Tag: فیض احمد فیض

  • فیض احمد فیض کا "عیش”

    فیض احمد فیض کا "عیش”

    ایک دفعہ فیض کراچی آئے۔ عطا صاحب نے ان کی اور راشد کی ایکسیلیئر ہوٹل میں دعوت کی جہاں ان دنوں ایک مصری بیلی ڈانسر پرنسس امینہ کا فلور شو ہو رہا تھا۔

    ایک خاص بات اس میں یہ تھی کہ ڈھول بجانے والا اس ڈانسر کا شوہر تھا جو کسی انگریز لارڈ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ اس دعوت میں فیض، راشد اور دونوں کے کالج کے ساتھی سیّد رشید احمد، غلام عبّاس اور راقم الحروف شامل تھے۔

    ہم لوگ جب وقت مقررہ پر ہوٹل کی سب سے اوپر والی منزل پر واقع ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ عطا صاحب کے تعلقات کی بنا پر ہوٹل والوں نے واقعی بڑا اہتمام کر رکھا ہے۔ مینجر نے خود ہمارا استقبال کیا اور ہمیں اسٹیج کے قریب والی ان دو میزوں میں سے ایک پر بٹھا دیا جن پر نہایت بڑھیا قسم کے مشروبات مع لوازمات بڑے سلیقے سے آراستہ تھے۔ فلور شو میں ابھی دیر تھی۔

    آخر جب اس کا وقت قریب آنے لگا تو فیصلہ ہوا کہ اس سے پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ ہم لوگ ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ فلور شو کی تیاری میں ہال کی رنگین بتّیاں جلنے بجھنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی ہوٹل کے منیجر کچھ اور مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انہیں ہماری میز کے ساتھ والی میز پر لے آئے۔

    ان مہمانوں میں اس زمانے کے وفاقی وزیر ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی تھے۔ انہوں نے فیض صاحب کو دیکھتے ہی کسی قدر استعجاب اور بڑی بے تکلّفی کے لہجے میں پوچھا: ”Faiz, what are you doing here“ فیض صاحب نے سَر اٹھا کر ایک نظر ان پر ڈالی، پھر چھری کانٹا سنبھال کر اپنی پلیٹ پر جھک گئے اور بڑی بے پروائی سے جواب دیا: ”عیش۔“

    یہ لفظ انہوں نے ہر ہر حرف کی آواز کو اُبھارتے ہوئے کچھ اس اندازسے ادا کیا کہ جیسے ان کا نطق ان کی زبان کے بوسے لے رہا ہو۔ ہم سب فیض صاحب کے اس جواب سے محظوظ ہوئے مگر راشد صاحب سب سے زیادہ۔

    وہ بعد میں بھی بڑا لُطف لے لے کر اس کی داد دیتے رہے۔ یہاں تک کہ اسے سکندر اور دیو جانس کلبی کے اس مشہور مکالمے سے جا بھڑایا کہ جس میں سکندر کے اس سوال پر کہ اسے کیا چاہیے؟ بوریے پر بیٹھے ہوئے دیو جانس کلبی نے صرف اتنا کہا تھا کہ ”ذرا ایک طرف کو ہٹ جائو اور دھوپ مت روکو۔“

    (ڈاکٹر آفتاب احمد کی یادداشتوں سے انتخاب)

  • ایک گھریلو عورت کا تذکرہ!

    ایک گھریلو عورت کا تذکرہ!

    سُر اور لے، دھن اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور شعری نزاکتوں کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ اقبال بانو کا تلفظ عمدہ اور شعر کا فہم خوب تھا۔ شاعری سے لگاؤ رکھنے والی اقبال بانو کی آواز میں غزل سننے والے جیسے ساکت و جامد ہو جاتے اور دیر تک محفل پر ان کا اثر رہتا تھا۔ اپنے وقت کی اسی مشہور و معروف مغنیہ سے متعلق یہ پارہ آپ کے لیے پیش ہے

    میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے سلسلے میں عارضی طور پر اسلام آباد منتقل ہو چکا تھا۔

