Tag: فیض احمد فیض

  • ماسکو میں ہونے والی ایک ملاقات

    ماسکو میں ہونے والی ایک ملاقات

    کرشن چندر اور فیض احمد فیض نمایاں شخصیات تھیں، اس میں شاید ہی کسی کو شک ہو۔ مجھ ناچیز کو ان دونوں سے ملنے کا موقع نصیب ہوا تھا جو میرے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ لیکن میں ہرگز اپنے بارے میں یا ان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بتانے والی نہیں ہوں۔

    میں ان دونوں کی آپس میں ملاقات کے بارے میں بتانا چاہوں گی جو میری آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی۔

    ایسا مئی سن 1967 میں ماسکو میں ہوا تھا۔ اس وقت ماسکو میں سوویت ادیبوں کی کانگریس ہو رہی تھی جس میں شرکت کے لیے ہمارے ملک کے کونے کونے سے ادیب اور شاعر تشریف لائے تھے۔

    مختلف ممالک سے مشہور و معروف مصنّفین اور شعرا کو مہمانوں کی حیثیت سے بلایا گيا تھا۔ ہندوستان سے کرشن چندر جی کو مدعو کیا گیا تھا جو اپنی بیگم سلمیٰ صدیقی صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ مجھے ان کی مترجم کے فرائض سونپے گئے تھے۔

    تمام شرکا اور مہمانوں کو ماسکو کے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا جو دارُالحکومت کے عین مرکز میں لال چوک کے بالکل قریب واقع ہے۔ آج یہ ہوٹل "فور سیزنز” کے نام سے مشہور ہے۔ ہوٹل کے ریستوراں میں لا محالہ سب کے لیے کھانا کھانے کا انتظام تھا۔ کانگریس کی رسمِ افتتاح سے ایک دن قبل کرشن چندر جی، سلمیٰ صدیقی اور میں اس ہوٹل کے ریستوران میں داخل ہوئے تھے تو اس میں چندر جی اچانک ان کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے تھے اور اس شخص نے بھی وہی کیا تھا۔ ان دونوں نے نہ صرف آپس میں ہاتھ ملائے بلکہ ایک دوسرے کے گلے بھی لگے اور کچھ لمحوں تک ہم آغوش رہے تھے۔

    مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دوسرا شخص کون تھا لیکن سلمیٰ صدیقی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ فیض ہیں۔ میں نے ان کا نام سنا تو تھا، مجھے یہ معلوم تھا کہ فیض اردو زبان کے بڑے شاعر ہیں جنہیں لینن امن انعام عطا کیا گیا تھا۔ پھر معلوم ہوا تھا کہ وہ دونوں بیس سالوں بعد ملے تھے یعنی تقسیمِ ہند کے بعد پہلی بار۔

    یاد رہے کہ سوویت ادیبوں کی کانگریس میں حصہ لینے والے ہر وفد کی ایک الگ میز تھی جس پر ان کے ملک کا چھوٹا سا پرچم رکھا گیا تھا۔ فیض صاحب نے کرشن جی سے کہا تھا کہ ہم لوگ ایک ہی میز کے گرد بیٹھیں گے۔ میں نے شاید حیرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا: "بچّی پریشان مت ہو، میں اپنے ملک کا پرچم اٹھا کر آپ کی میز پر رکھ دوں گا۔ ” انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا، "آج دنیا میں ماسکو شاید واحد جگہ ہے جہاں ہمارے دونوں ملکوں کے جھنڈے ساتھ ساتھ رکھے جاسکتے ہیں۔”

    پھر کرشن چندر اور فیض احمد فیض رات گئے تک باتیں کرتے رہے تھے۔ آپ جان چکے ہیں کہ وہ دونوں بہت سال بعد ماسکو میں ملے تھے جو حسنِ اتفاق تھا۔
    اس کے بعد کانگریس کے دوران کرشن چندر اور فیض احمد فیض ہمیشہ ایک ہی میز پر بیٹھے تھے۔ یہ وہ چھوٹا سا واقعہ تھا جس بارے میں، مَیں بتانا چاہتی تھی۔ یہ واقعہ مجھے آج بھی اسی طرح یاد آ رہا ہے جیسے وہ نصف صدی قبل نہیں بلکہ ابھی ابھی ہوا ہے۔

    نوٹ: Irina Maximenko (ارینا ماکسی مینکو) روسی اردو داں، مترجم اور صحافی ہیں جنھوں نے اپنی یادوں کو قلم بند کیا اور یہ واقعہ انہی کے قلم سے نکلا ہے۔ وہ برسوں تک روس میں نشریاتی اور اشاعتی اداروں سے منسلک رہیں اور وہاں شعبۂ اردو کے لیے پروگرامز اور برصغیر کی نمایاں شخصیات کے انٹرویو کیے ہیں)

  • مہدی ظہیر کا تذکرہ جن کی پُرسوز آواز میں قصیدہ بردہ شریف آپ نے بھی سنا ہو گا!

