Tag: قتل کیس

  • خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    خاشقجی قتل کیس میں برطرف سعودی مشیر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا انکشاف

    ریاض/استنبول : ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ذرائع نے 2 شاہی مشیروں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے جن میں سے ایک کو رِنگ لیڈر قرار دیا گیا ہے جبکہ 11 مشتبہ ملزمان کے بند کمرہ ٹرائل میں دوسرے کی غیر موجودگی پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

    سعودی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العصیری نے استنبول کے قونصل خانے میں سعودی صحافی کے قتل کی نگرانی کی جس کی ہدایات سعود القحطانی نے دی تھیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ چار مغربی حکام کے مطابق دونوں افراد سعودی ولی عہد کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں اور انہیں باقاعدہ طور پر برطرف کیا جاچکا ہے، احمد العصیری ہی جنوری سے لے کر اب تک ہونے والی 5 سماعتوں میں پیش ہوئے۔

    ایک عہدیدار نے بتایا کہ جن 11 افراد کا ٹرائل ہورہا ہے، ان میں سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس غیر موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا سعودی ان کی حفاظت کرنا چاہتے یا ان کے خلاف علیحدہ کاررروائی کریں گے؟ کوئی نہیں جانتا۔

    سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر نے گزشتہ برس نومبر میں 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں 5 کو سزائے موت کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس سمیت ترکی کے سفارت کاروں کو جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف جاری سماعتوں میں آنے کی اجازت ہے جو کہ صرف عربی زبان میں منعقد ہوتی ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ انہیں مترجم ساتھ لانے کی اجازت نہیں اور انہیں شارٹ نوٹس پر مدعو کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے خاندان کے ایک فرد نے، جنہوں نے سعودی حکومت سے تصفیہ کی تردید کی تھی،صرف ایک عدالتی سیشن میں شرکت کی ہے۔

    عہدیداران نے کہا کہ انٹیلی جنس رکن ماہر مطرب جو غیرملکی دوروں پر سعودی ولی عہد کے ہمراہ سفر کرتے تھے، فارنسک ایکسپرٹ صلاح الطبیغی اور سعودی شاہی گارڈ کا رکن فہد البلاوی ان 11 افراد میں شامل ہیں جنہیں سزاے موت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    ان تمام 11 افراد کو اپنے دفاع کے لیے لیگل کونسل کی اجازت حاصل ہے۔عہدیداران کا مطابق ان میں سے اکثر نے عدالت میں اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے احمد العصیری کے احکامات پر عمل کیا اور انہیں آپریشن کا رِنگ لیڈر قرار دیا۔

    سعودی عرب کی میڈیا منسٹری نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی رد عمل نہیں دیا، اور ملزمان کے وکلا سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

    مغربی عہدیداران نے کہا کہ احمد العسیری کو سعودی فوج میں جنگی ہیرو کا درج حاصل ہے، انہیں سزائے موت کا سامنا نہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ماضی میں امریکی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سعودیوں پر پابندی سےمتعلق جاری کی گئی امریکا کی دو فہرستوں میں بھی ان کا نام شامل نہیں۔

    دوسری جانب سعود القحطانی جنہوں نے سعودی عرب پر تنقید کرنے والوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی تھی اور جنہیں سعودی ولی عہد کا اہم ساتھی سمجھا جاتا ہے ان کا نام دونوں فہرستوں میں موجود ہے۔

    جمال خاشقجی قتل، اقوام متحدہ کا سعودی حکومت سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ

    سعودی پراسیکیوٹر آفس کے مطابق سعودی اسکواڈ کی ترکی روانگی سےقبل انہوں نے میڈیا اسپیشلائزیشن پر مبنی مشن سے متعلق اہم معلومات بتانے کے لیے ملاقات کی تھی۔ تاہم جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے وہ اب تک سامنے نہیں آئے اور اس وقت وہ کہاں ہیں کیسے ہیں یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔

    بعض سعودی افراد کا دعوی ہے کہ وہ پسِ منظر میں ان تمام حالات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دیگر افراد کا کہنا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد عالمی برادری کے ردعمل ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔

  • عمران فاروق قتل کیس میں نیا موڑ، ملزمان اپنے بیان سے مکر گئے

    عمران فاروق قتل کیس میں نیا موڑ، ملزمان اپنے بیان سے مکر گئے

    اسلام آباد: ڈاکٹر  عمران فاروق قتل کیس میں نیا موڑ  آگیا، مجسٹریٹ کے رو برو  اعتراف جرم کرنے والے دونوں ملزمان اپنے بیان سے مکر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق  16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنی رہائش گاہ کے باہر قتل ہونے والے ڈاکٹر عمران فاروق  کیس میں گرفتار ملزمان نے اپنے پرانے بیانات سے لاتعلقی ظاہر کر دی.

