Tag: فیض احمد فیض

  • فیض احمد فیض: یادوں کے دریچے سے

    فیض احمد فیض: یادوں کے دریچے سے

    ماہنامہ شبستاں کا فیض نمبر 1985ء میں شایع ہوا تھا۔ شبستاں، اپنے دور کا ایک نیم ادبی تفریحی اردو ڈائجسٹ تھا جو ہندوستان اور پاکستان میں اردو قارئین میں بے حد مقبول تھا۔ شبستاں کا ترقی پسند اور لینن انعام یافتہ شاعر فیض احمد فیض پر جو خاص نمبر شائع ہوا تھا اس میں ان کی مختصر خودنوشت بھی شامل تھی۔

    ادب اور ثقافت سے متعلق مزید تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    یہ خودنوشت کئی دل چسپ واقعات پر مشتمل ہے اور فیض صاحب نے بڑی سادگی سے اپنے بچپن اور نوجوانی کے واقعات کے ساتھ ادبی سفر کی روداد بھی قلم بند کی ہے۔ یہ چند پارے اسی خودنوشت سے لیے گئے ہیں۔ فیض صاحب لکھتے ہیں:

    ہمارے شعراء کو مستقلاً یہ شکایت رہی ہے کہ زمانے نے ان کی قدر نہیں کی۔ ناقدریِ ابنائے وطن ہماری شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ ہمیں اس سے الٹ شکایت یہ ہے کہ ہم پہ لطف و عنایت کی اس قدر بارش رہی ہے، اپنے دوستوں کی طرف سے ، اپنے ملنے والوں کی طرف سے اور ان کی جانب سے بھی جن کو ہم جانتے بھی نہیں کہ اکثر ندامت ہوتی ہے کہ اتنی داد و دہش کا مستحق ہونے کے لئے جو تھوڑا بہت کام ہم نے کیا ہے اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہیے تھا۔

    یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بچپن ہی سے اس قسم کا تاثر رہا ہے۔ جب ہم بہت چھوٹے تھے، اسکول میں پڑھتے تھے تو اسکول کے لڑکوں کے ساتھ بھی کچھ اسی قسم کے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ خواہ مخواہ انہوں نے ہمیں اپنا لیڈر تسلیم کر لیا تھا حالاں کہ لیڈری کی صفات ہم میں نہیں تھیں، یا تو آدمی بہت لٹھ باز ہو کہ دوسرے اس کا رعب مانیں یا وہ سب سے بڑا فاضل ہو۔ ہم پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھے ، کھیل بھی لیتے تھے لیکن پڑھائی میں ہم نے کوئی ایسا کمال پیدا نہیں کیا تھا کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔

    بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک یہ بات خاص طور سے یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ایک ہجوم تھا۔ ہم تین بھائی تھے ان میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہو کر کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے ان خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ ان خواتین نے ہم کو انتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔ جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اجڈ قسم کی بات اس زمانے میں ہمارے مونہہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کے لہو و لعب کی زندگی گزارنے سے ہم محروم رہے۔ مثلاً یہ کہ گلی میں کوئی پتنگ اڑا رہا ہے، کوئی گولیاں کھیل رہا ہے۔ کوئی لٹو چلا رہا ہے، ہم بس کھیل کود دیکھتے رہتے تھے، اکیلے بیٹھ کر "ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے” کے مصداق ہم ان تماشوں کے صرف تماشائی بنے رہتے اور ان میں شریک ہونے کی ہمت اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ اسے شریفانہ شغل یا شریفانہ کام نہیں سمجھتے تھے۔

    اساتذہ بھی ہم پر مہربان رہے۔ آج کل کی میں نہیں جانتا، ہمارے زمانے میں تو اسکول میں سخت پٹائی ہوتی تھی۔ ہمارے عہد کے استاد تو نہایت ہی جلّاد قسم کے لوگ تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ان میں سے کسی نے ہم کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ ہر کلاس میں ہم کو مانیٹر بناتے تھے۔ یعنی فلاں کو چانٹا لگاؤ فلاں کو تھپڑ مارو۔ اس کام سے ہمیں بہت کوفت ہوتی تھی اور ہم کوشش کرتے تھے کہ جس قدر بھی ممکن ہو یوں سزا دیں کہ ہمارے شکار کو وہ سزا محسوس نہ ہو۔ طمانچے کی بجائے گال تھپتھپا دیا۔ کان آہستہ سے کھینچا وغیرہ۔ کبھی ہم پکڑے جاتے تو استاد کہتے یہ کیا کر رہے ہو؟ زور سے چانٹا مارو۔

    دو تأثر بہت گہرے ہیں، ایک تو یہ کہ بچوں کی جو دلچسپیاں ہوتی ہیں ان سے محروم رہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے دوستوں، ہم جماعتوں اور اپنے اساتذہ سے ہمیں بے پایاں شفقت اور خلوص ملا جو بعد کے زمانے کے دوستوں اور معاصرین سے ملا اور آج بھی مل رہا ہے۔

    صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے، ابا کے ساتھ مسجد گئے نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا، ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لئے گئے، پھر اسکول، رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لئے، اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔

  • اسرار الحق مجاز: فیض احمد فیض کی نظر میں

    اسرار الحق مجاز: فیض احمد فیض کی نظر میں

    ’’آہنگ‘‘ کا پہلا ایڈیشن اس شعر سے شروع ہوتا تھا،

    دیکھ شمشیر ہے یہ، ساز ہے یہ، جام ہے یہ
    تو جو شمشیر اٹھا لے تو بڑا کام ہے یہ

    مشاہیرِ ادب کی مزید تحریریں اور مضامین پڑھیں

    مجاز کی شاعری انہیں تینوں اجزا سے مرکب ہے۔ غالباً اسی وجہ سے ان کا کلام زیادہ مقبول بھی ہے۔ ہمارے بیشتر شعراء نے ان عناصر میں ایک فرضی تضاد کی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں، کوئی محض ساز و جام کا دلدادہ ہے تو کوئی فقط شمشیر کا دھنی، لیکن کامیاب شعر کے لیے (آج کل کے زمانے میں) شمشیر کی صلابت اور ساز و جام کا گداز دونوں ضروری ہیں۔

    دلبری بے قاہری جادو گری است

    مجاز کے شعر میں یہ امتزاج موجود ہے… اس امتزاج میں ابھی تک شمشیر کم ہے اور ساز و جام زیادہ، اس کی وجہ یہ ہے کہ شمشیر زنی کے لیے ایک خاص قسم کے دماغی زہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مجاز کی طبیعت میں زہد کم ہے۔ لذتیت زیادہ، شمشیر زنی کو میں انقلابی شاعری کے معنوں میں استعمال کر رہا ہوں۔ دماغی زہد سے میری مراد ہے ایک مخصوص انقلابی مقصد کے نشر و اظہار میں کلی ذہنی اور جذباتی یکسوئی۔ تمام غیرمتعلق جذباتی ترغیبات سے پرہیز۔ یہ کٹھن اور محنت طلب عمل ہے۔ مجازؔ ہم سب کی طرح لاابالی اور سہل نگار انسان ہیں۔ چنانچہ جب بھی انہیں ’ذوق پنہاں‘ کو کامرانی کا موقع ملے باز نہیں رہ سکتے۔

