Tag: قتل

  • گھریلو تشدد سے ہلاک خواتین کی یاد میں انوکھا اقدام

    گھریلو تشدد سے ہلاک خواتین کی یاد میں انوکھا اقدام

    انقرہ: ترکی میں گھریلو تشدد کے باعث ہلاک ہونے والی خواتین کی یاد میں سڑک پر ایک منفرد ڈسپلے رکھا گیا جس نے گزرنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

    ترکی کے شہر استنبول میں ایک سڑک پر جوتوں کی دیوار بنا دی گئی، دیوار پر سجائے گئے جوتوں کے 440 جوڑے، ان 440 خواتین کی یاد میں رکھے گئے جو سنہ 2018 میں اپنے گھر والوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں۔

    یہ ڈسپلے ایک ترک فنکار وحیت تونا نے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ڈسپلے کا مقصد یہ ہے کہ سڑک پر سے گزرتے لوگ رک کر اس دیوار کو دیکھیں اور خواتین پر ہونے والے تشدد کے بارے میں سوچیں۔

    ترکی میں تقریباً 38 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں اور ان میں 15 سے لے کر 59 سال تک کی ہر عمر کی عورت شامل ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 میں 440 خواتین گھریلو تشدد سے ہلاک ہوئیں، اور رواں برس یہ تعداد بڑھ گئی۔ سنہ 2019 کے صرف پہلے 6 ماہ میں گھریلو تشدد سے مرنے والی خواتین کی تعداد 214 رہی۔

    رواں برس کے آغاز میں اس وقت پورے ملک میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا جب ایک خاتون کے سابق شوہر نے بیٹی کے سامنے انہیں قتل کردیا تھا، اس وقت ہزاروں خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور ملک میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے مظاہرے کیے۔

    38 سالہ خاتون کے مرنے سے قبل آخری الفاظ تھے، ’میں مرنا نہیں چاہتی‘۔

    ترک فنکار کو امید ہے کہ ان کا یہ عمل ان آگاہی کی کوششوں کا ایک فائدہ مند حصہ ثابت ہوگا جو ملک بھر میں خواتین پر تشدد کے خلاف کی جارہی ہیں۔

  • سانحہ چونیاں، پولیس کی غفلت کے مزید انکشافات، سابق ڈی پی او صوبہ بدر

    سانحہ چونیاں، پولیس کی غفلت کے مزید انکشافات، سابق ڈی پی او صوبہ بدر

    لاہور: سانحہ چونیاں کے سلسلے میں پولیس کی غفلت کے مزید انکشافات ہوئے ہیں، دوسری طرف سابق ڈی پی او قصور عبدالفغار قیصرانی کو صوبہ بدر کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ چونیاں میں پولیس کی غفلت کی مزید تفصیلات سامنے آ گئی ہیں، ذرایع نے بتایا کہ دونوں پولیس افسران لاشیں ملنے کے کئی گھنٹے بعد کرائم سین پر پہنچے تھے۔

    ذرایع نے کہا کہ سابق ایس پی انویسٹی گیشن قصور شہباز الہٰی نے بیان ریکارڈ کرایا۔ بتایا گیا کہ دونوں افسران یو این مشن میں منتخب ہونے کے لیے اسلام آباد میں تھے، کرائم سین پر تاخیر سے پہنچنے پر اعلیٰ حکام نے برہمی کا اظہار کیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  چونیاں: قصور میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے قیام کا اعلان

    یاد رہے کہ ایک ہفتے قبل قصور کے ضلع پتوکی کے علاقے چونیاں میں‌ ایک ہول ناک واقعہ پیش آیا تھا، جس سے پورے علاقے میں کھلبلی مچ گئی تھی، ویران علاقے سے لاپتا بچوں‌ کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں، ایک لاش مکمل تھی، جب کہ باقی دو کے اعضا اور ہڈیاں پائی گئیں۔

    وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر غفلت برتنے والے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کر کے ڈی پی او قصور کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے چونیاں واقعے کے بعد قصور میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے قیام کا اعلان کیا۔

  • پختونخواہ میں گزشتہ 6 سال کے دوران 13 خواجہ سرا قتل

    پختونخواہ میں گزشتہ 6 سال کے دوران 13 خواجہ سرا قتل

    پشاور: صوبائی محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں گزشتہ 6 سال کے دوران 13 خواجہ سرا قتل ہوئے، سب سے زیادہ خواجہ سرا پشاور میں قتل ہوئے جن کی تعداد 6 تھی۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی محکمہ داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ صوبے میں گزشتہ 6 سال کے دوران 13 خواجہ سرا قتل ہوئے، 6 سال میں 12 واقعات میں 19 ملزمان گرفتار ہوئے۔