    ملزم خالد شمیم کاکہنا ہے کہ بیان قلم بند کرنے سے پہلے خوف کے سائے میں رکھا گیا، تشدد بھی کیا گیا، مجسٹریٹ نے میری مرضی کے خلاف تفتیشی افسرکی ہدایت پر بیان ریکارڈ کیا.

    دوسرے گرفتار ملزم محسن علی نے کہا کہ تشدد کے باوجوداعترافی بیان نہیں دیا، مجسٹریٹ کو تشدد کی شکایت کی، پہلے سے تیاراعترافی بیان پرمہر لگائی گئی.

    ملزمان کے بیانات ان کے وکلا نےاسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرا دیے۔

     مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس فیصلہ کن موڑ پر، ایف آئی اے نے شہادتیں مکمل کرلیں

    خیال رہے کہ 28 مارچ 2019 کو ایف آئی اے نے ساڑھے تین سال بعد شہادتیں مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا، ساتھ ہی انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی ملزمان کا بیان قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    اد رہے کہ ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبے میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ قتل کے الزام میں تین ملزمان محسن علی سید، معظم خان، خالد شمیم کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت کا دعویٰ کیا گیا.

  • عمران فاروق قتل کیس فیصلہ کن موڑ پر، ایف آئی اے نے شہادتیں مکمل کرلیں

    عمران فاروق قتل کیس فیصلہ کن موڑ پر، ایف آئی اے نے شہادتیں مکمل کرلیں

    اسلام آباد: ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل کیس  فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گیا.

    تفصیلات کے مطابق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنی رہائش گاہ کے باہر قتل ہونے والے ڈاکٹر عمران فاروق کا کیس اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہوگیا.

    ایف آئی اے نے ساڑھے تین سال بعد شہادتیں مکمل کرلیں، ادھر انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی ملزمان کا بیان قلم بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    ملزمان کو دس اپریل کو سوالنامہ دیا جائے گا، خالدشمیم، محسن علی اور معظم کا تین سو بیالیس کے تحت بیان قلم بند کیا جائے گا.

    ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ تمام دستیاب شواہدعدالت کے سامنے پیش کردیے، انسداددہشت گردی عدالت نے سماعت دس اپریل تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس، ایف آئی اے سے آئندہ سماعت پر شہادتوں کا تحریری بیان طلب

    یاد رہے کہ ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبے میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ قتل کے الزام میں تین ملزمان محسن علی سید، معظم خان، خالد شمیم کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت کا دعویٰ کیا گیا.

    یاد رہے کہ گزشتہ سال انٹرپول نے بانی ایم کیو ایم کے ریڈ وارنٹ کے لیے تعاون سے انکار کرتے ہوئے پاکستانی حکام کی جانب سے بھیجی گئی درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی تھی۔

  • مشال خان قتل کیس: پی ٹی آئی کونسلرعارف اوراسد کوعمر قید کی سزا

    مشال خان قتل کیس: پی ٹی آئی کونسلرعارف اوراسد کوعمر قید کی سزا

    پشاور: انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال خان قتل کیس میں گرفتارپی آئی آئی کے کونسلر عارف اور اسد کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مشال قتل کیس میں گرفتار چار ملزمان کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔

    عدالت نے پی ٹی آئی کے کونسلرعارف اور اسد کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ ملزم صابرمایار اور اظہار کوبری کردیا۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کا فیصلہ 12 مارچ کو محفوظ کیا تھا، فیصلہ سنانے کے لیے 16 مارچ کی تاریخ مقررکی گئی تھی۔