    مجازؔ کے شعر کا ارتقاء بھی ہمارے بیشتر سے مختلف ہے۔ عام طور سے ہمارے ہاں شعر یا شاعر کا ارتقائی عمل یہ صورت اختیار کرتا ہے۔ ساز و جام، ۔۔۔ ساز و جام + شمشیر۔ شمشیر، مجازؔ کے شعر میں اس عمل کی صورت یہ ہے۔ سازو جام۔ شمشیر۔ سازوجام + شمشیر، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ رجعت نہیں ترقی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ شاعر کے مضمون اور تجربہ میں مطابقت اور موانست زیادہ گہری ہوتی جارہی ہے۔ شاعر کی طبیعت خارجی اور انقلابی مضامین کے اینٹ پتھرکو تراشنے اور جوڑنے جمانے میں زیادہ لذت محسوس کرنے لگی ہے۔

    مجازؔ بنیادی طور پر اور طبعاً غنائی شاعر ہے، اس کے کلام میں خطیب کے نطق کی کڑک نہیں، باغی کے دل کی آگ نہیں۔ نغمہ سنج کے گلے کا وفور ہے، یہی وفور مجازؔ کے شعر کی سب سے بڑی خوبی ہے اور اس شعر کی کامیابی کا سب سے بڑا امین۔

    بیچ کے ایک مختصر سے دور کے علاوہ مجاز ہمیشہ سے گاتا رہا ہے۔ اس کے نغموں کی نوعیت بدلتی رہی، لیکن اس کے آہنگ میں فرق نہ آیا۔ کبھی اس نے آغازِ بلوغت کی بھرپور بے فکرانہ خواب نما محبت کے گیت گائے۔

    چھلکے تری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
    مہکیں ترے عارض کے گلاب اور زیادہ
    اللہ کرے روزِ شباب اور زیادہ

    نور ہی نور ہے کس سمت اٹھاؤں آنکھیں
    حسن ہی حسن ہے تاحدِ نظر آج کی رات

    اللہ اللہ وہ پیشانیِ سیمیں کا جمال
    رہ گئی جم کے ستاروں کی نظر آج کی رات

    وہ تبسم ہی تبسم کا جمالِ پیہم
    وہ محبت ہی محبت کی نظر آج کی رات

    کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا، اے شورشِ دوراں بھول گئے
    وہ زلفِ پریشاں بھول گئے، وہ دیدۂ گریاں بھول گئے
    اے شوقِ نظارہ کیا کہیے، نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
    اے ذوقِ تصور کیا کیجیے، ہم صورتِ جاناں بھول گئے

    کبھی اس خالص تخریبی اور مجبور پیچ و تاب کا اظہار کیا جو موجودہ حال کے متعلق ہر نوجوان کا اضطراری اور پہلا جذباتی ردِّعمل ہوتا ہے۔

    جی میں آتا ہے کہ یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
    اس کنارے نوچ لوں اور اس کنارے نوچ لوں
    ایک دو کا ذکر کیا، سارے کے سارے نوچ لوں
    اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
    بڑھ کے اس اندر سبھا کا ساز و ساماں پھونک دوں
    اس کا گلشن پھونک دوں، اس کا شبستاں پھونک دوں
    تختِ سلطاں کیا میں سارا قصرِ سلطاں پھونک دوں
    اے غم دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

    کبھی اس تعمیری انقلاب کے اسباب و آثار کا تجزیہ کیا، جس کے نقوش صرف غور و فکر کے بعد دکھائی دینے لگتے ہیں۔

    اک نہ اک در پر جبینِ شوق گھستی ہی رہی
    آدمیت ظلم کی چکی میں پستی ہی رہی
    رہبری جاری رہی، پیغمبری جاری رہی
    دین کے پردے میں جنگِ زرگری جاری رہی
    ذہن انسانی نے اب اوہام کے ظلمات میں
    زندگی کی سخت طوفانی اندھیری رات میں
    کچھ نہیں تو کم سے کم خوابِ سحر دیکھا تو ہے
    جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک، ادھر دیکھا تو ہے

    یہ کافی متنوع مرکب ہے لیکن اس میں کہیں بھی مجاز کا ترنم بے آہنگ، اس کی دھن پھیکی، یا اس کے سُر بے سُر نہیں ہوئے۔ مجاز کے کلام میں پرانے شعراء کی سہولت اظہار ہے۔ لیکن ان کی جذباتی سطحیت اور محدود خیالی نہیں۔ نئے شعراء کی نزاکتِ احساس ہے، ان کی لفظی کھینچا تانی اور توڑ مروڑ نہیں۔ اس کے ترنم میں چاندنی کا سا فیاضانہ حسن ہے۔ جس کے پرتو سے تاریک اور روشن چیزیں یکساں دلکش نظر آتی ہیں۔ غنائیت ایک کیمیاوی عمل ہے، جس سے معمولی روزمرہ الفاظ عجب پراسرار، پرمعنی صورت اختیار کر لیتے ہیں، بعینہ جیسے عنفوانِ شباب میں سادہ پانی مے رنگین دکھائی دیتا ہے یا مَے رنگین کے اثر سے بے رنگ چہرے عنابی ہو جاتے ہیں۔ مجازؔ کو اس کیمیاوی عمل پر قدرت ہے۔

    ہمدم یہی ہے رہگزرِ یارِ خوش خرام
    گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم

    ضوفگن روئے حسیں پر شبِ مہتابِ شباب
    چشمِ مخمور نشاطِ شبِ مہتاب لیے

    نشۂ نازِ جوانی میں شرابور ادا
    جسم ذوقِ گہر و اطلس و کمخواب لیے

    یہی غنائیت مجاز کو اپنے دور کے دوسرے انقلابی اور رعنائی شاعروں سے ممیز کرتی ہے۔
    مجازؔ کی غنائیت عام غنائی شعراء سے مختلف ہے۔ عام غنائی شعراء محض عنفوانِ شباب کے دوچار محدود ذاتی تجربات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں ان تجربات کی تحریک، ان کی شدت اور قوتِ نمو ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام غنائی شعراء کی شاعرانہ عمر بہت کم ہے۔ ان کا اوسط سرمایہ پانچ دس کامیاب عشقیہ نظمیں ہیں۔ بعد میں وہ عمر بھر انہیں پانچ دس نظموں کو دہراتے رہتے ہیں یا خاموش ہوجاتے ہیں۔ مجازؔ کی غنائیت زیادہ وسیع، زیادہ گہرے، زیادہ مستقل مسائل سے متصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ابھی تک ارتقاء کی گنجائش اور پنپنے کا امکان ہے۔ اس کے شباب میں بڑھاپے کا رنگ نہیں جھلکتا۔ عام نوجوان شعراء کی غنائیت زندگی سے بیزار اور موت سے وابستہ ہے۔ انہیں زندگی کی لذتوں کی آرزو نہیں۔ موت کے سکون کی ہوس ہے۔ مجازؔ گرم زندگی کے نشے سے چور اور موت کے سرد جمود سے سراسر بیزار ہے۔

    مجھے پینے دے، پینے دے کہ تیرے جامِ لعلیں میں
    ابھی کچھ اور ہے، کچھ اور ہے، کچھ اور ہے ساقی