    ایک ویک اینڈ پر واپس لاہور آرہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اقبال بانو بھی اس فلائٹ پر ہیں۔ وہ میرے برابر نشست پر آ بیٹھیں اور تب انہوں نے ادب کے بارے میں گفتگو کی اور نہ ہی گلوکاری کا تذکرہ چھیڑا بلکہ ایک گھریلو عورت کی مانند اپنے گھر کے معاملات اور بال بچوں کے بارے میں باتیں کرتی رہیں۔

    ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے میرے بیٹے نے آنا تھا۔ اسے کالج میں کچھ تاخیر ہو گئی تو انہوں نے بصد اصرار مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا اور کہنے لگیں آپ پہلے میرے ہاں چلیں گے، پھر میرا ڈرائیور آپ کو چھوڑ آئے گا۔

    انہوں نے مجھے اپنے بچوں سے ملایا اور خاطر مدارت میں کچھ کسر نہ چھوڑی۔ میں ان کی گھریلو شفقت اور محبت کو آج تک نہیں بھلا پایا۔

    ان سے آج تک کچھ شکایت نہیں ہوئی۔ یہ پہلی شکایت ہے کہ وہ ہم سے نظر بچا کے نہایت خاموشی سے دشتِ تنہائی میں گُم ہو گئیں۔ البتہ ان کے گیتوں کی چھم چھم اس دشت تنہائی میں جو کہ مرگ ہے، اس کے سناٹے میں اب بھی گونجتی سناتی دیتی ہے اور یہ کہتی ہے کہ ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

    (مستنصر حسین تارڑ کے مضمون سے انتخاب)

  • غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    غزل سرائی کا عروج اقبال بانو

    سُر اور ساز ہی نہیں اقبال بانو اردو زبان کی لطافت، چاشنی اور الفاظ کی تاثیر کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ اقبال بانو کا تلفظ عمدہ اور شعر کا فہم خوب تھا۔ شاعری سے انھیں خاص لگاؤ تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی گائیکی پُراثر تھی۔ ان کی آواز حاضرین اور سامعین کو جیسے اپنی گرفت میں لے لیتی اور محفل پر دیر تک اقبال بانو کا اثر رہتا۔

    آج برصغیر پاک و ہند کی اس منفرد اور بے مثال گائیک کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 21 اپریل 2009 کو ہوا تھا۔

    پاکستان میں غزل گائیکی کو بامِ عروج تک لے جانے والی اقبال بانو کی تاریخِ پیدائش 28 دسمبر 1935 ہے۔ ان کی والدہ بھی گلوکارہ تھیں۔

    اقبال بانو کی آواز میں ایک خاص کھنک تھی جو انھیں اپنے دور کے دیگر گلوکاروں سے جدا کرتی ہے۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تربیت لی۔ وہ دلی کے باکمال اور اپنے فن کے ماہر استاد چاند خان کی شاگرد تھیں۔

    اقبال بانو نے آل انڈیا ریڈیو سے اپنے فن کا آغاز کیا تھا۔ ان کی عمر سترہ برس تھی جب انھوں نے پاکستان ہجرت کی اور ملتان میں آباد ہوئیں۔ یہ 1952 کی بات ہے۔

    اقبال بانو نے اپنی گائیکی سے پاکستان کے مشہور موسیقاروں اور بڑے حلقے کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ کو جب اقبال بانو نے گایا تو جیسے یہ کلام ہر خاص و عام کا ترجمان بن گیا۔ یہ نظم ہر طرف ایک نعرے کی صورت گونجنے لگی۔

    ان کی گائی ہوئی ایک غزل ’داغ دل ہم کو یاد آنے لگے‘ پاکستان، سرحد پار اور ہر اس شخص کے ساتھ گویا خوش بُو کی طرح سفر کرتی رہی جو اردو جانتا تھا اور باذوق تھا۔

    ’تُولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘ جیسے گیت کو شاید ہی ہم فراموش کرسکیں جسے اقبال بانو نے گا کر امر کر دیا۔

