Tag: قتل کیس

  • مولانا علامہ مسعود الرحمن قتل کیس میں بڑی پیشرفت

    مولانا علامہ مسعود الرحمن قتل کیس میں بڑی پیشرفت

    اسلام آباد: سنی علما کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا علامہ مسعودالرحمان عثمانی  قتل کیس میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی پولیس نے علما کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا علامہ مسعودالرحمان قتل میں ملوث ملزمان کا سراغ لگا لیا، ٹارگٹ کلنگ میں ابتدائی طور پر چار ملزمان ملوث نکلے۔

    وفاقی پولیس ذرائع کا بتانا ہے کہ ملزمان کا تعلق ایک مذہبی کالعدم تنظیم سے بتایا گیا ہے، آئندہ چند دنوں میں ملزمان کی گرفتاری متوقع ہے۔

    وفاقی پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان نے راولپنڈی سے مولانا علامہ مسعود الرحمان کا پیچھا کیا تھا، دو ملزمان کی ذمہ داری ریکی اور دو کو فائرنگ کرنے کی تھی، پولیس کو ایک فوٹیج کے ذریعے ملزمان کی شناخت ممکن ہوئی ہے۔

    واضح رہے کہ رواں ماہ 5 جنوری کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مولانا مسعود الرحمن عثمانی قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔

    اسلام آباد میں موٹر سائیکل سوار ملزمان نے مسعود الرحمٰن عثمانی پر فائرنگ کی تھی، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ چل بسے تھے۔

  • شکر قندی پر موجود ڈی این اے نے قاتل کو پکڑوا دیا

    شکر قندی پر موجود ڈی این اے نے قاتل کو پکڑوا دیا

    میساچوسٹس: امریکا میں قتل کے ایک کیس میں شکرقندی پر موجود ڈی این اے نے قاتل کو پکڑوا دیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق شکرقندی پر مشتبہ شخص کے ڈی این اے کے ذریعے ریاست میساچوسٹس کے ایک قتل کیس کے 12 سالہ مقدمے میں ایک مشتبہ شخص کی شناخت ہو گئی۔

    پولیس حکام کے مطابق 40 سالہ ڈیوروس ہیمپٹن پر 27 فروری ، 2011 کو گاؤں ہیانس میں ایک 31 سالہ شخص ٹوڈ لیمپلے کے قتل کا الزام ہے، تاہم عدالت میں ابھی اس پر الزام ثابت نہیں ہوا ہے۔

    پولیس کے مطابق ہیمپٹن نے ٹوڈ کو اس کے گھر کے بیڈروم کی کھڑکی میں فائر کر کے قتل کیا تھا، گولی لگتے ہی کئی بچوں کا باپ ٹوڈ موقع پر ہلاک ہو گیا تھا۔

    پیر کے روز عدالت میں استغاثہ نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جائے واردات سے ایک سیاہ رنگ کے موبائل کے ساتھ ایک  شکرقندی بھی ملی تھی۔ جب تحقیق کی گئی تو سیل فون ایچ بی او کے پروگرام ’دی وائر‘ کے تصوراتی کردار ’مارلو اسٹین فیلڈ‘ کے نام سے رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔

    ضلعی اٹارنی نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ ٹی وی شو میں بھی ایک شکرقندی کو پستول کے سائلنسر کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

    گواہان کے مطابق واردات کی رات قاتل مقتول کے ساتھ ہی ٹی وی پر باسکٹ بال کا کھیل دیکھ رہا تھا، پھر فون کال کرنے کے لیے کمرے سے باہر چلا گیا، تاہم کچھ ہی دیر بعد لوٹ کر اس نے گولی چلا دی۔

    اٹارنی کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے وقت ہیمپٹن نے جی پی ایس کڑا مانیٹر پہنا ہوا تھا، جو اسے پچھلے جرم کی وجہ سے پہنایا گیا تھا، اس مانیٹر کے جی پی ایس ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ وہ جرم کے وقت وہیں پر موجود تھا۔