    یہی وجہ ہے کہ مجازؔ کے شعر میں تھکن نہیں مستی ہے، اداسی نہیں سرخوشی ہے۔ مجازؔ کی انقلابیت، عام انقلابی شاعروں سے مختلف ہے۔ عام انقلابی شاعر انقلاب کے متعلق گرجتے ہیں۔ للکارتے ہیں، سینہ کوٹتے ہیں، انقلاب کے متعلق گا نہیں سکتے۔ ان کے ذہن میں آمد انقلاب کا تصور طوفانِ برق و رعد سے مرکب ہے۔ نغمۂ ہزار اور رنگینیٔ بہار سے عبارت نہیں۔ وہ صرف انقلاب کی ہولناکی کو دیکھتے ہیں۔ اس کے حسن کو نہیں پہچانتے۔ یہ انقلاب کا ترقی پسند نہیں رجعت پسند تصور ہے۔ یہ برق و رعد کا دور مجاز پر بھی گزر چکا ہے۔ لیکن اب مجاز کی غنائیت اسے اپنا چکی ہے۔

    ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
    تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

    تقدیر کچھ ہو، کاوشِ تدبیر بھی تو ہے
    تخریب کے لباس میں تعمیر بھی تو ہے
    ظلمات کے حجاب میں تنویر بھی تو ہے
    آمنتظرِ عشرتِ فردا ادھر بھی آ

    برق و رعد والوں میں یہ خلوص اور تیقن تو ہے، یہ لوچ اور نغمہ نہیں ہے۔ ان میں انقلاب کی قاہری ہے دلبری نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجازؔ کی ’خوابِ سحر‘ اور ’نوجوان خاتون سے خطاب‘ اس دور کی سب سے مکمل اور سب سے کامیاب ترقی پسند نظموں میں سے ہیں۔ مجازؔ انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں، انقلاب کا مطرب ہے۔ اس کے نغمہ میں برسات کے دن کی سی سکون بخش خنکی ہے اور بہار کی رات کی سی گرم جوش تأثر آفرینی!

    (ہندوستان کے مشہور رومانوی اور انقلابی شاعر اسرار الحق مجاز کے فنِ شاعری پر فیض احمد فیض‌ کا ایک توصیفی مضمون)

  • فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض بہ حیثیت مدیر

    فیض صاحب کی شخصیت آہستہ آہستہ پاکستانی ادب اور تہذیب و ثقافت کا امتیازی نشان بنتی چلی گئی۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، اسی لیے ایک شاعر کی حیثیت سے، ایک نثر نگار کی حیثیت سے، ایک صحافی کی حیثیت سے، ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے، ایک ڈاکیومنٹری اور فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے، ایک استاد کی حیثیت سے، ایک دانشور کی حیثیت سے، ایک ثقافتی کارکن اور مفکر کی حیثیت سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک انسان کی حیثیت سے انہوں نے اپنے عہد پر بڑے گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

    فیض صاحب کی بہ حیثیت صحافی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بارے میں ان کے ایک رفیقِ کار اور پاکستان میں انگریزی صحافت کی ایک اہم شخصیت احمد علی خان نے لکھا:

    ’’فیض صاحب نے صحافت کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ملکی صحافت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ تقسیم سے سال بھر پہلے تک برصغیر پاک و ہند میں جہاں کئی کثیر الاشاعت انگریزی روزنامے کانگریس کے ہم نوا تھے، وہاں صرف تین قابلِ ذکر انگریزی روزنامے تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ ڈان، دہلی سے نکلتا تھا جب کہ اسٹار آف انڈیا اور مارننگ نیوز کلکتے سے نکلتے تھے۔ ان دنوں اس علاقے میں جو اب مغربی پاکستان (اور اب صرف پاکستان) کہلاتا ہے انگریزی کے چار قابل ذکر روزنامے تھے۔ ٹریبیون اور سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور سے شائع ہوتے تھے جب کہ سندھ آبزرور اور ڈیلی گزٹ کراچی سے نکلتے تھے۔ یہ چاروں اخبار غیر مسلموں کے ہاتھوں میں تھے اور ان میں سے کوئی بھی تحریک پاکستان کا حامی نہ تھا۔ 1947ء میں جب میاں افتخار الدین مرحوم نے پاکستان ٹائمز کی بنیاد ڈالی تو گویا دو کام بیک وقت انجام دیے۔ ایک تو تحریک پاکستان کو جو نہایت نازک موڑ پر پہنچ چکی تھی تقویت پہنچائی اور دوسرے نوزائیدہ مملکت کی آئندہ صحافت کی سمت اور معیار کا نشان بھی دیا۔ لفظ پاکستان کے شیدائی پہلے تو اس کے نام ہی پر جھوم اٹھے اور پھر بہت جلد اس اخبار کے صحافتی معیار اور اس کے پر وقار اور متین انداز سے متاثر ہونے لگے۔

    فیض صاحب نے جب اس کی ادارت کا بوجھ سنبھالا تو وہ اس ذمہ داری کے لیے نئے تھے لیکن ان میں اس کام کی بنیادی صلاحیتیں موجود تھیں۔ علمی لیاقت، سیاسی ادراک، تاریخ کا شعور، معاشرے کے مسائل کا علم، ادب پر گہری نظر، اور اچھی نظر لکھنے (انگریزی اور اردو) کا سلیقہ اور اپنی ان تمام صلاحیتوں سے انہوں نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ان کے اداریے اپنی سلاست، شگفتگی اور ادبیت کے باعث ابتداء ہی سے مقبول ہوئے۔ ملک کے سیاسی مسائل پر فیض صاحب کے اداریے وسیع حلقے میں پڑھے اور پسند کیے جاتے تھے۔ ‘‘

    فیض صاحب کاتا اور لے دوڑے کے راستے پر چلنے کے قائل نہیں تھے۔ شاعری ہو نوکری ہو خطابت ہو یا صحافت ہو غرض یہ کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ جلد باز نہیں رہے۔ ایک طرح سے تکمیلیت پسند شخصیت کے مالک تھے۔ چنانچہ اسی وجہ سے ان کے بیش تر کام ادھورے رہ گئے۔ لیکن اخبار کا معاملہ مختلف ہے اس میں سر پر روزانہ ایک تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ آج کا کام آج ہی ہونا چاہیے ورنہ تو اخبار کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ ان سب ترجیحات کے باوجود یہاں بھی انہوں نے اپنے ہی انداز میں کام نمٹایا۔ ان کے دوست حمید اختر کہتے ہیں: ’’وہ اپنے اداریے بالعموم شام کی محفلوں کے اختتام پر، پریس میں کمپوزیٹروں کے برابر بیٹھ کر لکھتے تھے۔ موضوع کا انتخاب تو ہمیشہ صبح کو ہی ہو جاتا تھا لیکن پریس والوں کو اداریہ رات کے دس گیارہ بجے سے قبل کبھی نہیں ملتا تھا۔ پاکستان ٹائمز کے عملے کا خیال تھا کہ وہ کام کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے ہیں اور جب فرار کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں اس وقت اس بوجھ کو اتارتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں اصل میں وہ دن بھر اپنے موضوع کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس دوران غائب دماغی کے مظاہرے بھی کرتے رہتے تھے۔ دن بھر یا شام کو ملنے والے یا محفل میں ساتھ بیٹھنے والے انہیں غیر حاضر پاتے تو شاعر سمجھ کر معاف کر دیتے۔ جب کہ حقیقتاً وہ آخری وقت تک اپنے اداریے کے متعلق سوچتے رہتے تھے اور اس کے بعد لکھتے تھے۔‘‘