    فیض کا کلام ’ہم دیکھیں گے‘ گانے کے بعد اقبال بانو کو شہرت اور بے حد پیار تو ملا، مگر پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر ان کی آواز اور پروگراموں میں شرکت پر پابندی لگا دی گئی۔

    اقبال بانو کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا اعزاز اور تمغہ مداحوں کی محبت اور ہر جگہ ملنے والی پزیرائی تھی۔ انھیں اپنے وقت کے باکمال اور نام ور موسیقاروں اور گلوکاروں نے نہ صرف سراہا بلکہ ان کے فن کی عظمت اور ان کی منفرد گائیکی کا اعتراف بھی کیا۔

  • فلم جس کا اسکرپٹ پاکستانی، اداکارہ ہندوستانی اور کیمرہ مین برطانوی تھا

    فلم جس کا اسکرپٹ پاکستانی، اداکارہ ہندوستانی اور کیمرہ مین برطانوی تھا

    یہ 1956 کی بات ہے جب فیض احمد فیض نے فلم ساز اے جے کار دار کے ساتھ ’جاگو ہوا سویرا‘ پر کام شروع کیا۔

    یہ فیض‌ صاحب کی فلم تھی جسے ناقدین اور انڈسٹری سے وابستہ بڑے ناموں‌ نے ہر اعتبار سے اہم اور قابلَِ ذکر کام تسلیم کیا تھا، لیکن بدقسمتی کہیے کہ یہ فلم باکس آفس پر کام یابی نہ سمیٹ سکی۔

    فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا اسکرپٹ تو پاکستان میں لکھا گیا، لیکن مرکزی کردار ایک ہندوستانی اداکارہ کو سونپا گیا جب کہ عکس بندی کے لیے ڈھاکا کا انتخاب کیا گیا، جو اس وقت کے مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا۔

    اس کی کہانی بنگالی رائٹر مانک بندو پادھیائے کے ناول ’بوٹ مین آف پدما‘ سے ماخوذ تھی۔ یہ مچھیروں کی زندگی پر مبنی کہانی تھی۔

    فیض صاحب نے نہ صرف اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گیت لکھے بلکہ ہدایت کاری میں بھی ہاتھ بٹایا۔ فلم کے لیے ایک برطانوی کیمرہ مین والٹر لیزلی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

    جاگو ہوا سویرا کی زیادہ تر عکس بندی دریائے میگھنا کے کنارے ہوئی جو ڈھاکا سے 30 میل کی دوری پر بہتا تھا۔

    فلم میں‌ مرکزی کردار نبھانے والی ہندوستانی اداکارہ ترپتی مترا تھیں۔

    یہ کہانی مچھیروں کے اُس خاندان کے گرد گھومتی ہے جس کا کوئی فرد کشتی خریدنے کے لیے سود پر رقم حاصل کرتا ہے اور پھر ساہوکار کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔

    یہ فلم بتاتی ہے کہ اس زمانے میں جب مشرقی پاکستان میں غربت اور بھوک کا راج تھا تو لوگ کیسے سود خوروں کے چنگل میں‌ پھنس جاتے اور پھر وہ ان پر کیسے ظلم ڈھاتا تھا۔

  • فیض احمد فیض کی شاعری کو ہندومخالف کہنے پر جاوید اختر میدان میں آگئے

    فیض احمد فیض کی شاعری کو ہندومخالف کہنے پر جاوید اختر میدان میں آگئے

    نئی دہلی : فیض احمد فیض کی شاعری کو ہندو مخالف کہنے پر شاعرونغمہ نگار جاوید اختر میدان میں آگئے  اور کہا فیض کی نظم کو  ہندو  مخالف کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں متنازع قانون کےخلاف احتجاج میں فیض احمد فیض کی نظم ‘ہم دیکھیں گے’ کی گونج سنائی دی ، فیض احمد فیض کی شاعری کو ہندو مخالف کہنے پر شاعرونغمہ نگار جاوید اخترچپ نہ رہ سکے۔

