Tag: قتیل شفائی

  • قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی کو اردو ادب میں بہترین غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی گیت نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ نصف صدی پر محیط اپنے فلمی کیریئر کے دوران انھوں نے کئی گیت تحریر کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔ آج بھی قتیل شفائی کی فلمی شاعری مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہماری سماعتوں میں رس گھول رہی ہے۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا۔ وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ قتیل شفائی ایک پسماندہ علاقے کے ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جس میں علم و ادب سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ قتیل شفائی نے معاش کے لیے ابتداً جو کوششیں کیں، ان میں کھیل کے سامان کی دکان کے علاوہ راولپنڈی جاکر ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    بعد میں‌ قتیل شفائی لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں فلمی دنیا میں بطور گیت نگار قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں بھارتی فلموں کے لیے بھی کئی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ شامل ہیں۔ اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں بننے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ تھی اور اسی فلم سے قتیل شفائی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کے تحریر کردہ فلمی نغمات سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور پھر انھیں بولی وڈ کے لیے بھی لکھنے کا موقع دیا گیا۔ قتیل شفائی کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے مقبول ترین نغمات میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار قتیل شفائی کو ان کی ادبی خدمات اور فلمی دنیا کے لیے بہترین کام پر کئی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی بھی تحریر کی تھی جس میں وہ لکھتے ہیں‌، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی، پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    اپنے والدین اور اپنی پیدائش سے متعلق وہ لکھتے ہیں، میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ یوں ان کے والد نے مجبوراً دوسری شادی کی جس سے ان کو خدا نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا اور ان میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں (والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    قتیل شفائی کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا تھا۔ اسی نام سے وہ اردو ادب اور فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    قتیل شفائی کا وہ جملہ جس نے سیدہ اختر حیدر آبادی کو ناراض کر دیا

    اردو ادب میں قتیل شفائی بطور شاعر اپنی غزل گوئی کے ساتھ فلمی گیتوں‌ کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جنھیں پاکستان میں سرکاری سطح پر اور متعدد ادبی تنظیموں نے بھی اعزازات سے نوازا۔ قتیل شفائی کی غزلیں مشہور گلوکاروں نے گائیں اور ان کے فلمی گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔ انھیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دیگر ممالک میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا جہاں شرکا فرمائش کرکے قتیل شفائی سے ان کی مشہور غزلیں سنا کرتے تھے۔

    قتیل شفائی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی آپ بیتی میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں‌ جو ان کے فن و شخصیت کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ پیشِ نظر پارے قتیل شفائی کی آپ بیتی ‘گھنگرو ٹوٹ گئے’ سے لیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

    مدراس کے مشاعرے میں جب میں اپنا کلام سن چکا تو دیکھا کہ لمبی لمبی داڑھیوں والے دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے کہ مشاعرے کے دوسرے دور میں آپ اپنی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘سنائیں۔

    میں نے ہزار سمجھایا کہ وہ فلم کی غزل ہے اور آپ مجھ سے یہ سن کر بہت بے مزہ ہوں گے۔ مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ غزل آپ کی زبان سے سننے کی بڑی تمنا ہے۔ چنانچہ خاص طور پر اس غزل کے لئے اناؤنسمنٹ ہوئی اور اس کی فرمائش کی گئی۔ میں نے تحت اللفظ یہ غزل پڑھی۔ اور اس پر مجھے جو داد ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔ مجھ سے اس کا ایک ایک مصرح چار چار بار پڑھایا گیا اور پتا چلا کہ یہی وہ غزل تھی جس کی وجہ سے مجھے وہاں بلایا گیا تھا۔

    وہیں سے ہم احمد آباد گئے جہاں پرانے مسلمان بادشاہوں کے آثار دیکھے اور پتھر کی جالیوں کا کام دیکھا جن کا جواب نہیں تھا۔ ایک مسجد میں بھی پتھر کی جالیاں دیکھیں۔ اس کے ایک مینار کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر اسے اوپر سے دھکا دیا جائے تو ہلتا ہے۔ اس لئے اس کو مینارِ لرزاں بھی کہتے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مینار سنگِ لرزاں سے بنا ہوا ہے۔