    بعدازاں عدالت نے ملزمان کے خلاف فیصلہ موخر کرتے ہوئے 21 مارچ کو سنانے کا حکم دیا تھا۔

    انسداد دہشت گردی عدالت میں مشال خان کے والد اور دیگر 46 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران دونوں فریقین کے وکلاء نے دلائل مکمل کیے تھے۔

    عدالت نے مشال خان قتل کیس میں وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل 7 فروری 2018 کو ایبٹ آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں 58 گرفتار ملزمان سے ایک ملزم عمران کو قتل کا جرم ثابت ہونے پرسزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

    عدالت نے 5 ملزمان میں سے فضل رازق، مجیب اللہ، اشفاق خان کو عمرقید جبکہ ملزمان مدثر بشیراور بلال بخش کو عمر قید کے ساتھ ایک، ایک لاکھ روپے جرمانے کی بھی سزائیں سنائیں تھیں۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے اپنے فیصلے میں 25 دیگر ملزمان کو ہنگامہ آرائی، تشدد، مذہبی منافرت پھیلانے اور مجرمانہ اقدام کے لیے ہونے والے اجتماع کا حصہ بننے پر 4،4 سال قید جبکہ 26 افراد کو عدم ثبوت پر بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو طالب علموں کے جم غفیر نے یونیورسٹی کمپلیکس میں اہانت مذہب کا الزام عائد کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد گولی مار کر قتل کردیا تھا۔

  • جوڈی چیزنی قتل کیس، چاقو زنی کے الزام میں ایک اور نوجوان گرفتار

    جوڈی چیزنی قتل کیس، چاقو زنی کے الزام میں ایک اور نوجوان گرفتار

    لندن : جوڈی چیزنی قتل کیس میں میٹروپولیٹن پولیس نے ایک اور شخص کو چاقو زنی میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے مشرقی علاقے ہارلڈ میں 17 سالہ دوشیزہ جوڈی چیزنی کو اس وقت چاقو کے پے در پے وار کرکے قتل کردیا تھا جب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ موسیقی سننے میں مصروف تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ پولیس نے دوسرے ملزم کو جمعے کے روز گرفتار کیا ہے جبکہ اس سے قبل پولیس نے 20 سالہ نوجوان کو لائیکاسٹر سے منگل کے روز گرفتار کیا تھا۔

    لندن پولیس چیف ڈیو وہلامز کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک وحشتان اور شیطانی حملہ تھا‘، قتل کی تحقیقات جاری ہیں پولیس معاملے کی تہہ تک جائے گی۔

    پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ابھی تک قتل کی وجوہات واضح نہیں ہوسکی ہیں لیکن پولیس کی کوششیں جاری ہیں۔

    جوڈی چیزنی کی دوست نے پولیس کو بتایا کہ ’ہم پارک میں چہل قدمی کررہے تھے وہی قریب میں دو اور افراد بھی تھے جو کچھ مشکوک لگ رہے تھے لیکن وہ بغیر کچھ کہے پارک سے باہر نکل گئے۔

    جوڈی کی دوست کا کہنا تھا کہ تقریباً تیس منٹ بعد دونوں افراد دوبارہ پارک میں داخل ہوئے اور ہمارے قریب آکر ایک شخص نے جوڈی کی پشت پر خنجر سے وار کیے اور ریٹفورڈ روڈ کی جانب فرار ہوگئے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل پولیس کا کہنا تھا کہ جوڈی کو سیاہ فام شخص نے قتل کیا تھا تاہم قتل کی مزید تحقیق ابھی جاری ہے۔

    برطانوی وزیر داخلہ نے لندن پولیس چیف سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’پورے ملک میں نوجوانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، اسے جاری نہیں رہنا چاہیے‘۔

    مزید پڑھیں : لندن : تین لاکھ سے زائد بچے جرائم پیشہ گروہوں سے منسلک ہیں، چلڈرن کمشنر

    برطانیہ میں بچوں کے حقوق کے کام کرنے والے کمشنر کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 10 برس سے 17 برس کی عمر کے ایسے 27ہزار بچوں کی شناخت ہوئی جو صرف انگلینڈ میں جرائم پیشہ گروہوں سے وابستہ ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں 3 لاکھ 13 ہزار کم عمر بچے گینگ ممبر ہیں اور 34 ہزار بچے ایسے ہیں جو پُرتشدد جرائم کا تجربہ کرچکے ہیں۔

