Tag: قادر خان

  • قادر خان: مقبول ترین اداکار اور کام یاب ڈائیلاگ رائٹر

    قادر خان: مقبول ترین اداکار اور کام یاب ڈائیلاگ رائٹر

    قادر خان اداکار بھی تھے، اور اسکرپٹ رائٹر بھی اور ایسے اسکرپٹ رائٹر جن کے مکالمے بہت مقبول ہوئے۔ آج بولی وڈ کے ڈائیلاگ کنگ کہلانے والے قادر خان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اداکار اور اسکرپٹ رائٹر قادر نے تین سو سے زائد فلموں میں کام کیا اور ڈھائی سو سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے۔ انھوں نے سنہ 1973 میں راجیش کھنہ کی فلم ‘داغ’ سے بولی وڈ میں اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں ہی شہرت حاصل کرلی تھی۔ بولی کی کام یاب ترین فلمیں جن میں خون پسینہ، لاوارث، امر اکبر انتھونی، نصیب، قلی شامل ہیں، ان فلموں کے مکالمے بہت مقبول ہوئے اور یہ قادر خان کے قلم سے نکلے تھے۔

    اداکار کی زندگی کے ابتدائی دور کی بات کی جائے تو افغانستان ان کا وطن تھا اور تین بھائیوں کی موت کے بعد قادر خان پیدا ہوئے، تب ان کے ماں باپ نے افغانستان سے انڈیا ہجرت کی۔ لیکن ماں باپ کی طلاق ہوگئی اور قادر خان نے سوتیلے باپ کے ساتھ غربت دیکھی۔ تعلیمی سلسلہ کسی طرح جاری رکھتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کیا اور گریجویشن کرکے ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔ اس عرصہ میں وہ اسکرپٹ لکھنے کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔ کالج میں ایک تھیٹر کے لیے قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام ملا اور ساتھ ہی ایک فلم کے لیے مکالمے لکھنے کا موقع بھی۔ یہ فلم 1972 میں ریلیز ہوئی اور نام تھا ‘جوانی دیوانی’ جو ہٹ ہوگئی۔ قادر خان کو مزید فلمیں ملنے لگیں۔ لیکن سنہ 1974 میں فلم ‘روٹی’ کے بعد قادر خان کی لکھی فلمیں اور ڈائیلاگ ہٹ ہونے لگے۔

    قادر خان 22 اکتوبر 1937 کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد عربی زبان کی تربیت کے لئے ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ خود عربی سیکھی اور دینی کاموں‌ میں مشغول ہوگئے۔ طبیعت خراب ہونے کے بعد زیادہ تر وقت ان کا کینیڈا میں بچوں کے ساتھ بیتا۔ اور کینیڈا ہی میں 31 دسمبر 2018ء کو وفات پائی۔

    سال 1977 میں قادر خان کی خون پسینہ اور پرورش جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں اور ان کی کام یابی کے بعد قادر خان کو اچھی فلموں کی پیشکشں شروع ہوگئی۔ ان فلموں میں مقدر کا سکندر، مسٹر نٹور لال، سہاگ، عبداللہ، دواور دو پانچ ، لوٹ مار، قربانی، یارانہ شامل تھیں۔قادر خان نے کامیڈی کردار اور بطور ولن بھی شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا اور فلم انڈسٹری میں اپنی پہنچان بنائی۔ فلم قلی 1983ء میں ریلیز ہوئی تھی جو قادر خان کے کیریئر کی سپرہٹ فلموں میں سے ایک ہے۔ 1990 میں "باپ نمبری بیٹا دس نمبری، بھی ان کی اہم فلموں میں سے ایک ہے اور اس پر قادر خان کو فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

  • قادر خان کا آج بھی مداحوں کے دلوں پر راج برقرار۔۔

    قادر خان کا آج بھی مداحوں کے دلوں پر راج برقرار۔۔

    ممبئی: بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف اداکاروں کی فہرست میں شامل قادر خان کی شخصیت سے کون واقف نہیں؟ جنہوں نے دو دہائیوں تک انڈسٹری پر راج کیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق قادر خان کا شمار بہترین اداکاروں میں ہوتا ہے، لوگ آج بھی ان کی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ سال 2018 میں دنیا کو الوداع کہنے کے باوجود آج بھی وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