    ہمارے ساتھ مشہور خاتون سیدہ اختر حیدر آبادی تھیں جو خاکسار تحریک میں بھی کام کر چکی تھیں۔ انہیں خطیبۂ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ وہ بہت موٹی تھیں۔ وہ کچھ انجمنوں کی عہدیدار تھیں اور مشاعروں اور دوسری تقاریب میں ہر جگہ آگے آگے رہتی تھیں۔ جب ہم مینار کے اوپر چڑھے تو یہ ذرا سا ہلتا ہوا نظر آیا۔ سیدہ اختر سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔ وہ بنگلور کی رہنے والی تھیں اور مشاعرہ کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے ساتھ میرے بہت تعلقات بن گئے تھے لیکن بعض اوقات ایک جملہ تعلقات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔

    جب ہم مینارِ لرزاں سے نیچے اترے تو کہنے لگیں کہ دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ مینار ہلتا ہے۔ میں نے کہا بیگم اختر یہ مینار ہمارے ہلانے سے تو نہیں ہلا البتہ آپ کے اوپر جانے سے ہلا ہے۔ وہ یہ جملہ سننے کے بعد بالکل خاموش ہو گئیں اور اس کے بعد جتنا عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بول چال بند رکھی اور بنگلور کا پروگرام بھی گول کر دیا۔

    دراصل سیدہ اختر حیدر آبادی بہت موٹی تھیں اور خواہ مخواہ جی چاہتا تھا کہ ان سے کوئی شرارت کی جائے۔ اس وقت ہمارے ساتھ پاکستان سے سحاب قزلباش بھی تھیں۔ سیدہ اختر کے بال اتنے لمبے تھے کہ بلا مبالغہ ٹخنوں تک پہنچتے تھے اور کنگھی کر کے انہیں کھلا چھوڑتی تھیں۔ موٹی تو سحاب قزلباش بھی تھیں مگر یہ اچھی شکل و صورت والی تھیں۔ یہ کہنے لگیں کہ مجھے نظر آتا ہے کہ اختر کے بال مصنوعی ہیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں مصنوعی بال اتنے زیادہ سنبھالے ہی نہیں جا سکتے۔ کہنے لگیں نہیں کسی طرح ان کے بال ٹیسٹ کر کے مجھے بتاؤ۔ جوانی کا زمانہ تھا اور شرارتیں کرنے کے دن تھے۔ جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو وہ میرے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں نے عمداً یہ کیا کہ ان کے بیٹھتے ہوئے بال ذرا ادھر رکھ کے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ بال اٹک گئے اور جب میں نے سیٹ بدلوانے کے لئے انہیں اٹھنے کو کہا تو چونکہ بال اٹکے ہوئے تھے اس لئے ان کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ بال کھینچنے سے انہیں تکلیف ہوئی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ میں نے یہ عمداً کیا ہے۔ لیکن سحاب قزلباش کے لئے تصدیق ہو گئی اور اب یہ محترمہ چین سے بیٹھیں۔ اگر انہیں پتا چل جاتا تو یقیناً اس روز ناراضی ہو جاتی۔ میں نے زندگی میں اتنے لمبے بال کسی کے نہیں دیکھے۔

  • قتیل شفائی:‌ بے مثال غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار

    قتیل شفائی:‌ بے مثال غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار

    قتیل شفائی کی ایک غزل کا شعر ہے

    پھیلا ہے ترا کرب قتیلؔ آدھی صدی پر
    حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے

    قتیل شفائی بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، رچاؤ اور غنائیت ان کے شعری اوصاف ہیں۔ غزل گوئی کے ساتھ قتیل شفائی نے بطور گیت نگار اپنے فن و تخلیقی صلاحیتوں کو بلاشبہ اس طرح منوایا کہ ان کے لکھے ہوئے نغمات سدا بہار اور لافانی ثابت ہوئے۔ آج بھی ان کے فلمی گیت بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ قتیل شفائی کی شاعری میں جمالیاتی طرزِ احساس جس بھرپور توانائی اور تنوع کے ساتھ نظر آتا ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

