Tag: قائد اعظم

  • ’’تم نے یہ بات کہاں سنی…؟“

    ’’تم نے یہ بات کہاں سنی…؟“

    فروری 1948ء میں بانی پاکستان قائد اعظم سبی میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے تشریف لائے۔

    آپ نے اس علاقے میں آزادی کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں یہاں کے صحافیوں سے باتیں کیں۔ قائداعظم نے اس موقع پر کہا کہ بلوچستان مجھے اس قدر عزیز ہے کہ میں نے اس کے انتظامات کو اپنے اختیارات میں شامل کر رکھا ہے، تاکہ اس علاقے کو جلد از جلد ترقی دی جا سکے۔ اللہ نے اس علاقے کو وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اب یہ یہاں کے عوام کا کام ہے کہ انھیں کام میں لائیں۔ اس پریس کانفرنس میں مولانا عبدالکریم ایڈیٹر میزان، مولانا محمد عبداللہ ایڈیٹر پاسبان، عبدالصمد درانی ایڈیٹر استقلال، میر محمد حسن نظامی ایڈیٹر بولان، محمد رفیق پراچہ ایڈیٹر جمہور، مسٹر حسن اختر نمائندہ اے پی پی، مسٹر فضل احمد غازی ایڈیٹر خورشید، مولانا شبیر الحسنین ایڈیٹر الاسلام اور بیرون ملک کے صحافی بھی شامل تھے۔

    قائد اعظم کی اس پہلی پریس کانفرنس میں ’الاسلام‘ کے مدیر مولانا شبیر الحسنین نے قائداعظم سے سوال کیا۔ ’قائد اعظم! حکومتِ ہندوستان نے 1948ء سے مسلم لیگ کو ہندوستان میں خلاف قانون جماعت قرار دے دیا ہے۔‘

    قائد اعظم نے پوچھا تم نے یہ بات کہاں سنی؟ شبیر الحسنین نے کہا ’یہ بات میں نے ابھی ابھی بازار میں سنی ہے۔‘

    قائد اعظم بولے کہ ’کوئی اور بات کرو۔ میرے سامنے بازاری باتیں مت کیا کرو!‘

    (یہ ’صحافت وادیٔ بولان میں‘ از کمال الدین احمد سے منتخب کردہ پارہ ہے)

  • وہ سانحہ جس کے بعد پاکستان نظریاتی بنیاد سے دور ہوتا چلا گیا!

    وہ سانحہ جس کے بعد پاکستان نظریاتی بنیاد سے دور ہوتا چلا گیا!

    11 ستمبر کو امریکا میں ٹوئن ٹاور پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد دنیا یکسر بدل گئی اور یہ تبدیلی سیاسی ہی نہیں تھی بلکہ اس نے مختلف اقوام اور معاشروں کو سماجی اور ثقافتی سطح‌ پر بھی متاثر کیا۔ نائن الیون کے نام سے مشہور اس واقعے کے بعد امریکی اقدامات سے دنیا میں تشدد اور دہشت گردی کی جو لہر آئی، اس میں پاکستان کو جو نقصان اٹھانا پڑا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہےاور ہمیں ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔لیکن آج سے 76 سال قبل بھی قوم پر ایک سانحہ گزرا تھا جس نے ایک نئی مملکت کو ہلا کر رکھ دیا اور پاکستان اپنی بنیاد سے ہٹ گیا۔

    ہم بات کر رہے ہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے سانحۂ ارتحال کی۔ آج قائداعظم کو 14 اگست کے بعد 25 دسمبر کو ان کے یوم ولادت اور 11 ستمبر کو یاد کیا جاتا ہے، ان کے مزار پر حاضری دی جاتی ہے۔ حکم راں اور قوم ان ایام میں قائداعظم کے افکار و کردار کو اپنے لیے مثالی قرار دے کر قیام پاکستان کے لیے ان کی جہدوجہد کی یاد تازہ کرتی ہے۔ سرکاری اور عوامی سطح‌ پر منعقدہ تقاریب اور جلسوں‌ میں‌ ان کے طے کردہ اصولوں پر چلنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد قائداعظم کی تصویر والے نوٹ ضرور ہمارے پاس ہوتے ہیں مگر ان کی ہدایات کو طاق نسیاں میں رکھ دیا جاتا ہے۔