    اٹارنی کے مطابق جی پی ایس ریکارڈ سے ہی پتا چلا کہ اس نے قتل کا ہتھیار ایک تالاب میں پھینک دیا تھا، جسے بعد میں ماہی گیروں نے نکالا۔

    دوسری طرف مبینہ قاتل ہیمپٹن کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ اس بارہ سالہ پرانے کیس میں اپنے مؤکل کا بھرپور دفاع کریں گے۔

  • قتل کیس میں سزائے موت پانے والا ملزم 6 سال بعد بری

    قتل کیس میں سزائے موت پانے والا ملزم 6 سال بعد بری

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ہائیکورٹ نے قتل کیس میں سزائے موت پانے والے ملزم کو 6 سال بعد بری کردیا، عدالت نے ملزم کی اپیل پر فیصلہ دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے قتل کیس میں سزائے موت پانے والے ملزم کو 6 سال بعد بری کردیا۔

    ملزم کی اپیل پر سماعت جسٹس شہرام سرور کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی۔

    ملزم پر سنہ 2006 میں جائیداد کے تنازعے پر شہری کو قتل کرنے کا الزام تھا، ملزم کے خلاف تھانہ فیصل آباد پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کیا۔

    اپیل کی سماعت کرتے ہوئے ہائیکورٹ نے ملزم محمد عامر کو گواہوں کے بیانات میں تضاد کی بنیاد پر بری کیا۔

    خیال رہے اس سے قبل سندھ ہائیکورٹ نے پولیس کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے نوجوان کے ورثا کو 32 سال بعد انصاف فراہم کیا تھا۔

    سنہ 1990 میں حراست میں لیے جانے والے نوجوان پر پولیس کی تحویل میں بدترین تشدد کیا گیا تھا، واقعے کی جوڈیشل انکوائری میں پولیس اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

  • سدھو موسے والا قتل کیس: ملزمان انجام کے قریب

    سدھو موسے والا قتل کیس: ملزمان انجام کے قریب

    چندی گڑھ: بھارتی آنجہانی گلوکار سدھو موسے والا کے قتل میں، تمام ملزمان کے خلاف فرد جرم داخل کردی گئی جس میں ماسٹر مائنڈ لارنس بشنوئی سمیت دیگر ملزمان کے نام شامل ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق پنجاب پولیس نے جمعہ کو مشہور پنجابی گلوکار سدھو موسے والا قتل کیس میں مانسا کی ایک عدالت میں فرد جرم داخل کر دی جس میں جیل میں موجود گینگسٹر لارنس بشنوئی کو قتل کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا ہے۔

    جرم میں 1850 صفحات کی فرد جرم داخل کی گئی ہے جس میں 34 شوٹرز، ملزمان، ماسٹر مائنڈ اور دیگر لوگوں کے نام ہیں۔

    اینٹی گینگسٹر ٹاسک فورس کے چیف پرمود بان کی قیادت میں خصوصی ٹیم قتل کی تفتیش کر رہی ہے۔ بان کا کہنا ہے کہ بشنوئی نے اعتراف کیا ہے موسے والا کا قتل، یوتھ اکالی دل لیڈر وکی مڈدوکھیڑا کے قتل کے بدلہ لینے کے لیے کیا گیا اور اس کا منصوبہ گزشتہ سال اگست میں بنایا گیا۔

    پرمود بان کے مطابق شوٹرز 25 مئی کو جائے وقعہ موسیٰ گاؤں کے پاس مانسا پہنچے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ پنجاب پہنچنے پر انہیں کچھ ہتھیار فراہم کیے گئے، قتل میں اے کے سیریز کی رائفلز کا استعمال کیا گیا، موسے والا کے قتل کے دن سے پہلے کئی بار ان کا پیچھا بھی کیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ سدھو موسے والا کو 29 مئی کو لارنس بشنوئی گینگ کے رکن انکیت سرسا نے پنجاب کے ضلع مانسا میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا، یہ قتل پنجاب حکومت کی جانب سے سدھو موسے والا کی سیکیورٹی واپس لیے جانے کے اگلے روز ہوا تھا۔

    ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انہیں 19 گولیاں لگی تھیں اور وہ 15 منٹ کے اندر دم توڑ گئے تھے جبکہ جیپ میں موجود 2 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

  • 11 سالہ بچے میں 43 آسیب، رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانی

    11 سالہ بچے میں 43 آسیب، رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانی

    دہشت ناک فلم فرنچائز دی کونجیورنگ کی نئی فلم دی کونجیورنگ: دی ڈیول میڈی می ڈو اٹ گزشتہ ماہ ریلیز کی گئی ہے جو جسم میں سرسراہٹ دوڑانے والی ہے، یہ فلم امریکا میں ہونے والے ایک حیرت انگیز قتل کی کہانی پر مبنی ہے۔

    کونجیورنگ سیریز کو دیکھنے والوں کو علم ہوگا کہ اس میں دکھائے جانے والے مرکزی کردار یعنی ایڈ اور لورین وارن حقیقی زندگی کے کرداروں سے ماخوذ ہیں۔

    یہ جوڑا امریکا سمیت دنیا بھر میں ماورائی واقعات کی تحقیقات کے لیے جانا جاتا تھا اور ان کے مختلف کیسز کو ہی اس سیریز کی فلموں کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

    کونجیورنگ 1 اور 2 بھی ایسے ہی کیسز پر مبنی تھیں مگر تیسری فلم کے لیے جس کیس کا انتخاب کیا گیا وہ امریکا کی تاریخ کا بھی اس طرز کا پہلا واقعہ تھا۔ سنہ 1981 میں ریاست کنیکٹی کٹ کے ایک چھوٹے قصبے میں ایک قتل ہوا جو امریکی تاریخ کے فوجداری مقدمات میں بے مثال حیثیت رکھتا ہے۔

    فیئر فیلڈ کاؤنٹی میں ایک نوجوان وکیل ایک ایسے جوان ملزم کی نمائندگی عدالت میں کررہا تھا جس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے مالک مکان کا قتل آسیب کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے کیا۔

    19 سالہ آرنی جانسن پر 40 سالہ ایلن بونو کے قتل کا الزام تھا جو امریکا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا اور اس مقدمے کو دی ڈیول میڈ می ڈو اٹ کا نام دیا گیا۔

    اس مقدمے نے ایڈ اور لورین وارن کی توجہ بھی کھینچ لی تھی جو پہلے ہی آسیب زدہ مقامات والے متعدد معاملات کی تحقیقات کرچکے تھے۔ فلم میں مقدمے کی بجائے زیادہ توجہ آرنی کی گرل فرینڈ کے چھوٹے بھائی پر آسیب کے قبضے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

    یعنی فلم میں وارن خاندان کے خیالات کو بیان کیا گیا ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ ملزم کے دفاع کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ کیا ہوا۔

    16 فروری 1981 کو ہونے والے اس قتل کے بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ الکوحل پر ہونے والے اس تنازعہ پر ملزم نے چاقو کے متعدد وار کر کے 40 سالہ شخص کو قتل کردیا تھا۔

    اس وقت قصبے میں پولیس کی سربراہی کرنے والے ان اینڈرسن نے کہا کہ یہ کوئی غیرمعمولی جرم نہیں تھا، ایک شخص مشتعل ہوا اور پر بحث کا نتیجہ قتل نکلا، مگر ملزم کے مؤقف نے اسے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنادیا۔

    آرنی جانسن کو اس دن جائے واردات سے 2 میل دور گرفتار کیا گیا تھا اور اس کا کہنا تھا کہ اسے واقعے کے بارے میں کچھ یاد نہیں۔ اس دن وہ اپنی منگیتر ڈیبی گلاٹیز، اس کی 9 سالہ کزن میری اور اپنی چھوٹی بہن وانڈا کے ساتھ موجود تھا۔