    اردو ادب میں قتیل شفائی ایک ایسے مشہور شاعر اور کئی مقبول نغمات کے خالق ہیں جن کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ قتیل شفائی کا فلمی سفر نصف صدی پر محیط تھا۔

    ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تعلق رکھنے والے قتیل شفائی 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ کم سنی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘ ان کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا جب کہ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا اور اسی سے شہرت پائی۔

    قتیل شفائی نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں متعدد بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت نگاری کی۔ ان کے تحریر کردہ متعدد مقبول فلمی گیتوں میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو…‘ شامل ہیں۔ قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے اپنے لگاؤ کے سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔ ان کے شعری مجموعے ’’ہریالی، گجر، جلترنگ، جھومر، مطربہ، چھتنار، گفتگو، پیراہن اور آموختہ کے نام سے شایع ہوئے۔ ’’مطربہ ‘‘ وہ شعری مجموعہ تھا جس پر قتیل شفائی کو آدم جی ادبی ایوراڈ دیا گیا۔

    قتیل شفائی نے پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ کے گیت لکھے اور یہی فلمی دنیا میں ان کی اوّلین کاوش تھی۔ ان کے مقبولِ عام گیتوں میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔ پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے ان کے نغمات کو سرحد پار بھی مقبولیت ملی اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی فلموں‌ کے لیے بھی ان سے گیت لکھوائے گئے۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بطور گیت نگار عمدہ تخلیقات پر قتیل شفائی کو متعدد خصوصی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    شاعر و نغمہ نگار قتیل شفائی نے ایک آپ بیتی بھی یادگار چھوڑی، وہ اس میں‌ اپنا ماحول اور ابتدائی حالات کچھ اس طرح بتاتے ہیں، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ خاندان کے اور گھریلو مشورے سے انہیں مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑی۔ قتیل شفائی کے ہاں دوسری بیوی سے بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے جن میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں(والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    11 جولائی 2001ء میں قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    ان کی غزل کا ایک مشہور شعر دیکھیے:

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی یہ غزل بھی بہت مقبول ہوئی، ملاحظہ کیجیے:

    گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
    ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

    شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
    ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

    بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
    شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

    خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
    جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

    ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
    آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

  • قتیل شفائی: ‘حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے!’

    قتیل شفائی: ‘حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے!’

    قتیل شفائی کی ایک غزل کا شعر ہے

    پھیلا ہے ترا کرب قتیلؔ آدھی صدی پر
    حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے

    فلمی نغمہ نگار کے طور پر مقبول اور غزل کے عمدہ شاعر کی حیثیت سے قتیل شفائی کو اردو ادب میں بڑے احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا فلمی سفر نصف صدی پر محیط تھا جس میں ان کے تحریر کردہ کئی گیت یادگار رہے اور آج بھی مقبول ہیں۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا، جہاں وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ اپنے والد کے سائے سے محروم ہوگئے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی نے گیت نگاری کا آغاز پاکستانی فلموں سے کیا تاہم عمر کے آخری برسوں میں کئی بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے، جیسے ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ وغیرہ۔ قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے اپنے لگاؤ کے سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ سے قتیل شفائی نے فلمی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا اور عمر کے آخری ادوار میں بھارتی فلموں‌ کے لیے بھی شاعری کی۔

    ان کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے نغمات کو سرحد پار بھی مقبولیت ملی۔ ان کے مقبول عام گیتوں میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کو ان کے فلمی گیتوں پر متعدد خصوصی اعزازات سے نوازا گیا جب کہ 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی دیا تھا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی میں‌ لکھا تھا، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ خاندان کے اور گھریلو مشورے سے انہیں مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑی۔ دوسری بیوی سے بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے جن میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں(والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    ان کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا جب کہ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا اور اسی سے شہرت پائی۔

    11 جولائی 2001ء کو اردو کے اس معروف شاعر اور کئی مقبول فلمی گیتوں کے خالق نے لاہور میں وفات پائی اور علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    قتیل شفائی کے کلام سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
    سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
    یہی قسمت ہماری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
    یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
    یہ کیسی رازداری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
    ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    قتیل شفائی کی ایک مقبول غزل پیشِ خدمت ہے

    گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
    ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

    شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
    ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

    بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
    شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

    خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
    جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

    ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
    آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

  • ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

    قتیل شفائی کا یہ شعر ہر باذوق اور شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی بیاض میں‌ شامل رہا ہے۔

    چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
    وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

    اس شعر کے خالق بھی قتیل ہیں۔ پاکستان کے اس نام وَر شاعر اور ممتاز و مقبول فلمی نغمہ نگار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ پاک و ہند کے نام اور معروف گلوکاروں نے ان کے کلام کو اپنی آواز دی اور ان کے گیت کئی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔

    قتیل برصغیر کے ان معدودے چند شعرا میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھوں نے نہ صرف ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی بلکہ گیت نگاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

    24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ (خیبر پختون خوا) میں پیدا ہونے والے قتیلؔ شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ انھوں نے قتیل تخلّص کیا اور اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا پوری کی نسبت شفائی کا اضافہ کرکے قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔

    وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، سلاست، روانی، رچاؤ اور غنائیت اُن کے شعری اوصاف ہیں۔ قتیل شفائی نے غزل کو اپنے تخیل سے جگمگایا اور ان کے کمالِ سخن نے اسے لاجواب بنایا۔

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی شاعری کی ایک جہت اُن کی فلمی نغمہ نگاری ہے، جس نے انھیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ انھوں نے کئی گیت لکھے جو نہایت معیاری اور عام فہم بھی تھے۔ ان کی اسی خوبی نے بھارتی فلم سازوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان سے اپنی فلموں کے لیے گیت لکھوائیں۔

    ان کے لازوال اور یادگار گیتوں ‘زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے، کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنّا، یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شہزادیاں، ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا، زندہ ہیں‌ کتنے لوگ محبّت کیے بغیر، پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو’ شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کی شاعرانہ عظمت اور ان کے تخلیقی جوہر اور انفرادیت کا اعتراف اپنے وقت کے عظیم اور نام ور شعرا نے کیا ہے۔ ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھ پوری اور دیگر شامل ہیں۔

    قتیل شفائی نے صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات حاصل کیے، جب کہ ان کا سب سے بڑا اعزاز عوام میں ان کی وہ شہرت اور مقبولیت تھی جو انھوں‌ نے اپنے تخلیقی وفور اور فن کی بدولت حاصل کی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    قتیل شفائی کے شعری مجموعے چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ان کی آپ بیتی بعد از مرگ ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

  • مہمان کی تواضع

    مہمان کی تواضع

    قتیل شفائی نے ایم۔ اسلم سے اپنی اوّلین ملاقات کااحوال بیان کرتے ہوئے کہا۔

    ’’کتنی عجیب بات ہے کہ میں اسلم صاحب کی کوٹھی میں ان سے ملنے گیا لیکن اس کے باوجود ان کا تازہ افسانہ سننے سے بال بال بچ گیا۔‘‘

    ’’یہ ناممکن ہے …!‘‘ احباب میں سے ایک نے بات کاٹتے ہوئے فوراً تردید کر دی۔

    ’’سنیے تو۔‘‘ قتیل نے مسکراتے ہوئے کہنا شروع کیا۔

    ’’ہوا یوں کہ انتہائی خاطر و مدارات کے بعد جب اسلم صاحب اپنا افسانہ سنانے کے موڈ میں آنے لگے تو انہوں نے کہا… ’’قتیل صاحب! آپ کی کچھ نظمیں میری نظر سے گزری ہیں ۔آپ تو خاصے مقبول شاعر ہیں، مگر نہ جانے عام لوگ ہر ترقی پسند شاعر کے بارے میں کیوں بدگمانی کا شکار ہیں۔‘‘ اور اسلم صاحب کی اس بات کے جواب میں نہایت انکساری سے کام لیتے ہوئے میں نے کہا:

    ’’جی ہاں واقعی عام لوگ بہت غلط فہمیاں پیدا کردیتے ہیں۔ دیکھیے نا، اب آپ کے بارے میں بھی یوں تو یہی مشہور ہے کہ آپ ہر نو وارد مہمان کی تواضع کرنے کے بعد اپنا کوئی نیا افسانہ ضرور سناتے ہیں، حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے۔‘‘

