اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کا کہنا ہے کہ شہر کے لیے 12 سو میگا واٹ بجلی دستیاب ہے جبکہ طلب 11 سو میگا واٹ ہے، سر پلس بجلی موجود ہے۔
تفصیلات کے مطابق رکن قومی اسمبلی چوہدری سالک حسین کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس ہوا، اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کے سی ای او عبدالرزاق نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ شہر کے لیے 12 سو میگا واٹ بجلی دستیاب ہے جبکہ طلب 11 سو میگا واٹ ہے، سر پلس بجلی موجود ہے، ہمیں کنکشن دینے میں اعتراض نہیں۔
اجلاس میں دوران بریفنگ کہا گیا کہ سی ڈی اے کے اعتراضات کی وجہ سے کنکشن نہیں لگائے جاتے، جہاں سی ڈی اے کا عمل دخل نہیں وہاں کنکشن لگ رہے ہیں۔ سی ڈی اے حکام کو بلا کر ان سے سوال کیا جائے۔
کمیٹی کے رکن عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے غیر قانونی تعمیرات پر چشم پوشی کرتا ہے۔ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں سی ڈی اے حکام کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسلام آباد: انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان نے کہا ہے کہ لاپتا افراد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، تین برس میں 865 دہشت گرد گرفتار کیے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق بھارتی اور افغانی خفیہ اداروں سے ہے۔
یہ بات حکام نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ میں ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کا اجلاس سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان اور نادرا حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دی۔
آئی بی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ تین برس کے دوران 865 دہشت گرد گرفتار کیے جن میں سے بیشتر دہشت گرد بھارتی خفیہ ادارے را(ریسرچ اینڈ اینالائز ونگ) اور افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس(نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی) کے لیے کام کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور القاعدہ برصغیر، اصل میں را اور این ڈی ایس کے لیے کام کرتی ہیں، سی پیک روٹ کی سیکیورٹی اور آئی بی کے دفاتر قائم کرنے کے لیے فنڈز کے حوالے سے سمری حکومت کو بھیج دی ہے۔
ڈی جی آئی بی نے کمیٹی کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں کراچی آپریشن کیا تو آئی بی کو سیاسی حکومت کی مکمل حمایت حاصل تھی، نوے کے دہائی میں کراچی آپریشن کے بعد ہمیں سلادیا گیا، وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی آپریشن شروع کیا تو ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں اس طرح جگانے کا فائدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ کراچی آپریشن میں ہمیں وزیراعظم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ آئی بی حکام کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ تین برس کے دوران 865 دہشت گرد گرفتار کیے جن میں سے بیشتر را اور این ڈی ایس کے لیے کام کرتے تھے، ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی القاعدہ برصغیر را اور این ڈی ایس کیلئے کام کرتی ہیں، ان دہشت گرد تنظیموں میں مقامی دہشت گرد ملوث ہیں۔
لاپتا افراد پر آئی بی حکام کا کہنا تھا کہ اس معاملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں،مسنگ پرسن کمیشن کی جانب سے 478 انکوائریز ہوئیں جن میں سے 427 انکوائریز کی تفتیش کرکے بھیج دی گئیں۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ مسنگ پرسن کے نام پر جن لوگوں کو اٹھالیا جاتا ہے انہیں صفائی کا موقع ملنا چاہیے۔
سی پیک پر آئی بی حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سی پیک میں قوم پرستوں، گروہوں، نان اسٹیٹ ایکٹرز اور غیر ملکی ایجنسیوں سے خطرہ ہے،روٹ پر آئی بی دفاتر قائم کرنے کے لیے فنڈز منظوری کی سمری وزیر اعظم کر بھجوائی جا چکی ہے۔
ڈی جی آئی بی کی جانب سے سندھ پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے قائمہ کمیٹی کو سفارش کرنے کی درخواست کی، ڈی جی آئی بی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کو سفارش کریں کہ وہ پولیس کی خراب کارکردگی کو بہتر بنائیں۔
سینیٹر شاہی سید کا کہنا تھا کہ کراچی میں رینجرز کی ہر تین ماہ میں توسیع کا ڈرامہ بند ہونا چاہئے، آئی بی کی تین سال کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ تین سال پہلے کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اسلام آباد: وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف اور وزیر مملکت عابد شیر علی کے بعد پیپکو حکام بھی شیریں مزاری سے بد تمیزی پر اتر آئے، شیریں مزاری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں میں گھر کی بجلی غیر قانونی طور پرکاٹنے کا معاملہ اٹھایا تو بحث و مباحثہ تلخ کلامی تک پہنچ گیا، پیپکوحکام شیریں مزاری سے الجھ پڑے اور کہا آپ کے نہیں حکومت پاکستان کے ملازم ہیں،بجلی آئیسکو قوانین کے تحت کاٹی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابط کا اجلاس شروع ہوا تو شیریں مزاری نے پیپکو اور آئیسکو حکام سے گھر کی بجلی کاٹنے کے معاملہ اٹھایا اور کہا کہ باقاعدگی سے بل ادا کرنے کے باوجود پہلے گھر کی بجلی منقطع کی گئی اور بجلی چور قرار دے کر بل کی کاپی ٹوئٹر پر پوسٹ کر دی گئی کیا ایسا کسی سیاسی پشت پناہی پر کیا گیا؟؟
پیپکو حکام کی جانب سے غیر تسلی بخش جوابات پر شیریں مزاری اور وزارت پانی و بجلی کے حکام کے درمیان تکراربڑھی تو معاملہ گرما گرمی تک پہنچ گیا اور پیپکو حکام یہ کہتے ہوئے اپنی نشتوں سے اٹھ کھڑے ہوئے کہ حکومت پاکستان سے تنخواہ لیتے ہیں آپ کے ذاتی ملازم نہیں۔
تلخ کلامی بڑھی تو چیئر مین کمیٹی جنید انور بھی شیریں مزاری سے اونچی آواز میں بولنے لگے۔ اے آر وائی نیوز نے پیپکو کے افسر سے معاملے پر بات کرنا چاہی تو وہ نو کمنٹ کہتے ہوئے چلتا بنا۔
کمیٹی چیئر مین نے پیپکو حکام کی جانب سے کی گئی بد تمیزی کے جملے حذف کرتے ہوئے اگلے اجلاس میں سیکریٹری پانی و بجلی سے تحریری معذرت طلب کر لی۔