    محکمہ داخلہ کے مطابق سب سے زیادہ 6 خواجہ سرا پشاور میں قتل ہوئے، نوشہرہ اور صوابی میں 2، 2 جبکہ کوہاٹ اور بنوں میں ایک ایک خواجہ سرا کو قتل کیا گیا۔

    خیال رہے کہ گزشتہ 2 برسوں کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ میں خواجہ سراؤں پر قاتلانہ حملوں کے بے شمار واقعات سامنے آئے تھے۔

    سنہ 2016 میں ایک خواجہ سرا کے قتل نے اس وقت پورے ملک میں طوفان برپا کردیا تھا جب پشاور میں علیشاہ نامی خواجہ سرا کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اسے کئی گولیاں ماری گئیں۔

    علیشاہ کو اسپتال میں طبی امداد دینے سے بھی انکار کردیا گیا تھا جبکہ اسپتال کے عملے کی جانب سے اسے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ علیشاہ بعد ازاں انتقال کر گئی تھی۔ واقعے کے بعد مشتعل خواجہ سراؤں نے علیشاہ کا جنازہ تھانے کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا تھا۔

    اس وقت خواجہ سراؤں کی ایک تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک سال میں 45 خواجہ سراؤں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا ہے۔

  • لاڑکانہ: طالبہ نمرتا کی پراسرارموت کا معاملہ، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری

    لاڑکانہ: طالبہ نمرتا کی پراسرارموت کا معاملہ، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری

    لاڑکانہ: ڈینٹل کالج کی طالبہ نمرتا کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی معمہ حل نہیں کرسکی۔

    تفصیلات کے مطابق لاڑکانہ میں زیر تعلیم کراچی سے تعلق رکھنے والی نمرتا کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی.

    پولیس سرجن کے مطابق نمرتا کی گردن پر کسی چیزکے باندھنے کے نشانات ہیں، البت یہ نشانات رسی کے ہیں یا دوپٹے کے، ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا.

    رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نمرتا کے جسم پر کسی بھی تشدد کا نشان نہیں، البتہ حتمی رپورٹ آنے پرہی موت کی وجوہات سامنے آئیں گی.

    مزید پڑھیں: لاڑکانہ: میڈیکل کالج کے ہاسٹل سے 22 سالہ طالبہ کی لاش برآمد

    دوسری جانب نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال نے  خودکشی کے امکان کو رد کر دیا ہے. نمرتا کے بھائی کے مطابق اس کی بہن خود کشی نہیں کرسکتی، اسے قتل کیا گیا ہے.

    ڈاکٹر وشال نے کہا کہ کمرے کے پنکھے پر اس طرح کا کوئی نشان نہیں، جس سے خودکشی کے مفروضے کو تقویت ملے.

    ادھر ایس ایس پی لاڑکانہ مسعود بنگش نے بتایا ہے کہ ہاسٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرلی گئی ہیں، طالبہ کے موبائل فون کو ڈی کوڈ کیا جارہا، جلد تفصیلات شیئر کی جائیں گی.

  • برطانیہ میں گھریلو تنازعات کے باعث قتل کے واقعات میں اضافہ

    برطانیہ میں گھریلو تنازعات کے باعث قتل کے واقعات میں اضافہ

    لندن: برطانیہ میں چاقو زنی کی واردات میں اضافے کے بعد اب گھریلو تنازعات کے باعث قتل کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں گھریلو تشدد یا جھگڑوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں گزشتہ 5 برس کے مقابلے میں اضافہ حکام کے لیے تشویش کا باعث بنا گیا۔

    برطانوی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 43 پولیس اسٹیشنوں سے حاصل کردہ تازہ اعداد وشمار کے مطابق گھریلو تشدد اور تنازعات میں کم از کم 173 مرد اور خواتین ہلاک ہوئیں جبکہ سال 2017 کے مقابلے میں سال 2018 میں 32 واقعات زیادہ رونما ہوئے۔