    (اردو کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کی اپنے زمانے کے مشہور و معروف ناول اور افسانہ نگار ایم اسلم سے متعلق شگفتہ بیانی)

  • سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تذکرہ

    سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تذکرہ

    سدا بہار گیتوں کے خالق قتیل شفائی کے یومِ پیدائش پر آج مداح ان کی یاد تازہ کررہے ہیں۔ قتیل شفائی کی شاعری پڑھی جارہی ہے اور ان کے مقبول گیت سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    الفت کی نئی منزل کو چلا، حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں، بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں، ستارو تم تو سو جاؤ جیسے لازوال گیتوں کے خالق قتیل شفائی کا تعلق ہری پور سے تھا۔ وہ 24 دسمبر 1919 کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اورنگزیب تھا۔ شاعری کا سلسلہ شروع ہوا تو قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔ یہ 1938 کی بات ہے۔

    قتیل کی مقبولیت کی ایک وجہ سادہ انداز اور عام فہم شاعری ہے۔ پاکستان کے معروف گلوکاروں کی آواز میں قتیل شفائی کی غزلیں اور رومانوی گیتوں کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    انھوں نے نغمہ نگاری کا آغاز فلم تیری یاد سے کیا تھا جب کہ غزل اور دیگر اصنافِ سخن میں بھی اپنے جذبات اور خیالات کو سادہ اور نہایت پُراثر انداز سے پیش کیا۔ دنیا بھر میں قتیل شفائی اردو شاعری کا ایک مستند اور نہایت معتبر حوالہ ہیں۔

    1994 میں قتیل شفائی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا جب کہ آدم جی ایوارڈ، امیر خسرو ایوارڈ سمیت دیگر اہم ایوارڈ بھی ان کے نام ہوئے۔

  • سلیم رضا اور مشہور  نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    سلیم رضا اور مشہور نعتیہ کلام شاہِ مدینہ یثرب کے والی!

    پاکستان میں گائیکی کے افق کا وہ ستارہ جو آج سے 36 برس پہلے ڈوب گیا تھا، وہ دل رُبا آواز جو ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی تھی، اسے مداح، فلم انڈسٹری اور سُر و ساز کی دنیا میں آج برسی کے موقع پر پھر یاد کیا جارہا ہے۔ یہ سلیم رضا کا تذکرہ ہے۔ اس پسِ پردہ گائیک کی آڈیو اور ویڈیو ٹیپ میں محفوظ وہ مرھر آواز ہمارے ذہنوں میں آج پھر تازہ ہو گئی ہے۔

    50 اور 60 کی دہائی میں سلیم رضا کا نام شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہا تھا۔ یہ گیت آپ کی یادوں میں آج بھی ضرور محفوظ ہوں گے۔

    اے دل کسی کی یاد میں، ہوتا ہے بے قرار کیوں۔۔
    جانِ بہاراں رشکِ چمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن
    کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا

    سلیم رضا نے 4 مارچ، 1932 کو امرتسر کے ایک مسیحی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوا تو لاہور کو سکونت کے لیے منتخب کیا جہاں سلیم رضا نے ریڈیو پاکستان سے گائیکی کے سفر کا آغاز کیا اور پھر فلم انڈسٹری تک چلے آئے۔ ان کی گائیکی اور رومانٹک گیتوں کا ذکر تو بہت ہوتا ہے، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ اسی گلوکار کی آواز میں ایک حمد اور نعت بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہ خوب صورت حمدیہ شاعری دیکھیے۔

    کر ساری خطائیں معاف میری تیرے در پہ میں آن گرا
    تُو سارے جہاں کا مالک ہے میرا کون ہے تیرے سوا

    اس حمد کے خالق مشہور شاعر قتیل شفائی ہیں۔ اس کی طرز تصدق حسین نے ترتیب دی تھی جب کہ سلیم رضا نے اسے اپنی پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔

    اردو زبان کے نام ور گیت نگار تنویر نقوی کی یہ نعت کس نے نہیں سنی ہو گی اور کون ہے جس کے لبوں نے ان اشعار کے ذریعے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار نہ کیا ہو؟