    ڈیبی نے پولیس کو بتایا کہ قاتلانہ حملے سے قبل نشے میں دھت ایلن بونو وہاں آیا، جس کے لیے وہ کتوں کو پرورش دینے کا کام کرتی تھی، اس نے میری کو دبوچ لیا اور چھوڑنے سے انکار کردیا۔ آرنی نے مداخلت کی اور کسی جانور کی طرح آوازیں نکالنے لگا اور پھر چاقو نکال کر متعدد وار کیے۔

    ڈیبی کے مطابق اس واقعے کے کئی ماہ قبل ہی اس کے منگیتر کے رویے میں عجیب تبدیلیاں آئی تھیں، وہ اکثر گر جاتا، غرانے لگتا، عجیب و غریب مناظر دیکھتا، جس کے بعد اسے کچھ یاد نہیں رہتا۔ ایسا ہی رویہ اس کے چھوٹے بھائی میں بھی 1980 کے موسم گرما میں نظر آیا تھا جب وہ اس جوڑے کے کرائے کے گھر میں داخل ہوا۔

    11 سالہ ڈیوڈ کو ایک بوڑھا شخص اس گھر میں نظر آتا تھا جو اسے واٹر بیڈ پر دھکیلتے ہوئے ہوشیار رہنے کا کہتا اور جلد اس بچے کا رویہ عجیب ہوگیا، راتوں کو چلانا، خراشیں، زخم جسم پر نظر آنے لگے، جس کے بعد خاندان نے وارن فیملی سے مدد کے لیے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

    وارن فیملی کا کہنا تھا کہ انہوں نے وہاں جو دیکھا وہ بہت پریشان کردینے والا تھا، کیتھولک چرچ کی تفتیش کے مطابق ڈیوڈ پر کسی آسیب نے قبضہ کرلیا تھا۔ لورین وارن نے سنہ 2007 میں اس کیس کے حوالے سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ یہ صرف ایڈ اور میرا ماننا نہیں تھا بلکہ چرچ کے اراکین بھی اس کا حصہ تھے اور ہمیں حیران کن واقعات کا سامنا ہوا۔

    ان کا دعویٰ تھا کہ ایک موقع پر وہ بچہ ہوا میں اڑنے لگا۔ سنہ 1981 میں عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران ایڈ وارن نے کہا تھا کہ وہ اور ان کی بیوی نے ڈیوڈ کے اندر 43 آسیب دیکھے تھے۔

    مگر وہاں کے پادری نکولس گریسو کے مطابق چرچ کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کی گئی مگر آسیب نکالنے کا کوئی عمل نہیں ہوا جبکہ متاثرہ خاندان نے ڈیوڈ کے نفسیاتی ٹیسٹ بھی جمع نہیں کروائے تھے۔

    بعد ازاں آرنی کے مقدمے کی سماعت اکتوبر 1981 میں شروع ہوئی اور اس کے وکیل مارٹین مائننیلا نے میڈیا کو بتایا کہ اس کا ماننا ہے کہ مقتول کے جسم میں چاقو کے وار اتنے گہرے ہیں جو انسانی ہاتھوں سے ممکن نہیں، جبکہ آسیب کے قبضے کے دفاع کا خیال وارن فیملی نے دیا۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مقدمے کی سماعت کے موقع پر فلمی اسٹوڈیوز نے اس کیس میں بہت زیادہ دلچسپی ظاہر کی تھی، جس کی تصدیق لورین وارن نے بھی ایک انٹرویو کے دوران کی، جج نے وکیل دفاع کے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے بیانات غیر متعلقہ اور غیر سائنسی ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ مقدمے کے دوران آسیب کے قبضے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا اور 24 نومبر کو جیوری نے آرنی جانسن کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے 10 سے 20 سال قید کی سزا سنائی، تاہم 5 سال بعد اسے رہا کردیا گیا۔

