیشن کاؤنسل کے زیر اہتمام پاکستان فیشن ویک 28 سے 30ستمبرتک جاری رہے گا۔

    فیشن ویک 2018 میں ٹینا درانی ،ہما عدنان ،زینب چوٹانی ،آمنہ عقیل ،دی پینک ٹری کمپنی ، حسن شہریار یاسین (ایچ ایس وائے) ،ورد اسلیم، ماہین کریم ،ماہین خان اور دیپک پروانی کے علاوہ دیگر باصلاحیت ڈزائنرز اپنے رنگارنگ ملبوسات پیش کریں گے۔

    شرکاء کا کہنا تھا کہ ہماری فیشن انڈسٹری کو ابھی اور اگے جانا ہے، مرد ہو یا عورت دور جدید میں ہر کوئی منفرد دیکھنا چاہتا ہے، رنگوں کے ساتھ عروسی اور فارمل ملبوسات کے میلہ اب بین الاقوامی دوڑ سے کچھ دور نہیں۔

    فیشن پاکستان ویک ملک کی فیشن اندسٹری میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

    خیال رہے ایف پی ڈبلیو کا آغاز سن 2009 میں ہوا اس ایونٹ کے زریعے جہاں پاکستانی فیشن ڈیزائنرز نت نئے ملبوسات کی کلیکشنز متعارف کرواتے ہیں۔

  • لباس کے مطابق رنگ تبدیل کرنے والا اسمارٹ کنگن

    لباس کے مطابق رنگ تبدیل کرنے والا اسمارٹ کنگن

    فیشن کی دنیا کے ماہرین نے ایسا سائنسی بریسلیٹ ایجاد کرلیا ہے جو پہننے والے کے لباس سے ملتا ہوا رنگ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ایلیمون نامی یہ بریسلیٹ آپ کے موبائل فون سے منسلک ہو کر آپ کو اہم فون کالز اور پیغامات سے بھی باخبر رکھتا ہے۔

    ماہرین نے اس ایجاد کو فیشن اور سائنس کا سنگم قرار دیا ہے۔

    یہ بریسلیٹ یا کنگن اسمارٹ فون میں ڈالی جانے والی ایپ ایلیمون کے ذریعے کام کرے گا۔

    آپ کسی بھی ڈیزائن کی تصویر کھینچ کر اس ایپ میں ڈال دیں، آپ کا کنگن اسی ڈیزائن کو اختیار کرلے گا۔

    یہی نہیں یہ آپ کو راستوں کی ٹریکنگ، اور موبائل فون پر آنے والے پیغامات اور کالز کا نوٹی فکیشن بھی فراہم کرسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنے شہر کی خوشحالی کا اندازہ خواتین کی اونچی ہیل سے لگائیں

    اپنے شہر کی خوشحالی کا اندازہ خواتین کی اونچی ہیل سے لگائیں

    کیا آپ اونچی ایڑھی کے سینڈل استعمال کرتی ہیں؟ اگر ہاں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک امیر شہر میں رہتی ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق ایک خوشحال شہر میں رہنے والی خواتین فیشن کے رجحانات کو تیزی سے قبول کرتی ہیں۔ اس کی نسبت جو خواتین کم خوشحال یا پسماندہ شہروں میں رہتی ہیں وہ اپنے پرانے حلیے میں ہی رہنا پسند کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فیشن کے نئے اصول کوکو شنیل سے سیکھیں

    تحقیق میں شامل ایک ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ جتنی زیادہ خواتین کی ہیل اونچی ہوگی اتنا ہی زیادہ وہ شہر خوشحال ہوگا۔ گو کہ کسی شہر کی خوشحالی کو اس پیمانے میں ناپنا عجیب ہے لیکن یہ کلیہ فیشن انڈسٹری کے لیے بالکل درست ہے۔

    تحقیق کے مطابق سماجی رجحانات فیشن کے رجحانات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ماہرین نے امریکہ کے 180 شہروں میں 5 سال تک اس کا مشاہدہ کیا اور بالآخر نتیجہ نکالا کہ جیسے جیسے خواتین زیادہ خوشحال علاقوں کی طرف منتقل ہوتی ہیں، ویسے ویسے ان کی ہیل کی اونچائی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

    اس کے برعکس اپنے آبائی شہر یا علاقے میں وہ آرام دہ جوتے پہننا پسند کرتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فیشن پاکستان ویک 2017: جھلملاتے ستارے زمین پر اتر آئے

    فیشن پاکستان ویک 2017: جھلملاتے ستارے زمین پر اتر آئے

    کراچی: روشنیوں کے شہر کراچی میں آسمانی ستاروں اور کہکشاؤں کی جھلملاتی بارات اتر آئی۔ 3 روزہ رنگا رنگ فیشن پاکستان پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔

    موسم سرما کے ملبوسات پر مشتمل یہ ایونٹ کراچی میں 13 ستمبر تک جاری ہے جس میں ملک بھر سے نامور معروف ڈیزائنرز نے شرکت کی۔

    فیشن ویک کے پہلے دن میشا لاکھانی، آمنہ عقیل، ارم خان، عبید شیخ اور سائرہ رضوان کے کلیکشن پیش کیے گئے۔

    دوسرے دن صنم چوہدری، وردہ سلیم، ارم راجپوت، ایچ ای ایم اور دیپک پروانی کی کلیکشن پیش کی گئی۔

    آج تیسرے روز ٹینا درانی، نعمان آفرین، عدنان پردیسی اور ماہین خان اپنے ملبوسات کی نمائش کریں گی جبکہ گرینڈ فنالے میں ثنا سفیناز کے ملبوسات پیش کیے جائیں گے۔

    ایونٹ کا آفیشل میڈیا پارٹنر اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک ہے جو اس سے قبل بھی ملک میں کئی سماجی و ثقافتی تقریبات کا اہتمام کرچکا ہے۔

    فیشن پاکستان ویک کے پہلے روز شمیل انصاری کی بلیو ٹیولپ نامی کلیکشن پیش کی گئی۔


    ریڈ کارپٹ اور پہلا دن


    میشا لاکھانی کلیکشن


    آمنہ عقیل کلیکشن


    ارم خان کلیکشن


    عبید شیخ کلیکشن


    سائرہ رضوان کلیکشن


    سفیوز ایکس جے پور اینڈ کو کلیکشن

    ایونٹ کے پہلے روز پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی اور سابق کرکٹر وسیم اکرم کی اہلیہ شنائرا اکرم نے بھی شرکت کی اور ملک بھر میں فن و ثقافت کے فروغ کے لیے اے آر وائی نیٹ ورک کی کاوشوں کو سراہا۔

    Thank you to the team at @sanasafinazofficial for dressing me today for the @scentsationpk launch of #FPW2017

    A post shared by Shaniera Akram (@iamshaniera) on


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فرانس کے فیشن کی تاریخ ہزاروں سال قدیم نکلی

    فرانس کے فیشن کی تاریخ ہزاروں سال قدیم نکلی

    پیرس: یورپی ملک فرانس کو فیشن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا میں موجود زیادہ تر فیشن ٹرینڈز کا آغاز فرانس سے ہوا۔ حال ہی میں ہونے والی ایک قدیم دریافت سے ثابت ہوا کہ فرانس کا یہ فیشن دور جدید کا نہیں بلکہ اس کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے۔

    فرانس کے جنوبی علاقے سے ماہرین نے ایک ایسا قدیم ڈھانچہ دریافت کیا ہے جس نے ایسی جیکٹ پہن رکھی تھی جس میں سمندر کی سیپیوں اور ہرن کے دانتوں کو کڑاھا گیا ہے۔

    france-2

    گو کہ ان اشیا کے ساتھ موجود کپڑا تو کب کا مٹی میں مل چکا ہے تاہم سیپیوں اور ہرن کے دانتوں کے سخت ذرات باقیات کی شکل میں اب بھی قابل شناخت ہیں۔

    اس ڈھانچے کی عمر 7 ہزار سال قدیم بتائی جارہی ہے یعنی یہ 4 ہزار 8 سو سے 4 ہزار 9 سو قبل مسیح میں موجود کسی شخص کا ڈھانچہ ہے۔

    france-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی قدیم دور کے انسانوں کے پہناووں میں مختلف انداز ملے ہیں تاہم وہ سب بہت سادہ تھے۔ یہ پہلی بار ہے جب قدیم دور میں اس قدر منفرد اور جدت کا حامل فیشن ملا ہے۔

    مزید پڑھیں: آئرن ایج کے دور کے قدیم ترین طلائی زیورات دریافت

    جیکٹ کے کیمیائی تجزیے سے پتہ چلا کہ سیپیوں اور ہرن کے دانتوں کو کپڑے میں سیا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہرن کے دانت پر سرخ رنگ کے ذرات ملتے ہیں گویا اسے سرخ رنگ میں رنگا گیا تھا۔

    france-4

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت اس دور کے انسانوں کی تہذیب اور ثقافت کو نئے زاویوں سے سمجھنے میں مدد دے گی۔