Tag: قانونی

  • اس ’’پہاڑ‘‘ کو قانونی طور پر ’’انسان‘‘ کا درجہ دے دیا گیا!

    اس ’’پہاڑ‘‘ کو قانونی طور پر ’’انسان‘‘ کا درجہ دے دیا گیا!

    دنیا میں عجیب وغریب واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ایسا ہی ایک فیصلہ یورپی ملک سے آیا ہے جس نے پہاڑ کو قانونی طور پر انسان قرار دے دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ حکومت نے ملکی قانون کے تحت نارتھ آئی لینڈ میں واقع دوسرے بلند ترین پہاڑ تارانکی (Taranaki) کو ’’انسان ‘‘کا خصوصی درجہ دے دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اس پہاڑ کو انسان کا درجہ دینے کے بعد اب کوئی فرد یا کمپنی اس پہاڑ یا اس کے قیمتی قدرتی ماحول کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔

    نیوزی لینڈ کی حکومت نے مقامی ماری قبائل کے مطالبے پر یہ قدم اٹھایا ہے۔

    ماری قبائل کے نزدیک یہ پہاڑ مقدس اور مذہبی، ثقافتی و معاشرتی لحاظ سے بڑا اہم ہیں۔ تاہم سفید فاموں نے ان پر مظالم ڈھا کر نیوزی لینڈ پر قبضہ کیا، تو وہ تارانکی پر بھی قابض ہو گئے۔

    گزشتہ ایک عشرے سے ماری نے اپنے مقدس پہاڑ کو نوآبادیاتی شکنجے سے آزاد کرانے کی تحریک چلا رکھی تھی۔

     

    نیوزی لینڈ کی حکومت کی جانب سے اس پہاڑ کو باضابطہ انسان کا درجہ دیے جانے کے بعد آئندہ کوئی ملٹی نیشنل کمپنی یا سفید فاموں کا گروہ کسی بھی طرح تارانکی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہوئے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/successful-operation-on-a-young-man-with-4-legs/

  • ای بے کا امیزون کے تین مینجرز کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ

    ای بے کا امیزون کے تین مینجرز کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ

    واشنگٹن : نئے الزام کے بعد امریکا کی دو بڑی ای کامرس کمپنیوں کے درمیان مہینوں سے چلنے والا تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ای بے نے ایمیزون کے تین منیجرز پر کمپنی کے ہنرمند فروخت کنند گان کو توڑنے کے لیے سازش کرنے کا الزام لگایا ہے،نئے الزام کے بعد امریکہ کی دو بڑی ای کامرس کمپنیوں کے درمیان مہینوں سے چلنے والا تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔

    امریکا کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر مقدمہ میں ای بے نے دعویٰ کیا کہ ایمیزون کے تین سینئر مینیجرز کمپنی کے سینکڑوں فروخت کنندگان کو اکسایا جارہا کہ وہ (ای بے) کمپنی کے خفیہ پیغام رسانی کے نظام کے ذریعے لوگوں کو ایمیزون پلیٹ فارم پر مدعو کریں۔

    ای بے کے مقدمے کے مطابق ایمیزون کے مینیجرز منظم اور مربوط انداز سے ای بے کو اپنے ہی فروخت کنندگان اور ملازمین کے ذریعے نقصان پہنچانے کی سازش کر رہے ہیں۔

    ایمیزون پر متضاد طرز عمل کا نیا الزام ایک ایسے وقت میں لگا ہے جب امریکی حکام پہلے ہی اس کی مارکیٹ طاقت اور تیسری پارٹی کے فروخت کنندگان کے ساتھ تعلق کے الزام میں جانچ پڑتال کررہے ہیں۔

    اس حوالے سے رابطہ کرنے پرایمیزون نے موقف دینے سے معذوری ظاہر کی۔ اعلیٰ فروخت کنند گان کو اپنی طرف راغب کرنا اور رکھنا دونوں بڑی ای کامرس کمپنیوں کے لیے ہمیشہ سے اہم ترین رہا ہے۔

    دونوں بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں زیادہ سے زیادہ مارکٹ میں حصہ پانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں اور فروخت کنند گان کواپنی طرف راغب کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتی ہیں۔

  • ہواوے کا امریکی پابندی پر قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ

    ہواوے کا امریکی پابندی پر قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ

    بیجنگ : ہواوے دنیا کی بڑی ٹیلی کمیونیکشنز نیٹ ورکنگ آلات سپلائی کرنے والی کمپنی ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ میں اہم ترین بن گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ہواوے نے امریکی انتظامیہ کی جانب سے کمپنی کو بلیک لسٹ کیے جانے کے فیصلے کو امریکی عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے قانونی جنگ کو تیز کردیا ہے۔

    ہواوے کی جانب سے ٹیکساس کی ڈسٹرکٹ عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے اور کمپنی نے اس میں زور دیا ہے کہ نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ امریکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

    ہواوے کے مطابق اس کی نئی درخواست پر سماعت رواں سال 19 ستمبر کو ہوگی، چینی کمپنی نے ایک درخواست دائر کرتے ہوئے اس کی مصنوعات پر نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ کے تحت پابندیوں کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔

    ہواوے کے چیف لیگل آفیسر سونگ لیو پنگ نے امریکی حکومت کے فیصلوں پر کہا ہے امریکی سیاستدان ایک پوری قوم کی مضبوطی کو ایک نجی کمپنی کے خلاف استعمال کررہے ہیں، یہ نارمل نہیں، ایسا کبھی بھی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔

    ہواوے نے رواں سال مارچ میں امریکی بل کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی کانگریس ایسے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی جو ہواوے مصنوعات پر پابندیوں کو سپورٹ کرسکے۔

    اب اس مقدمے کمپنی کی جانب سے ایک نئی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں امریکی عدالتوں سے جلد یہ فیصلہ کرنے کا کہا گیا ہے کہ یہ قابل سماعت ہے یا نہیں۔

    سونگ لیو پنگ نے صحافیوں کو اس بارے میں بتایا کہ امریکی حکومت کے پاس ایسے شواہد نہیں کہ وہ ایک سیکیورٹی خطرہ ہے، اس بارے میں بس قیاس آرائیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ امریکی سیاستدان بس ہمیں کاروبار سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ہواوے کو امریکی ایگزیکٹو آرڈر کے باعث امریکی پرزہ جات کے استعمال سے روک دیا گیا تاہم اس معاملے میں اسے 90 دن کا عارضی ریلیف دیا گیا ہے۔

    ہواوے اس وقت دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی کمیونیکشنز نیٹ ورکنگ آلات سپلائی کرنے والی جبکہ دنیا کی دوسری بڑی اسمارٹ فون کمپنی ہے جو کہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ میں اہم ترین بن گئی ہے۔

    چینی سرکاری میڈیا نے عندیہ دیا ہے کہ بیجنگ اس تجارتی جنگ میں امریکا کو نایاب دھاتوں کی برآمد روک سکتا ہے جس کے نتیجے میں امریکی کمپنیاں اسمارٹ فونز سے لے کر ٹیلی ویژن اور کیمروں وغیرہ ہر چیز کی تیاری کے لیے امریکی کمپنیوں کو مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    سونگ لیو پنگ نے ماہرین کے اس انتباہ کو مسترد کردیا کہ امریکی ساختہ پرزہ جات کی عدم فراہمی کمپنی کی بقا کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہواوے اس حوالے سے برسوں سے تیار تھی۔گزشتہ سال اسی طرح ایک اور چینی کمپنی زی ٹی ای پر امریکا نے پابندی عائد کی تھی جس کے نتیجے میں وہ لگ بھگ مارکیٹ سے باہر ہوگئی تھی مگر پھر اس نے معاملے کو حل کرنے کے لیے بھاری جرمانہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

    جب سونگ لیو پنگ سے پوچھا گیا کہ کیا زی ٹی ای کی طرح ہواوے بھی امریکی بلیک لسٹ سے نکلنے کے لیے جرمانے کو قبول کرسکتی ہے تو انہوں نے اس آپشن کو مسترد نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہواوے کے سامنے متعدد آپشنز اوپن ہیں جن میں قانونی نظرثانی اور درخواستیں بھی شامل ہیں ‘جہاں تک جرمانے کی بات ہے تو وہ حقائق یا شواہد کی بنیاد پر ہونا چاہیے، ہم کسی اور کمپنی سے اپنا موازنہ نہیں کرسکتے۔ہواوے کے مطابق اس کی نئی درخواست پر سماعت رواں سال 19 ستمبر کو ہوگی۔

  • پاناما لیکس کے معاملے پر پاکستان نے قانونی مدد طلب نہیں کی، جرمن صحافی کا انکشاف

    پاناما لیکس کے معاملے پر پاکستان نے قانونی مدد طلب نہیں کی، جرمن صحافی کا انکشاف

    برلن: بین الاقوامی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے کے لیے کام کرنے والے صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ پاناما پیپرز کے بعد کئی ملکوں نے قانونی معاونت کے لیے رابطہ کیا مگر حیران کن طور پر پاکستان نے کوئی مدد طلب نہیں کی۔

    آئی سی آئی جے سے منسلک جرمی صحافی فریڈرک اوبرمائر نے انکشاف کیا کہ دو برس قبل سامنے آنے والی پاناما لیکس کے بعد متعدد ممالک نے قانونی مشاورت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ تھا ابھی تک پاکستان نے پاناما سے متعلق کوئی قانونی مدد طلب نہیں کی اور نہ ہی وہاں سے مشاورت کے حوالے سے کوئی رابطہ کیا گیا۔

    واضح رہے کہ دو برس قبل اپریل میں بحراوقیانوس کے کنارے پر واقع ملک پاناما کی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے نے غیر قانونی اثاثہ جات کی ڈیڑھ لاکھ دستاویزات پامانہ پیپرز کے نام سے شائع کی تھیں، جس کے باعث دنیائے ممالک کی کئی حکومتیں ہل گئیں تھیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا بھرمیں تہلکہ مچانے والی پاناما پیپرز کی نئی لیکس منظرعام پر

    پاناما لیکس میں یورپی ملک آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندر گنلگسن اور اُن کی اہلیہ کا نام سامنے آنے کے بعد عوام نے شدید احتجاج کیا، جس کے بعد انہیں مجبورا وزارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا تھا۔

     دستاویزات میں سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا نام بھی سامنے آیا، جس کے بعد انہیں عدالتوں میں پیش ہوکر صفائی دینی پڑی تھی۔ پاناما دستاویزات میں سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سمیت دیگر 400 سے زائد افراد کے نام سامنے آئے تھے، شریف خاندان کی آفشور کمپنیاں منظر عام پر آنے کے بعد نوازشریف نے قوم سے خطاب کر کے مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔

    سپریم کورٹ کی ہدایت پر پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے بینچ تشکیل دیا گیا، جس نے نوازشریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے آفشور کمپنیوں کی مزید تحقیقات نیب کے سپرد کردی تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