Tag: فیکٹریوں کا فضلہ

  • کینجھر جھیل میں فضلے کی آمیزش اور کراچی کو زہریلے پانی کی فراہمی، سندھ حکومت کو ہوش آگیا

    کینجھر جھیل میں فضلے کی آمیزش اور کراچی کو زہریلے پانی کی فراہمی، سندھ حکومت کو ہوش آگیا

    کراچی: صوبہ سندھ کی جھیل کینجھر میں فیکٹریوں کے فضلے کی آمیزش اور زہریلا پانی کراچی کو سپلائی کیے جانے کی خبروں پر صوبائی وزیر جام اکرام اللہ دھاریجو نے نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر برائے صنعت و تجارت جام اکرام اللہ دھاریجو نے کینجھر جھیل میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی پھینکے جانے کا نوٹس لے لیا۔ صوبائی وزیر نے سیکریٹری انڈسٹریز سندھ سمیت متعلقہ افسران سے رپورٹ طلب کی ہے۔

    صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ سیکریٹری صنعت سندھ اور متعلقہ افسران کل جگہ کا دورہ کر کے رپورٹ ارسال کریں گے، اگر فیکٹریز ٹریٹمنٹ پلانٹ استعمال کیے بغیرزہریلا پانی کینجھر میں چھوڑ رہی ہیں تو فیکٹری مالکان کے خلاف قانون کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ نوری آباد اور کے بی فیڈر کوٹری میں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب ہیں، ٹریٹمنٹ پلانٹ سے فیکٹریوں کا پانی گزر کر صاف ہو جاتا ہےجس سے خطرہ نہیں ہوتا۔

    صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ کینجھر جھیل نوری آباد سے 35 کلو میٹر کے مفاصلہ پر ہے، جھیل کی حفاظت ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ سندھ حکومتکینجھر جھیل کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز کینجھر جھیل میں فیکٹریوں کا زہریلا فضلہ پھینکے جانے کی خبریں سامنے آئی تھیں اور جھیل کا پانی کراچی میں فراہم کیے جانے کی وجہسے شہریوں کی صحت کے حوالے سے سنگین خطرات کا خدشہ لاحق ہوگیا تھا۔

    اس حوالے سے تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کوٹری انڈسٹریل ایریا میں 116 فیکٹریز ہیں ان تمام فیکٹریز کا فضلہ اور مقامی آبادی کا فضلہ کلری بگار فیڈر میں براہ راست ڈالا جارہا ہے، یہ وہ نہر ہے جو دریائے سندھ سے کینجھر جھیل کو آتی ہے۔

    ان کے مطابق یہاں پر 95 کروڑ روپے کی لاگت سے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا گیا تھا جو ناکارہ ہوچکا ہے۔ اس زہریلے پانی میں مرکری سمیت بے شمار زہریلے اجزا موجود ہیں جس کی وجہ سے کراچی شہر میں جگر کی خرابی، آنکھوں کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس حتیٰ کہ کینسر جیسی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔

    حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت سو رہی ہے اور کینجھر کی آلودگی سمیت کسی مسئلے کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔

  • آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    دنیا بھر کے دریاؤں میں بڑھتی آلودگی 30 کروڑ افراد کے لیے مختلف بیماریوں کا خدشہ پیدا کر رہی ہے جبکہ کئی ممالک میں یہ ماہی گیری اور زراعت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔

    pollution-2

    رپورٹ کے مطابق 16.4 کروڑ افراد افریقہ، 13.4 کروڑ ایشیا اور لاطینی امریکا میں 2.5 کروڑ افراد گندے پانی سے ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی فضلہ کی پینے کے پانی میں ملاوٹ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے نہ صرف سیوریج کے نظام کو بہتر کرنا ضروری ہے بلکہ پینے کے پانی کو بھی ٹریٹ (صفائی) کرنے کی ضرورت ہے۔

    pollution-3

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کی سائنسدان جیکولین میک گلیڈ کا کہنا ہے کہ صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ انسانی صحت اور انسانی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم آبی آلودگی کو نہ روک سکے تو ہم صاف پانی کے حصول میں ناکام ہوجائیں گے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فیکٹریوں کا فضلہ اور ضائع شدہ فصلوں کی دریاؤں میں تلفی پانی کی آلودگی میں اضافہ کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ بعض ممالک کی 90 فیصد آبادی پینے کے پانی کے لیے دریاؤں اور جھیلوں پر انحصار کرتی ہے۔

    po-4

    اسی طرح ماہی گیری کا شعبہ جو دنیا بھر کے 21 ملین افراد کا ذریعہ روزگار ہے پر بھی منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے جبکہ آلودہ پانی سے زراعت کے باعث فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف ذرائع سے تلف کیے جانے والے پانی کو سمندروں اور دریاؤں میں جانے سے پہلے ٹریٹ کیا جانا یا اس کی صفائی کرنا ضروری ہے۔