    گھریلو تشدد یا تنازعات میں ہلاک والے تین تھائی واقعات میں خواتین کو مارنے والے شریک حیات، سابق شریک حیات یا خاندان کا کوئی فرد تھا، بتایا گیا کہ مارنے والے زیادہ ترمرد تھے۔

    بی بی سی کی جانب سے فریڈم آف انفارمیشن کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 2014 میں 165، 2015 میں 160، 2016 میں 139 اور 2017 میں 141 گھریلو تشدد یا تنازعات کے باعث اموات ہوئیں۔

    برطانیہ میں‌ پولیس افسر بھی چاقو زنی کا شکار

    اس ضمن میں برمنگم سٹی یونیورسٹی کی پروفیسر ایلزبتھ یارڈلے نے کہا کہ ’گھریلو تشدد یا تنازعات میں ’قتل‘ کسی ارادے کے تحت نہیں ہوتا۔

    انہوں نے کہا کہ حملہ آور کی خواہش ’کنڑول‘ کرنے کی ہوتی ہے اور اسی دوران گھریلو تشدد یا قتل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آور متاثرہ شخص کو اس کے دوستوں، اہلخانہ اور ملازمت سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ مخالفت میں اٹھنے والی آواز سے کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ آسانی سے کنٹرول حاصل کرلے۔

  • بیوی کو قتل کرنے والے تہران کے سابق میئر کی رہائی

    بیوی کو قتل کرنے والے تہران کے سابق میئر کی رہائی

    تہران : ایرانی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ مقتولہ کے اہل خانہ نے قاتل کو معاف کر دیا،رہائی عدالتی فیصلے پر ضمانت کے عوض عمل میں آئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایران میں حکام نے تہران کے سابق میئر محمد علی نجفی کو رہا کر دیا ہے۔ نجفی کو اپنی دوسری بیوی کو قتل کرنے پر موت کی سزا سنائی گئی تھی تاہم مقتولہ کے اہل خانہ نے قاتل کو معاف کر دیا،سابق میئر کی رہائی عدالتی فیصلے پر ضمانت کے عوض عمل میں آئی۔

    نجفی کے وکیل حمید رضا گودارزئی نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ ان کے 67 سالہ مؤکل کو تقریبا 2.4 لاکھ ڈالر کی ضمانت کے عوض رہا کیا گیا ہے،نجفی کو بغیر لائسنس کا اسلحہ رکھنے پر دو سال قید کی سزا بھی سنائی گئی،اس کے وکیل کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔

    محمد علی نجفی نے رواں سال 28 مئی کو تہران میں گھر کے اندر اپنی دوسری بیوی مِترا اوستاد (35 سالہ) کو سینے میں گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا،واقعے کے چند گھنٹوں بعد نجفی نے خود کو پولیس کے حوالے کر کے اعترافِ جرم کر لیا۔

    البتہ اس موقع پر پولیس افسران اور اہل کاروں اور میڈیا کی جانب سے نجفی کے لیے دکھائی جانے والی گرم جوشی نے اس حوالے سے تنازع کھڑا کر دیا کہ سرکاری ذمے داران اور عام شہریوں کے ساتھ حکام کے برتاؤکا دہرا معیار ہے۔

    ایرانی قانون کے مطابق اگر کوئی شخص قتل کا ارتکاب کرتا ہے تو مقتول کے اہل خانہ کو قصاص طلب کرنے یا مالی دیت کے عوض معاف کر دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

    دو ہفتے قبل مقتولہ مترا کے بھائی مسعود اوستاد نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر یہ اعلان کیا تھا کہ ہم نے نجفی صاحب کو دیت کے مطالبے کے بغیر معاف کر دیا ہے۔اس طرح نجفی پھانسی کے پھندے کے علاوہ مقتولہ کے اہل خانہ کو دیت کی ادائیگی پر مجبور ہونے سے بھی بچ گیا۔

  • جرمن شہری کا قتل، شامی تارک وطن کو ساڑھے 9 برس قید کی سزا

    جرمن شہری کا قتل، شامی تارک وطن کو ساڑھے 9 برس قید کی سزا

    برلن: جرمنی کے مشرقی شہر کیمنٹس میں گزشتہ برس ایک جرمن شہری کو قتل کرنے والے ایک شامی پناہ گزین کو عدالت نے جرم ثابت ہونے کے بعد ساڑھے نو سال قید کی سزا سنادی۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن شہر ڈریسڈن کی ایک عدالتنے الاءایس نامی شامی پناہ گزین کو ایک ڈینئل ایچ نامی جرمن شہری کا قتل کرنے کے جرم میں نو سال اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق گزشتہ برس ڈینئل نامی جرمن شہری کو الاءنے متعدد مرتبہ چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