    سینئر اداکار بھارت میں نہیں بلکہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پیدا ہوئے تھے، جو ایک پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مگر ان کے بچپن میں ہی ان کے والدین کام کے سلسلے میں ممبئی آگئے تھے۔

    گھر میں مالی پریشانیاں تھیں، والدہ بھی گھر کو چلانے کے لئے محنت کرتی تھیں جسے دیکھ کر وہ غمگین ہوجاتے تھے، انھوں نے مزدور کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا اور فیکٹری میں کام کرنے کا سوچا، مگر ان کی والدہ نے انکار کردیا اور پڑھائی پر توجہ دینے کا کہا۔

    سینئر اداکار نے اپنی تعلیم مکمل کی، ان کے کالج میں جو بھی ڈرامے ہوتے تھے ان میں وہ شرکت کرتے تھے اور لوگ ان کی اداکاری کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔

    انہوں نے نہ صرف ڈراموں میں کام کیا بلکہ ڈرامے لکھے بھی اور ہدایت کاری بھی کی، انجینئرنگ کرنے کے بعد انہوں نے ممبئی میں سول انجینئر پروفیسر کے طور پر کام کیا۔

    اسی دوران کالج کے سالانہ دن میں ایک بار ان کے ڈرامے کو ہر کیٹیگری میں ایوارڈ ملے اور جب دلیپ کمار کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے بھی یہ ڈرامہ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔

    اس ڈرامے کا ایک بار پھر اہتمام کیا گیا اور دلیپ کمار کو خان صاحب کی اداکاری بہت پسند آئی اور فوراً ہی انہوں نے انہیں اپنی دو فلموں میں سائن کر لیا۔

    اگرچہ خان صاحب کو ان فلموں سے پہچان نہیں ملی، لیکن انہوں نے اپنے اداکاری کے کیریئر کے لیے ایک راستہ ضرور تلاش کیا۔ سال 1973 میں انہوں نے فلم ’داغ‘ میں وکیل کا کردار ادا کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔

    مکیش امبانی کے پرائیویٹ طیارے میں کیا خاص بات ہے؟

    انہوں نے امیتابھ بچن کے لیے بھی کئی فلموں کے مکالمہ لکھے. انھوں نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا اور 100 فلموں کے ڈائیلاگ لکھے۔انہوں نے نہ صرف اداکار بلکہ مصنف کے طور پر بھی کام کیا۔

  • سنیما اور اردو زبان….

    سنیما اور اردو زبان….

    ہندوستانی فلموں پر ہونے والی گفتگو اردو زبان اور اس کی تہذیب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ہندوستانی فلموں نے اردو کی آغوش میں آنکھیں کھولیں اور اردو زبان کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔

    پہلی ہندوستانی فلم ’عالم آرا‘ پر غور کیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس کی کہانی، مکالمے، نغمے، برتاؤ وغیرہ سب کے سب اردو کے رنگ میں ہیں۔ اس فلم کے مکالمے کی زبان اردو تھی جسے عوامی سطح پر بے حد مقبولیت حاصل تھی۔ اس فلم کے ہِٹ ہونے میں مکالمے کا اہم رول رہا۔ اس پہلی متکلم فلم ’عالم آرا‘ کے مکالمے منشی ظہیر نے لکھے تھے جو اردو میں تھے۔

    عالم آرا سے لے کر اب تک کی تمام ہندوستانی فلمیں اگر کام یابی سے ہم کنار ہوئیں تو اس میں مکالمے کا رول اہم رہا ہے۔ ابتدا میں موسیقی سے لبریز فلمیں شائقین کے لیے لطف اندوزی کا ذریعہ تھیں، مگر سنیما صنعت کی ترقی کے ساتھ رواں دواں زندگی کی پیش کاری کے لیے جہاں کئی ذرائع اظہار استعمال کیے گئے، وہیں جذبات و احساسات کے حسین اور پُر اثر اظہار کے لیے مکالمے کو بہترین آلۂ کار مانا گیا۔ بولتی فلموں کے آغاز سے اب تک مکالمے کی اہمیت برقرار ہے۔ ہزاروں مکالمے پسندیدگی کی سند پا چکے ہیں اور خاص و عام کی زبان پر جاری ہیں۔ جہاں بھی فلموں میں پُر اثر اداکاری کا ذکر ہوتا ہے وہیں مشہور ڈائلاگ برسوں تک شائقین بھول نہیں پاتے۔