    جاوید اختر نے فیض کا دفاع کرتے ہوئے کہا فیض کی نظم کو اینٹی ہندو کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہےاس پر بات کرنا ممکن نہیں ہے، فیض احمد فیض کی نظم آزادی اظہار پر پابندیوں کے خلاف ہے۔

    خیال رہے بھارت میں شہریت کے قانون کے خلاف پورے ملک میں احتجاج اورمظاہرے ہو رہے ہیں۔ 15 دسمبر 2019 کو دہلی کے جامعہ علاقے میں اس قانون کے خلاف مظاہرہ ہوا، جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بعض طلباءبھی شامل تھے۔

    اس دوران پولیس نے یونیورسٹی کی لائبریری اور ہوسٹل میں زبردستی داخل ہوکر طلباءپر بے حد تشدد کیا، جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں پولیس کی پرتشدد کارروائی کے بعد دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی طرح آئی آئی ٹی کانپور کے طلباءنے 17 دسمبر کو ادارے کے کمپاؤنڈ میں مظاہرہ کیا۔

    اس مظاہرے کے دوران بعض طلباء نے فیض احمد فیض کی نظم”ہم دیکھیں گے“ پڑھی۔

    بعد ازاں کانپو یونیورسٹی کے ڈائریکٹر سے تحریری شکایت کی مظاہرے کے دوران ہندو مخالف نظم پڑھی گئی ہے ، جس سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں لہذا ان طلباء کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے یہ نظم پڑھی ہے۔

    اس شکایت کے موصول ہونے کے بعد ادارے نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو اس شکایت سے متعلق تفتیش کرے گی۔

  • فیض‌ کی نظم کے وہ دو مصرعے جو ہندو دھرم کے لیے خطرہ بن گئے!

    فیض‌ کی نظم کے وہ دو مصرعے جو ہندو دھرم کے لیے خطرہ بن گئے!

    تعجب ہے کہ ہندتوا کی "عظمت” ترقی پسند اور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی صرف ایک نظم کے دو مصرعوں‌ کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ یہی نہیں بلکہ مودی سرکار کے "تگڑے” فیصلے بھی علامہ اقبال، جالب اور فیض کے انقلاب آفریں کلام اور مزاحمتی ترانوں کی صورت سخت مزاحمت کا سامنا کر رہے ہیں!

    بھارت میں مودی سرکار کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن بدترین جبر اور ڈرانے دھمکانے کے باوجود بھارتی مسلمان شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کررہے ہیں جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔ ان حالات میں ایک بھارتی یونیورسٹی ترقی پسند اور انسان دوست نظریات کے لیے دنیا بھر میں مشہور شاعر فیض احمد فیض کی نظم کی وجہ سے خوف زدہ نظر آرہی ہے۔

    اقبال بانو کی آواز میں یہ نظم کسے یاد نہیں۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے! دہائیوں پہلے اس کلام نے سننے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کیا تھا، اس کی گونج سرحد پار بھی سنائی دی تھی اور آج پھر ظلم، ناانصافی اور جبر کے خلاف بھارت میں اسی کلام کے ذریعے ظالم کو للکارا گیا تو اسے ہندو مخالف قرار دے کر تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔

    واقعہ یہ ہے کہ ایک مظاہرے کے دوران کان پور کی آئی آئی ٹی یونیورسٹی میں طلبا نے یہ نظم پڑھی جس پر ایک فیکلٹی ممبر نے کہا ہے کہ فیض کا یہ کلام ہندو مذہب کی مخالفت کرتا ہے۔ اس شکایت کا نوٹس لے کر جامعہ نے ایک پینل تشکیل دے دیا جو اس بات کا تعین کرے گا کہ واقعی نظم سے ہندو مذہب کو کوئی خطرہ ہے یا نہیں۔
    فیض کی نظم کے یہ دو مصرعے بعض طلبا اور جامعہ کے اراکین کے لیے تکلیف اور تشویش کا باعث ہیں۔ وہ مصرعے یہ ہیں۔
    سب بت اٹھوائے جائیں گے ،بس نام رہے گا اللہ کا

