Tag: قائد اعظم کی برسی

  • قائدِ اعظم کی برسی: موت ہی واحد دشمن تھی جس کے آگے محمد علی جناح نے سَر جھکایا

    قائدِ اعظم کی برسی: موت ہی واحد دشمن تھی جس کے آگے محمد علی جناح نے سَر جھکایا

    متحدہ ہندوستان کے سیاسی محاذ پر محمد علی جناح نے تند و تیز بادِ مخالف، تنقید کے طوفان، نکتہ چینی کی آندھی کا نہ صرف سامنا کیا بلکہ ناموافق حالات کے باوجود اپنے نصبُ العین کا تعین کرنے کے بعد آگے بڑھتے رہے۔ انھوں نے اسی عزم و استقلال کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے جس طرح اپنا مقصد حاصل کیا، تاریخ میں اُس کی نظیر نہیں ملتی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء میں آج ہی کے دن وفات پا گئے تھے۔ آج بانی پاکستان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    وہ مسلمانانِ ہند کے دل کی دھڑکن، مسلم لیگ کا دماغ، تحریکِ پاکستان کی روح اور غیر متزلزل قوّتِ ارادی کے مالک تھے۔ انھوں نے ایک مدبّر کی حیثیت سے قوم کو بیدار ہی نہیں کیا بلکہ ایک بہترین منتظم کے طور پر آزادی کے متوالوں کی راہ نمائی کرتے ہوئے انھیں منزل تک پہنچایا۔

    بانی پاکستان محمد علی جناح کی وفات کے ساتھ ہی تاریخ کا وہ سنہری باب بھی بند ہوگیا جس کی بدولت ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو مقصد اور منزل کے حصول کے لیے ڈٹ جانے کا درس ملا اور اقوامِ عالم پر ثابت ہوا کہ عزم و ہمّت اور ارادے کی پختگی کے ساتھ راستی اور دیانت سے کام لے کر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس دن تدبّر، فہم اور سیاسی بصیرت کے ساتھ ناقابل‌ِ فراموش قیادت نے سفرِ آخرت اختیار کیا۔

    پاکستان کے عوام بالخصوص نئی نسل کو یاد رکھنا ہو گاکہ وطنِ‌ عزیز کے لیے ان کے قائدین، اکابرینِ ملّت اور بزرگوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور آزادی کا یہ کارواں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی لازوال اور مثالی قیادت میں منزل تک پہنچا جس کی بقا و سلامتی، استحکام، ترقی اور خوش حالی کے لیے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

    حکومتِ پاکستان کے اعلان کے مطابق 11 ستمبر 1948ء کو رات 10 بج کر 25 منٹ پر بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح حرکتِ قلب بند ہو جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ وہ ہفتے کا دن تھا۔ اس خبر پر ملک بھر میں فضا سوگوار ہوگئی اور ہر پاکستانی افسردہ و رنجیدہ نظر آیا۔

    حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ قائدِ اعظم کا جنازہ اتوار کو دن کے تین بجے گورنر جنرل ہاؤس سے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگا۔ نمازِ جنازہ کراچی میں نمائش کے میدان میں ادا کی جائے گی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ پڑھائیں گے اور تدفین جامع مسجد کی تعمیر کے لیے تجویز کردہ مقام پر ہوگی۔

    سرکاری طور پر ملک بھر میں 40 روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔

    اس روز گورنر جنرل ہاؤس کے اطراف لاکھوں پاکستانی اپنے محبوب قائد کے جنازے میں شرکت کے لیے موجود تھے۔

    تین بجے دوپہر کو جنازہ ایک توپ لے جانے والی گاڑی پر رکھا گیا۔ پولیس کے 50 سپاہی اس کے آگے آگے جب کہ پیچھے کی جانب شاہی بحریہ کے 50 جوان، برّی فوج کے 50 اور پھر فضائیہ کے 50 جوان موجود تھے۔ اس گاڑی کو پاک بحریہ کے سپاہی چلا رہے تھے۔

    جنازے کے پیچھے دو کاریں تھیں، ایک میں محترمہ فاطمہ جناح اور قائدِ اعظم کی دختر موجود تھیں اور دوسری میں بیگم ہدایت اللہ سوار تھیں۔

    سوا تین بجے قائد کا جنازہ گورنر جنرل ہاؤس سے نکل کر وکٹوریہ روڈ انفسٹن اسٹریٹ سے ہوتا ہوا گارڈن روڈ اور پھر بندر روڈ پہنچا۔ اس راستے میں کم و بیش 6 لاکھ لوگ جنازے میں شامل رہے جب کہ راستے میں آنے والی عمارتوں کی چھتوں پر بھی لوگ اپنے محبوب قائد کو رخصت کرنے کے لیے موجود تھے۔

    نمازِ جنازہ ادا کرنے کے لیے صف بندی ہوئی تو پہلی صف میں وزیرِاعظم پاکستان لیاقت علی خان، وفاقی اور صوبائی وزرا سمیت اسلامی ممالک کے سفیر موجود تھے۔

    قائدِ اعظم کی میّت جیسے ہی قبر تک لائی گئی، پاک فضائیہ کے طیّارے نے فضا میں غوطے لگا کر جنازے پر پھول نچھاور کیے اور قائدِ اعظم کو سلامی پیش کی۔

    تاریخی ریکارڈ کے مطابق شام 6 بج کر 24 منٹ پر قائدِ اعظم کا جسدِ خاکی لحد میں اتارا گیا۔ تدفین کے موقع پر حکومتی و سرکاری اور غیرملکی شخصیات کے علاوہ لاکھوں غم زدہ پاکستانی بھی موجود تھے جو مسلسل کلمہ طیّبہ کا ورد کررہے تھے۔

    بلا شبہ قائدِ اعظم نے بے غرضی، خلوص و دیانت داری کے ساتھ اَن تھک محنت اور جہدِ مسلسل سے اس مشن کو پورا کیا جس کے لیے انھوں نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھال کر متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو یقین دلایا تھا کہ ایک دن وہ ضرور آزاد فضا میں سانس لیں گے۔

  • تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے اور اس پلیٹ فارم سے مسلمانانِ کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرنے کے بعد ایک نہایت ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی گزاری۔

    اگر ہم اپنے قائد و راہ بَر کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