    آخر مکالمے میں ایسی کیا بات ہے کہ فلموں میں اس کی اتنی اہمیت ہے۔ اس کو تعریف کا جامہ کس طرح عطا کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں فلموں سے وابستہ فن کاروں کی رائے سود مند ہو سکتی ہے اور ان نکات پر گفتگو کی جا سکتی ہے جن کی طرف آرٹسٹوں نے توجہ دلائی ہے۔ جناب احسن رضوی جنھوں نے فلم مغلِ اعظم کے کچھ مکالمے لکھے، ان کے مطابق ’’مکالمہ وہ پیرایۂ گفتگو ہے جو کہانی کی تمام ضرورتوں پر حاوی ہو۔‘‘ انھوں نے کہانی اور منظرنامے میں مکالمے کی بنیادی حیثیت کو قبول کیا ہے۔ جدید شاعری کا اہم ترین نام اخترالایمان تقریباً چالیس سال تک فلموں سے وابستہ رہے۔ کہانیاں، شاعری اور مکالمے انھوں نے فلموں کے لیے لکھے۔

    فلم کی کام یابی کے لیے جن نکات پر محنت کی جاتی رہی ہے ان میں مکالمہ بھی ایک ہے۔ مکالمے صرف تحریر نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ اس کی قرأت کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ مکالمہ نویس اور اداکار کے درمیان مکالمے پر تبادلۂ خیال کو ضروری تصور کیا جاتا ہے۔ اداکار کو اس بات کے لیے تیّار کیا جاتا ہے کہ مکالمے اس انداز سے ادا کیے جائیں جو اس زبان کی اصلیت کو برقرار رکھے۔ اس کے لیے باضابطہ طور پر آدمی بحال کیے جاتے ہیں۔

    اردو زبان کی ہمہ گیری اور مقبولیت کے پیشِ نظر فلموں کے مکالمے میں صرف الفاظ استعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ لہجہ بھی اردو والا ہی ہوا کرتا ہے۔ چند مکالمے ملاحظہ کیجیے اور ان میں اردو کی جلوہ گری محسوس کیجیے۔

    ’’آج میرے پاس گاڑی ہے، بنگلہ ہے، پیسہ ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘۔۔۔۔ ’’میرے پاس، میرے پاس ماں ہے۔‘‘

    ’’آپ کے پاؤں بہت حسین ہیں، انھیں زمین پر مت اتاریے گا، میلے ہو جائیں گے۔‘‘ (فلم پاکیزہ)

    ’’انار کلی، سلیم کی محبّت تمہیں مرنے نہیں دے گی اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے۔‘‘ (فلم مغلِ اعظم)

    ’’بڑے بڑے شہروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ (فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے)

    کبھی کبھی کچھ جیتنے کے لیے کچھ ہارنا پڑتا ہے۔ اور ہار کر جیتنے والے کو بازی گر کہتے ہیں۔‘‘ (فلم بازی گر)

    یہ وہ مکالمے ہیں جو فلم دیکھنے والے حضرات کو ازبر ہیں۔ عوام میں ان مکالموں کا استعمال روزمرّہ کی طرح ہوتا ہے۔ کسی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کو بولنے والے سے اثر انداز ہو کر اس کو جاننے کی سعی کرنا۔ اردو زبان کی خصوصیت ہے کہ دوسری زبانوں کو جاننے والے جب ان الفاظ کو سنتے ہیں تو اس کو سیکھنے کی للک ہوتی ہے۔ ہندی یا دوسری علاقائی زبانوں کو جاننے اور بولنے والے اردو کے الفاظ کا استعمال کرکے خوش ہوتے ہیں اور اس کے حُسن کی تعریف کرتے ہیں۔

    ہندوستانی فلموں کی ایک صد سالہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ’عالم آرا‘ سے اب تک کی فلموں میں مکالمے کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ بے حد کام یاب فلمیں یا باکس آفس پر سپر ہٹ ہو نے والی فلموں کی کام یابی کی وجہ اگر تلاش کی جائے تو جہاں دوسرے عناصر کا نام آئے گا وہیں مکالمے کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    (محمد منور عالم کے مضمون سے انتخاب)

  • امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    امیتابھ بچن کا فلمی کیریئر سنوارنے والے قادر خان کی کہانی

    قادر خان کی فلمی کہانیاں اور ان کے تحریر کردہ مکالمے ہندی سنیما کے شائقین میں بہت مقبول ہوئے اور بحیثیت اداکار خود انھیں‌ بھی بے حد پسند کیا گیا۔

    ولن کے روپ میں شائقینِ سنیما کو متاثر کرنے والے قادر خان نے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ان کے دلوں پر راج کیا۔ ان کا فلمی کیریئر شان دار ثابت ہوا جس میں انھوں نے شائقین اور انڈسٹری کو کئی یادگار فلمیں‌ دیں۔

    قادر خان کا تعلق افغانستان سے تھا جہاں‌ انھوں‌ نے 22 اکتوبر 1937ء کو آنکھ کھولی، لیکن ان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ مشکل اور تکلیف دہ رہا۔ قادر خان کے والدین افغانستان سے انڈیا جا بسے تھے جہاں ان کے مابین علیحدگی ہوگئی جس کے بعد قادر خان کو سوتیلے باپ کے ساتھ غربت زدہ زندگی گزارنا پڑی۔ قادر خان کسی طرح تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے اور ممبئی کے ایک کالج میں پڑھانے لگے۔

    وہ شروع ہی سے پڑھنے، صدا کاری اور لکھنے کا شوق رکھتے تھے۔ مطالعہ اور تدریس سے وابستگی کے ساتھ جب انھوں نے تھیٹر کے لیے لکھنا شروع کیا تو بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے ساتھ چھوٹے موٹے کردار بھی نبھانے لگے۔ ایک مرتبہ ان کے کالج میں تھیٹر مقابلہ ہوا جہاں نریندر بیدی اور کامنی کوشل جج تھے۔ اس موقع پر قادر خان کو بہترین اداکار اور مصنّف کا انعام دیا گیا اور ساتھ ہی فلم کے لیے مکالمے لکھنے کی پیشکش بھی ہوئی۔ وہ تیّار ہوگئے۔ یہ سفر دہائیوں پر محیط ہوگیا اور 300 سو سے زائد فلموں میں انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ قادر خان نے 70 کی دہائی میں فلمی ڈائیلاگ لکھنے کا آغاز کیا تھا۔

    اداکار کے طور پر وہ 1973ء میں فلم داغ میں نظر آئے۔ یہ ایک وکیل کا معمولی کردار تھا اور 1977ء میں انھیں پولیس انسپکٹر کا کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی تحریر کردہ فلم مقدّر کا سکندر ہٹ ہوئی اور اس کے ڈائیلاگ ہر گھر میں بولے گئے، پھر ‘خون پسینہ، شرابی، لاوارث، امر اکبر انتھونی، قلی، نصیب، قربانی جیسی کام یاب فلمیں آئیں جنھوں نے انھیں ولن کے روپ میں اور مکالمہ نویس اور اسکرپٹ رائٹر کے طور پر بھی نام و مقام دیا۔

    1983ء میں فلم ‘ہمت والا’ بڑے پردے پر پیش کی گئی اور بہت کام یاب ہوئی۔ قادر خان اس کے مصنّف بھی تھے اور اس فلم میں انھوں نے ایک مزاحیہ کردار بھی ادا کیا۔

    اُس زمانے میں‌ امیتابھ بچن کے کیریئر کو سنوارنے والے قادر خان ہی تھے، لیکن خود قادر خان کی زندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب 1974ء میں من مومن دیسائی اور راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ‘روٹی’ میں انھیں کام کرنے کا موقع ملا۔

    اداکاری قادر خان کا اوّلین شوق تھا۔ اپنے فلمی کیریئر میں انھوں نے مجموعی طور پر 400 فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری بڑی فلم محبوبہ تھی جو ان کی وفات سے دس سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔

    بولی وڈ کے اس فن کار کی زندگی کے اس پہلو سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے بھی عملی کوششیں کرتے رہے۔ انھوں نے بالخصوص فلم نگری سے دور ہوجانے کے بعد دین پھیلانے اور اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو مٹانے کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے مشہور ہے کہ وہ اداکاری کے ساتھ ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی زبان بھی سیکھتے رہے۔