    یہ نظم آپ بھی پڑھیے۔

    ہم دیکھیں گے!
    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
    وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
    جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
    جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
    روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
    ہم محکوموں کے پاؤں تلے
    جب دھرتی دھڑ دھڑ، دھڑکے گی
    اور اہل حکم کے سر اوپر
    جب بجلی کڑ کڑ، کڑکے گی
    جب ارضِ خدا کے کعبے سے
    سب بت اٹھوائے جائیں گے
    ہم اہل صفا مردود حرم
    مسند پہ بٹھائے جائیں گے
    سب تاج اچھالے جائیں گے
    سب تخت گرائے جائیں گے
    بس نام رہے گا اللہ کا
    جو غائب بھی ہے حاضر بھی
    جو منظر بھی ہے ناظر بھی
    اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
    جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
    اور راج کرے گی خلق خدا
    جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

  • در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کی آج 35 ویں برسی منائی جارہی ہے، ان کی نظمیں آج بھی پسے ہوئے لیکن باغی و خود سر طبقے کی آواز ہیں۔

    13 فروری سنہ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فیض نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے جبکہ اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے۔ سنہ 1930 میں انہوں نے لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض اور ان کی اہلیہ میں ذہنی ہم آہنگی، محبت اور دوستی کا بے حد مضبوط رشتہ تھا۔ حمید اختر نے لکھا ہے کہ ایک بار ہم نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے میاں کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار تو ضرور ہوتی ہوں گی؟‘

    مگر ایلس کا کہنا تھا، ’حمید! شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا؟‘

    سنہ 1942 میں فیض فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    وہ مختلف رسالوں اور روزناموں کے مدیر بھی رہے جن میں ادب لطیف، روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شامل ہیں۔

    انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سر وادی سینا، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    9 مارچ سنہ 1951 میں فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ قید میں لكھی گئیں۔

    فیض احمد فیض واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    ان کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ ملکہ ترنم نور جہاں نے اس قدر چاہت، رچاؤ اور لگن کے ساتھ سروں میں ڈوب کر گائی تھی کہ فیض کہا کرتے تھے، یہ نظم اب میری کہاں رہی ہے یہ تو نور جہاں کی ہوگئی ہے۔

    خوبصورت لب و لہجے کی شاعری سے لاکھوں دلوں کو اسیر کرنے والے فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں ہے۔

  • فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے

    فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کا 108 واں یومِ پیدایش آج منایا جا رہا ہے۔

    فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کوشاعرِ مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، وہ انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے، ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے، اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض نے 1930 میں لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبۂ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض نے 1935 میں ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت کی پھر 1942 میں فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہو گئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے، انھوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    انھوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سرِ وادی سینا ،مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    اردو کے عظیم شاعر فیض 1959 میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری تعینات ہوئے پھر 1962 تک وہیں تعینات رہے۔ ادبی رسالہ ادب لطیف کے مدیر اور اس کے بعد روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر اعلیٰ رہے۔

    انھیں 9 مارچ 1951 کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں گرفتار کیا گیا، فیض نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں گزارے، جب کہ دو اپریل 1955 کو انھیں رہا کر دیا گیا۔

    فیض احمد فیض وہ واحد ایشیائی شاعر تھے جنھیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، ملکہ ترنم نور جہاں، مہدی حسن، آشا بھوسلے اورجگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    اردو کے شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی شاعری آج بھی بے حد مقبول ہے۔

  • جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

    محبت، وصل، فراق اور زمانے کی ناانصافیوں کو بیک وقت اپنی شاعری میں سمونے والے خوبصورت لب و لہجے کے ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کو اپنے مداحوں سے بچھڑے آج 34 برس بیت گئے۔

    صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں 13 فروری 1911 کو پیدا ہونے والے فیض کی شاعری وقت کی قید سے آزاد ہے اور آج بھی زندہ و جاوید لگتی ہے۔