    استغاثہ کی جانب سے جائے وقوعہ کے قریب واقع ایک کباب کی دوکان کے ملازم کی گواہی کی بنیاد پر یہ مقدمہ تیار کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت میں شامی پناہ گزین کا مسلسل موقف رہا ہے کہ اس نے یہ قتل نہیں کیا اور وہ بے قصور ہے۔

    عدالتی فیصلے سے قبل جرمن نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس شامی پناہ گزین کا کہنا تھا کہ اس نے نہ تو مقتول شخص کو چھوا اور نہ ہی اس چاقو کو، جس سے یہ قتل کیا گیا۔

    اس شامی مہاجر کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ الاءنے نہ تو مقتول شخص کو اور نہ ہی اس جرم میں استعمال ہونے والے چاقو کو چھوا تھالیکن استغاثہ کے حتمی بیان کے مطابق الاءکا جرم ثابت ہوچکا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس کے علاوہ جرمن پولیس ابھی تک فرحاد نامی اس مرکزی مشتبہ عراقی شخص کی تلاش میں ہے، جس پر ڈینئل ایچ پر چاقو سے حملہ کرنے کا الزام ہے۔

    پولیس کا خیال ہے کہ یہ بائیس سالہ مشتبہ عراقی شخص جرمنی سے فرار ہو چکا ہے، اس کیس کے تیسرے مشتبہ شخص کو کیمنٹس کی ایک عدالت نے عدم شواہد کی بنیاد پر رہا کر دیا تھا۔

  • اسلام آباد: تھانہ سبزی منڈی کی حدود میں فائرنگ، 2 اہل کار شہید

    اسلام آباد: تھانہ سبزی منڈی کی حدود میں فائرنگ، 2 اہل کار شہید

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں تھانہ سبزی منڈی کی حدود میں فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہل کار شہید ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں سبزی منڈی تھانے کی حدود میں پولیس اہل کاروں پر فائرنگ کے واقعے میں 2 پولیس اہل کار شہید ہو گئے ہیں۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ناکے پر فائرنگ سے دو پولیس اہل کار شدید زخمی ہو گئے تھے، جنھیں اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔

    آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار نے تھانہ سبزی منڈی کی حدود میں فائرنگ کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لیے 2 ٹیمیں تشکیل دے دیں۔ ایک ٹیم کی سربراہی ایس ایس پی سی ٹی ڈی جب کہ دوسری ٹیم کی سربراہی ایس پی انویسٹی گیشن کریں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  شکارپور: ڈاکوؤں سے مقابلہ ڈی ایس پی فائرنگ سے جاں بحق، دو ڈاکو زخمی

    یاد رہے کہ گزشتہ روز سندھ کے شہر شکارپور میں ڈاکوؤں سے مقابلے کے دوران ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ شہید جب کہ ایک پولیس اہل کار زخمی ہو گیا تھا، شکار پور میں فوک گلوکار جگر جلال سمیت 5 فن کاروں کی بازیابی کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا گیا تھا۔

    گڑھی تیغوں میں آپریشن کے دوران ڈاکوؤں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا، مقابلے میں دو ڈاکوؤں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات تھیں، جگر جلال کو شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے لاڑکانہ سے شکارپور جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا۔

  • لکی مروت میں اغوا کے بعد بچے کا قتل، لواحقین کا شدید احتجاج، انڈس ہائی وے بند، چوکی نذر آتش

    لکی مروت میں اغوا کے بعد بچے کا قتل، لواحقین کا شدید احتجاج، انڈس ہائی وے بند، چوکی نذر آتش

    لکی مروت: گنڈی خان خیل سے اغوا ہونے والے بچے کی لاش آج کھیتوں سے برآمد ہونے کے بعد بچے کے لواحقین نے گنڈی چوک پر شدید احتجاج کیا جس میں شہر کی سول سوسائٹی تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا کے ضلع لکی مروت کے علاقے گنڈی خان خیل سے ایک بچے محمد اویس کو ایک ماہ قبل اغوا کیا گیا تھا، جس کی لاش آج ملی، لواحقین نے گنڈی چوک پر بچے کی لاش رکھ کر احتجاج کیا جس کے باعث ٹریفک معطل ہو گیا۔