    آرنی جانسن اور ڈیبی نے 1984 میں شادی کرلی تھی، اس وقت آرنی جیل میں تھا اور آسیب کے اپنے مؤقف پر قائم تھا۔ سنہ 2007 میں ڈیبی کے ایک اور بھائی کارل نے کہا تھا کہ عدالتی سماعت کے دوران جو کچھ بھی کہا گیا اس میں سے بیشتر جھوٹ تھا، ان کے خاندان کی مجبوریوں کا فائدہ وارن فیملی نے اٹھایا۔

    تاہم لورین وارن نے جن کے شوہر کا انتقال اسی سال ہوا تھا، نے اس کی تردید کی تھی۔

  • صحافی عزیز میمن قتل کیس میں اہم پیش رفت

    صحافی عزیز میمن قتل کیس میں اہم پیش رفت

    سکھر: پولیس نے صحافی عزیز میمن کے قتل میں ملوث ملزم نذیر سہتو سمیت 15 ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق صحافی عزیز میمن قتل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔پولیس نے نواب شاہ، نوشہروفیروز اور خیرپور میں چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران ملزم نذیر سہتوسمیت پندرہ افراد کوگرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

    پولیس حکام کے مطابق کچھ ملزمان کا ڈی این اے مقتول کے ناخن سے ملنے والے ڈی این اے سے میچ کرگیا۔

    صحافی عزیز میمن نے قتل سے پہلے مزاحمت کی، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف

    اس سے قبل گزشتہ ماہ 10 اپریل کو رضوانہ خانزادہ محمد حسین اور ڈاکٹر علی محمد پروفیسر محمد اکبر کی جانب سے صحافی عزیز میمن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کی گئی تھی۔

    پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مقتول کے ناخن سے ایک سے زائد افراد کے اجزا ملے، انسانی اجزا ملنے سے پتہ چلتا ہے کہ مقتول نے ملزمان سے مزاحمت کی۔

    یاد رہے کہ رواں سال فروری میں صوبہ سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کے شہر محراب پور میں سندھی چینل کے رپورٹر عزیز میمن کی لاش نہر سے برآمد ہوئی تھی جس کے بعد قتل کے شبے میں ان کے ساتھی کیمرا مین سمیت 2 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔

  • قاتل کون؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسر کی ذہانت پر سوال اٹھ گئے

    قاتل کون؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی افسر کی ذہانت پر سوال اٹھ گئے

    یہ 1860 کی بات ہے، اسکاٹ لینڈ پولیس نے ایک ایسے قتل کی تفتیش شروع کی جس نے افسران کو گویا چکرا کے رکھ دیا۔

    مسٹر کینٹ نے پولیس کو رپورٹ کی تھی کہ ان کا چار سالہ بچّہ گھر سے غائب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے گھر میں ہر جگہ تلاش کرلیا ہے، مگر اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

    بعد میں بچے کی لاش گھر کے احاطے سے باہر بنائے گئے ایک ٹائلٹ سے برآمد ہوئی۔ اس معصوم کا گلا کٹا ہوا تھا جب کہ قاتل نے سینے میں چُھرا بھی گھونپا تھا۔

    مسٹر کینٹ سے تفتیش کے دوران پولیس کو معلوم ہوا کہ انھوں نے صبح بچے کو بستر پر نہ پاکر ہر جگہ تلاش کیا اور ناکامی کے بعد پولیس کو اس کی اطلاع دی تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں‌ صبح بیدار ہونے کے بعد گھر سے باہر جانے والا ایک دروازہ بھی کُھلا ملا تھا۔

    پولیس نے دروازے سے متعلق مسٹر کانٹ کی بات کو اہمیت ضرور دی تھی، لیکن انھیں شک تھا کہ قاتل باہر سے نہیں آیا بلکہ گھر کا کوئی فرد ہی ہے۔