    مہدی ظہیر کا تذکرہ جن کی پُرسوز آواز میں قصیدہ بردہ شریف آپ نے بھی سنا ہو گا!

    شہرۂ آفاق نعتیہ کلام جسے قصیدہ بردہ شریف بھی کہتے ہیں، ہم سبھی نے سنا اور پڑھا بھی ہے۔

    امام بوصیری کا لکھا ہوا یہ قصیدہ صدیوں سے اسلامی دنیا میں مقبول ہے اور آج بھی نہایت عقیدت اور احترام سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبّت کے اس اظہار میں وارفتگی اور رقّت انگیزی اس کلام کا امتیازی وصف ہے۔

    اسلامی ممالک کے نعت خوانوں کی طرح پاکستان میں بھی قصیدہ بردہ شریف پڑھنے کو نعت خواں اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں اور گلوکاروں نے بھی نہایت عقیدت سے یہ کلام گایا ہے، لیکن یہاں ہم صرف مہدی ظہیر کا تذکرہ کررہے ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں عربی زبان پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ جب مہدی ظہیر نے قصیدہ بردہ شریف کو اپنے پُرسوز لحن میں‌ سامعین تک پہنچایا تو اسے بہت پسند کیا گیا۔

    مہدی ظہیر 5 اپریل 1988ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ شاعر، موسیقار اور ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر تھے اور گلوکاری کا شوق بھی رکھتے تھے۔ مہدی ظہیر 1927ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام افتخار مہدی تھا۔ 1974ء میں جب لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو شرکا اور ملک بھر میں سامعین نے ان کی آواز میں "ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی مصطفویٰ ہیں” جیسا نغمہ بھی سنا جس نے مسلمانوں میں جذبہ و شوق بھڑکایا اور امتِ مسلمہ کے تصوّر کو زندہ کر دیا۔

    مہدی ظہیر ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے تھے اور اسی زمانے میں احمد رشدی کی وجہ شہرت بننے والا مشہور گیت ’’بندر روڈ سے کیماڑی، مری چلی رے گھوڑا گاڑی‘‘ بھی تحریر اور کمپوز کیا تھا۔ فیض احمد فیض کی مشہور نظم "دشتِ تنہائی” کی موسیقی بھی مہدی ظہیر ہی نے ترتیب دی تھی۔

  • ’وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے‘

    ’وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے‘

    کراچی: وزیر تعلیم سندھ سردار علی شاہ نے آج میڈیا ٹاک میں جدید اردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت دینے والے شاعر فیض احمد فیض کا ایک مصرع سنایا جو اس وقت ملکی سیاسی ہلچل کی طرف زبردست طریقے سے اشارہ کرتا ہے۔

    صوبائی وزیر تعلیم نے کہا لگتا ہے کہ فیض احمد فیض صاحب نے عمران خان کے لیے ہی کہا تھا کہ ’وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے‘۔

    یہ مصرع فیض کی اس غزل کا ہے جو ان کی کلیات ’نسخہ ہائے وفا‘ میں شامل ہے، یہ کلیات 1986 میں چھپی تھی۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ یہ پوری غزل موجودہ حالات بالخصوص وزیر اعظم عمران خان کی صورت حال کی بہت خوب صورتی سے ترجمانی کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

    دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

    وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے

    ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
    تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

    اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
    دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے

    دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کر دیا
    تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

    بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
    مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے

  • انقلابِ‌ روس اور اردو ادب

    انقلابِ‌ روس اور اردو ادب

    انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔

    ایک نیا انقلابی فلسفہ، نیا انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی ساتھ روس کی نئی حکومت نے براہِ راست اور بالواسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔

    چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے سامراجی جوئے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاترک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔

    اقوامِ مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آگئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالف اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔

    جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہاں پر زبردست آزادی کی لہر اٹھی تھی۔ نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے شریک ہو کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغاستان سے گزر کر تاشقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی درآمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔

    ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ ، لاہور، امرتسر وغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں، عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گو کہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔

    اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔

    ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔

    انقلابِ روس (نومبر1917ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی، لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ‘سیارہ’ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلاب روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی، "یورپ کی لال آندھی” کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روزنامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد "سیارہ” سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس سیارہ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا:

    مرا درد بست اندر دل اگر گویم زباں سوزد
    وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد

    (ترجمہ: میرے دل میں آج ایسا درد ہے جس کا اگر بیاں کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر نہ بولوں سانس اندر کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں)۔

    اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصے کا اظہار ہوتا تھا۔

    یہ امر بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مارکس کے شہرۂ آفاق کمیونسٹ مینی فسٹو کا پہلا اردو ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفتہ وار "الہلال” میں قسط وار شائع کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا جو اس زمانے میں الہلال کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں کام کرتے تھے۔ مولانا ملیح آبادی (جیسا کہ بعد کو وہ کہلائے) ہمارے اس دور کے ان مفکرین اور عالموں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سالہا سال تک اردو میں ترقی پسندی، عقلیت پسندی نیز مارکسی خیالات کی ترویج کی۔ وہ پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روشن خیال شخص بھی تھے۔ اور مولانا حسرت موہانی کی طرح ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

    عربی اور علوم دینیہ کے عالم ہونے کے علاوہ وہ ردود کے نہایت عمدہ نثر نگار اور ہمارے چوٹی کے جرنلسٹوں میں بھی تھے۔ اپنے مضامین، رسالوں اور کتابوں میں انہوں نے روسی انقلاب کے واقعات، روس کی سوویت حکومت کی پالیسیوں اور کمیونسٹ نظریات کی مسلسل بڑے سہل اور دل کش انداز میں ترویج کی۔

    کیا اچھا ہو اگر مولانا ملیح آبادی کے اس قسم کے تمام مضامین جو ان کے اخبار ‘روزانہ ہند’ (کلکتہ) میں سالہا سال شائع ہوئے اور ان کی اس قسم کی دیگر تحریروں کا ایک مجموعہ شائع کیا جائے۔ اسی طور سے مولانا حسرت موہانی کا وہ خطبۂ صدارت بھی قابلِ دید ہوگا جو انہوں نے کانپور میں منعقد کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس میں پڑھا تھا۔ افسوس کہ یہ اب دست یاب نہیں ہوتا۔

    چند سال پیشتر ‘سوویت دیس’ میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ انقلابِ روس کے تھوڑے ہی عرصے بعد لاہور سے لینن کی حیات پر ایک چھوٹی سی کتاب اردو میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب نہ صرف اردو میں بلکہ شاید ہندوستان میں لینن کی پہلی سوانح حیات ہے۔

    بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں اردو میں دو شخصیتوں نے مارکسی خیالات اور انقلابی کمیونسٹ تحریک کے مختلف تاریخی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر متعدد کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ یہ امرتسر کے اشتراکی ادیب باری اور ٹیکارام سخن ہیں۔ باری صاحب تو اشتراکی ادیب کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ ہندوستان کے اردو داں مارکسی ہمیشہ ان کے ممنون احسان رہیں گے۔ گوکہ ان میں اس قدر زیادہ سہل پسندی تھی کہ مارکسزم کے مکمل فلسفیانہ نکتوں کی پیچیدگیوں کو وہ اپنی تحریروں میں حذف کر دیتے تھے، تاہم ان کی تحریروں نے ایک بہت بڑے گروہ کو متاثر کیا اور مارکسزم کا طرف دار بنایا۔

    غالباً اردو زبان میں سب سے ضخیم اور تاحال سب سے زیادہ مستند کتاب مارکسزم پر چودھری شیر جنگ کی ہے، جو سن 1945ء یا 1946ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب کارل مارکس کے سوانح حیات اور مارکسی نظریات کے متعلق ہے، اور بڑے سائز پر پانچ سو صفحوں سے زیادہ کی ہے۔ چودھری شیر جنگ دہشت پسند انقلابیوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ اپنی طویل گرفتاری کے دوران وہ مارکسسٹ ہوگئے اور اسی زمانے میں یہ کتاب انہوں نے تحریر کی جسے اپنی رہائی کے بعد شائع کرایا۔