    جب ہم معاشرے میں ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد دیکھتے ہیں تو ہمیں بے اختیار فیض کے اشعار اور ان کے مصائب یاد آتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم ان کی رومانوی شاعری پڑھتے ہیں تو اس میں محبوب سے والہانہ و غائبانہ محبت اور رقیب سے ہمدردی کے منفرد اسلوب ملتے ہیں جو بلاشبہ کسی اور کی رومانوی شاعری میں موجود نہیں۔

    انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔

    فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سر بلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔

    فیض کی زندگی نشیب و فراز سے بھرپور رہی۔ اپنے وطن میں انہیں پابند سلاسل بھی کیا گیا جہاں سے انہوں نے ایسی شاعری کی جس میں ہتھکڑیوں اور سلاخوں کی کھنکھاہٹ اور محبوب سے ہجر کا غم ایک ساتھ نظر آتا ہے۔

    یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو
    کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

    گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
    کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

    ان کی رومانوی شاعری میں دیگر شاعروں کی طرح غرور اور خود پسندی کی جگہ انکسار نظر آتا ہے۔

    گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام
    دھل کے نکلے گی ابھی چشمہ مہتاب سے رات

    اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی
    اور ان ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہاتھ

    ان کا آنچل ہے، کہ رخسار، کہ پیراہن ہے
    کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں

    جانے اس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
    ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

    یہی عجز اور انکسار اس وقت بھی نظر آتا ہے جب وہ رشک سے اپنے رقیب سے مخاطب ہوتے ہیں۔

    آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
    جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

    جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
    دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

    تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ
    زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے

    تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
    تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

    انہوں نے برطانوی نژاد خاتون ایلس سے شادی کی تھی۔ ایک بار معروف مصنف حمید اختر نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے شوہر کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار ضرور ہوتی ہوں گی‘، تو ایلس نے جواب دیا، ’حمید! فیض شاعر ہیں، شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا‘؟

    فیض نے جب معاشرے کی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف قلم اٹھایا، تو اس وقت ان کا لہجہ بہت مختلف تھا۔

    مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

    تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
    یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
    راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

    فیض کے مجموعہ کلام میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر شامل ہیں جبکہ سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات کا مجموعہ ہے۔

    فیض نے نثر میں بھی میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی یادگار کتابیں تحریر کیں۔

    انہیں کئی بین الاقوامی اعزازت سے بھی نواز گیا جس میں لینن پرائز سرفہرست ہے۔

    خوبصورت و دھیمے لہجے کا یہ شاعر 20 نومبر سنہ 1984 کو دنیا سے ناطہ توڑ گیا جس کے بعد انہیں لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں پیوند خاک کردیا گیا۔

    مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

  • کوک اسٹوڈیو سیزن 11 نے مشہورنغمہ ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیزکردیا

    کوک اسٹوڈیو سیزن 11 نے مشہورنغمہ ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیزکردیا

    کراچی: کوک اسٹوڈیو نے سیزن 11 کا پہلا گیت ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیز کر دیا، ملک میں تبدیلی کی علامت اس گیت کو پچاس سے زائد گلوکاروں اور میوزک بینڈز نے گایا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کوک اسٹوڈیو نے ایک بار پھر سیزن 11 کے آغاز پر تہلکہ مچا دیا ہے، ایک قوم ایک جذبہ اور ایک آواز کی حامل سوچ پر مبنی گیت ریلیز کر دیا گیا جس کے متنوع رنگوں میں اتحاد کا گہرا رنگ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔

    گیت ’ہم دیکھیں گے‘ اردو کے مشہور اور مقبول شاعر فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’و یبقٰی وجہ ربک‘ پر مبنی ہے، جسے سب سے پہلے 1986 میں اقبال بانو نے لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں گایا تھا۔

    1985 میں جنرل ضیاء الحق نے عورتوں کے ساڑی پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس پر پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج کرتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑی پہن کر ہزاروں سامعین کے سامنے فیض کی یہ نظم گائی۔

