Tag: قتل کیس

  • رابعہ نے ‘غیرت مند’ رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے کیے کا ‘خمیازہ’ بھگت لیا

    رابعہ نے ‘غیرت مند’ رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے کیے کا ‘خمیازہ’ بھگت لیا

    مصنّف:‌ سدرہ ایاز

    رابعہ کا ‘جرم’ پسند کی شادی کرنا تھا۔ اور اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ رابعہ کو مانسہرہ کے علاقے جابہ میں اس کے گھر میں قتل کردیا گیا۔ 4 اپریل کے اس درد ناک واقعے میں ‘قصور وار’ رابعہ کو ہی نہیں اس کی ڈیڑھ سالہ معصوم بیٹی کو بھی گولیاں‌ مار دی گئیں۔ معصوم بچی کو اس کا باپ اپنے کنبے کی کفالت کی خاطر اُس وقت پنگوڑے میں‌ چھوڑ گیا تھا جب وہ صرف دو ماہ کی تھی۔

    دہرے قتل کے اس واقعے کا مقدمہ درج کر کے دو ملزمان بھی دھر لیے گئے ہیں۔ مقتولہ کی ساس نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کی بہو سفاک اور بے رحم قاتلوں کو کہتی رہی کہ اس کی بیٹی کو کچھ نہ کہو، مگر انھیں اس معصوم پر ترس نہیں آیا اور ننھی کلی کو بھی روند کر چلے گئے۔ وہ ‘غیرت مند ‘جو تھے!

    رابعہ نے محمد عمر نامی شخص سے کورٹ میرج کی تھی کیوں کہ اس کا خاندان اس شادی پر رضا مند نہیں تھا۔ 2022 میں کورٹ میرج کے بعد یہ کنبہ کراچی میں قیام پذیر تھا اور وہیں رابعہ کے شوہر نے بہتر مستقبل کی خاطر سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی مانسہرہ میں اپنے سسرال منتقل ہو گئی اور وہیں رابعہ اور اس کی بیٹی کو رشتے داروں‌ نے قتل کردیا۔

    سوچتی ہوں کہ یہ غیرت ہمیشہ اسی وقت کیوں جاگ اٹھتی ہے جب لڑکی پسند کی شادی کے لیے گھر والوں‌ کے انکار پر مجبوراً کورٹ میرج کرتی ہے۔ عزت و آبرو اور خاندانی وقار پر دھبہ کیوں لگتا ہے جب لڑکی سنت کے مطابق نکاح کر کے زندگی کا نیا سفر شروع کرتی ہے۔ کوئی خونی رشتہ دار یا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ ایسی لڑکی کو قتل کیوں کردیتا ہے۔ اس میں بنیادی وجہِ عداوت کورٹ میرج اور سببِ شقاوت وہ غیرت ہوتی ہے جس کی تعریف اور تفہیم بھی ایسے ‘آبرو مند’ مرد من چاہی اور حسبِ خواہش ہی کرتے رہے ہیں۔

    والدین، بھائیوں، چچا ماموں یا دوسرے خونی رشتوں کو کبھی اس بات پر بھی شدید تکلیف ہوتی ہے جب خاندان میں کسی لڑکی کا جائیداد میں حق مارا جاتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی بڑی ناانصافی کی جاتی ہے۔ کسی لڑکی کو جب ماں باپ کے انتقال کے بعد اس کے ظالم بھائی، چچا یا ماموں وغیرہ گھر سے نکال دیں اور زمین یا مال ہتھیا لیں تو کیا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ اس کا مقدمہ لڑنا چاہتا ہے اور جوش میں آکر قتل جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے؟ ایسا کوئی واقعہ یا خبر میں‌ نے تو نہیں سنی۔

