Tag: قانون ساز اسمبلی

  • مودی کے اقدام کے بعد میرا ایمان ہے کشمیر آزاد ہوگا: آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب

    مودی کے اقدام کے بعد میرا ایمان ہے کشمیر آزاد ہوگا: آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب

    مظفر آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مودی نے 6 ماہ پہلے جو قدم اٹھایا تھا، میرا ایمان ہے کشمیر اب آزاد ہوگا، 5 اگست کو مودی وہ غلطی کر بیٹھا ہے جس سے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے، اسمبلی میں وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، شاہ محمود قریشی، علی امین گنڈاپور اور فخر امام بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی قیادت کی مشاورت سے مسئلہ کشمیر کو اوپر لے کر جانا ہے۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ مودی بھارت کو جس مقام پر لے گیا ہے وہ یہاں سے باہر نہیں جا سکتا، اب مودی کو بھارت کے اندر بڑی مزاحمت کا سامنا ہوگا، یہ وہ وقت ہے کہ کشمیر آزادی کی طرف بڑھے گا، میں یقین دلاتا ہوں ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اور تیزی سے اٹھائیں گے، ہم نے ہر فورم پر آر ایس ایس کا فلسفہ بھی دنیا کے سامنے رکھا، تین بار ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھایا کہ کشمیر ایشو کیا ہے، ایک بار کہنے سے فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ ان کے بھارت کے ساتھ کمرشل مفادات وابستہ ہیں۔

    دنیا بھر میں آج یوم یک جہتی کشمیر منایا جا رہا ہے، پاکستان میں ایک منٹ کی خاموشی

    عمران خان نے خطاب میں کہا کہ بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کی وجہ سے تمام اقلیتوں کو خطرہ ہو گیا ہے، آج دنیا دیکھ رہی ہے، تمام انٹرنیشنل اخباروں میں بھارت کا چہرہ بے نقاب ہوا، دنیا کشمیر پر ہمارے نکتہ نظر کو سمجھنے لگی ہے، نریندر مودی کہتا ہے پاکستان کو 11 دن میں فتح کر سکتا ہے، جب دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں تو یہ بات کوئی نارمل انسان نہیں کر سکتا، مودی اپنے ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے ایسی باتیں کر رہا ہے۔

    انھوں نے کہا بھارت کے خلاف جنگ سیاسی اور سفارتی محاذ کی ہے، بھارت اس لیے پھنس گیا ہے کہ کشمیر پر اب پوری دنیا کی نظر ہے، ایسا پہلی بارہوا، اب ہمیں دیکھنا ہے بھارت کا کیا گیم پلان ہے۔

  • آرٹیکل 370 کی منسوخی بھارت کے لیے قانونی مشکلات پیدا کرے گی، بھارتی ماہرینِ قانون

    آرٹیکل 370 کی منسوخی بھارت کے لیے قانونی مشکلات پیدا کرے گی، بھارتی ماہرینِ قانون

    نئی دہلی :بھارت کے قانونی ماہرین اور سپریم کورٹ کے وکلا ءنے کہاہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر حکومت کو قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جبکہ بھارت میں وکلا کا ایک گروہ اس معاملے پر آئینی درخواست پر کام کررہا ہے۔

    بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارتی وکلا ءنے کہاکہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کی حیثیت ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس کی قانونی حیثیت پر عدالت میں سوال کیا جاسکتا ہے۔

    حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد ماہرین قانون نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو ایک بڑی مشکل یہ پیش آسکتی ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کوئی حکومت نہیں ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل اخیل سبال کا کہنا تھا کہ اگر صدارتی حکم نامہ جاری ہوا تھا تو اب وہ نافذالعمل ہے، کیا وہ تمام معاملات کا احاطہ کر رہا ہے اور یہ ایک قانونی مسئلہ ہوسکتا ہے۔

    ماہر قانون مالا ویکا پراساد کا کہنا تھا کہ تبدیلی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اگر ریاست میں ایک سال سے صدارتی حکم نامہ نافذ ہے۔بھارتی وکلا ءکا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر کئی آئینی درخواستیں دائر کی جاسکتی ہیں اور نئی دہلی میں وکلا کا ایک گروہ آئینی درخواست کے حوالے سے پہلے ہی کام کررہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی حکومت کی جانب سے منسوخ کی گئی خصوصی حیثیت کے معاملے پر درخواست سن سکتا ہے۔حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے معاملے پر بھی قانونی پیچیدگی پیدا ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کیونکہ بی جے پی حکومت نے لداخ کی حیثیت کو دیگر کشمیر سے الگ رکھا ہے۔

    بی جے پی اور وزیراعظم مودی کے اس فیصلے کو مسلم اکثریتی جموں اور کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں جہاں دہائیوں سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔

    واضح رہے کہ بھارت کے وزیر داخلہ اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے بھارتی ایوان بالا میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لیے بل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر رام ناتھ کووند پہلے ہی اس بل پر دستخط کرچکے ہیں۔

  • گلگت بلتستان میں دوسری قانون ساز اسمبلی کے لئے پولنگ 8جون کو ہوگی

    گلگت بلتستان میں دوسری قانون ساز اسمبلی کے لئے پولنگ 8جون کو ہوگی

    گلگت بلتستان: دوسری قانون ساز اسمبلی کے لئے پولنگ 8جون کو ہوگی۔

    آٹھ جون کو گلگت بلتستان کے چھ لاکھ سترہ ہزار سے زائد ووٹر قانون ساز اسمبلی کی چو بیس نشستوں کیلئے اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے، اس ٹا کرے میں دو سو اڑسٹھ امیدوار مد مقابل ہیں، چو بیس نشستوں کیلئے پی ٹی آئی نے با ئیس ،مسلم لیگ ن نے چو بیس پیپلز پا رٹی نے بائیس ،مجلس وحدت المسلمین نے پندرہ، ایم کیو ایم نے نو ، جے یو آئی (ف) نے دس ، جنرل مشرف کی جماعت اے پی ایم ایل نے بارہ ، اسلامی تحریکِ پاکستان نے دس امیدواروں کو میدان میں اتا را ہے۔

    گلگت بلتستان پاکستان کا شمالی علاقہ ہے، جو کہ سات اضلاح گلگت، ہنزہ ، اسکر دو، استور ، دیامیر، گانچے،غذر پر مشتمل ہے، 2009ء میں اس علاقے کو آزاد حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے، جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

    شمالی علاقہ جات کی آبادی لک بھگ18 لاکھ پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے،  2015 میں ہونے والے انتخابات اقتصادی راہداری کی وجہ سے خاصی اہمیت اختیار کر گئے ہیں، سات اضلاع کی 24 نشستوںپر 268 امیدوار اپنی قسمت آزمائیں گے۔

    جس کا فیصلہ 617305 رجسٹرڈ ووٹرز کریں گے، 691000 بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں، جس میں 60000 پوسٹل بیلٹ پیپرز شامل ہیں، جنکی ترسیل بذریعہ پاک فوج کروا دی گئی ہے۔

    الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور غیر ملکی قوتوں کی جانب سے الیکشن کے ماحول کوسبوتاژ کرنے کی سازش کو ناکام بنانےکے لئے الیکشن کی سکیورٹی بھی پاک فوج کے سپرد کی گئی ہے جو کہ اپنے فرائض پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہرادا کرے گی، جبکہ ووٹوں کی گنتی بھی پاک فوج کی نگرانی میں ہی کی جائے گی، 13 نشستوں پر کامیاب ہونے والی جماعت حکومت بنائے گی۔