    1930ء کے بعد اردو ادب پر مارکسی نظریات اور خیالات کا اثر بہت نمایاں طور سے نمودار ہونے لگا۔ 1935ء میں ‘انجمن ترقی پسند مصنفین’ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی زمانے میں اختر حسین رائے پوری نے ‘انجمن ترقیٔ اردو ہند’ کے رسالے ‘اردو’ میں ادب کے انقلابی اور ترقی پسند نظریے کے متعلق اپنا طویل مضمون شائع کیا۔

    اردو تنقید میں مارکسی نقطۂ نظر کا آغاز اسی مضمون سے ہوتا ہے اور گو آج ہم کو اس مضمون میں بہت سی خامیاں اور کج رویاں نظر آتی ہیں لیکن یہ خامیاں راقم کی کم ہیں، وہ اس دور کے مارکسی دانش وروں کی عام خامیاں ہیں۔ بہرحال اردو ادب میں مارکسی تنقید کی اوّلیت اسی مضمون کو حاصل ہے۔ اس مضمون نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد اردو ادب پر عام طور سے مارکسی نظریات کا اثر تیزی سے پھیلا۔

    لاہور کے رسالے ‘ادبِ لطیف’ کے ایڈیٹر کچھ عرصے کے لیے فیض احمد فیض ہوئے۔ انہوں نے بھی کئی ادبی مضامین لکھے جن میں مارکسی اثر نمایاں ہے۔ 1938ء میں سردار جعفری، مجاز اور سبطِ حسن کی ادارت میں لکھنؤ سے ماہنامہ ‘نیا ادب’ شائع ہونا شروع ہوا تو گویا ترقی پسند ادیبوں کے مارکسی گروہ کا ایک باقاعدہ مرکز بن گیا۔ مجنوں گورکھپوری اور احتشام حسین کے ابتدائی تنقیدی مضامین، جو مارکس ازم سے متاثر تھے، پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئے۔

    اردو کا شعری ادب تو کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھا ہی، افسانوی ادب بھی اس تحریک سے متاثر ہوا۔ یہ تاثر سب سے واضح اور دل کش شکل میں سب سے پہلے کرشن چندر کے افسانوں میں نمایاں ہوا۔ سعادت حسن منٹو گو مارکسی نہیں تھے تاہم ان پر اور راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کی نثر اور طرزِ فکر حقیقت پسندی اور انسان دوستی، آزادی خواہی کی ایک ایسی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھیں جن پر اشتراکی فلسفۂ حیات کا اثر تھا۔

    1942ء میں بمبئی سے اردو ہفتہ وار ‘قومی جنگ’ (جس کا نام بعد کو ‘نیا زمانہ’ ہو گیا)، شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو کا پہلا ہفتہ وار تھا جو ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کے قانونی ہونے کے بعد بڑے اہتمام سے شائع ہوا۔ گو یہ ایک سیاسی پرچہ تھا۔ لیکن اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں زیادہ تر مارکسی ادیب تھے (سردار جعفری، سبط حسن، کیفی اعظمی، ظ۔ انصاری، عبداللہ ملک، کلیم اللہ، محمد مہدی ،سجاد ظہیر وغیرہ)۔

    اردو صحافت، اردو نثر اور اردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کو اس ہفتہ وار نے بھی متاثر کیا۔ اسی ہفتہ وار کے ساتھ اردو کی مارکسی کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی ایک ادارہ ‘قومی دارُ الاشاعت’ کے نام سے قائم کیا گیا۔

    اس ادارے نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ "کمیونسٹ مینی فسٹو”، "سوشلزم” اور دیگر کئی مارکسی کلاسیکی کتابیں شائع کیں۔ ہندوستان میں مارکسی ادب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ تھا جو 1958ء تک قائم رہا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کتابوں کی اشاعت کا کام نسبتاً دشوار ہو گیا۔ اور پاکستان میں مارکسی خیالات کی ترویج پر پابندیاں عائد ہو گئیں۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ملک میں اور عارضی طور پر اشتراکی اثرات میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یہ امر نہایت اہم ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں کارل مارکس کی بنیادی کتاب ‘سرمایہ’ (داس کیپٹل) کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ادھر ماسکو کے بیرونی زبانوں کے اشاعت گھر نے روسی اور اشتراکی ادب کے اردو تراجم نہایت نفاست اور خوب صورتی سے شائع کیے ہیں اور یہ کتابیں اردو کے ہنودستانی مارکیٹ میں دست یاب ہو سکتی ہیں۔