  • خاشقجی قتل کیس، کینیڈا نے 17 سعودی شہریوں پر پابندی عائد کردی

    خاشقجی قتل کیس، کینیڈا نے 17 سعودی شہریوں پر پابندی عائد کردی

    اوٹاوا : کینیڈین حکومت نےدی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی  جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 17 سعودی شہریوں پر پابندیاں عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں صحافی جمال خاشقجی کو بے دردی سے قتل کرنے والے سعودی جاسوسوں کے خلاف کینیڈین حکومت نے بھی بڑا قدم اٹھاتے ہوئے پابندیاں عائد کردیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کینیڈین حکومت کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنے والے سعودی شہریوں کے کینیڈا میں داخلے پر پابندی ہوگی جبکہ ان کے اثاثے بھی منجمد کیے جائیں گے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوث سعودی خفیہ ایجنسی کے جاسوسوں پر کینیڈا کی جانب سے ایسے وقت میں پابندی عائد کی گئی ہے جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ارجنٹینا کے دارالحکومت میں جی 20 ممالک کے اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔

    کینیڈین وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ جن سعودی شہریوں پابندیوں کا اطلاق کیا گیا وہ حکومت کی نظر میں صحافی و کالم نویس خاشقجی کے قتل میں ذمہ دار ہیں البتہ ان 17 سعودی شہریوں میں محمد بن سلمان کا نام شامل نہیں ہے۔

    کرسٹیا فری لینڈ اپنے بیان میں کہنا تھا کہ دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک کالم نویس و صحافی کا بہیمانہ قتل نفرت انگیزی اور آزادی رائے پر حملہ ہے۔

    وزیر خارجہ کرسٹیا فری کا کہنا تھا کہ سعودی صحافی کے قتل میں ملوث ملزمان کو لازمی عدالت میں پیش کرنا ہوگا۔

    کینیڈین حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے معاہدوں سے متعلق نظر ثانی کرنے کا اعلان کیا جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کینیڈا سعودی سے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ منسوخ کردے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ کینیڈا سے قبل فرانس، امریکہ اور جرمنی بھی خاشقجی قتل میں ملوث سعودی شہریوں پر پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل ترک پراسیکیوٹر جنرل نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں گلا دبا کر قتل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی لاش کو ٹھکانے لگادیا گیا۔

  • جمال خاشقجی قتل کیس، ملزمان کو سعودیہ میں سزا دی جائے گی، عادل الجبیر

    جمال خاشقجی قتل کیس، ملزمان کو سعودیہ میں سزا دی جائے گی، عادل الجبیر

    ریاض/منامہ : سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جمال خاشقجی کیس سے متعلق کہا ہے کہ سعودی کالم نگار کے قاتلوں کے خلاف سعودی عرب میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزیر عادل الجبیر نے بحرین میں منعقدہ کانفرنس کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کے سعودی کالم نویس جمال خاشقجی کے سفاکانہ قتل کی تفتیش کے لیے وقت درکار ہے لیکن دنیا صحافی کے معاملے پر ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے۔

    سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے مغربی خبر رساں و نشریاتی اداروں پر الزام عائد کیا ہے کہ مغربی میڈیا نے جمال خاشقجی قتل کیس میں دیوانگی سے کوریج کی ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر خارجہ کا بیان ترک حکومت کی جانب سے خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 ملزمان کی حوالگی کے مطالبے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی صحافی کو تین ہفتے قبل استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا ہے جبکہ ریاض حکومت مسلسل سعودی شاہی خاندان کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے الزامات سعودی جاسوسوں پر عائد کررہی ہے۔

    واضح رہے کہ جمال خاشقجی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور سعودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔

    بحرین میں منعقدہ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران عادل الجبیر نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 18 سعودی شہریوں کی ترکی حوالگی کے حوالے سے کہا کہ مذکورہ افراد سعودی شہری ہیں، انہیں سعودیہ میں گرفتار کیا ہے، سعودیہ میں تفتیش ہوگی اور سعودی میں ہی سزا دی جائے گی۔

    سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب کی تفتیشی ٹیم ترک تفتیش کاروں کے ساتھ مشترکا طور پر استنبول میں واقعے کی تحقیقات کررہے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ترکی اور سعودی عرب کے درمیان مجرموں کے حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔

    امریکی وزیر دفاع کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ امریکا دوست ملک ہے جس کے ساتھ تعلقات مضبوط اور مستحکم ہیں اور جمال خاشقجی کے قتل کی وجہ سے دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات میں دراڑ نہیں آئے گی۔

    بحرین کانفرنس میں امریکی وزیر دفاع نے کیا کہا؟

    بحرین میں سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر برائے دفاع کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی سفارت خانے میں موت پر ہم سب کو تحفظات ہیں۔

    امریکی وزیر دفاع جم میٹس کا کہنا تھا کہ امریکا ہر گز ایسے سفاکانہ اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا جسے صحافی خاشقجی کی آواز کو دبایا گیا ہے۔

    سعودی صحافی کب اور کہاں لاپتہ اور قتل ہوئے

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • جمال خاشقجی کیس، جرمنی نے سعودیہ کو اسلحے کی فروخت روک دی

    جمال خاشقجی کیس، جرمنی نے سعودیہ کو اسلحے کی فروخت روک دی

    برلن : جرمنی نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی ملک جرمنی نے استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں امریکی اخبار سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی اور ہلاکت پر شدید مذمت کرتے ہوئے سعودی حکام کی وضاحتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ سعودی سفارت خانے میں ہونے شاہی خاندان اور حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی کے درد ناک قتل نے سعودی عرب کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔

    جرمن حکومت نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ذمہ داروں کے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کرنے کا اعلان کردیا۔

    دوسری جانب ترک حکومت نے جمال خاشقجی کی استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے کے اندر جانے والی تصاویر میڈیا پر جاری کردی ہیں جبکہ صحافی کی ترک منگیتر سفارت خانے کے باہر ان کا انتظار کرتی رہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے مؤقف پیش کیا تھا کہ دی واشنگٹن پوسٹ سے منسلک صحافی اور کالم نویس جمال خاشقجی کہاں قتل ہوئے اور لاش کہا گئی انہیں معلوم نہیں۔


    مزید پڑھیں : صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت پر سعودی وضاحت ناکافی ہیں، جرمن چانسلر مرکل


    خیال رہے کہ ایک روز قبل جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور وزیر خارجہ ہائیکو ماس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سخت ترین الفاظ میں اس عمل کی مذمت کرتے ہیں، جمال خاشقجی کی ہلاکت کی وجوہات کے بارے میں ہم سعودی عرب سے شفافیت کی توقع رکھتے ہیں، استنبول میں پیش آئے واقعے کے بارے میں دستیاب معلومات ناکافی ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی برادری کے شدید دباؤ کے بعد ترک اور سعودی مشترکہ تحقیقات کے بعد سعودی عرب نے تسلیم کرلیا کہ صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہی مارے گئے تھے۔


    مزید پڑھیں: سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصلیٹ میں موت کی تصدیق کردی


    سعودی میڈیا نے ابتدائی چھان بین کے نتائج کے بعد تصدیق کی تھی کہ خاشقجی دراصل قونصل خانے میں ہونے والی ایک ہاتھا پائی میں ہلاک ہوئے، اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے 18 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور دو اہم اہلکاروں کو برطرف بھی کردیا۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں۔

  • بے نظیر بھٹو قتل کیس: ملزمان کی ضمانتوں کے خلاف اپیلیں خارج

    بے نظیر بھٹو قتل کیس: ملزمان کی ضمانتوں کے خلاف اپیلیں خارج

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزمان کی ضمانتوں پر رہائی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے کیس میں نامزد پولیس افسران کی ضمانتوں کے خلاف اپیل خارج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزم پولیس افسران کی ضمانتوں کے خلاف اپیل کی سماعت جسٹس آصف سعید اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے کی۔

    سماعت میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی موجود تھے۔

    درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف بھی اسی مقدمےمیں نامزد ہیں، جنہوں نے ججز کو بھی بند کیا۔ سابق صدر سب کنٹرول کر رہے تھے، پولیس افسران بھی مشرف کے کنٹرول میں تھے۔

    انہوں نے دلائل دیے کہ ہائیکورٹ کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کا سیکشن 25 اے ضمانت دینے سے روکتا ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تین مقدمات کی نظیر موجود ہے یہ معاملہ طے ہو چکا ہے، آپ کیس کی میرٹ پر بات کریں۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا نے دیکھا ایک شوٹر نے قریب سے پوائنٹ بلینک پر گولی ماری۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ اقوام متحدہ رپورٹ نے کہا کہ باکس سیکیورٹی سے واقعہ کو روکا جا سکتا تھا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا یہ دونوں افسران ایک سال سے ضمانت پر ہیں، ضمانت منسوخی پر آپ کو شواہد دینا ہوں گے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ ضمانت قانون کے مطابق نہیں دی گئی جس پر جج نے دریافت کیا کہ شواہد کیا ہیں کہ ضمانت قانون کے مطابق نہیں دی گئی۔

    وکیل نے کہا کہ قد آور لیڈر کا قتل لواحقین کا نہیں بلکہ پورے خطے کا نقصان ہے، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کا حوالہ دیا جس پر جج نے کہا کہ آپ قانون اور سیاست کو الگ رکھیں۔

    جج نے کہا کہ استغاثہ کو مزید شواہد دینے چاہیئے تھے جو نہیں دیے گئے۔ وکیل نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کو بے نظیر بھٹو کو لاحق خطرات کا علم تھا، کرائم سین کو دھونے کا اقدام جان بوجھ کر کروایا گیا۔

    جج نے کہا کہ بی بی سی نے 10 اقساط پر مشتمل اسیسنیشن کے نام سے پروگرام کیا، پورا پروگرام بی بی کے قتل کے حوالے سے ہے۔ انہوں نے ہماری تفتیشی ایجنسیوں سے زیادہ بہتر تحقیق کی۔

    عدالت نے کہا کہ ملزمان نے ضمانت کی رعایت کا غلط استعمال نہیں کیا ہے، ہائیکورٹ کو ملزمان کو دہشت گردی مقدمات میں ضمانت دینے کا اختیار ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے ملزمان کی ضمانتوں پر رہائی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کیس میں نامزد پولیس افسران کی ضمانتوں کے خلاف اپیل خارج کردی۔

    بلاول بھٹو کی گفتگو

    سماعت کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا، وہ بھاگے ہوئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی سزا نہیں ہوئی، ملوث افسران کو ڈیوٹیوں پر بھی بحال کیا گیا، امید ہے شہید ذوالفقار بھٹو کیس اور شہید بے نظیر بھٹو کیس میں انصاف ملے گا۔

  • زہرہ شاہد قتل کیس: ایم کیو ایم کے 2 کارکنان کو سزائے موت

    زہرہ شاہد قتل کیس: ایم کیو ایم کے 2 کارکنان کو سزائے موت

    کراچی: پاکستان تحریک انصاف کی کارکن زہرہ شاہد قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ایم کیو ایم کارکن راشد ٹیلراور زاہد عباس زیدی کو سزائے موت سنا دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2013 میں قتل کی جانے والی پاکستان تحریک انصاف کی کارکن زہرہ شاہد کے قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم کارکن راشد ٹیلراور زاہد عباس زیدی کو سزائے موت سنا دی جبکہ 2 مزید ملزمان عرفان اور کلیم کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا۔

    رینجرز پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ قتل میں ملوث ملزمان ایم کیو ایم سے ہیں، ملزمان نے تفتیش میں زہرہ شاہد کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔

    پراسیکیوشن ٹیم کے مطابق ملوث ملزمان کو گواہوں نے بھی شناخت کر لیا تھا۔

    دوسری جانب ملزمان نے عدالت میں اعتراف کیا کہ تحریک انصاف کو خوفزدہ کرنے کے لیے قیادت کے حکم پر زہرہ شاہد کو قتل کیا۔

    یاد رہے کہ زہرہ شاہد کو مئی 2013 میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔ حکومت نے ملزمان کی نشاندہی کے لیے 25 لاکھ روپے انعام رکھا تھا۔