    سبط حسن نے بھی جو کہ صحافت کی دنیا میں ان کے ساتھ تھے فیض صاحب کی صحافتی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے: ’’فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے اپنے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف نہیں لکھا بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی، اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دلچسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے لے کر پڑھتے تھے۔ ‘‘

    اس کا ایک سبب ان کی واضح سیاسی سوچ اور مسئلے کو اس کی اصل گہرائی تک جا کر دیکھنے کی صلاحیت تھی۔

    (ماخوذ از مقالہ بعنوان فیض احمد فیض…. شخصیت اور فن، مصنّفہ اشفاق حسین)

  • فیض صاحب: دل چسپ یادیں

    فیض صاحب: دل چسپ یادیں

    ماہنامہ شبستاں کا فیض نمبر 1985ء میں شایع ہوا تھا۔ شبستاں، اپنے دور کا ایک نیم ادبی تفریحی اردو ڈائجسٹ تھا جو ہندوستان اور پاکستان میں اردو قارئین میں بے حد مقبول تھا۔ شبستاں کا انقلابی شاعر فیض صاحب پر جو خاص نمبر شائع ہوا تھا اس میں ان کی مختصر خودنوشت بھی شامل تھی۔

    اس خودنوشت میں فیض صاحب نے دل چسپ یادیں بھی قلم بند کی ہیں۔ اس تحریر سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔ وہ لکھتے ہیں:

    صبح ہم اپنے ابا کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جایا کرتے تھے۔ معمول یہ تھا کہ اذان کے ساتھ ہم اٹھ بیٹھے۔ ابا کے ساتھ مسجد گئے، نماز ادا کی اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی سے جو اپنے وقت کے بڑے فاضل تھے، درس قرآن سنا۔ ابا کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی سیر کے لیے گئے، پھر اسکول۔

    رات کو ابا بلا لیا کرتے تھے خط لکھنے کے لیے۔ اس زمانے میں انہیں خط لکھنے میں کچھ دقت ہوتی تھی۔ ہم ان کے سکریٹری کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں اخبار بھی پڑھ کر سناتے تھے۔ ان مصروفیات کی وجہ سے ہمیں بچپن میں بہت فائدہ ہوا۔ اردو انگریزی کے اخبارات پڑھنے اور خطوط لکھنے کی وجہ سے ہماری استعداد میں کافی اضافہ ہوا۔

    ایک اور یاد تازہ ہوئی۔ ہمارے گھر سے ملی ہوئی ایک دکان تھی، جہاں کتابیں کرائے پر ملتی تھیں۔ ایک کتاب کا کرایہ دو پیسے ہوتا۔ وہاں ایک صاحب ہوا کرتے تھے جنہیں سب "بھائی صاحب” کہتے تھے۔ بھائی صاحب کی دکان میں اُردو ادب کا بہت بڑا ذخیرہ جمع تھا۔ ہماری چھٹی ساتویں جماعت کی طالب علمی میں جن کتابوں کا رواج تھا وہ آج کل قریب قریب مفقود ہو چکی ہیں جیسے طلسم ہوشربا، فسانۂ آزاد، عبدالحلیم شرر کے نادل وغیرہ۔ یہ سب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اس کے بعد شاعروں کا کلام پڑھنا شروع کیا۔ داغ کا کلام پڑھا۔ میر کا کلام، غالب تو اس وقت بہت زیادہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسروں کا کلام بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا نہیں آتا تھا لیکن ان کا دل پر اثر کچھ عجب قسم کا ہوتا تھا۔ یوں شعر سے لگاؤ پیدا ہوا اور ادب میں دل چسپی ہونے لگی۔

    ہمارے ابا کے منشی گھر کے ایک طرح کے منیجر بھی تھے۔ ہمارا ان سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا آج ہم تمہاری شکایت کریں گے کہ تم ناول پڑھتے ہو۔ ہمیں اس سے بہت ہی ڈر لگا اور ہم نے ان کی بہت منت کی کہ شکایت نہ کریں مگر وہ نہ مانے اور ابا سے شکایت کر ہی دی۔ ابا نے ہمیں بلایا اور کہا میں نے سنا ہے تم ناول پڑھتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں۔

    کہنے لگے ناول ہی پڑھنا ہے تو انگریزی ناول پڑھو، اردو کے ناول اچھے نہیں ہوتے، شہر کے قلعہ میں جو لائبریری ہے وہاں سے ناول لا کر پڑھا کرو۔

    ہم نے انگریزی ناول پڑھنے شروع کیے۔ ڈکنس، ہارڈی اور نہ جانے کیا کیا پڑھ ڈالا۔ وہ بھی آدھا سمجھ میں آتا تھا اور آدھا پلے نہ پڑتا تھا۔ اس مطالعہ کی وجہ سے ہماری انگریزی بہتر ہو گئی۔ دسویں جماعت میں پہنچنے تک محسوس ہوا کہ بعض استاد پڑھانے میں کچھ غلطیاں کر جاتے ہیں، ہم ان کی انگریزی درست کرنے لگے۔ اس پر ہماری پٹائی تو نہ ہوتی البتہ وہ استاد کبھی خفا ہو جاتے اور کہتے اگر تمہیں ہم سے اچھی انگریزی آتی ہے تو پھر تم ہی پڑھایا کرو ہم سے کیوں پڑھتے ہو۔

  • فیض صاحب: افکار و نظریات، شاعری اور شخصیت

    فیض صاحب: افکار و نظریات، شاعری اور شخصیت

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو کے جس شاعر کو پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی بلاشبہ وہ فیض احمد فیض ہیں۔ فیض کو ترقی پسند ادب، انقلاب آفریں نغمات اور انسان دوستی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

    فیض نے جب شاعری کی ابتدا کی تو علّامہ اقبال کے علاوہ کئی بڑے اور اہم شعراء اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری کے لیے مشہور تھے۔ اس وقت برصغیر میں آزادی کی جدوجہد اور سیاسی بیداری کی لہر تیز ہوچکی تھی۔ فیض نے اس ماحول میں اور پھر ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر اپنی شاعری میں جبر، استحصال اور ہر قسم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور انسانی سوچ پر پہرے اور پابندیوں کو مسترد کیا۔ لیکن انھوں نے انقلاب اور حرّیت کے چراغ رومان کی منڈیروں پر اس طرح سجائے کہ وہ آفاقی محبّت میں ڈھلے اور ہر فرد کی ترجمانی کی۔ کل کی طرح فیض کے انقلابی ترانے اور نظمیں آج بھی ان کی عظمت اور ہر خاص و عام میں ان کی مقبولیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ فیض صاحب کی شاعری کے اسی وصف نے ان کی شخصیت کو پاکستانی ادب ہی نہیں پاکستانی تہذیب اور ثقافت میں بھی امتیازی حیثیت دی اور وہ شاعر، نثر نگار، صحافی اور فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے یاد کیے گئے۔ ان کا ایک حوالہ تدریس بھی ہے۔ فیض صاحب کی شخصیت اور شاعری پر بہت سے مشاہیر اور اہلِ قلم نے مضامین تحریر کیے اور کئی کتابیں‌ لکھی جاچکی ہیں۔ ہم یہاں‌ ان کتابوں‌ سے چند دل چسپ واقعات بھی نقل کریں‌ گے مگر اس سے پہلے فیض‌ صاحب کا مختصر سوانحی خاکہ پڑھ لیجیے۔