    اب ہم اردو میں لینن کی کتابوں کے علاوہ روس کے اشتراکی ادیبوں، مسکیم گورکی شولوخوف، بورس پالی وائے، استروسکی اور روس کے کلاسیکی ادیبوں تالستائی، چنخوف، ترگنیف، دستوفسکی، لرمنتوف کے شاہ کار پڑھ سکتے ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو ادیبوں نے کیے ہیں، لیکن وہ شائع ماسکو سے ہوئے ہیں، یقیناً اردو ادب ان سے متاثر ہورہا ہے۔

    ہم امید کرتے ہیں کہ یہ زمانہ گزرنے پر وہ اثر جو روسی انقلاب کے زمانے سے شروع ہوتا ہے، اور جو اشتراکیت کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے اثر کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اردو ادب اور اس کی نثر کو اس طرح متاثر کرے گا، کہ اس میں زیادہ انسان دوستی، زیادہ حقیقت پسندی اور زیادہ فکر اور گہرائی پیدا ہو اور ہمارے وطن کی تہذیبی زندگی کو اپنے خلوص، سچائی اور تابناکی سے مالا مال کر دے۔

    (سجّاد ظہیر کی کتاب مضامینِ سجّاد ظہیر سے انتخاب)

  • خون کا عطیہ دینے سے انکار کرنے والا ویٹ لفٹر اور ایلس فیض

    خون کا عطیہ دینے سے انکار کرنے والا ویٹ لفٹر اور ایلس فیض

    کل میں نے میو اسپتال میں ایک ضرورت مند مریض کے لیے خون بھی دیا۔ اس کا نتیجہ ننّھا کے کارٹون کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بیچارہ ایک غریب نیپالی طالبِ علم تھا، شدید بیمار۔

    میں پاکستان ٹائمز کے دفتر واپس گئی تاکہ کوئی مدد مل جائے، مگر کسی نے خون دینے پر ہاں نہیں کی۔ پھر میں نے آرٹسٹ بٹ سے پوچھا۔ وہی لمبا چوڑا ویٹ لفٹر، اس نے بھی منع کر دیا، کہنے لگا، ”میں دیکھنے میں طاقت ور لگتا ہوں لیکن اصل میں ہوں نہیں۔“ تو میں اس شدید گرمی میں واپس گئی اور جا کر لیٹ گئی اور خون کی ایک بوتل دے دی۔

    میں نے لڑکیوں کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ ہو سکتا ہے مجھے دیر ہو جائے اور اس کی وجہ بھی بتا دی تھی…. اور جب میں گھر واپس پہنچی ہوں تو سارے کے سارے بالکونی میں لٹکے ہوئے تھے اور بے چینی سے میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان کودیکھ کر میں نے اپنی سائیکل کی گھنٹی بجائی اور ہاتھ بھی ہلایا۔ ان سب نے مجھے تقریباً بستر پر لٹا ہی دیا تھا۔ پھر میں نے ان کو بتایا کہ بھئی سب ٹھیک ہے، بھلا سوچو، ویٹ لفٹر اور اُن جیسوں کے لیے بھی مشکل ہو گیا۔

    دن میں گرمی ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں، مگر راتیں پھر بھی ٹھنڈی ہیں۔ پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب 3 روپے 12 آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ 4 روپے کا۔ ہم نے گھر میں ٹوتھ پاؤڈر بنا لیا تھا جو دو مہینے چلا! بہت سے لوگ اس کے بغیر ہی گزارا کر رہے ہیں۔

    (عزیزِ دِلم نامی کتاب میں شامل یہ خط عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض کے فیض کو ایلس فیض نے لکھا تھا، اسے نیّر رباب نے اردو میں ترجمہ کیا تھا جس سے چند پارے یہاں‌ نقل کیے گئے ہیں)

  • زاویۂ نظر: فکرِ اقبالؔ کا محور مذہب، فیضؔ کا تہذیب رہا

    زاویۂ نظر: فکرِ اقبالؔ کا محور مذہب، فیضؔ کا تہذیب رہا

    فیض احمد فیضؔ، اقبالؔ سے چونتیس سال بعد پیدا ہوئے۔ دونوں سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔

    فرق یہ ہے کہ اقبال شہر میں پیدا ہوئے اور فیض سیالکوٹ کے ایک موضع کالا قادر میں۔

    دونوں نے میر حسنؔ سے تعلیم پائی، دونوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ اقبالؔ نے فلسفے میں اور فیضؔ نے پہلے انگریزی میں پھر عربی میں۔ دونوں کی فارسی تعلیم نہیں ہوئی، اپنی ذاتی کوششوں سے انہوں نے فارسی زبان و ادب پر دسترس حاصل کی۔

    دونوں نے شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھی، گو دونوں کی نثر کی خوبی شاعری کی شہرت اور عظمت کے مقابلے میں کم رہی۔ دونوں کو انگریزی زبان پر خاصا عبور تھا۔ اقبالؔ کی انگریزی نثر کی ایڈورڈ ٹامسن نے تعریف کی ہے۔ فیض کے پاکستان ٹائمس کے اداریے بھی زبان و بیان کی خوبیوں کی وجہ سے خاصے مقبول ہوئے۔

    فیضؔ کے والد اقبالؔ کے دوستوں میں تھے۔ اقبالؔ کی سفارش پر ہی انہیں گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملا۔ فیضؔ نے اقبالؔ پر دو مضمون لکھے جو ’’میزان‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر اقبالؔ سے ملاقاتوں اور ان کے تاثرات کا ذکر کیا ہے۔

    اقبالؔ کی فکر کا محور مذہب تھا، فیضؔ کی فکر کا محور تہذیب۔ بظاہر اقبالؔ اور فیضؔ کے راستے الگ الگ نظر آتے ہیں، مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

    اقبالؔ پر بعض حلقوں میں اعتراضات بھی ہوئے ہیں، مگر فیضؔ نے کسی وقت اور کسی موقع پر اقبالؔ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ ان کی عظمت کے قائل تھے اور جا بجا انہوں نے اقبالؔ کے فن کی بلندی کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا ایک اچھا نمونہ اقبالؔ پر ان کی نظم میں اس طرح ملتا ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے:

    آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
    آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
    سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
    ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا
    تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
    پَر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا

    اب دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما
    اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
    چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
    دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
    پَر اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
    اور اس کے لَے سے سیکڑوں لذّت شناس ہیں
    اُس گیت کے تمام محاسن ہیں لا زوال
    اُس کا وفور، اُس کا خروش، اُس کا سوز و ساز
    یہ گیت مثلِ شعلۂ جوالہ تند و تیز
    اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگر گداز
    جیسے چراغ وحشتِ صرصر سے بے خطر
    یا شمعِ بزم صبح کی آمد سے بے خبر

    (اردو کے سربَرآوردہ نقّاد، مضمون نگار اور شاعر آل احمد سرور کے مضمون "اقبالؔ اور فیضؔ” سے اقتباسات)

  • اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    اقبال بانو کی برسی جنھوں نے غزل گائیکی کو بامِ عروج پر پہنچایا

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ تلفظ اور ادائی ہی نہیں انھیں شعر کا بھی خوب فہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا گایا ہوا کلام سامعین کے دل میں اتر جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور باکمال گلوکارہ نے 21 اپریل 2009ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ آج اقبال بانو کی برسی ہے۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    انھوں نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ کڑوی اور دل خراش، لیکن انسان مشیّتِ ایزدی کے آگے بے بس ہے۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ، خاص و عام، امیر غریب سبھی کو اس جہانِ رنگ و بُو سے ایک روز جانا پڑے گا۔

    اسی موضوع پر یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا

    موت سے کس کو رستگاری ہے
    آج وہ، کل ہماری باری ہے

    ہر عام آدمی کی طرح فن کار اور اہلِ قلم بھی اپنوں کی دائمی جدائی کا صدمہ اٹھاتے ہیں اور رفتگاں کو شدّت سے یاد کرتے ہیں اور یہ شدّت، یہ کرب اُن کی قوّتِ متخیلہ سے اُن کے فن میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مراثی اور حزنیہ کلام ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ، ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی ایک ایسی ہی نظم پیش کررہے ہیں‌ جو انھوں‌ نے اپنے بھائی کی رحلت کے بعد ان کی یاد میں‌ لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان "نوحہ” ہے جس میں فیض نے بھائی کے لیے اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دائمی جدائی کے کرب کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

    نوحہ
    مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
    لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

    اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
    اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب

    اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
    اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

    کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
    مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب

    آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال
    آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب

    آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
    مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

  • فیض زنداں میں تھے جب "دستِ صبا” آئی تھی!