    احتجاج کے باعث کراچی پشاور انڈس ہائی وے کئی گھنٹوں تک بند رہی، گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، مشتعل افراد نے پولیس چوکی اور ریسکیو 1122 پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کی، بعد ازاں مظاہرین نے پولیس چوکی کو نذرِ آتش کر دیا۔

    آج دن بھر بچے کے اغوا اور قتل کے خلاف لواحقین کی جانب سے احتجاج جاری رہا، مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر نے مظاہرین سے مذاکرات کیے۔

    تاہم مذاکرات کی ناکامی کے بعد احتجاج دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا، مظاہرین نے گنڈی چوک کے بعد کرم پل روڈ بھی بلاک کر دیا، احتجاج میں شہر کی مختلف سول سوسائٹی تنظیمیں بھی شریک ہو گئیں۔

    انتظامیہ اور کمیٹی ممبران نے مظاہرین سے مذاکرات کیے، کمیٹی میں ایم این اے مولانا انور، انور حیات، ضلع ناظم اور دیگر مشران شامل تھے، تاہم مظاہرین نے کمیٹی کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔

    بعد ازاں لواحقین کو یقین دہانی کرائی گئی کہ علاقے کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کیا جائے گا، اور واقعے کی تحقیقات کی جائیں گی، بچے کا پوسٹ مارٹم ہوگا اور ملزمان جلد گرفتار کیے جائیں گے۔

    دوسری طرف مظاہرین نے کمیٹی کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ ملزمان کی گرفتاری تک احتجاج جاری رہےگا، ان کا مطالبہ تھا کہ مقدمے میں سیون اے ٹی اے کی دفعہ بھی شامل کی جائے۔

    دریں اثنا، مشتعل افراد نے ایک بار پھر پولیس چوکی پر دھاوا بولا اور توڑ پھوڑ کی، پولیس چوکی کو آگ بھی لگا دی، جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی، مظاہرین کو حراست میں لینے کے لیے پولیس کی بکتر بند گاڑیاں بھی طلب کی گئیں۔

  • جنسی تسکین کی خاطر برطانوی ماں نے کمسن بیٹیوں کو قتل کردیا

    جنسی تسکین کی خاطر برطانوی ماں نے کمسن بیٹیوں کو قتل کردیا

    لندن :برطانیہ کی عدالت نے جنسی تسکین میں رکاوٹ بننے پر 2 بیٹیوں کے قتل کا ذمہ دارقراردیتے ہوئے ماں کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق برمنگھم براون کورٹ نے لیوزی پورٹن کو اپنی 17 ماہ اور تین سالہ دو بیٹیوں کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا اور عدالت نے سفاکانہ عمل پر انہیں 32 برس قید سنا دی۔

    میڈیارپورٹ کے مطابق لیوزی پورٹن نے 3 سالہ بیٹی کی موت کے اگلے روزڈیٹنگ ایپ پر 41 مردوں سے دوستی کی درخواست قبول کی،علاوہ ازیں جب لیوزی پورٹن کی بیٹی ہسپتال میں زندگی اور موت کی کش مکش میں تھی تب انہوں جنسی تعلقات قائم کرنے کی غرض سے ایک مرد کو اپنی برہنہ تصاویر ارسال کیں۔

    واروکشائر پولیس نے بتایا کہ شواہد سے واضح ہے کہ لیوزی پورٹن نے اپنی تین سالہ بیٹی کو جنوری 2018 میں ہی دم گھوٹ کر قتل کردیا تھا،رپورٹ کے مطابق برطانوی خاتون نے پہلے اپنی 3 سالہ بیٹی اور پھر 17 ماہ کی بیٹی کو قتل کیا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ جب 17 ماہ کی بیٹی گاڑی کی پچھلی نشست پر آخری سانسیں لے رہی تھیں تب بھی لیوزی پورٹن نے ہسپتال تاخیر سے پہنچنے کی خاطر پیڑول بھرنے میں سستی سے کام لیا اور اس دوران معصوم بچی کی موت واقع ہوگئی۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کا کہنا تھا کہ بچیوں کے والد کریس ڈریپر نے عدالت میں بیان دیا کہ اگر برطانوی سوشل سروس نے میری التجا پر دھیان دیا ہوتا تو میری بچیاں آج زندہ ہوتیں۔