    کوک اسٹوڈیو کا کہنا ہے کہ وہ فخریہ طور پر یہ گانا ریلیز کررہا ہے، یہ گانا پاکستان کے لوگوں کی طرف سے پاکستان کے لوگوں کے لیے ہے۔

    اس گیت کو پروفیسر اسرار نے کمپوز کیا ہے، اس کے پروڈیوسر زوہیب قاضی اور علی حمزہ ہیں، اسے البم کوک اسٹوڈیو سیزن 11 میں ریلیز کیا گیا ہے۔

    گیت میں اپنی آواز شامل کرنے والوں میں کیلاش کی آریانا اور ثمرینہ، فقیرا فیم شمو بائی، کریویلا امریکی میوزیکل بینڈ کی یاسمین یوسف اور جہان یوسف اور علی عظمت شامل ہیں۔

    ’ہم دیکھیں گے‘ میں شامل دیگر اہم آوازوں میں عابدہ پروین، عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی، حسن جہانگیر، ابرار الحق، جواد احمد، حمیرہ ارشد، مومنہ مستحسن ساحر علی بگا، دو قوال بھائی استاد غلام فرید الدین ایاز اور ابو محمد بھی شامل ہیں۔

    کوک اسٹوڈیو نے باصلاحیت گلوکار تلاش کرلیے

    وادی ہنزہ کی نتاشا بیگ، کوک اسٹوڈیو سے بیکنگ ووکلسٹ کے طور پر ابتدا کرنے والی کراچی کی سنگر ریچل وکاجی، میوزک گروپ زیب اور ہانیہ سے شہرت پانے والی سنگر ہانیہ اسلم، جمی خان، عاصم اظہر، شجاع حیدر اور آئما بیگ نے بھی گیت کو اپنی خوب صورت آوازیں دی ہیں۔

    پاریک: کوک اسٹوڈیو کے پلیٹ فورم سے کیلاشی فوک میوزک کا انوکھا تجربہ

    اداکار احد رضا میر، میوزک بینڈ ساونڈز آف کولاچی، دنیا بھر میں پاکستان کو بہترین انداز میں پیش کرنے والا پشاور کا پشتو بینڈ خماریان، بوہیمیا گیم ٹائم کے لیے مشہور رائٹر ینگ دیسی اور لیاری سے تعلق رکھنے والے ہپ ہاپ گروپ لیاری انڈر گراؤنڈ نے بھی گیت میں پرفارم کیا ہے۔

    گیت میں جام شورو سندھ سے تعلق رکھنے والا صوفی راک فولک بینڈ دی اسکیچز، طبلہ اور ڈھولک پلیئر بابر علی کھنا، بہترین بیس گٹار پلیئر کامران ظفر عرف منو، پاکستانی کرسچن کمیونٹی کے ابھرتے ہوئے کی بورڈ پلیئر رفس شہزاد اور کراچی کے ڈرمسٹ اور ریلوکٹینٹ فنڈامنٹلسٹ میں کام کرنے والے کامی پال کی پرفارمنس بھی شامل ہے۔

    کوک اسٹوڈیو سیزن 10 – اسٹرنگز کی یاد گارپرفارمنس پر اختتام پذیر

    عمران شفیق عرف مومو، عالمی سطح پر ناول ’دی وِش میکر‘ کے لیے مشہور علی سیٹھی، ریاض قادری اور غلام علی قادری، مشہور پشتو سنگر گل پانڑا، عطاء اللہ عیسی خیلوی کے بیٹے سانول عیسیٰ خیلوی، ایلزبتھ رائے، بلال خان، مشال خواجہ نے بھی پرفارمنس دی ہے۔

    کوک اسٹوڈیو کے گیت میں لاہور سے تعلق رکھنے والا جدید فیوژن فنک بینڈ مغلِ فنک، وشنو اور سنگر اور رائٹر اسرار، نغمہ اور لکی، کوئین آف پشتون فوکلور زرسانگہ، مہر، شہاب اور وجہیہ، چاند تارا آرکسٹرا اور بلوچستان کے پہاڑوں سے اترنے والی آواز شایان منگل دریہان بینڈ کی آوازوں نے بھی جادو جگایا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