    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ یثرب کے والی
    سارے نبی تیرے در کے سوالی
    جلوے ہیں سارے تیرے ہی دم سے
    آباد عالم تیرے کرم سے
    باقی ہر اک شے، نقشِ خیالی
    تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے
    نیلے فلک کی چادر تنی ہے
    تُو اگر نہ ہوتا، دنیا تھی خالی
    سارے نبی تیرے دَر کے سوالی
    شاہِ مدینہ، شاہِ مدینہ۔۔۔۔۔

    اس نعتیہ کلام کو دَف کی تال پر موسیقار حسن لطیف نے کمپوز کیا تھا اور سلیم رضا و ہم نوا نے ریکارڈ کرایا تھا۔

  • قتیل شفائی کوگزرے 18 برس بیت گئے

    قتیل شفائی کوگزرے 18 برس بیت گئے

    آج اردو کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کا 18واں یومِ وفات ہے ، ان کا اصل نام اورنگزیب خان تھا اور وہ 24 دسمبر 1919ء کو صوبہ خیبرپختونخواہ ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے تھے۔

    قتیل شفائی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول ہری پور میں حاصل کی بعدازاں وہ راولپنڈی میں قیام پذیر ہوئے جہاں انہوں نے حکیم محمد یحییٰ شفا سے اپنے کلام پراصلاح لینا شروع کی اور انہی کی نسبت سے خود کو شفائی لکھنا شروع کیا۔

    قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں احمد ندیم قاسمی کی قربت نے ان کی علمی اور ادبی آبیاری کی۔ 1948ء میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی فلم’’تیری یاد‘‘کی نغمہ نگاری سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہواجس کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر201 فلموں میں 900 سے زائد گیت تحریر کئے۔ وہ پاکستان کے واحد فلمی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لئے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    جس دن سے تم بچھڑ گئے یہ حال ہے اپنی آنکھوں کا
    جیسے دو بادل ساون کے آپس میں ٹکرائے ہیں

    انہوں نے کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں پشتو فلم عجب خان آفریدی کے علاوہ ہندکو زبان میں بنائی جانے والی پہلی فلم ’’قصہ خوانی‘‘ شامل تھی۔ انہوں نے اردو میں بھی ایک فلم ’’اک لڑکی میرے گاوٗں کی‘‘ بنانی شروع کی تھی مگر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی تھی۔

    فلمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ قتیل شفائی کا ادبی سفربھی جاری رہا، ان کے شعری مجموعوں میں ہریالی، گجر، جل ترنگ، روزن، گھنگرو، جھومر، مطربہ، چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے اور سمندر میں سیڑھی کے نام شامل ہیں۔ ان کی آپ بیتی ان کی وفات کے بعد ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

    قتیل شفائی نہایت ہی مقبول اور ہردلعزیز شاعر ہیں۔ ان کے لہجے کی سادگی و سچائی ، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی ہی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔ یوں تو انہوں مختلف اصفافِ سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدان غزل ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی اورسیاسی شعور بھی موجود ہے۔

    دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
    جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

    جو ہے بیدار یہاں ، اُس پہ ہے جینا بھاری
    مار ڈالیں گے یہ حالات ، چلو سو جائیں

    قتیل شفائی کا نعتیہ کلام بھی اپنی مثال آپ ہے جس کی مثال ان کی اپننی تحریر کے عکس سے عیاں ہے۔

    کتنا بڑا حضور کے قدموں کا فیض تھا
    یثرب کی سر زمیں پہ مدینہ بسا دیا

    ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنےپس منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، ’’میں ایک ایسے علاقے میں پیداہوا، جہاں علم و ادب کا دوردور تک نشان نہیں تھا، قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے’زمیندار‘آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی جانب راغب ہوگئے۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا تھا۔ انڈیا کی مگھد یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے ’’قتیل اور ان کے ادبی کارنامے‘‘ کے عنوان سے ان پر پی ایچ ڈی کی۔ صوبہ مہاراشٹر میں ان کی دو نظمیں شاملِ نصاب ہیں۔ علاوہ ازیں بہاولپور یونیورستی کی دو طالبات نے ایم کے لیے ان پر مقالہ تحریر کیا۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے اور علامہ اقبال ٹاؤن کے کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
    اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں

  • آج اردو کے ممتاز نغمہ نگار قتیل شفائی کی سالگرہ ہے

    آج اردو کے ممتاز نغمہ نگار قتیل شفائی کی سالگرہ ہے

    آج اردو کے ممتاز شاعر قتیل شفائی کا یومِ پیدائش ہے ان کا اصل نام اورنگزیب خان تھا اور وہ 24 دسمبر 1919ء کو صوبہ خیبرپختونخواہ ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے تھے۔

    قتیل شفائی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول ہری پور میں حاصل کی بعدازاں وہ راولپنڈی میں قیام پذیر ہوئے جہاں انہوں نے حکیم محمد یحییٰ شفا سے اپنے کلام پراصلاح لینا شروع کی اور انہی کی نسبت سے خود کو شفائی لکھنا شروع کیا۔

    قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ لاہور منتقل ہوگئے جہاں احمد ندیم قاسمی کی قربت نے ان کی علمی اور ادبی آبیاری کی۔ 1948ء میں ریلیز ہونے والی پاکستان کی پہلی فلم’’تیری یاد‘‘کی نغمہ نگاری سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہواجس کے بعد انہوں نے مجموعی طور پر201 فلموں میں 900 سے زائد گیت تحریر کئے۔ وہ پاکستان کے واحد فلمی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لئے نغمہ نگاری کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

    جس دن سے تم بچھڑ گئے یہ حال ہے اپنی آنکھوں کا
    جیسے دو بادل ساون کے آپس میں ٹکرائے ہیں

    انہوں نے کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں پشتو فلم عجب خان آفریدی کے علاوہ ہندکو زبان میں بنائی جانے والی پہلی فلم ’’قصہ خوانی‘‘ شامل تھی۔ انہوں نے اردو میں بھی ایک فلم ’’اک لڑکی میرے گاوٗں کی‘‘ بنانی شروع کی تھی مگر یہ فلم مکمل نہ ہوسکی تھی۔

    فلمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ قتیل شفائی کا ادبی سفربھی جاری رہا، ان کے شعری مجموعوں میں ہریالی، گجر، جل ترنگ، روزن، گھنگرو، جھومر، مطربہ، چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے اور سمندر میں سیڑھی کے نام شامل ہیں۔ ان کی آپ بیتی ان کی وفات کے بعد ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

    قتیل شفائی نہایت ہی مقبول اور ہردلعزیز شاعر ہیں۔ ان کے لہجے کی سادگی و سچائی ، عام فہم زبان کا استعمال اور عوام الناس کے جذبات و محسوسات کی خوبصورت ترجمانی ہی ان کی مقبولیت کا راز ہے۔ یوں تو انہوں مختلف اصفافِ سخن میں طبع آزمائی کی مگر ان کا اصل میدان غزل ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی اورسیاسی شعور بھی موجود ہے۔

    دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
    جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

    جو ہے بیدار یہاں ، اُس پہ ہے جینا بھاری
    مار ڈالیں گے یہ حالات ، چلو سو جائیں

    قتیل شفائی کا نعتیہ کلام بھی اپنی مثال آپ ہے جس کی مثال ان کی اپننی تحریر کے عکس سے عیاں ہے۔

    کتنا بڑا حضور کے قدموں کا فیض تھا
    یثرب کی سر زمیں پہ مدینہ بسا دیا


    ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنےپس منظر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، ’’میں ایک ایسے علاقے میں پیداہوا، جہاں علم و ادب کا دوردور تک نشان نہیں تھا، قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے’زمیندار‘آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی جانب راغب ہوگئے۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطا کیا تھا۔ انڈیا کی مگھد یونیورستی کے ایک پروفیسر نے ’’قتیل اور ان کے ادبی کارنامے‘‘ کے عنوان سے ان پر پی ایچ ڈی کی۔ صوبہ مہاراشٹر میں ان کی دو نظمیں شاملِ نصاب ہیں۔ علاوہ ازیں بہاولپور یونیورستی کی دو طالبات نے ایم کے لیے ان پر مقالہ تحریر کیا۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے اور علامہ اقبال ٹاؤن کے کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف
    اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں