صبح کے چھے بج رہے ہیں۔ کراچی میں بھینس کالونی کے ایک باڑے میں کچھ دیر قبل ایک بھینس نے بچّے کو جنم دیا ہے۔ باڑے کا مالک اور ملازمین بھینس کے پاس کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کے چہروں پر خوشی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ بھینس بھی خوشی کا اظہار کررہی ہے اور بار بار اپنی لمبی زبان نکال کر اپنے بچّے کو چاٹ رہی ہے۔ ان دونوں کی خوشیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بھینس کی خوشی ممتا کی خوشی ہے، جب کہ باڑے کے مالک کی خوشی دودھ کی طرح خالص کاروباری ہے!
بچّہ دینے کے بعد بھینس قریباً ایک سال تک دودھ دیتی رہے گی۔ باڑے کا مالک دل ہی دل میں سارا حساب کتاب ترتیب دے رہا ہے۔ اُس کی کوشش ہوگی کہ بھینس سے سال بھر جتنا ممکن ہوسکے دودھ حاصل کرے اور اس پر نفع کمائے۔ اس مالی نفع میں وہ کسی کی شراکت برداشت نہیں کرے گا، چاہے وہ بھینس کا نومولود ہی کیوں نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس میں باڑا مالکان کٹّوں (بھینس کے بچّے) کو اُس دودھ کے چند گھونٹ بھی پیتا ہُوا نہیں دیکھ سکتے، جس کا حق انھیں قدرت نے دے رکھا ہے۔
انسان اگر نیکی کے راستے پر چلے تو انسانیت کی معراج پا لے، لیکن یہی انسان اگر گناہ کرنے پر آمادہ ہو تو شیطان بھی شرما جائے۔ انسان لالچ میں کتنا اندھا ہو جاتا ہے، اس کی ایک جھلک تو بھینسوں کے ان باڑوں میں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
موٹی موٹی آنکھوں اور لرزتی ٹانگوں والے کٹّے کو صرف ایک دن اپنی ماں کا دودھ نصیب ہوسکا، پھر باڑے کے مالک کو اپنا نفع خطرے میں نظر آنے لگا اور بچّے کو اس کی ماں سے جُدا کر کے باڑے کے ایک کونے میں موجود کھونٹے سے باندھ دیا گیا۔ بے چین ماں دن میں کئی کئی بار گردن اُٹھا کراپنے بچّے کی جانب دیکھتی، مگر اُسے محبت سے چاٹنے اور دودھ پلانے سے خود کو مجبور پاتی ہے۔ اس کی گردن تو سرمائے کی مضبوط زنجیر سے بندھی ہوئی ہے۔ آج تو اسے دور سے سہی، اپنے بچّے کا دیدار نصیب ہورہا ہے، لیکن کل وہ اس سے بھی محروم ہوجائے گی، کٹّا کسی قسائی کے ہاتھ بیچ دیا جائے گا یا مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا جائے گا۔
دیگر جانوروں کے مقابلے میں بھینسوں کے یہ بچّے دنیا کے مظلوم ترین جانور ہیں، جنہیں اپنی ماں کا دودھ تک نصیب نہیں ہوتا۔ کٹّے دودھ کا ذایقہ چکھے بغیر ہی موت کی وادی (کمیلے) کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ یہ قسائی روزانہ کٹّوں اور باکڑی بھینسیں (وہ بھینسیں جو دودھ دینے کے قابل نہیں رہتیں) خریدنے کے لیے باڑوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ بچّہ دینے کے بعد ایک بھینس اندازاً ایک سال تک دودھ دیتی ہے، اس کے بعد دودھ کی مقدار کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک بھینس یومیہ خوراک 9 سے 10 کلو تک ہوسکتی ہے۔ بھینسیں چوں کہ نفع کمانے کی غرض سے رکھی جاتی ہیں، اس لیے باڑا مالکان ایسی بھینسوں پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتے، جو انھیں دودھ نہ دے سکے۔ چناں چہ کٹّوں کے ساتھ باکڑی بھینسیں بھی قسائی کو فروخت کر دی جاتی ہیں۔
سودا ہونے کے بعد قسائی بڑی بے دری سے کٹّوں کو اٹھا اٹھا کر ٹرک میں پھینکتے ہیں۔ دو تین دن کے کٹّوں کی ہڈیاں مضبوط نہیں ہوتیں اور اس طرح پھینکے جانے پر ان کے ٹوٹنے یا نومولود کو گہری اور سخت قسم کی چوٹ لگنے کا خدشہ ہوتا ہے، لیکن دولت کے یہ پجاری جلد از جلد انھیں ذبح کرکے اپنے دام کھرے کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
ٹرک پر سوار کرواتے وقت کٹّے درد بھری آوازیں نکالنے لگتے ہیں، گویا یہ احساس ہوجاتا ہے کہ انھیں ان کی ماؤں سے جدا کیا جارہا ہے۔ اپنے بچّوں کو اپنے درمیان نہ پا کر اُن کی ماؤں پر کیا گزرتی ہوں گی، یہ سوچنے کی فرصت دودھ اور گوشت کے ان بیوپاریوں کے پاس بھلا کہاں ہوتی ہے۔
کٹّوں سے بھرا یہ ٹرک جب کمیلے پہنچتا ہے تو انھیں اُسی بے دردی سے اُتارا جاتا ہے، جس بے دردی سے چڑھایا گیا ہوتا ہے۔ وہ کٹّا جس نے ابھی ٹھیک طرح اپنی پیروں پر کھڑے ہونا نہیں سیکھا ہوتا، چھری تلے لیٹا دیا جاتا ہے۔ چند دن پہلے جس ملائم کھال نے ممتا بھری زبان کا لمس محسوس کیا تھا، وہ بے دردی سے کھینچ دی جاتی ہے۔ ذبح کرنے کے بعد ان کٹّوں کا گوشت ہوٹل مالکان کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں میں اس سے تیار کردہ ڈشز چھوٹے کا گوشت (بکرے) کہہ کر گاہکوں کے سامنے سجا دی جاتی ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے کے بعد اس کھانے کی قیمت ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔
اس طرح 90 فی صد کٹّے قسائی کے ہاتھوں ذبح ہو کر انسانوں کی خوراک بن جاتے ہیں جب کہ 10 فی صد اچھی نسل کے کٹّے بڑے ہونے کے لیے دیہات میں پہنچا دیے جاتے ہیں۔ اس میں فریقین کے درمیان ایک دل چسپ زبانی معاہدہ کیا جاتا ہے۔ یعنی فریق اوّل کو یہ کٹّے مفت دیے جاتے ہیں۔ ان کے اخراجات وہ خود برداشت کرتا ہے۔ تین سال بعد جب یہ کٹّے بھینس یا بھینسا بن جاتے ہیں تو انھیں فروخت کر کے فریق اوّل اور فریق دوم یعنی باڑے کا مالک آدھا آدھا منافع رکھ لیتے ہیں۔
تیسری دنیا کے ممالک میں بھینس کا گوشت بہ طور غذا استعمال ہوتا ہے، اس لیے قسائی باکڑی بھینسوں اور کٹّوں کو خوشی خوشی خرید لیتے ہیں۔ لیکن عام طور پر مغربی ممالک میں اس جانور کا گوشت مضرِ صحت تصور کیا جاتا ہے، اس لیے ان ممالک میں بھینس کا گوشت کھانے کا عام رواج نہیں ہے۔ مغربی ممالک اور یورپ کے باڑوں میں پیدا ہونے والے کٹّے خریدنا وہاں کے قسائیوں کے لیے گھاٹے کا سودا ہے جب کہ انھیں پالنا باڑا مالکان کے لیے مالی نقصان کا باعث ہوتا ہے اور وہاں یہ جانور بدترین ظلم سہتا ہے۔
جانوروں کے حقوق کی عالمی تنظیم ”فور پاؤس“ (Four Paws) کے ڈائریکٹر گیبریل پاؤن اس بارے میں کہتے ہیں، ”یورپی یونین بھینس کے گوشت کی بہت چھوٹی مارکیٹ ہے۔ نر کٹّا چوں کہ دودھ نہیں دے سکتا، اس لیے اسے غیر پیداواری سمجھتے ہوئے بڑے بے رحمی سے باڑوں میں بھوکا پیاسا مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔“ چند سال پہلے فور پاؤس نے خفیہ کیمروں کی مدد سے اٹلی کے 50 باڑوں کی دستاویزی فلم بنائی تھی، جس میں کٹّوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کی منظر کشی کی گئی تھی۔
اس دستاویزی فلم کے ایک منظر میں کسی باڑے کے ایک ملازم کو اعتماد میں لیتے ہوئے پوچھا گیا کہ وہ نر کٹّوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں تو ملازم نے کہا، ”ہم انھیں کوئی خوراک نہیں دیتے، یہاں تک کہ وہ دو یا تین دن بعد مَر جاتے ہیں۔“ دوسرے باڑے کے ملازم سے جب یہی سوال پوچھا گیا تو اُس نے بتایا کہ ان کٹّوں کو پیدا ہوتے ہی ہتھوڑے کی ضرب سے مار دیا جاتا ہے۔
تحقیق کے دوران ایک باڑے سے کٹّوں کا قبرستان دریافت ہوا، ان کٹّوں میں سے بعض کے سَر پر چوٹ کے گہرے نشانات تھے اور بعض بھوک پیاس کی وجہ سے مر گئے تھے۔ ان جانوروں کو بے رحمی سے مارنے پر باڑے کے مالک کو گرفتار کیا گیا۔ فور پاؤس کے ڈائریکٹر آپریشن نے اس بارے میں کہا تھا کہ یورپی یونین کے لیے یہ بڑی شرم ناک بات ہے کہ اکیسویں صدی میں کسی مہذب معاشرے میں محض نفع کمانے کی غرض سے جانوروں کو بے دردی سے ہلاک کر دیا جائے۔ یورپی ممالک میں پھر بھی اس قسم کے ظالمانہ سلوک پر گرفت کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں جہاں انسانی خون ارزاں ہے، وہاں بھلا کٹّوں کے اس طرح قتلِ عام پر کون کان دھرے؟
یہ کیسا ظلم ہے کہ اپنے دودھ سے انسانوں کو پالنے اور ان کی غذائی ضرورت پوری کرنے والی ماں (بھینس) اپنا ہی جایا نہیں پال سکتی۔ مالی منفعت کی غرض سے اور پیسے کی ہوس کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے، وہ کم ہے۔
(شفیع موسیٰ منصوری کے ایک نہایت اہم موضوع پر معلومات افزا فیچر سے انتخاب، مصنّف پرنٹ میڈیا کے لیے کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں اور اپنی شان دار فیچر اسٹوریز کے لیے پہچانے جاتے ہیں)