Tag: قتیل شفائی کی برسی

  • قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی کو اردو ادب میں بہترین غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی گیت نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ نصف صدی پر محیط اپنے فلمی کیریئر کے دوران انھوں نے کئی گیت تحریر کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔ آج بھی قتیل شفائی کی فلمی شاعری مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہماری سماعتوں میں رس گھول رہی ہے۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا۔ وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ قتیل شفائی ایک پسماندہ علاقے کے ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جس میں علم و ادب سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ قتیل شفائی نے معاش کے لیے ابتداً جو کوششیں کیں، ان میں کھیل کے سامان کی دکان کے علاوہ راولپنڈی جاکر ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    بعد میں‌ قتیل شفائی لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں فلمی دنیا میں بطور گیت نگار قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں بھارتی فلموں کے لیے بھی کئی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ شامل ہیں۔ اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں بننے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ تھی اور اسی فلم سے قتیل شفائی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کے تحریر کردہ فلمی نغمات سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور پھر انھیں بولی وڈ کے لیے بھی لکھنے کا موقع دیا گیا۔ قتیل شفائی کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے مقبول ترین نغمات میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار قتیل شفائی کو ان کی ادبی خدمات اور فلمی دنیا کے لیے بہترین کام پر کئی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی بھی تحریر کی تھی جس میں وہ لکھتے ہیں‌، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی، پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    اپنے والدین اور اپنی پیدائش سے متعلق وہ لکھتے ہیں، میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ یوں ان کے والد نے مجبوراً دوسری شادی کی جس سے ان کو خدا نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا اور ان میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں (والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    قتیل شفائی کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا تھا۔ اسی نام سے وہ اردو ادب اور فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • قتیل شفائی: ‘حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے!’

    قتیل شفائی: ‘حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے!’

    قتیل شفائی کی ایک غزل کا شعر ہے

    پھیلا ہے ترا کرب قتیلؔ آدھی صدی پر
    حیرت ہے کہ تو اتنے برس کیسے جیا ہے

    فلمی نغمہ نگار کے طور پر مقبول اور غزل کے عمدہ شاعر کی حیثیت سے قتیل شفائی کو اردو ادب میں بڑے احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا فلمی سفر نصف صدی پر محیط تھا جس میں ان کے تحریر کردہ کئی گیت یادگار رہے اور آج بھی مقبول ہیں۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا، جہاں وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ اپنے والد کے سائے سے محروم ہوگئے تھے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی نے گیت نگاری کا آغاز پاکستانی فلموں سے کیا تاہم عمر کے آخری برسوں میں کئی بھارتی فلموں کے لیے بھی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے، جیسے ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ وغیرہ۔ قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے اپنے لگاؤ کے سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ سے قتیل شفائی نے فلمی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا اور عمر کے آخری ادوار میں بھارتی فلموں‌ کے لیے بھی شاعری کی۔

    ان کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے نغمات کو سرحد پار بھی مقبولیت ملی۔ ان کے مقبول عام گیتوں میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کو ان کے فلمی گیتوں پر متعدد خصوصی اعزازات سے نوازا گیا جب کہ 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی دیا تھا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی میں‌ لکھا تھا، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔

    وہ مزید لکھتے ہیں، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ خاندان کے اور گھریلو مشورے سے انہیں مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑی۔ دوسری بیوی سے بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے جن میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں(والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    ان کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا جب کہ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا اور اسی سے شہرت پائی۔

    11 جولائی 2001ء کو اردو کے اس معروف شاعر اور کئی مقبول فلمی گیتوں کے خالق نے لاہور میں وفات پائی اور علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    قتیل شفائی کے کلام سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ
    سکوتِ مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
    یہی قسمت ہماری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
    یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
    یہ کیسی رازداری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
    ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

    قتیل شفائی کی ایک مقبول غزل پیشِ خدمت ہے

    گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
    ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

    شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
    ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

    بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
    شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

    خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا
    جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

    ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
    آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

  • ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

    قتیل شفائی کا یہ شعر ہر باذوق اور شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی بیاض میں‌ شامل رہا ہے۔

    چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
    وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

    اس شعر کے خالق بھی قتیل ہیں۔ پاکستان کے اس نام وَر شاعر اور ممتاز و مقبول فلمی نغمہ نگار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ پاک و ہند کے نام اور معروف گلوکاروں نے ان کے کلام کو اپنی آواز دی اور ان کے گیت کئی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔

    قتیل برصغیر کے ان معدودے چند شعرا میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھوں نے نہ صرف ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی بلکہ گیت نگاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

    24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ (خیبر پختون خوا) میں پیدا ہونے والے قتیلؔ شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ انھوں نے قتیل تخلّص کیا اور اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا پوری کی نسبت شفائی کا اضافہ کرکے قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔

    وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، سلاست، روانی، رچاؤ اور غنائیت اُن کے شعری اوصاف ہیں۔ قتیل شفائی نے غزل کو اپنے تخیل سے جگمگایا اور ان کے کمالِ سخن نے اسے لاجواب بنایا۔

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی شاعری کی ایک جہت اُن کی فلمی نغمہ نگاری ہے، جس نے انھیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ انھوں نے کئی گیت لکھے جو نہایت معیاری اور عام فہم بھی تھے۔ ان کی اسی خوبی نے بھارتی فلم سازوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان سے اپنی فلموں کے لیے گیت لکھوائیں۔

    ان کے لازوال اور یادگار گیتوں ‘زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے، کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنّا، یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شہزادیاں، ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا، زندہ ہیں‌ کتنے لوگ محبّت کیے بغیر، پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو’ شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کی شاعرانہ عظمت اور ان کے تخلیقی جوہر اور انفرادیت کا اعتراف اپنے وقت کے عظیم اور نام ور شعرا نے کیا ہے۔ ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھ پوری اور دیگر شامل ہیں۔

    قتیل شفائی نے صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات حاصل کیے، جب کہ ان کا سب سے بڑا اعزاز عوام میں ان کی وہ شہرت اور مقبولیت تھی جو انھوں‌ نے اپنے تخلیقی وفور اور فن کی بدولت حاصل کی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    قتیل شفائی کے شعری مجموعے چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ان کی آپ بیتی بعد از مرگ ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