    قادر خان 31 دسمبر 2018ء کو کینیڈا میں وفات پاگئے تھے۔

  • قادر خان کی تدفین میں‌ بالی ووڈ شخصیات کی عدم شرکت

    قادر خان کی تدفین میں‌ بالی ووڈ شخصیات کی عدم شرکت

    ٹورنٹو: کینیڈا میں انتقال کرنے والے اداکار قادر خان کے نمازِ جنازہ میں بالی ووڈ کی کسی بھی شخصیت نے شرکت نہیں کی۔

    تفصیلات کے مطابق لیجنڈری  اداکار قادر خان کا نماز جنازہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی مسجد میں بدھ کے روز ادا کیا گیا جس میں اُن کے مداحوں اور عزیزواقارب نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

    اس موقع پر مرحوم کے صاحبزادے سرفراز خان نے نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’میرے والد نے ہمیشہ دوسروں کا احترام اور عزت کرنے کا درس دیا، قادر خان اپنے مداحوں سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے‘۔ اداکار کی تدفین ٹورنٹو شہر میں واقع قبرستان میں کی گئی۔

    مزید پڑھیں: معروف بھارتی اداکار قادرخان انتقال کرگئے

    نماز جنازہ میں کسی بھی شوبز شخصیت کی عدم شرکت پر سرفراز کا کہنا تھا کہ ’میرے والد نے بالی ووڈ انڈسٹری کے لیے بہت کام کیا، وہ اپنے ساتھی فنکاروں اور انڈسٹری سے مخلص تھے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’تمام اداکاروں نے والد کی خدمات کو بھلا دیا، شاید اس لیے کسی نے شرکت کی زحمت نہ کی، مگر ابو کہتے تھے کہ ہمیں کسی سے اپنے لیے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے اور سب کچھ خود ہی کرنا چاہیے‘۔

    یہ بھی پڑھیں: ’ ہم سب کا محسن چلا گیا ‘

    یاد رہے کہ قادر خان افغانستان کے شہر کابل میں پیدا ہوئے، انہوں نے بالی ووڈ انڈسٹری کے لیے بہت زیادہ کام کیا اور کئی فلموں کے ڈائیلاگز بھی لکھے، اداکار کو دسمبر کی 31 تاریخ کو طبیعت ناسازی کے بعد ٹورنٹو اسپتال لایا گیا تھا جہاں ڈاکٹر نے انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا تاہم وہ جانبر نہ ہوسکے اور یکم جنوری 2019 کو انتقال کرگئے۔

    یہ بھی یاد رہے کہ  اداکار نے بالی ووڈ انڈسٹری کو 47 سال دیے، آپ نے 300 سے زائد فلموں میں کام کیا اور 250 فلموں کے لیے ڈائیلاگز تحریر کیے جو بہت مشہور ہوئے۔

  • سینئر اداکار قادر خان کی بالی ووڈ میں واپسی

    سینئر اداکار قادر خان کی بالی ووڈ میں واپسی

     ممبئی: بالی ووڈ کے سینئر اداکار قادر خان فلموں میں واپس آ رہے ہیں اور ان کی واپسی کا اعلان کسی اور نے نہیں بلکہ امیتابھ بچن نے کیا ہے۔

    امتیابھ بچن نے ٹوئٹر کے ذریعے قادر خان کی فلموں میں واپسی کا اعلان کیا، انہوں لکھا کہ میرا بہترین کولیگ، فلم رائٹر اور اداکار قادر خان فلموں میں واپس آ رہا ہے، تاہم امیتابھ بچن نے یہ نہیں لکھا کہ قادر خان کسی فلم کے ذریعے بالی ووڈ میں واپسی کریں گے۔

     واضح رہے کہ قادر خان مسلسل فلموں میں کام کر رہے ہیں لیکن وہ ہر سال اک دو فلموں میں مختصر کرداروں میں دکھائی دیتے ہیں۔

     امیتابھ بچن کی طرف سے ان کی واپسی کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ وہ امیتابھ بچن کے ساتھ کسی فلم میں اہم کردار نبھاتے دکھائی دیں گے، دونوں اداکار ماضی میں کئی فلموں میں ایک ساتھ اداکاری کر چکے ہیں۔