    فیض زنداں میں تھے جب "دستِ صبا” آئی تھی!

    یہ 1952ء کی ایک ایسی تقریب کا تذکرہ ہے جو اردو زبان کے نام وَر شاعر فیض احمد فیض کے شعری مجموعے دستِ صبا کا تعارف اور اشاعت کی تشہیر کے لیے منعقد کی گئی تھی۔

    اس زمانے میں آج کی طرح کتابوں کی اشاعت کے بعد ان کی تقریبِ رونمائی یا تعارف کے لیے یوں‌ پنڈال نہیں سجایا جاتا تھا، لیکن فیض‌ صاحب ان دنوں راولپنڈی سازش کیس میں‌ قید تھے اور ان کی شاعری عوام میں مقبول ہورہی تھی۔ ایسے میں‌ جب دستِ صبا کی اشاعت ہوئی تو احباب نے اس کے لیے تعارفی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور فیض کے انقلاب آفریں‌ طرزِ بیاں کو سنجیدہ و باشعور طبقے سے لے کر عام آدمی تک پہنچانے کے لیے صحافیوں اور دانش وروں‌ کو مدعو کیا۔

    یہ پریس کانفرنس 22 دسمبر کو لاہور میں مال روڈ کے ایک ریسٹورنٹ ارجنٹینا میں منعقد ہوئی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں چند اخبار نویس اور دانش وَر مدعو کیے گئے تھے۔ تقریب کی صدارت عبدالرحمٰن چغتائی نے کی تھی۔ احمد ندیم قاسمی نے مضمون پڑھا تھا۔ ایلس فیض، سلیمہ ہاشمی نے حاضرین کو کتاب پیش کی تھی۔ یہ پاکستان میں کسی کتاب کی اوّلین تعارفی تقریب تھی۔

    دست صبا کا یہ پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں چھپا تھا۔ اس کا سرورق نام ور مصور جناب عبدالرحمن چغتائی نے بنایا تھا۔

  • 3 لاکھ 57 ہزار 500 روپے سے کتنے کام نمٹ جاتے؟

    3 لاکھ 57 ہزار 500 روپے سے کتنے کام نمٹ جاتے؟

    فیض احمد فیض اردو کے مقبول شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے ترقی پسند نظریات اور اپنی انقلابی شاعری کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی شہرت حاصل کی۔‌ آج فیض‌ صاحب کی برسی ہے۔ فیض 20 نومبر 1984 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ ایک زمانے میں‌ فیض صاحب نے لندن میں‌ خود ساختہ جلاوطنی بھی کاٹی جہاں‌ وہ معروف شاعرہ زہرہ نگاہ کے گھر ٹھہرے تھے۔

    چند برس قبل ایک تقریب میں زہرہ نگاہ نے انہی دنوں‌ کی یادیں‌ تازہ کرتے ہوئے فیض سے متعلق چند دل چسپ واقعات بھی سنائے تھے جن میں‌ سے ایک یہ ہے۔

    لندن میں‌ جلاوطنی کے زمانے میں‌ ان کے چاہنے والے ملاقات کے لیے آتے رہتے تھے۔ ان میں‌ شاعر و ادیب اور فیض‌ کے مدّاح بھی شامل تھے۔

    ایک دن ایک صاحب آئے اور فیض‌ سے ملاقات کے دوران جب یہ دیکھا کہ وہ سگریٹ سے سگریٹ سلگا رہے ہیں‌ جو کہ ان کی عادت تھی۔ تب انھوں نے اپنی جیب سے ایک کیلکولیٹر نکالا اور فیض سے پوچھا، ’آپ دن میں کتنے سگریٹ پھونک جاتے ہیں؟‘ فیض نے بتا دیا۔

    انھوں‌ نے اگلا سوال کیا کہ ’کب سے پی رہے ہیں؟‘ پھر وہ کیلکولیٹر پر حساب لگانے لگے اور بولے، ’صاحب آپ اب تک تین لاکھ 57 ہزار پانچ سو روپے کے سگریٹ پھونک چکے ہیں۔ ذرا سوچیے، اگر یہ پیسے آپ کے پاس ہوتے تو ان سے کتنے کام نمٹ سکتے تھے۔‘

    فیض نے کہا، ’بھئی یہ تو اچھا ہی ہے کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، ورنہ یہ سوچ سوچ کر کتنی کوفت ہوتی کہ آخر انھیں خرچ کہاں کریں؟‘