    فیض صاحب کی مصدقہ تاریخِ پیدائش 13 فروری 1911ء ہے۔ مصدقہ ان معنوں میں کہ ان کی تعلیمی اسناد میں کہیں کہیں 7 جنوری بھی تحریر ہے۔ اس موضوع پر 1963ء میں لندن میں پروفیسر رالف رسل اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:’’ولادت تو میری سیالکوٹ کی ہے، تاریخ ولادت مجھے خود نہیں معلوم۔ ایک ہم نے فرضی بنا رکھی ہے۔ ‘‘

    پھر جب ان سے سوال کیا گیا کہ اچھا وہی بتا دیجیے تو جواب دیا: ’’7 جنوری 1911ء ہے لیکن یہ محض اسکول کے سرٹیفکیٹ سے نقل کی گئی ہے اور میں نے سنا ہے کہ اس زمانے میں اسکول میں جو تاریخیں لکھی جاتی تھیں وہ سب جعلی ہوتی تھیں۔

    فیض صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز بھی گھر ہی سے ہوا، جہاں انہوں نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ 1915ء میں انہیں انجمن اسلامیہ کے مدرسے میں داخل کروا دیا گیا جہاں ان کے والد خود اس انجمن کے صدر تھے۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہا کیوں کہ 1916ء میں انہیں اس کاچ مشن اسکول میں بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے مولوی ابراہیم سیالکوٹی سے علوم مشرقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ فیض صاحب نے جب بھی اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کیا تو اپنے اس شفیق استاد کو ضرور یاد کیا۔ اسی اسکول میں ان کے دوسرے استاد شمس العلماء مولوی میر حسن بھی تھے جن کے شاگردوں میں سر فہرست علامہ اقبال کا نام آتا ہے۔ فیض صاحب نے ان سے عربی صرف و نحو کے باقاعدہ درس لیے اور اپنے اس تعلق پر انہوں نے زندگی بھر ناز کیا۔

    1927ء میں فیض صاحب نے اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے اوّل درجے میں میٹرک پاس کیا اور اس کے دو سال بعد انہوں نے 1929ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان۔ اس طرح سیالکوٹ میں ابتدائی تعلیم کا زمانہ اختتام پذیر ہوا اور پھر اس سلسلے کا دوسرا دور لاہور سے شروع ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں جب داخلہ لیا تو کالج کی شان دار علمی فضا نے ان پر اپنے دروازے کھول دیے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے 1931ء میں انہوں نے ’’ بی اے کے ساتھ عربی میں بی اے آنرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1933ء میں انگریزی ادب میں ایم اے اور پھر1934ء میں عربی زبان و ادب میں بھی امتیاز کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ‘‘

    فیض صاحب کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں گورنمنٹ کالج لاہور کا زمانہ بہت یادگار ہے۔ یہیں ان کی شاعری نے اہلِ علم و ادب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور یہیں انہیں ایسے استاد میسر آئے جنہوں نے ان کی ادبی تربیت اور ناز برداری کے سامان مہیا کیے۔ ان شخصیتوں میں سرِفہرست پطرس بخاری اور صوفی غلام مصطفی تبسم کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

    عملی زندگی میں داخل ہونے کے بعد فیض‌ صاحب نے نہ صرف شعر و ادب بلکہ درس و تدریس، صحافت، سیاست اور ثقافت کے شعبوں میں بھی بہت کچھ کام کیا اور نام کمایا۔ ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی۔ اور بعد میں ہیلے کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1942 میں وہ فوج میں کیپٹن ہوئے تھے اور محکمۂ تعلقات عامہ میں کام کیا اور ترقی پائی۔ بعد کے زمانے میں پاکستان آرٹس کونسل سے منسلک ہوئے اور پھر عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کےعہدے پر فائز ہوئے۔ فیض‌ نے راولپنڈی سازش کیس میں‌ قید بھی کاٹی۔ بیرونِ ممالک سفر اور قیام کے علاوہ فیض صاحب کو کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا جن میں ایک لینن پرائز بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی سطح پر فیض کی ادبی خدمات کو ازحد سراہا گیا۔ 1962 میں اس وقت کے سوویت یونین نے انھیں لینن امن انعام دیا تھا اور 1976 میں ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔ 1990ء میں حکومت پاکستان نے ان کے لیے "نشانِ امتیاز” کا اعلان کیا اور 2011 کو "فیض کا سال” قرار دیا گیا۔

    یہاں ہم مرزا ظفرالحسن کی زبانی فیض احمد فیض سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا ذکر ہے۔ اردو کے مایہ ناز شاعر فیض احمد فیضؔ نے اپنے گھر میں ریڈیو تو رکھ لیا تھا مگر نہ اس کا لائسنس بنوایا تھا، نہ فیس ادا کی تھی۔ اس الزام کے تحت انھیں سول عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ پیشی کے دن فیضؔ عدالت میں پہنچے۔

    مجسٹریٹ فیضؔ کو اپنے کمرے میں لے گیا اور بڑی عاجزی سے بولا ‘‘فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے، وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے، خدا رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’

    اس کا کہنا تھا کہ ‘‘آپ نے ریڈیو کا لائسنس نہ بنواکر مقدمے کا نہیں بلکہ مجھے ملاقات کا اور میری گزارش سننے کا موقع فراہم کیا ہے، اگر آپ کل شام کی چائے میرے غریب خانے پر پییں اور اپنا کلام، بالخصوص پہلی سی محبت والی نظم میری بیوی کو سنائیں تو اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوجائے گی۔’’

    فیضؔ نے جواب میں کہا کہ ‘‘آپ سمن کے بغیر بھی بلاتے تو میں حاضر ہوجاتا اور نظم سناتا، میں کل شام ضرور آؤں گا۔’’ اس کے بعد فیض نے مجسٹریٹ سے پوچھا۔ ‘‘محض بے پروائی میں مجھ سے جو جرم سرزد ہوا ہے آپ نے اس کی کیا سزا تجویز کی ہے؟’’

    راوی کے مطابق مجسٹریٹ کا جواب تھا کہ ‘‘فیضؔ صاحب! ماضی میں اگر آپ نے اس کے علاوہ بھی کچھ جرم کیے ہیں تو ان سب کی معافی کے لیے یہ ایک نظم ہی کافی ہے۔ ریڈیو کا لائسنس بنوالیجیے بس یہی آپ کی سزا ہے۔’’

    احمد ندیم قاسمی کی زبانی یہ قصہ بھی سنیے۔

    ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔ نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔

    فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔

    میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“ بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔

    فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔

    ڈاکٹر آفتاب احمد کی یادداشتوں سے یہ انتخاب بھی فیض صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو ہمارے سامنے لاتا ہے۔

    ایک دفعہ فیض کراچی آئے۔ عطا صاحب نے ان کی اور راشد کی ایکسیلیئر ہوٹل میں دعوت کی جہاں ان دنوں ایک مصری بیلی ڈانسر پرنسس امینہ کا فلور شو ہو رہا تھا۔ ایک خاص بات اس میں یہ تھی کہ ڈھول بجانے والا اس ڈانسر کا شوہر تھا جو کسی انگریز لارڈ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اس دعوت میں فیض، راشد اور دونوں کے کالج کے ساتھی سیّد رشید احمد، غلام عبّاس اور راقم الحروف شامل تھے۔

    ہم لوگ جب وقت مقررہ پر ہوٹل کی سب سے اوپر والی منزل پر واقع ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ عطا صاحب کے تعلقات کی بنا پر ہوٹل والوں نے واقعی بڑا اہتمام کر رکھا ہے۔ مینجر نے خود ہمارا استقبال کیا اور ہمیں اسٹیج کے قریب والی ان دو میزوں میں سے ایک پر بٹھا دیا جن پر نہایت بڑھیا قسم کے مشروبات مع لوازمات بڑے سلیقے سے آراستہ تھے۔ فلور شو میں ابھی دیر تھی۔

    آخر جب اس کا وقت قریب آنے لگا تو فیصلہ ہوا کہ اس سے پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ ہم لوگ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ فلور شو کی تیاری میں ہال کی رنگین بتّیاں جلنے بجھنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی ہوٹل کے منیجر کچھ اور مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انہیں ہماری میز کے ساتھ والی میز پر لے آئے۔

    ان مہمانوں میں اس زمانے کے وفاقی وزیر ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی تھے۔ انہوں نے فیض صاحب کو دیکھتے ہی کسی قدر استعجاب اور بڑی بے تکلّفی کے لہجے میں پوچھا: ”Faiz, what are you doing here“ فیض صاحب نے سَر اٹھا کر ایک نظر ان پر ڈالی، پھر چھری کانٹا سنبھال کر اپنی پلیٹ پر جھک گئے اور بڑی بے پروائی سے جواب دیا: ”عیش۔“

    یہ لفظ انہوں نے ہر ہر حرف کی آواز کو اُبھارتے ہوئے کچھ اس اندازسے ادا کیا کہ جیسے ان کا نطق ان کی زبان کے بوسے لے رہا ہو۔ ہم سب فیض صاحب کے اس جواب سے محظوظ ہوئے مگر راشد صاحب سب سے زیادہ۔

    وہ بعد میں بھی بڑا لُطف لے لے کر اس کی داد دیتے رہے۔ یہاں تک کہ اسے سکندر اور دیو جانس کلبی کے اس مشہور مکالمے سے جا بھڑایا کہ جس میں سکندر کے اس سوال پر کہ اسے کیا چاہیے؟ بوریے پر بیٹھے ہوئے دیو جانس کلبی نے صرف اتنا کہا تھا کہ ”ذرا ایک طرف کو ہٹ جاؤ اور دھوپ مت روکو۔“

    مشہور براڈ کاسٹر اور ادیب آغا ناصر لکھتے ہیں،’’1935میں فیض صاحب لاہور کو الوداع کہہ کر امرتسر چلے گئے۔ انھیں وہاں ایم اے او کالج میں لیکچر شپ مل گئی تھی۔ لاہور چھوڑنا فیض صاحب کے لیے کوئی ایسی خوشگوار بات نہیں تھی۔ لاہور میں اپنے کلاس فیلوز کے علاوہ انھیں اپنے اساتذہ سے بھی خاص نسبت رہی ۔‘‘’’ادبی حلقوں میں جو لوگ اس وقت لاہور میں موجود تھے اور جن سے فیض صاحب نے کسبِ فیض کیا۔ ان میں مولانا چراغ حسن حسرؔت، عبدالمجید سالکؔ، عبدالرحمٰن چغتائی، غلام رسول مہر، امتیاز علی تاج اور حفیظ جالندھری وغیرہ شامل تھے۔ پھر یہ کہ لاہور ہی وہ شہر تھا جہاں وہ اٹھارہ سال کی عمر میں عشق میں مبتلا ہوئے۔ اس پہلی محبت نے انھیں دیوانہ بنا دیا تھا۔‘‘

    1941 میں فیض نے ایلس کیتھرین جارج سے شادی کی۔ شادی کی سادہ تقریب سرینگر میں منعقد ہوئی تھی۔ لینن انعام ملنے کے بعد فیض کو عالمی شہرت ملی۔ انھیں‌ بیرونِ‌ ملک لیکچرز کے لیے مدعو کیا جانے لگا اور ان کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے۔

    فیض صاحب کی تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادیٔ سینا، شام شہر یاراں اور میرے دل مرے مسافر کے علاوہ نثری کتابوں‌ میں میزان، صلیبیں مرے دریچے میں اور متاع لوح و قلم شامل ہیں۔

    20 نومبر 1984ء کو فیض‌ صاحب کا انتقال ہوگیا۔

  • لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علَم

    لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علَم

    فلسطین کے مظلوم عوام اور اس سرزمین پر تحریکِ آزادی دنیا بھر میں حرّیت پسندی کے باب میں بے مثال قربانیوں اور لازوال شہادتوں کے سبب ہر ملک کے ادب کا حصّہ رہی ہے۔ دنیا میں امن و سلامتی اور محبت کا پیغام عام کرنے والے دانش ور، ادیب اور شاعر اسرائیلی جارحیت اور عالمی طاقتوں کی جانب سے اس کی حمایت کو زیرِ بحث لاتے رہے ہیں اور دنیا کی منافقت اور دہرے معیار کو بے نقاب کیا ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ ترقی پسند شاعر فیض احمد فیضؔ نے بھی انسانیت اور درد مندی کے جذبے سے سرشار ہوکر فلسطین کے لوگوں اور تحریکِ آزادی پر نظمیں تخلیق کی ہیں۔ فیضؔ کے آخری شعری مجموعے ”مرے دِل مرے مسافر” کا انتساب بھی یاسر عرفات کے نام ہے اور اس مجموعے میں کئی نظمیں فلسطین سے متعلق ہیں۔ فیض کی ایک نظم ”فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے” ہے۔ اس کا انداز خطابیہ ہے مگر اس میں رُوے سخن ارضِ فلسطین کی طرف ہے۔ یہ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن
    تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
    تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
    تیری الفت تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
    تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
    سارے ان دیکھے رفیقوں کا جلو ساتھ رہا
    کتنے ہاتھوں سے ہم آغوش مرا ہاتھ رہا
    دور پردیس کی بے مہر گزر گاہوں میں
    اجنبی شہر کی بے نام و نشاں راہوں میں
    جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
    لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا علَم
    تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
    میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

  • ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر

    ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر

    سنہ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے ادیبوں اور شعرا میں ساحر لدھیانوی بھی شامل تھے۔ وہ اپنے زمانے کے مقبول شاعر تھے، ان کی مقبولیت ایسی تھی جو اُن کے بعض ہم عصروں کے لیے باعثِ رشک تھی تو اکثر اہلِ قلم میں اُن کے لیے رقابت کا جذبہ بھی پیدا کیا۔