    جائے وقوع سے شواہد اکٹھا کرنے کے بعد تفتیش شروع ہوئی جس میں کانٹ فیملی اور گھر کے ملازمین سبھی کو شامل کیا گیا۔

    اس خاندان کے بارے میں ابتدائی معلومات سے پولیس کے اس خیال کو تقویت مل رہی تھی کہ قاتل گھر کا ہی فرد ہے۔
    کنبے کے سربراہ مسٹر کانٹ نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی جو چار بچوں کی ماں تھی، اس کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے چار بچوں کے علاوہ اس گھر میں مسٹر کانٹ اپنی دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔

    قاتل کو پکڑنے کے لیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے تفتیشی محکمے کے افسر جیک وِچر کا انتخاب کیا گیا۔ وہ ایک قابل اور ذہین افسر سمجھے جاتے تھے اور اس سے قبل کئی پیچیدہ اور پُراسرار کیسوں کو نمٹا چکے تھے۔

    اس تفتیشی افسر کا خیال تھا کہ یہ قتل بچے کی سولہ سالہ سوتیلی بہن نے کیا ہے۔ وہ اسے عدالت تک لے آیا، لیکن ثابت نہیں کرسکا کہ وہی اُس بچے کی قاتل ہے۔ یوں مقتول کی سوتیلی بہن بری ہو گئی۔

    یہ اس زمانے کا مشہور کیس تھا اور اس ناکامی نے وِچر کی قابل اور ذہین افسر جیسی شہرت کو بھی مشکوک کردیا۔ اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اخبارات نے اس کے خلاف لکھنا شروع کر دیا اور اپنے ڈپارٹمنٹ کے حاسدین کی جانب سے بھی اس کی مخالفت زوروں پر تھی۔

    تاہم پانچ سال بعد سب کو وَچر کی ذہانت کا اعتراف کرنا پڑا، کیوں‌ کہ اسی لڑکی نے ایک پادری کے ساتھ پولیس اسٹیشن پہنچ کر اعترافِ جرم کر لیا تھا۔ اس اعتراف پر اسے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    رہائی کے بعد وہ آسٹریلیا چلی گئی جہاں نرسنگ کی تربیت حاصل کی اور باقی زندگی جذام کے مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت کرتے ہوئے گزاری۔

    اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کے اسی مشہور قتل پر برطانوی مصنفہ کیٹ سمرسکیل نے ایک کہانی بُنی جو لندن میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہے۔

    1965 میں پیدا ہونے والی سمرسکیل نے صحافت کی تعلیم مکمل کرکے ٹیلی گراف میں آرٹ اور ادب کے صفحے کی ادارت کی اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    انھوں نے ”دی سسپِیشنز آف مسٹر وِچر“ کے نام سے کتاب لکھی جو پُرتجسس واقعات اور مہم جوئی سے متعلق ہی نہیں تھی بلکہ اس میں اُس دور کے طرزِ زندگی اور معاشرتی حالات کا احاطہ بھی کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کی یہ کہانی ٹیلی ویژن پر ڈرامائی شکل میں پیش کی گئی۔

    کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف انیسویں صدی کے سنسنی خیز کیس کی تفصیلات سامنے لاتی ہے بلکہ اس دور کے سماج کی اور ایک خاندان کی ذاتی زندگی کی خوب صورت عکاسی ہے اور یہ کتاب برطانوی ادب میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

  • ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت

    ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت

    اسلام آباد: ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں ایک اور اہم پیش رفت سامنے آگئی، ایف آئی اے کی متحرک پراسیکیوشن ٹیم نے برطانوی حکومت کو نیا خط لکھ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے نے برطانوی حکومت کا نیا خط لکھ دیا جس میں عمران فاروق قتل کیس کے برطانوی گواہوں کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کا کہا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ خط کے متن کے مطابق اے ٹی سی نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں ویڈیو لنک انتظامات کا کہا ہے، بیان ریکارڈ کرنے کے لیے گواہوں کی دستیابی سے متعلق بتایا جائے۔

    ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے نے گواہوں کی فہرست بھی برطانوی حکومت کو بھجوا دی، یو کے بارڈر ایجنسی کو دفتر خارجہ کے ذریعے خط لکھا گیا، ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم کو تاحال برطانوی جواب کا انتظار ہے۔

    واضح رہے ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا، حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔

    عمران فاروق قتل کیس ، تین اہم برطانوی گواہ پاکستان نہ آسکے

    برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے گئے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاونڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

    بعد ازاں ایف آئی اے نے 2015ءمیں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

  • والدین کے قتل کیس میں چیئرمین نیب کے بھائی کو بری کردیا گیا

    والدین کے قتل کیس میں چیئرمین نیب کے بھائی کو بری کردیا گیا

    لاہور: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کے والدین کے قتل کیس میں ملوث ان کے بھائی سمیت تین ملزمان کو بری کردیا گیا، انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے قومی ادارہ احتساب (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے والدین کے قتل کیس کی سماعت کی۔

    ہائیکورٹ نے ملزمان کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے چیئرمین نیب کے بھائی سمیت کیس میں نامزد تینوں ملزمان کو بری کردیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے ناکافی شواہد کی بنیاد پر ملزمان کو بری کیا۔

    پولیس کے مطابق جسٹس (ر) جاوید اقبال کے والدین کو 2011 میں قتل کیا گیا تھا، قتل کے الزام میں جاوید اقبال کے سوتیلے بھائی نوید اقبال کو گرفتار کیا گیا تھا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ نوید اقبال کی نشاندہی پر باقی ملزمان عباس اور امین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا، ملزمان گھر سے رقم چوری کرنے آئے تھے تاہم مزاحمت پر جاوید اقبال کے والدین کو قتل کردیا گیا۔

    سنہ 2016 میں لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے مقدمے میں نامزد تینوں ملزمان کو سزائے موت کا حکم دیا تھا۔

    بعد ازاں ملزمان نے ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جس کا فیصلہ سناتے ہوئے شواہد کو ناکافی قرار دیا گیا اور تمام ملزمان کو بری کردیا گیا۔

    ملزمان کی وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس نے ملزمان کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا، پولیس کی جانب سے ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

    اپیل میں کہا گیا کہ ملزمان کے خلاف شہادتیں بھی موجود نہیں ہیں، ٹرائل کورٹ نے 2016 میں حقائق کے برعکس سزائے موت سنائی، ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور ناکافی شواہد پر ملزمان کو بری کیا جائے۔

  • ریحان قتل کیس: ملزمان مزید ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    ریحان قتل کیس: ملزمان مزید ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے بہادر آباد میں کم عمر لڑکے ریحان کو چوری کا الزام لگا کر، برہنہ کر کے قتل کرنے والے ملزمان عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے مزید ریمانڈ پر ملزمان کو پولیس کے حوالے کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد کے علاقے بہادر آباد میں مبینہ طور پر چوری کا الزام لگا کر قتل کیے جانے والے کم عمر ریحان کے قتل کیس کی سماعت سٹی کورٹ میں ہوئی۔

    سماعت کے لیے گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا، مدعی مقدمہ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ گرفتار ملزمان نے معصوم بچے کو ظالمانہ طور پر قتل کیا، بچے کو گھر کے عقوبت خانے میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔

    وکیل کے مطابق ریحان جمعے کو کام سے پیسے لے کر گھر جارہا تھا، بچے کو چوری کے جعلی الزام کے تحت پنجرےمیں بند کر کے قتل کیا گیا۔ وکیل نے استدعا کی کہ مقدمے میں دہشت گردی اور 30 اے سمیت دیگر دفعات شامل کی جائیں۔

    ملزمان کے وکیل صفائی نے کہا کہ بے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا، ایف آئی آر میں گھر میں موجود افراد شاہ رخ اور یاسین کا نام ہی نہیں لیکن پولیس کو جو ہاتھ آرہا ہے اسے گرفتار کر رہی ہے۔

    ملزم دانیال نے عدالت میں بیان دیا کہ مقتول ریحان گھر میں گھسا تھا اور اس کے ساتھ 2 مزید افراد بھی تھے، ’ریحان سمیت 3 افراد میرے گھر میں چوری کی نیت گھسے تھے۔ اہل علاقہ اور ہم نے ریحان کو پکڑ لیا، 2 فرار ہوگئے‘۔

    ملزم کے بیان پر جج برہم ہوگئے اور دریافت کیا کہ آپ کو کس نےحق دیا قانون اپنے ہاتھ میں لیں؟ جس پر دانیال نے کہا کہ ہم نے ریحان کو تھوڑا سا مارا تھا۔ جج نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جان سے مار دیا اور کہتے ہیں تھوڑا سا مارا ہے۔ دوسرے ملزم زبیر نے کہا کہ ہم نے چور پکڑا اور تھوڑا مارنے کے بعد رینجرز کو اطلاع دی۔

    پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ واقعہ سائبر کرائم اور دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے، مقدمے میں ملزمان کی نشاندہی پر آلہ قتل برآمد اور دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرنا ہے، پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ ملزمان کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

    عدالت نے ایک ملزم ایاز کی ضمانت منظور کرلی جبکہ مزید 5 ملزمان کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا، ملزمان میں دانیال یوسف، زبیر، انس، شارق اور مسعود شامل ہیں۔

    سماعت کے بعد ریحان کے لواحقین نے کمرہ عدالت کا گھیراؤ کرلیا، اہلخانہ نے فریاد کی کہ انصاف چاہیئے ملزموں کو ابھی پھانسی دو۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو کمرہ عدالت سے باہر نکالو اور رینجرز کے حوالے کرو۔

    لواحقین کا کہنا تھا کہ پولیس سے انصاف کی توقع نہیں۔

    مقتول کے اہلخانہ کے حملے کے خوف سے ملزمان کو ججز کے زیر استعمال راستے سے باہر نکالا گیا، پولیس ملزموں کو دوڑاتے ہوئے گاڑی تک لے گئی جس کے بعد انہیں جیل لے جایا گیا۔

    خیال رہے کہ 17 اگست کو سوشل میڈیا پر ایک دلدوز ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں ایک 15 سالہ لڑکے کے ہاتھ باندھ کر اور برہنہ کر کے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔

    پولیس کی کارروائی پر بہادر آباد میں ہونے والے واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ملزمان کا مؤقف تھا کہ ریحان اپنے ساتھیوں کے ساتھ چوری کی نیت سے ان کے گھر میں داخل ہوا تاہم موقع پر پکڑا گیا۔

    ملزمان کے بیان کے مطابق موقع پر موجود افراد نے مل کر لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنایا، تشدد کے باعث لڑکے کی حالت غیر ہوئی تو رینجرز کو طلب کیا گیا۔ رینجرز اہلکاروں نے لڑکے کو چھڑایا لیکن اسپتال منتقل کرنے سے قبل ہی ریحان نے دم توڑ دیا۔

    دوسری جانب لڑکے کے اہلخانہ کا مؤقف تھا کہ ریحان قصائی کا کام کرتا تھا۔ اس نے عید پر مذکورہ افراد کا جانور ذبح کیا تھا اور ان کے گھر اپنے پیسے لینے گیا تھا جب مذکورہ واقعہ پیش آیا۔

    لڑکے کی موت پر اہل خانہ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے بیٹے پر بد ترین تشدد کیا گیا، اگر اس نے چوری کی بھی تھی تو پولیس کے حوالے کیا جاتا۔

    ورثا نے مطالبہ کیا تھا کہ ریحان کو سفاکی سے قتل کرنے کے بعد ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر ڈالی گئی، واقعے کا مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے۔