    اسلام عورت کو پسند کی شادی کا حق دیتا اور یہ وہ بات ہے جسے کوئی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور نیم خواندہ شخص بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن مردوں کے اس معاشرے میں چوں کہ غیرت کی تعریف، اور اس کی تفہیم کرتے ہوئے صرف مرد ہی بوقتِ ضرورت خود کو غیرت مند ثابت کر سکتا ہے، اس لیے اسلامی تعلیمات پر غور کرنے اور قانون کو سمجھنے کی شاید ضرورت ہی نہیں ہے۔

    عربی زبان کا یہ لفظ ہمیں لغت میں ملتا ہے جس کا ایک معنی احساس عزت، عزت نفس کا لحاظ ، مقدس اور محبوب شے کا خیال رکھنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جلن حسد اور رقابت کا احساس بھی اسی لفظ سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ معاشرہ میں کوئی انسان ان اوصاف کی بنا پر خود کو مثبت اور تعمیری سوچ کا حامل ثابت نہیں کرسکتا، اس لیے من چاہی تفہیم کی جاتی رہی ہے۔ یہ لفظ اور اس سے جڑا ہوا مخصوص تصور ہمارے خطے میں صدیوں سے عورت کو کچلتا، پامال کرتا اور اس کی جان لیتا رہا ہے اور آج کے جدید دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    اس پدر سری معاشرے میں عورت پر آج بھی اپنی حاکمیت کی دھونس جمانے اور برتری قائم رکھنے کے لیے غیرت کے روایتی تصور کو برقرار رکھا گیا ہے۔ عورت طلاق کا مطالبہ کرے تو بھی مرد کی غیرت پر حملہ ہوتا ہے اور مرضی کی شادی کرنا چاہے تو باپ اور بھائی کی عزت اور آبرو پر حرف آتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ اپنی ہی بیٹی اور بہن کو قتل کر سکتے ہیں۔

    ملک میں‌ غیرت کے قانون سے متعلق دستیاب معلومات کے مطابق 2004 میں ‌حکومت نے ایسے جرائم کو حکومت کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے پسند کی شادی اور دوسرے معاملات میں‌ عورت کا غیرت کے نام پر قتل بھی معافی اور خوں بہا سے منسلک رہا ہے جس کا فائدہ اسی کو ہوتا ہے جس نے خاندان کی آبرو کے نام پر عورت کا قتل کیا ہو۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس قاتل کو مقتولہ کے دوسرے رشتے دار معاف کر دیتے ہیں اور وہ عدالت سے بری ہو جاتا ہے۔ 2016 میں اس قانون میں مزید ترامیم کی گئیں مگر اس وقت تک ترامیم میں معافی اور ازالے کی شقیں واپس نہیں لی گئی تھیں البتہ جج کی صوابدید بڑھا دی گئی تھی۔

    ہم دیکھتے ہیں‌ کہ پسند کی شادی کرنے پر قتل ہونے والی لڑکیوں کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں، ناخواندہ یا قبیلہ اور برادری نظام کے تحت چلنے والے خاندانوں سے ہوتا ہے۔ شہری علاقوں‌ میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں مگر ان کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ بہرحال، اس حوالے سے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے علاوہ حکومتی سطح پر خاندانی نظام یا برادری سسٹم کی قیادت کے توسط سے لوگوں کو اس ظلم کے خلاف شعور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کو سمجھانا ہوگا کہ کوئی بھی عاقل و بالغ لڑکی اپنے شریک حیات کا انتخاب خود کر سکتی ہے اور اسے پسند کی شادی کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے۔ حکومتی وفد ایسے علاقوں میں بھیجے جائیں جہاں ان واقعات کی شرح زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کوئی جامع پروگرام ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی اراکین کی جانب سے مذمت کی جانی چاہیے اور اس کی میڈیا پر تشہیر بھی لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لاسکتی ہے۔

    شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے ہوئے اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین اور خاندان کے بزرگوں کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے سائے میں نئی زندگی کا آغاز کریں لیکن جب صورت حال مختلف ہو اور لڑکی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہو اور ایسی کوئی وجہ نظر نہ آتی ہو جس سے اس کا مستقبل خراب ہوسکتا ہے تو خاندان کو بھی اس کی خوشی کا احترام کرنا چاہیے۔ آخر پسند کی شادی کے بعد والدین اور گھر والے کسی لڑکی کو اپنا رشتہ نبھانے اور ازدواجی زندگی کو پائیدار بنانے میں اس کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتے۔ کیا ایسی لڑکی سے جینے کا حق چھین لینا ہی غیرت ہے؟

  • مصطفیٰ عامر کے قتل کا واحد چشم دید گواہ ہوں، مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ملزم شیراز

    مصطفیٰ عامر کے قتل کا واحد چشم دید گواہ ہوں، مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ملزم شیراز

    کراچی: مصطفیٰ عامر اغوا، قتل کیس کی آج جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں سماعت ہوئی، جس میں ملزم شیراز نے بتایا کہ اعترافی بیان کے لیے اس پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

    کراچی میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس میں ایک اور پیش رفت سامنے آئی ہے، ملزم شیراز کو دفعہ 164 کے تحت اعترافی بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا۔

    جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی نے ملزم کو بیان دینے سے قبل سوچنے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیا اور ریمارکس دیے کہ یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے، آپ اچھی طرح سوچ لیں۔

    ملزم شیراز نے عدالت میں کہا کہ اس پر اعترافی بیان کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اس سے کہا گیا ہے کہ اعتراف کرو گے توکم سزا ملے گی، ملزم نے کہا میں وقوعے کے وقت بے بس تھا، مجھے اس کیس میں پھنسایا جا رہا ہے۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ ملزم کے اس بیان پر تفتیشی افسر کی جانب سے اعترافی بیان کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔

    مصطفیٰ عامر قتل کیس : ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا

    عدالت نے کہا ملزم کا کہنا ہے کہ وہ گواہ ہے اس کے سامنے ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو قتل کیا، ملزم نے بتایا کہ وہ بے بس اور لاچار تھا اس لیے کچھ نہیں کر سکا، اور اس نے آج تک جو پولیس کو بتایا وہ گواہ بن کر بتایا تھا۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم شیراز کا آج کا بیان ہمارے حق میں گیا ہے، اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے سامنے قتل ہوا۔ ملزم شیراز نے کہا کہ میں ملزم نہیں چشم دید گواہ ہوں، میں واحد چشم دید گواہ ہوں جس کے سامنے ارمغان نے مصطفی کو قتل کیا، ارمغان نے لوہے کے راڈ سے مارا پھر گن پوائنٹ پر بلوچستان لے کر گیا، اور گاڑی سمیت مصطفیٰ عامر کو جلا دیا۔

  • 7 سال سے قتل کیس میں مطلوب اشتہاری سعودی عرب سے گرفتار

    7 سال سے قتل کیس میں مطلوب اشتہاری سعودی عرب سے گرفتار

    ایف آئی اے این سی بی انٹرپول نے بڑی کارروائی کرکے سات سال سے قتل کے مقدمے میں مطلوب اشتہاری ملزم کو سعودی عرب سے گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق گرفتار ملزم کی شناخت بسم اللہ کے نام سے ہوئی ہے، ملزم کو سعودی عرب سے گرفتار کر کے اسلام آباد ایئرپورٹ منتقل کر دیا گیا۔

    ترجمان ایف آئی سے کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزم کے پی پولیس کو مطلوب تھا ملزم کے خلاف سال 2018 میں قتل، اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج تھا ملزم کے خلاف تھانہ کھل، لوہر دیر میں مقدمہ درج تھا۔

    حکام کا کہنا ہے کہ ملزم قتل کر کے بیرون ملک فرار ہو گیا تھا ملزم کو بعد ازاں ایف آئی اے امیگریشن اسلام آباد نے کے پی پولیس حکام کے حوالے کر دیا ایف آئی اے این سی بی انٹرپول نے ملزم کی گرفتاری کے لئے ریڈ نوٹس جاری کیا تھا۔

    حکام کا مزید کہنا ہے کہ ملزمان کی حوالگی انٹرپول اسلام آباد کی انٹرپول ریاض کے ساتھ قریبی رابطہ کاری کی وجہ سے ممکن ہوئی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ این سی بی انٹرپول 24/7 پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں ہے، ملزمان کی گرفتاری کے لئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

  • بتا سکتا ہوں مصطفیٰ پر ارمغان کے بنگلے کے کس کمرے میں تشدد کیا گیا، ملزم شیراز

    بتا سکتا ہوں مصطفیٰ پر ارمغان کے بنگلے کے کس کمرے میں تشدد کیا گیا، ملزم شیراز

    کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزم شیراز سے متعلق پولیس کی تفتیشی رپورٹ سامنے آ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملزم شیراز نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ مصطفیٰ کی والدہ کو تاوان کی جو کال اور میسج انٹرنیشنل نمبر سے آئے، وہ ارمغان نے کیے یا کسی اور نے، مجھے علم نہیں۔

    شیراز نے بتایا ’’مجھے پولیس نے 14 فروری کو کورنگی روڈ ڈی ایچ اے سے گرفتار کیا، میں پہلی دفعہ گرفتار ہوا ہوں، اس واقعے سے پہلے میرے اوپر کوئی مقدمہ نہیں ہے۔‘‘

    شیراز کے بیان کے مطابق اس نے ارمغان کے ساتھ مل کر یہ کام کیا تھا، اور مصطفیٰ کی لاش اس ہی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بلوچستان کے علاقے میں گاڑی اور لاش کو جلایا۔

    شیراز نے کہا ’’جہاں گاڑی کو جلایا اس مقام کی نشان دہی کروا سکتا ہوں، او جس جگہ ارمغان کے بنگلے میں کمرے کے اندر مصطفیٰ کو مار پیٹ کی گئی، اس کی نشان دہی بھی کروا سکتا ہوں۔‘‘ ملزم شیراز کے مطابق مار پیٹ سے زخموں سے مصطفیٰ عامر کا خون نکلا تھا، جسے ارمغان نے اپنے ملازمین سے صاف کروایا تھا۔

    جدید سیکیورٹی کیمرے اور خود کار نظام، ملزم ارمغان کے گھر کے اندرونی مناظر منظر عام پر آگئے

    واضح رہے کہ دوست کو قتل کر کے لاش جلانے والے ملزم ارمغان کے گھر کے اندرونی مناظر سامنے آ گئے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ ملزم نے اپنے گھر میں سخت ترین حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے۔ گھر کی تھری سکسٹی نگرانی کے لیے جدید سیکیورٹی کیمرے نصب تھے اور گھر میں داخل ہونے والے ہر شخص کو واک تھرو گیٹ سے گزر کر جانا ہوتا تھا۔

    بنگلے میں 2 بیش قیمت گاڑیاں، ساؤنڈ سسٹم سمیت بنگلے کی بالائی منزل پر کال سینٹر کا مکمل دفتر قائم تھا، جہاں اب تمام سامان بکھرا پڑا ہے، جب کہ دیواروں پر گولیوں کے نشانات بھی واضح ہیں، اور مقتول مصطفیٰ عامر کے خون کے نشانات بھی ملے ہیں۔

  • مصطفیٰ عامر قتل کیس، قبر کشائی اور لڑکی کے بیان کے لیے انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ

    مصطفیٰ عامر قتل کیس، قبر کشائی اور لڑکی کے بیان کے لیے انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ

    کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں‌ پولیس نے قبر کشائی اور لڑکی کے بیان کے لیے انٹرپول سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تفتیش جاری ہے، پولیس نے مقتول عامر کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کشائی کا فیصلہ کر لیا ہے، مصطفیٰ عامر کی قبر ڈی این اے اور پوسٹ مارٹم کے لیے کھولی جا رہی ہے۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ برآمد اسلحے میں آلہ قتل کون سا تھا یہ فرانزک رپورٹ سے پتا چلے گا، کیوں کہ چھاپے میں ملزم ارمغان کے بنگلے سے بڑی تعداد میں جدید اسلحہ بھی برآمد کیا گیا تھا۔

    تفتیشی حکام کے مطابق ملزمان کن راستوں سے ہو کر حب پہنچے روٹ میپ تیار کر لیا گیا، پیر کو عدالت سے ارمغان کے ریمانڈ کی استدعا کی جائے گی۔

    تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں کو واقعے میں مبینہ طور پر ملوث لڑکی کی بھی تلاش ہے، تفتیشی حکام کے مطابق کیس میں لڑکی کا بیان انتہائی ضروری ہے، جس کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔

    مصطفیٰ عامر قتل کیس، کروڑوں کے ہتھیاروں کی محکمہ داخلہ سے تصدیق کرانے کا فیصلہ

    واضح رہے کہ 6 جنوری کو بی بی اے کا طالب علم مصطفیٰ عامر لاپتا ہو گیا تھا، بعد ازاں چند دن قبل حب چیک پوسٹ کے قریب ایک جلی ہوئی کار سے اس کے جسم کی جلی ہوئی باقیات ملیں۔ ہفتے کے روز حکام نے انکشاف کیا کہ ارمغان اور مصطفیٰ دوست تھے، جن کے درمیان نیو ایئر نائٹ کو جھگڑا ہوا، اور ارمغان نے مبینہ طور پر مصطفیٰ اور اس کی خاتون دوست کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

    6 جنوری کو، جس دن مصطفیٰ لاپتا ہوا، ارمغان نے مصطفیٰ کو بلایا اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا، حب پولیس کے مطابق انھیں 11 جنوری کی شام 7 بجے ایک جلتی ہوئی گاڑی کی اطلاع ملی تھی، پہنچنے پر افسران کو جلی ہوئی کار کے اندر سے ایک لاش ملی۔ فیصل ایدھی کے مطابق جب لاش انھیں دی گئی تو وہ 4 دن تک کراچی کے مردہ خانے میں پڑی رہی، ایس او پیز کے مطابق متوفی کے اہل خانہ کی آمد کا انتظار تھا۔ تاہم، انھوں نے بعد میں اسے مواچھ گوٹھ کے قبرستان میں دفن کر دیا۔

    اس کیس میں ملوث لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی، حکام کا کہنا ہے کہ اس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، کیوں کہ اس کا بیان تفتیش کے لیے انتہائی اہم ہے۔

  • نامور شاعر آکاش انصاری کے قتل کیس میں بڑی پیش رفت، لے پالک بیٹا اور ڈرائیور گرفتار

    نامور شاعر آکاش انصاری کے قتل کیس میں بڑی پیش رفت، لے پالک بیٹا اور ڈرائیور گرفتار

    نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر آکاش انصاری قتل کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے مقتول کے لے پالک بیٹے اور ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سندھی زبان کے نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر آکاش انصاری قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ پولیس نے ان کی تدفین کے بعد کارروائی کرتے ہوئے مقتول کے لے پالک بیٹے لطیف اور ڈرائیور کو گرفتار کر لیا ہے۔

    ابتدائی رپورٹ کے مطابق آکاش انصاری کے جسم پر تشدد کے نشانات ملے ہیں۔

    میڈیکولیگل آفیسر ڈاکٹر عبدالحمید مغل نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول کے جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے نشانات پائے گئے ہیں۔ جسم پر کٹ کے نشانات سے لگتا ہے کہ تیز دھار چھرا استعمال کیا گیا ہے۔

    وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے ڈاکٹر آکاش انصاری کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقتول کے گلے اور پیٹھ پر چھرے کے وار کے نشانات ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں پہلے چھرے سے مارنے کی کوشش کی گئی اور پھر آگ لگائی گئی۔

    وزیر تعلیم نے کہا کہ اس قتل کے واقعہ کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ آگ لگی یا لگائی گئی، یہ بھی تحقیق ہونی چاہیے۔

    واضح رہے کہ سندھی و اردو زبان کے معروف شاعر، سیاسی رہنما و سینیئر صحافی 68 سالہ ڈاکٹر آکاش انصاری حیدرآباد کے علاقے سٹیزن کالونی میں گھر میں آگ لگنے کے باعث جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔

    ڈاکٹر آکاش انصاری کو بدین میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

    ڈاکٹر آکاش انصاری پندرہ سال کے قریب عوامی تحریک کے جنرل سیکریٹری بھی رہے اور مختلف اخبارات میں بطور ایڈیٹر کی ڈیوٹی سرانجام دی۔ ڈاکٹر آکاش انصاری کی شاعری ملک کی نامور گلوکارہ عابدہ پروین، صنم ماروی، ماسٹر ولی، دیبا سحر، سرمد سندھی و دیگر فنکاروں نے اپنے فن کے ذریعے پیش کی۔

    https://urdu.arynews.tv/dr-aakash-ansari-sindhi-poet-dies-house-fire/

  • سائرہ سموں کے قتل کیس میں 7 ماہ بعد بڑی پیش رفت

    سائرہ سموں کے قتل کیس میں 7 ماہ بعد بڑی پیش رفت

    کراچی: شہر قائد میں سائرہ سموں نامی خاتون کے قتل کیس میں 7 ماہ بعد بڑی پیش رفت ہوئی ہے، سابق ایس ایچ او اور دیگر پولیس اہل کاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں تھانہ اسٹیل ٹاؤن کی حدود میں سائرہ سموں نامی خاتون کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا، خاتون 4 جولائی 2024 کو نیشنل ہائی وے پر مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہوئی تھی۔

    اس کیس میں سابق ایس ایچ او تھانہ اسٹیل ٹاؤن اور دیگر اہل کاروں پر سات ماہ بعد قتل اور اقدام قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

    خاتون کے ورثا نے ایس ایچ او اسٹیل ٹاؤن اور اہل کاروں کو خاتون کی موت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا، اور ورثا نے مذکورہ افسر سمیت دیگر اہل کاروں پر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم ملیر پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا تو ورثا نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

    کانسٹیبل کی موٹرسائیکل سے ٹکرانے کا جرم، وقاص نامی شہری پریڈی تھانے کے لاک اپ میں جاں بحق

    عدالت نے واقعے میں ملوث ایس ایچ او سمیت دیگر اہلکاروں پر مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا، جس کے بعد اب اسٹیل ٹاؤن پولیس نے مقتولہ سائرہ سموں کے بھائی کی مدعیت میں پولیس اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

  • دو شادیاں کرنے والے یوسف خان کا قتل ڈکیتی مزاحمت یا کچھ اور؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو سامنے آ گئی

    دو شادیاں کرنے والے یوسف خان کا قتل ڈکیتی مزاحمت یا کچھ اور؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو سامنے آ گئی

    کراچی: شہر قائد کے علاقے لیاقت آباد میں ایک شہری کے قتل کی واردات ہوئی ہے، ابتدائی رپورٹس کے بر عکس معلوم ہوا ہے کہ واقعہ ڈکیتی مزاحمت کا نہیں بلکہ قاتل اور مقتول ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر 3 میں فائرنگ سے 49 سالہ یوسف خان کے قتل کی تحقیقات الجھ گئی ہے، ایس ایچ او سپر مارکیٹ کے مطابق یوسف خان ولد امیر حیدر کے قتل سے متعلق پولیس نے کچھ شواہد اور فوٹیج حاصل کر لیے ہیں، جنھیں دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ واردات ڈکیتی مزاحمت کی تھی۔

    پولیس بیان کے مطابق مقتول یوسف خان اپنی ساس کے گھر آیا ہوا تھا، جب وہ اپنی ساس کے گھر سے نیچے اترا تو پیدل آنے والے ایک نامعلوم شخص سے اس کی بحث ہوئی جس نے ماسک لگا رکھا تھا، بعد ازاں مقتول اور پیدل آنے والے شخص گتھم گتھا بھی ہوئے۔

    اس واقعے کی ایک دل دہلا دینے والی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی ہے، جس میں قاتل اور مقتول کی آپس میں کسی معاملے پر تکرار دیکھی جا سکتی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ گولی مارنے کے بعد قاتل نے مقتول کی جیب میں موجود 20 ہزار روپے اور قیمتی موبائل فون نہیں لوٹا۔

    قاتل فائرنگ کر کے مقتول کی موٹر سائیکل لے کر فرار ہوا، پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے، جب کہ مقتول کی نعش اسپتال منتقل کر دی گئی ہے، یوسف خان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ برف خانے کا مالک اور میٹروول کا رہائشی تھا، جس نے دو شادیاں کر رکھی تھیں۔

    پولیس کے مطابق نامعلوم حملہ آور پیدل آیا، بحث کی، فائرنگ کر کے قتل کیا اور فرار ہونے کے لیے مقتول کی موٹر سائیکل ساتھ لے گیا، بہ ظاہر لگتا ہے کہ قاتل اور مقتول ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے۔

  • ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیس کے ملزمان کے ساتھ اب کیا ہوگا؟ آئی جی سندھ نے بتادیا

    ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیس کے ملزمان کے ساتھ اب کیا ہوگا؟ آئی جی سندھ نے بتادیا

    کراچی: آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کراچی میں بڑھتے واقعات پر قابو پانے کے لیے اہم فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں جرائم کی بڑھتی واردات پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی زیر صدارت سینٹرل پولیس آفس میں اہم اجلاس ہوا، اجلاس میں زیر غور اہم فیصلے سامنے آگئے۔

     اے آر وائی سے گفتگو میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے دوران 49 افراد جاں بحق، 650 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے اہم ترین مقدمات کا ٹاسک کراچی کے 66 بہترین افسران کو دے دیا گیا ہے، ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیس کے ملزمان کو اب ایس آئی یو گرفتار کرے گی، ڈکیتی مزاحمت پر قتل کا کیس خودبخود ایس آئی یو منتقل ہوجائے گا۔

    آئی جی سندھ نے بتایا کہ 7 بہترین نامزد افسران کیس پر کام کر کے ملزمان کو گرفتار کریں گے، دیگر 60 افسران ان تمام کیسز میں ملوث ملزمان کے خلاف کام کریں گے، ایک تفتیشی افسر دس سے بارہ کیسز پر کام کرے گا۔

    ایس ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ عدیل چانڈیو کو اہم ٹاسک سونپا گیا ہے، جرائم پر قابو پانے والی پولیس افسران کو ایک لاکھ نقدی، کمپیوٹر، وافر مقدار میں پیٹرول دیں گے، کیس بنانے کے لیے بھی ماہر ماتحت افسران مہیا کر رہے ہیں۔

    آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ حکومت سے درخواست کی جائے گی کہ جس طرح اسپیشل ٹیم بنائی گئی ہے اس پر اسپیشل کورٹس بننی چاہئے تاکہ کیس جلدی حل ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ پولیس کا کام ہے عوام کی خدمت اور انکی حفاظت کرنا ہے، ڈکیتی میں مزاحمت پر کلنگز کیساتھ کریمنلز کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، ایسے جرائم کو ہر حال ختم کرنا ہے، اس کے لیے افسران سے کہتا ہوں فیلڈ میں آئیں اور اپنی کارکردگی دکھائیں، چھینا جھپٹی کے واقعات میں غریب کی کلنگز ناقابل برداشت ہیں۔

    آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ تفتیش میں کارکردگی، ملزمان کو سزاؤں کی شرح سے آئی اوز کو تنخواہ بطور ریوارڈ دی جائیگی، تفتیشی افسران کی کارکردگی رپورٹ ایس ایس پیز، اے آئی جی آپریشنز سندھ کو ارسال کرینگے، عمدہ کارکردگی کے حامل افسران کو ایس آئی او کی پوزیشن دی جائیگی۔

  • امیر بالاج ٹیپو کے قتل میں دوست ہی ملوث نکلا، حیران کن انکشافات

    امیر بالاج ٹیپو کے قتل میں دوست ہی ملوث نکلا، حیران کن انکشافات

    لاہور کی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں شادی کی تقریب کے دوران قتل کیے جانے والے امیر بالاج ٹیپو کے قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس ذرائع کے مطابق ٹیپو ٹرکاں والا کے بیٹے امیر بالاج قتل کیس میں اس کا دوست احسن شاہ ملوث نکلا، پولیس نے احسن سمیت 2 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔

    لاہور کی انو يسٹی گیشن  ٹیم نے بتایا کہ احسن شاہ کو امیر بلاج کی ریکی دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، احسن شاہ قتل کے وقت پاکستان میں موجود نہیں تھا اس نے سعودی عرب سے ملزمان کو ریکی دی تھی۔

    شادی کی تقریب میں فائرنگ، ٹیپو ٹرکاں والے کا بیٹا امیر بالاج قتل

    سی آئی اے پولیس نے بتایا کہ ملک سہیل نے احسن شاہ کی ملاقات طیفی بٹ سے کرائی تھی، بالاج کے دوست احسن شاہ کی طیفی بٹ سے 7سے 8 ملاقاتیں ہوچکی تھیں، وہ گاڑیاں بدل بدل کر طیفی بٹ سے ملتا تھا۔

    سی آئی اے پولیس کے مطابق احسن شاہ نے مبینہ طور پر طیفی بٹ کو امیر بالاج کے شادی میں جانے کی اطلاع دی اور اسی نے بتایا گن مینوں کے پاس رائفلیں نہیں ہیں۔

    دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ امیرا بالاج کے گرفتار دوست احسن شاہ نے بیان میں بتایا کہ امیر بالاج ٹیپو کے قتل کی پلاننگ ایک ماہ قبل کی تھی۔

    امیر بالاج ٹیپو قتل کیس، گوگی بٹ کا نام پی این آئی ایل میں ڈال دیا گیا

    ذرائع کے مطابق امیربالاج کو مبینہ طور پر قتل کروانے کی احسن شاہ نے 5 کروڑ کی ڈیل کی، احسن شاہ نے 5 کروڑ میں ریکی کرانے کی ڈیل کی مد 50 لاکھ ایڈوانس وصول کیا تھا۔

    ذرائع نے بتایا کہ احسن شاہ، ملک سہیل کو بادامی باغ اور علی پٹھان کو مانسہرہ سے حراست میں لیا گیا جبکہ مزید گرفتاریوں کے لیے پولیس کی تحقیقاتی ٹیموں کے چھاپے جاری ہیں۔

    خیال رہے کہ امیر بالاج ٹیپو ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں سابق ڈی ایس پی اکبر اقبال کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں شریک تھا، شادی کی تقریب کے دوران وہاں موجود ایک حملہ آور نے فائرنگ کردی جس سے امیر بالاج ٹیپو سمیت تین افراد زخمی ہوگئے جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔

    پولیس کے مطابق امیر بالاج ٹیپو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا، مقتول امیر بالاج ٹیپوکے محافظوں کی فائرنگ سے حملہ آور بھی موقع پر مارا گیا۔