    ’سویرا‘ ترقی پسند مصنّفین کا رسالہ تھا جس کے چند شمارے ساحر لدھیانوی کے زیرِ ادارت شایع ہوئے۔ اس دور میں‌ ایسے انقلابیوں اور کمیونسٹوں پر حکومت کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔ ساحر اپنی شاعری اور اس رسالہ میں اپنے مضامین کے ذریعے انقلابی فکر کا پرچار کرتے رہتے تھے۔ ایک روز وہ پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ یہاں لاہور کے قیام کے دوران ساحر لدھیانوی نے سویرا کے صرف چند شماروں کی ادارت کی تھی۔ سویرا کا چوتھا شمارہ ان کے زیرِ‌ ادارت آخری شمارہ تھا۔ اسی سویرا کے تیسرے پرچے میں ساحر نے مدیر کی حیثیت سے فیض احمد فیض کے بارے میں چند خوب صورت سطریں‌ سپردِ قلم کی تھیں۔ انھوں نے فیض کو اس وقت ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر لکھا۔ ساحر کی تحریر ملاحظہ کیجیے۔

    "فیض احمد فیض: ذہین طبقے کا سب سے محبوب شاعر ہے۔ بہت کم لکھتا ہے، لیکن جب لکھتا ہے تو پڑھنے والوں کے ساتھ لکھنے والوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اردو کے نوجوان شاعروں میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو گا جس نے اس کے انداز بیان اور اسلوبِ فکر سے اثر نہ لیا ہو۔

    فیض وہ پہلا فن کار ہے جس نے جدید شاعری اور انفرادی دکھوں کو سماجی پس منظر میں جانچنا سکھایا اور رومان اور سیاست کا سنگم تلاش کیا۔ دو ایک برس سے تکلیف دہ حد تک خاموش رہنے لگا ہے، جیسے اب کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہو، یا ضرورت ہو لیکن فرصت نہ ملتی ہو۔ پھر بھی کبھی کبھی کوئی حادثہ کسی نہ کسی گوشے سے ابھر کر اس کے جذبات کے تاروں کو جھنجھنا دیتا ہے اور وہ کچھ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اپنی مخصوص مدھم اور ملائم لے میں ‘سحر’ ایک ایسے ہی حادثے کی پیدوار ہے۔

    بچپن سیالکوٹ میں گزرا۔ ایم اے کا امتحان گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا، پھر ایم اے او کالج امرتسر اور ہیلی کالج لاہور میں بطور پروفیسر کام کرتا رہا۔ جنگ کے دوران میں لیفٹننٹ، میجر اور کرنل کے عہدے بھی سنبھالے، آج کل پاکستان ٹائمز لاہور کا ایڈیٹر ہے، اور آنکھوں کی گہری افسردگی اور لبوں کی موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی کا ساتھ نبھا رہا ہے۔”

  • زمانۂ اسیری میں‌ جب فیض کو تانگے میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا

    زمانۂ اسیری میں‌ جب فیض کو تانگے میں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا

    1951ء میں راول پنڈی سازش کیس میں جب فیض جیل میں ڈال دیے گئے، تو ان کے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کے علاوہ سجاد ظہیر بھی تھے۔ ان دونوں کا ساتھ 1955ء تک رہا۔ یہیں سے فیض کی حقیقی مقبولیت کا آغاز ہوتا ہے، جو قومی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر تھی۔

    سجاد ظہیر نے جیل سے جو بے شمار خط اپنی بیوی رضیہ سجاد ظہیر کو لکھے ہیں ان میں فیض کا ذکر جگہ جگہ ملتا ہے۔ ان خطوں سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ فیض جب بھی کوئی نئی نظم لکھتے تھے تو جیل کے اندر اس خوشی میں ایک جشن منایا جاتا تھا۔ اس سے متعلق خبروں کے علاوہ ان کے نظمیں جیل سے باہر بھی کسی نہ کسی ذریعے سے یقیناً پہنچ جاتی تھیں، جنہیں پاکستان و بھارت کے ترقی پسند رسالے ایک تحفے کے طور پر چھاپ لیتے تھے۔

    جیل کے باہر ان کی شہرت دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ان کے اوّلین مجموعۂ کلام ’نقشِ فریادی‘ کے پانچ ایڈیشن چھپ کر ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھے۔

    لاہور جیل میں قید کے دوران فیض کے ایک دانت میں شدید درد رہنے لگا تھا جس کے علاج کے لیے انہیں کڑے پہرے میں جیل کے باہر ایک ڈاکٹر کے کلینک لے جایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ وہاں لے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست نہ کیا جا سکا، تو انہیں تانگے میں سوار کرا کے لے جایا گیا۔ ان کے دونوں طرف اور آگے بھی بندوق بردار سپاہی بیٹھے ہوئے تھے۔

    اس روز کا قصہ خود فیض کی زبانی سنیے:
    ”ہم لاہور کی جانی پہچانی سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ لاہور ہمارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ پھر لوگوں نے ہمیں پہچان لیا۔ بازار میں ہمارا تانگہ کھڑا تھا اور اس کے اردگرد یارانِ وفا کا ہجوم۔ ان میں نان بائیوں سے لے کر معروف صحافیوں تک سبھی شامل تھے۔ بالکل جلوس کی شکل بن گئی۔

    میں نے زندگی میں ایسا دل کش جلوس نہیں دیکھا۔ اسی سے متاثر ہوکر یہ نظم لکھی؎

    آج بازار میں پا بہ جولاں چلو، دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
    خاک برسر چلو، خوں بہ داماں چلو، راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو

    (رام لعل کی تصنیف ”دریچوں میں رکھے چراغ“ سے‌ انتخاب)

  • صحافت کے گلشن میں فیض کا سوز اور لحن

    صحافت کے گلشن میں فیض کا سوز اور لحن

    کسی بھی جمہوریت اور آزاد معاشرے میں ذرایع ابلاغ بالخصوص اخبارات اور رسائل میں خبر کا معروضی انداز، کسی بھی واقعے اور مسئلے پر رپورٹ میں غیر جانب داری بنیادی صحافتی اصول ہیں اور اسی طرح اداریہ نویسی بھی حق بات کو جرأت کے ساتھ بیان کرنے کا نام ہے۔

    کوئی بھی مدیر جس فیصلے، پالیسی یا کام کو غلط سمجھتا ہے اس پر اپنے روزنامہ کے اداریے میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے اور اس طرح معاشرے کی بہتری کے لیے حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اداریہ نویسی اردو اور انگریزی اخبار کی ایک نہایت سنجیدہ، مضبوط اور مستحکم روایت ہے۔ اداریہ ایسی تحریر ہوتی ہے جو عموماً مستند صحافی اور تجربہ کار مدیر یا ناشر کے قلم سے نکلتی ہے۔ اداریہ نویس اگر تخلیقی ذہانت رکھتا ہے اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ وسیع مطالعہ کا حامل ہو تو اہم، نہایت سنجیدہ اور حساس معاملات پر اپنا اداریہ نہایت خوب صورت اور دل نشیں پیرائے میں رقم کرتا ہے تاکہ وہ لائقِ توجہ بنے اور ہر قاری کو یکساں طور پر متاثر کرے۔

    فیض احمد فیضؔ ہماری فکری، ادبی اور صحافتی روایت کا روشن استعارہ ہیں۔ وہ دانش وَر تھے، استاد تھے، انقلابی فکر کے پرچارک، مزدور راہ نما اور عہد ساز شاعر بھی، لیکن وہ ایک مدیر اور صحافی کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو اور انگریزی صحافت کے گلشن میں اپنی فکر کے پھول کھلائے اور اس کا رنگِ بیاں خوب نکھارا۔ وہ ادب اور صحافت دونوں ہی میں ترجمانِ حیات رہے اور سب کی نظروں میں احترام اور اعتبار پاپا۔

    سید سبط حسن جو دنیائے صحافت میں ان کے رفیقِ خاص رہے وہ ’سخن در سخن‘ میں فیض صاحب کی صحافتی خدمات پر یوں رقم طراز ہیں:

    ”فیض صاحب نے دس گیارہ سال اخبار نویسی کی۔ پاکستان کی صحافت کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے اخبار نویسی بڑے آن بان سے کی۔ انہوں نے ضمیر کے خلاف کبھی ایک حرف بھی نہ لکھا۔ بلکہ امن، آزادی اور جمہوریت کی ہمیشہ حمایت کی۔ اقتدار کی جانب سے شہری آزادیوں پر جب کبھی حملہ ہوا تو فیض صاحب نے بے دھڑک اس کی مذمت کی اور جس حلقے، گروہ، جماعت یا فرد سے بے انصافی کی گئی انہوں نے اس کی وکالت کی۔ فیض صاحب کے اداریے اپنی حق گوئی کی ہی بدولت مقبول نہ تھے بلکہ وہ نہایت دل چسپ ادبی شہ پارے بھی ہوتے تھے جن کو دوست اور دشمن سب لطف لے کر پڑھتے تھے۔“

    فیض نے اداریہ نویسی میں نئی طرز ایجاد کی جس کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے ’بیادِ صحبتِ نازک خیالاں‘ میں لکھا:

    ’فیض صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کی ابتدا میں واقعی بڑی محنت کی تھی۔ انہوں نے پاکستان ٹائمز میں اداریہ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ نکالا اور اس کو ایک ادبی ذائقہ بھی دیا۔ ان کے اس زمانے کے اداریوں میں دو تین آج بھی میری یاد میں محفوظ ہیں۔ ایک تو شاید 1951 کے اوائل میں جب لیاقت علی خان نے کامن ویلتھ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے اس بنا پر پس و پیش کی کہ اس میں کشمیر کا مسئلہ بھی زیرِ بحث لایا جائے اور پھر کسی واضح یقین دہانی کے بغیر ہی شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تو فیض نے Westward Ho کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جو والٹر اسکاٹ کے ایک ناول کا نام ہے۔ یہ Charles Kingsley کا ناول ہے۔ وہاں کشمیر پہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی اور لیاقت علی خان خالی ہاتھ واپس آئے تو فیض کے اداریے کا عنوان تھا The Return of the Native جو ٹامس ہارڈی کے ایک ناول کا نام ہے۔‘

    ڈاکٹر آفتاب احمد نے مخزن کے مدیر، شیخ عبدالقادر کے انتقال پر اداریے کا بھی ذکر کیا ہے جو فیض نے ان کے بقول ’دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھا تھا۔‘
    فیض نے ایک اداریے میں معاصر عالمی صورتِ حال پر لکھاری کے کردار پر بات کی تو ٹینی سن کی نظم Ring Out Wild Bells سے اس کا عنوان مستعار لیا:
    Ring out the old

    اسی نظم کی ان لائنوں پر اداریہ ختم ہوتا ہے:

    Ring out the thousand wars of old
    Ring in the thousand years of peace

  • فیض احمد فیض: ریڈیو کا لائسنس اور ہیئر کٹنگ سیلون

    فیض احمد فیض: ریڈیو کا لائسنس اور ہیئر کٹنگ سیلون

    فیض‌ کا تذکرہ اردو ادب میں ایک سخن گو کی حیثیت سے اس طرح نہیں ہوتا جیسا کہ عام شعرا اور خود فیض کے ہم عصروں کا ہوا۔ فیض احمد فیض اپنی شخصیت اور انقلابی نظریات کے سبب پہچانے گئے اور پاکستان کے ممتاز گلوکاروں کی آواز میں ان کا کلام مقبول ہوا۔

    آج ترقیّ پسند ادب اور انقلاب آفریں تخلیقات کی بدولت دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والے اس شاعر کی برسی ہے۔ وہ 1984ء میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم فیض صاحب کی زندگی کے یہ دو واقعات آپ کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    مرزا ظفرالحسن اردو کے ممتاز ادیب تھے جنھوں نے ایک واقعہ بیان کیا: برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا ذکر ہے۔ اردو کے مایہ ناز شاعر فیض احمد فیضؔ نے اپنے گھر میں ریڈیو تو رکھ لیا تھا مگر نہ اس کا لائسنس بنوایا تھا، نہ فیس ادا کی تھی۔ اس الزام کے تحت انھیں سول عدالت میں طلب کرلیا گیا۔ پیشی کے دن فیضؔ عدالت میں پہنچے۔

    مجسٹریٹ فیضؔ کو اپنے کمرے میں لے گیا اور بڑی عاجزی سے بولا ‘‘فیض صاحب! میری بیوی کو آپ کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، بہت پسند ہے، وہ مجھے بار بار طعنے دیتی ہے کہ تم ہمیں شاعر سے اس کی ایک نظم بھی نہیں سنواسکتے، خدا رکھے آپ کے بلا لائسنس ریڈیو کو، اس کے طفیل مجھے آپ سے یہ عرض کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’

    اس کا کہنا تھا کہ ‘‘آپ نے ریڈیو کا لائسنس نہ بنواکر مقدمے کا نہیں بلکہ مجھے ملاقات کا اور میری گزارش سننے کا موقع فراہم کیا ہے، اگر آپ کل شام کی چائے میرے غریب خانے پر پییں اور اپنا کلام، بالخصوص پہلی سی محبت والی نظم میری بیوی کو سنائیں تو اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوجائے گی۔’’

    فیضؔ نے جواب میں کہا کہ ‘‘آپ سمن کے بغیر بھی بلاتے تو میں حاضر ہوجاتا اور نظم سناتا، میں کل شام ضرور آؤں گا۔’’

    اس کے بعد فیض نے مجسٹریٹ سے پوچھا۔ ‘‘محض بے پروائی میں مجھ سے جو جرم سرزد ہوا ہے آپ نے اس کی کیا سزا تجویز کی ہے؟’’

    راوی کے مطابق مجسٹریٹ کا جواب تھا کہ ‘‘فیضؔ صاحب! ماضی میں اگر آپ نے اس کے علاوہ بھی کچھ جرم کیے ہیں تو ان سب کی معافی کے لیے یہ ایک نظم ہی کافی ہے۔ ریڈیو کا لائسنس بنوا لیجیے بس یہی آپ کی سزا ہے۔’’

    احمد ندیم قاسمی بھی فیض صاحب کے قریبی اور بے تکلف دوستوں میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ”میرے ہم سفر“ میں یہ دل چسپ واقعہ لکھا ہے:

    ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔

    نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔

    فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔

    میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“

    بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔

    فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