    قائد اعظم کی سربراہی میں اکابرین تحریک پاکستان کی مسلسل جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے جب یہ وطن 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا تو مالی، انتظامی حوالے سے حالت انتہائی خستہ تھی اور اس کے مستقبل کے بارے میں دنیا شکوک و شبہات کا شکار تھی لیکن قائداعظم کی قیادت میں آزاد مملکت نے اپنی ترقی کا سفر شروع کیا جس کو صرف ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 میں ایک زبرست دھچکا لگا اور پھر پاکستان کا جمہوری، نظریاتی بنیادوں پر ترقی معکوس کا سفر شروع ہوا اور آج 76 سال بعد قوم کئی نازک موڑ دیکھتے ہوئے ایسے چوراہے پر کھڑی ہے جہاں سے منزل کا نام ونشان نہیں مل رہا اور وہ مایوسی کے گہرے بادلوں میں ان راستوں کو دیکھ رہی ہے جن پر لسانیت، فرقہ واریت، دہشتگردی، عدم اعتماد اور کئی دیگر مسائل زہریلے ناگوں کی طرح پھن پھیلائے کھڑے ہیں اور آگے نہ جانے مزید کتنے نازک موڑ آنے ہیں اور یہ سب کسی اور کا نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی قوم ہمارا ہی کیا دھرا ہے جو اب سامنے آ رہا ہے۔

    قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کو آزاد مسلم ریاست کا تحفہ دے کر اس کے قیام کے صرف ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو ابدی نیند سو گئے۔ ان کی موت کی وجہ تپ دق (ٹی بی) بتایا جاتا ہے، جو اس دور میں ایک موذی مرض سمجھا جاتا تھا۔ تاہم جن حالات میں بانی پاکستان کی موت ہوئی اس سے جڑے سوالات آج بھی ذہنوں میں کلبلاتے ہیں اور پراسرار ہیں۔

    ملک کا سربراہ جو اس نوزائیدہ مملکت کا بانی بھی ہو اور جس کو بالآتفاق بابائے قوم (یعنی قوم کا باپ) کا خطاب بھی دیا جا چکا ہو۔ اس کے آخری وقت میں جو کچھ ہوا وہ اب تک کئی بار مختلف مضامین میں ضبط تحریر میں لایا جا چکا ہے۔ کیسے انہوں نے جب اپنی زندگی کے آخری 60 ایام بلوچستان کے تفریحی مقام زیارت میں گزارنے کے بعد کراچی واپسی کا ارادہ کیا تو ان کا طیارہ تو کوئٹہ سے کراچی ماڑی پور ہوائی اڈے پر دو گھنٹے میں پہنچ گیا لیکن انہیں کراچی سے اپنی رہائشگاہ پہنچنے میں دو گھنٹے لگے۔

    گورنر جنرل ہاؤس ماڑی پور سے 9 میل دور تھا۔ اس جاں بہ لب سربراہ مملکت جس کے پھیپھڑوں نے آخری درجے کی ٹی بی کے باعث کام کرنا چھوڑ دیا تھا اس کو لینے کے لیے ایسی کھٹارا ایمبولینس بھیجی گئی جو چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک جھٹکے کے ساتھ بند ہو گئی اور بتایا گیا کہ اس کا انجن خراب ہوگیا ہے اور یہ قافلہ ایک مرتے ہوئے انسان جو کوئی عام شخص نہیں بلکہ بانی پاکستان تھا کے ساتھ ایک گھنٹے سے زائد ماڑی پور کے جنگل میں بے بسی کے عالم میں کھڑا رہا۔ خدا خدا کر کے ایک دوسری ایمبولینس آئی تو یہ قافلہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔ قائد اعظم کا قافلہ جس میں ان کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح، ان کے ذاتی معالج اور عملہ شامل تھا گورنر جنرل ہاؤس پہنچا تو بانی پاکستان گہری نیند میں تھے لیکن ان کی طبیعت مسلسل بگڑ رہی تھی اور کچھ دیر میں ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

    ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے لکھا ہے کہ جناح کے آخری الفاظ ’اللہ۔۔۔ پاکستان‘ تھے جبکہ فاطمہ جناح’مائی برادر‘ میں لکھتی ہیں: ’جناح نے دو گھنٹے کی پرسکون اور بے خلل نیند کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں، سر اور آنکھوں سے مجھے اپنے قریب بلایا اور میرے ساتھ بات کرنے کی آخری کوشش کی۔ ان کے لبوں سے سرگوشی کے عالم میں نکلا: فاطی۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔ لاالٰہ الاللہ محمد الرسول اللہ۔‘ پھر ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

    بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ چوہدری محمد حسین چٹھہ نے اپنے ایک انٹرویو میں ضمیر احمد منیر کو بتایا تھا کہ جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کو بتایا کہ انھیں تب دق کا مرض لاحق ہے تو جناح نے جواب دیا: ’ڈاکٹر، یہ تو میں 12 برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہندو میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔‘

    برصغیر کی جدوجہد آزادی کے موضوع پر لکھی گئی مشہور کتاب ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنّفین لیری کولنز اور ڈومینک لاپیئر نے بالکل درست لکھا ہے کہ: ’اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک ہالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔‘

    یہ وہ حقیقت ہے جس سے تقریباً ہر وہ پاکستانی جس نے تاریخ پاکستان اور قائداعظم کے آخری ایام کے حوالے سے معتبر کتب اور مضامین پڑھ رکھے ہیں، اچھی طرح واقف ہے، تاہم آج یہاں اس سب کو بیان کرنے کا مقصد نئی نسل کو باور کرانا ہے کہ قائداعظم ہمارے لیے خدا کا تحفہ تھے جن کی ایسی بے قدری کی کہ ان کا انتقال اس حال میں ہوا کہ جو کسی سربراہ مملکت بالخصوص کسی ملک کے بانی کے شایان شان قطعی نہیں تھا۔ شخصیت بھی وہ جنہوں نے اپنے جان لیوا مرض کی پروا نہ کرتے ہوئے کروڑوں مسلمانوں کے لیے ایک الگ خطہ وطن کی جدوجہد جاری رکھی۔ اگر وہ ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق اپنی مصروفیات ترک کر کے صحت پر توجہ دیتے تو اس صورت تحریک پاکستان کو زک پہنچنے کا امکان تھا اور یہ انہیں کسی صورت قبول نہ تھا۔ اس کو دوسرے معنوں میں کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے نئے وطن کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دی اور اس بیماری کو دشمنوں سمیت دوست نما دشمنوں سے بھی چھپایا تاکہ ان کا مشن ناکام نہ ہوسکے۔ 1948 کے اس سانحہ نے پاکستان کو ہی پورا بدل دیا۔

    قائداعظم کا خواب تھا کہ پاکستان ایک فلاحی، جمہوری ریاست ہو گی، جہاں پارلیمنٹ بالادست اور عوام کی حکمرانی ہوگی۔ جہاں ہر شخص کو بلاتفریق رنگ ونسل اور مذہب اس کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اظہار رائے کی آزادی ہوگی اور صرف ادارے نہیں بلکہ ہر فرد قابل عزت ہوگا۔ اگر وہ اس طرح‌ رخصت نہ ہوتے تو ملک کے آج حالات یہ نہ ہوتے۔ جس طرح نعمت خداوندی پر انعام ربانی بڑھتا ہے، اسی طرح اس کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری پر اس کا حساب بھی اس قوم کو دینا پڑتا ہے۔ قائداعظم کے پاکستان اور ان کے فرمودات سے روگردانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم 25 سال سے بھی کم عرصہ میں قائداعظم کا آدھا پاکستان گنوا بیٹھے اور جو باقی ماندہ پاکستان ہے وہاں کا جو حال ہے وہ آج سب کے سامنے ہے کہ جس کو عالم اسلام کی ترجمانی کرنی تھی، اس کے حکمران آج کاسہ گدائی اٹھائے پورے پروٹوکول اور شاہانہ انداز کے ساتھ نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ ملک ملک پھر رہے ہیں۔ انا، مفادات، حرص و لالچ نے سب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے جس کو قائد کے پاکستان کی بے بس عوام نظر ہی نہیں آ رہی ہے۔

  • یوم آزادی، مزار قائد پر گارڈز تبدیلی کی پر وقار تقریب کا انعقاد

    یوم آزادی، مزار قائد پر گارڈز تبدیلی کی پر وقار تقریب کا انعقاد

    کراچی: پاکستان کے 77 ویں یوم آزادی کے موقع پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر گارڈز کی تبدیلی کی پُروقار تقریب منعقد کی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر اعزازی گارڈ کے فرائض کی ذمہ داری سنبھال لی، پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس ہر سال 14 اگست کو یہ ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔

    کمانڈنٹ پاکستان نیول اکیڈمی کموڈور محمد خالد گارڈز تبدیلی کی پروقار تقریب کے مہمان خصوصی تھے جبکہ پریڈ کمانڈر کے فرائض لیفٹیننٹ کمانڈر احمد حسن تمغہ بسالت نے سر انجام دیئے۔

    بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار پر اعزازی گارڈز میں دو دستے شامل ہیں، اعزازی گارڈز ایک دستہ پاک بحریہ کے سیلرز پر مشتمل ہے، جبکہ دوسرا دستہ پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس پر مشتمل ہے۔

    آج جشن آزادی کے موقع پر جب دن کا آغاز ہوا تو وفاقی دارالحکومت میں 31، صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی پیش کی گئی۔

    پاکستان کی آزادی کے77 برس مکمل ہونے پر پاک فوج کے چاق و چوبند دستوں کی جانب سے دن کا آغاز توپوں کی سلامی سے کیا گیا۔

    اس موقع پر پاک فوج کے دستے کی جانب سے نعرہ تکبیر، اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بھی بُلند کئے گئے، یہ توپوں کی سلامی اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ”ہم ایک با حوصلہ قوم ہیں اور وقت آنے پر نا صرف سینہ سپر بلکہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے بھی ہمہ وقت تیار ہیں“۔

    ملک بھر کی مساجد میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کیلئے قرآن خوانی اور دعاؤں کااہتمام کیا جارہا ہے، نماز فجر کے وقت ملک بھر میں امن واستحکام، ترقی اور خوشحالی کیلئے دعائیں کی گئیں۔

    صدر مملکت اور وزیر اعظم کا پاکستان کے 77 ویں یوم آزادی پر پیغام

    تحریک آزادی پاکستان کے شہدا کیلئے قرآن خوانی کااہتمام کیا گیا جن کے طفیل یہ حسین خطہ ارض بہ فضلِ خداوندِ متعال ہمیں نصیب ہوا،اس موقع پر شہدائے تحریک پاکستان کو خراج عقیدت اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا، وطن عزیز کی سالمیت کیلئے قیمتی جانوں کا نذرا نہ پیش کرنے والوں سے بھی اظہار یکجہتی کی گئی۔

  • بانی پاکستان محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار

    بانی پاکستان محمد علی جناح کی زندگی کے پانچ ادوار

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا ہندوستان کی سیاست میں‌ قدم رکھنا خاص طور پر مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند کے لیے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد بلاشبہ ان کی زندگی کا نہایت ہنگامہ خیز دور تھا۔

    یوں تو نوجوان محمد علی جناح کی تعلیمی میدان میں کام یابیوں، بطور وکیل پیشہ ورانہ سفر اور پھر قیام پاکستان کے لیے ان کی کاوشوں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن جب ہم اپنے قائد کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزاری۔

  • قائد اعظم آزاد فلسطینی ریاست کے ساتھ کھڑے تھے: حماس ترجمان

    قائد اعظم آزاد فلسطینی ریاست کے ساتھ کھڑے تھے: حماس ترجمان

    لاہور: حماس کے ترجمان نے فلسطین کی آزادی سے کم کسی بات پر راضی ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے بانئ پاکستان محمد علی جناح کا اپنی گفتگو میں خصوصی ذکر کیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد صورت حال بدل چکی ہے، فلسطینی آزادی سے کم کسی بات پہ راضی نہیں ہوں گے۔

    انھوں نے کہا قائد اعظم محمد علی جناح آزاد فلسطینی ریاست کے ساتھ کھڑے تھے، انھوں نے کہا کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے نکالنا قبول نہیں ہے۔

    خالد قدومی کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے بمباری کے بعد غزہ کے مکینوں کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی ہے، لیکن اس دھمکی کو فلسطینیوں نے مسترد کر دیا ہے، غزہ والوں کے حوصلے بلند ہیں، اپنی زمین کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

    واضح رہے کہ سات اکتوبر کے حماس حملے کے بعد سے غزہ پر صہیونی فورسز کی جانب سے 86 ویں دن بھی وحشیانہ بمباری جاری ہے، اور اب تک 21,672 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جب کہ 56,165 افراد زخمی ہوئے۔ شہیدوں میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، جس پر عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

  • جب لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے اپنی والدہ سے محمد علی جناح کا تذکرہ کیا!

    جب لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے اپنی والدہ سے محمد علی جناح کا تذکرہ کیا!

    مسلمانانِ ہند کے عظیم قائد اور بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضربُ المثل رہی ہے۔ مسلمان قیادت کے علاوہ کانگریس کے بڑے راہ نما اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی نام ور شخصیات کے ساتھ ساتھ انگریز وائسرائے بھی اس کے معترف رہے ہیں۔

    یہاں ہم لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ کا تذکرہ کریں گے جنھوں نے محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی کا کئی مواقع پر اعتراف کیا۔ لارڈ چمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے بھی رہے ہیں۔ ہندوستان میں برطانوی دور کے ایک اور منتظم لارڈ ریڈنگ تھے جن کی اہلیہ نے اپنی والدہ کے نام ایک خط میں مسلمانانِ ہند کے عظیم لیڈر کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا: ’’بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

    اگر بات کی جائے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تو وہ روایتی ملبوس اور اس دور کی قدروں کو اہمیت دیتے تھے۔ یہاں کے مسلمان کپڑے کی بنی ہوئی ٹوپی سے سَر ڈھانپتے تھے جسے شرافت اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب سلطنتِ عثمانیہ اور تحریکِ خلافت کا شہرہ ہوا تو ان کی اکثریت نے مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے لباس میں ترکی ٹوپی کو بھی شامل کرلیا۔

    قائدِ اعظم لندن میں اور دورِ وکالت میں ہمیشہ کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے، لیکن بعد میں مسلم لیگ کے راہ نما اور تحریکِ آزادی کے اس عظیم قائد نے اچکن اور تنگ پاجامہ، شیروانی جیسے ملبوس کے ساتھ ایک مخصوص ٹوپی پہننا شروع کی اور جلسوں اور مختلف تقاریب میں‌ اسی لباس میں شریک ہونے لگے۔ مسلمانوں نے اپنے قائد کے اس انداز کو بہت پسند کیا اور قائدِ‌اعظم کی وہ قراقلی ٹوپی عوام میں اتنی مقبول ہوئی کہ سب اسے جناح کیپ کہنے لگے۔

    یہ ٹوپی دراصل دنبے کی ایک خاص نسل قراقلی کی کھال سے تیّار کی جاتی ہے اور اسی سے موسوم ہے۔ اس جانور کی یہ مخصوص کھال افغانستان اور بیرونِ ملک سے منگوا کر متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی قراقلی ٹوپی کی تیّاری کے لیے استعمال کی جاتی رہی، لیکن وقت کے ساتھ اس کا رواج ختم ہو گیا۔

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح سے اپنی والہانہ محبّت اور ان سے عقیدت و احترام کے اظہار کے لیے اس دور میں ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت جناح کیپ پہن کر جلسوں اور تقاریب میں شریک ہوتی تھی۔

  • تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے اور اس پلیٹ فارم سے مسلمانانِ کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرنے کے بعد ایک نہایت ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی گزاری۔

    اگر ہم اپنے قائد و راہ بَر کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔

  • قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت و کردار کو ہندوستانی اور بعض انگریز مؤرخین نے بھی سراہا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے بااصول، صاف گو ہونے اور مضبوط و اجلے کردار کی غمّازی کرتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسے ہی واقعے کا تذکرہ کررہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرکے لندن سے ہندوستان لوٹنے والے محمد علی جناح نے جب ممبئی (بمبئی) میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنا چاہا تو انھیں کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑی۔

    پریکٹس شروع کرنے کے خواہش مند کسی بھی وکیل کے لیے لازمی تھا کہ وہ یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔ ایک روز محمد علی جناح صبح سویرے ایک انگریز مجسٹریٹ کے بنگلے پر پہنچ گئے اور نوکر کے ہاتھ ایک چٹ پر اپنا نام اور ڈگری لکھ کر ضروری کام سے ملاقات کا پیغام اندر بھجوا دیا۔ مجسٹریٹ نے انھیں اندر بلا لیا۔

    قائدِ اعظم نے اندر جاتے ہی سوال کیا:’’میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    مجسٹریٹ نے جواب دیا: مجھے آپ بے حد شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر قائدِ اعظم نے اسی وقت ایک کاغذ آگے بڑھا دیا اور نہایت ادب اور شائستگی سے کہا: ’’جنابِ عالی، یہ الفاظ اس پر لکھ دیجیے۔ دراصل مجھے قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔‘‘

  • قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے طویل اور ناقابلِ فراموش جدوجہد میں نہ صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بے لوث قیادت ایک اہم تاریخی موضوع ہے بلکہ آزادی کے متوالوں کے محبوب لیڈر محمد علی جناح کی سحر انگیز اور نفیس شخصیت سے بھی نئی نسل کو واقف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ تعلیم و قابلیت، قیادت کی اہلیت کے ساتھ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر ان کے قائد کو ایک باوقار، پُراعتماد اور ہمہ اوصاف شخصیت کہا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم سیاسی مدبّر، قابل وکیل اور مسلمانانِ ہند کے قائد خوش پوشاک اور نفیس انسان مشہور تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قائدِ اعظم کی خوش پوشاکی ان کی شخصیت کا ایسا جزو تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس کا اعتراف ان کے سیاسی حریف اور مخالفین بھی کرتے ہیں۔

    قائد اعظم محمدعلی جناح کراچی میں پیدا ہوئے جو اس وقت بھی ساحلی شہر ہونے کی بنا پر اہم تجارتی مرکز تھا اور یہاں نہ صرف مختلف اقوام کے لوگ رہتے تھے بلکہ انگریز بھی آباد تھے۔ یہاں کی مخصوص مقامی آبادی انگریزی زبان و ثقافت سے کسی قدر واقف اور ان کے طور طریقوں اور لباس سے بھی مانوس ہوگئے تھے۔

    محمد علی جناح کے والد جناح پونجا تجارت پیشہ تھے اور اسی حوالے سے انگریزوں سے رابطہ اور واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان جانتے تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ، پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ اسی ماحول میں قائدِ اعظم بھی رہے اور شروع ہی سے انگریزی لباس زیبِ تن کیا۔ 1892ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے بیرسٹر بنے۔ لندن میں قیام کے دوران کوٹ، پتلون اور ٹائی کے استعمال کے ساتھ اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی آشنا ہوئے۔

    لندن سے واپس آکر بمبئی میں بہ طور پیشہ وکالت کا آغاز کیا۔ وہاں پارسیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی آبادی نہ صرف با اثر اور متمول تھی بلکہ انگریزوں سے قریبی روابط رکھتی تھی اور انگریزی لباس پہنتی تھی اور محمد علی جناح بھی یہی لباس پہنتے رہے۔

    آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلمانوں کے راہ بر و قائد بننے اور 1937 کے بعد محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں اچکن اور تنگ پاجامہ پہن کر شرکت کرنا شروع کردی تھی، اور مؤرخین کے مطابق بعد میں شیروانی کا استعمال شروع کیا۔

    اگست 1947ء کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بانی پاکستان نے آزادی کی تقریبات میں شیروانی، شلوار اور جناح کیپ پہن کر شرکت کی تھی۔

  • گورنر پنجاب کا قائد اعظم کے حوالے سے وزیر اعظم کو اہم مشورہ

    گورنر پنجاب کا قائد اعظم کے حوالے سے وزیر اعظم کو اہم مشورہ

    اسلام آباد: گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے وزیر اعظم عمران خان کو اہم مشورے دے دیے۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر پنجاب نے بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو خوب سوچ بچار کے بعد فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا۔

    چوہدری محمد سرور نے کہا آپ قائد اعظم کی طرح 10 بار سوچیں پھر فیصلہ کریں، اور جب فیصلہ کر لیں تو پھر اس پر ڈٹ جائیں۔

    گورنر پنجاب نے وزیر اعظم کو یہ مشورہ بھی دیا کہ کسی کو رخصت کیا جاتا ہے تو اس کی عزت نفس کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

    گورنر چوہدری سرور نے کہا سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو اس طرح رخصت نہیں کرنا چاہیے تھا، وزارت سے اس طرح ہٹانا اچھا اقدام نہیں تھا، کابینہ میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان پر قائم رہنا چاہیے۔

    انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں جس کے پاس زمین نہیں، وہ اگر 3 یا 5 مرلے پر قبضہ کر لے اسے قبضہ نہیں سمجھتا۔