Tag: قحط

  • غزہ میں قحط کا سنگین خطرہ، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    غزہ میں قحط کا سنگین خطرہ، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    بیروت: اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ وارننگ جاری کی گئی ہے کہ غزہ کی پٹی میں پانچ لاکھ افراد شدید فاقہ کشی کی زد میں ہیں اور ستمبر کے آخر تک قحط پڑنے کا سنگین خطرہ موجود ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر خوراک کی نگرانی کرنے والے ادارے Integrated Food Security Phase Classification (IPC) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں غذائی حالات اکتوبر 2023 کے بعد سے شدید خراب ہوچکے ہیں اور 2.1 ملین افراد، جو تقریباً پورا غزہ ہے، انتہائی شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔

    4 لاکھ 69 ہزار سے زائد افراد ایسے ہیں جو شدید سطح کی بھوک کا شکار ہیں، جبکہ بچوں میں 71 ہزار سے زائد غذائی قلت کے کیسز متوقع ہیں، جن میں 14 ہزار سے زائد کیسز شدید سطح کے ہوں گے۔

    رپورٹس کے مطابق غزہ کو مارچ 2025 سے اسرائیلی فوجی محاصرے کا سامنا ہے، جس کے باعث امدادی سامان اور تجارتی اشیاء کی ترسیل رک چکی ہے۔

    اقوام متحدہ کی نائب ڈائریکٹر بیتھ بیچڈول کا کہنا ہے کہ مارچ سے جاری محاصرہ غزہ میں انسانی بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے، اور صورتحال بہت بگڑ چکی ہے۔

    رپورٹ پر رد عمل دیتے ہوئے اسرائیل نے قحط کے خطرے کو مسترد کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ امداد کی فراہمی کی کوششوں میں مصروف ہے، جبکہ حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام بھی لگایا۔ دوسری جانب حماس نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسرائیل پر غذا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔

    دوسری جانب حماس نے غزہ میں اسرائیل اور امریکا کی نئی فاؤنڈیشن کے ذریعے امداد کی تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔

    اسلامی مزاحمتی تنظیم نے اعلان کیا کہ حماس نے غزہ میں امداد کی تقسیم اور اقوام متحدہ کے بغیر ایک نئی فاؤنڈیشن شروع کرنے کے لیے امریکی-اسرائیلی دباؤ کو مسترد کرتے ہیں۔

    گروپ نے کہا کہ امداد کے انتظام اور تقسیم کے لیے صرف متعلقہ ادارے اقوام متحدہ اور حکومتی ادارے ہیں نہ کہ قابض یا اس کے ایجنٹ۔۔

    انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے بھی کسی بھی متبادل امداد کی تقسیم کی کوششوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو انتہائی ضروری امداد کی ترسیل کو سنبھالنے کے لیے بہترین طریقے سے لیس ہے۔

    امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں لگا دیں

    فلسطینی گروپ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ جان بوجھ کر غزہ میں ”قحط اور بگڑتی ہوئی انسانی تباہی”پیدا کرنا چاہتا ہے۔

  • پاکستان میں قحط پڑنے کا خطرہ ہے، سرکاری ادارے نے خبردار کر دیا

    پاکستان میں قحط پڑنے کا خطرہ ہے، سرکاری ادارے نے خبردار کر دیا

    اسلام آباد: پاکستان میں معمول سے کم بارشوں کے باعث خشک سالی کے خطرے کا انتباہ جاری کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات نے ملک کے بیش تر علاقوں میں کم بارشوں کی وجہ سے خشک سالی جیسی صورت حال کا انتباہ جاری کر دیا ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق یکم ستمبر 2024 سے 15 جنوری 2025 کے درمیان معمول سے 40 فی صد کم بارشیں ہوئیں، سندھ میں بارشیں معمول سے 52 فی صد، بلوچستان میں 45 فی صد اور پنجاب میں 42 فیصد کم بارشیں ہوئیں۔

    معمول سے کم بارشوں کے باعث ملک میں خشک سالی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، اگر جلد بارشوں کا سلسلہ شروع نہ ہوا تو خشک سالی کے حالات مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

    دوسری طرف ملک بھر میں سردی کی لہر برقرار ہے، محکمہ موسمیات نے کشمیر اور بلتستان میں بارش اور پہا ڑوں پر برف باری کی پیش گوئی کی ہے، بالائی علاقوں میں بارش اور برف باری سے سردی بڑھ گئی ہے۔

    اسکردو میں درجہ حرارت منفی 5 ریکارڈ کیا گیا۔ کالام میں 9 انچ تک برف پڑ چکی ہے۔ مالم جبہ میں 7 انچ تک برف باری نے پارہ منفی 4 تک گرا دیا۔ گلگت میں درجہ حرارت صفر، کوئٹہ میں 1، مظفر آباد 3، اسلام آباد 4، پشاور 5 اور لاہور میں 10 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ کراچی میں درجہ حرارت 13.5 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔

  • اقوام متحدہ نے غزہ میں قحط پڑنے کا خدشہ ظاہر کردیا

    اقوام متحدہ نے غزہ میں قحط پڑنے کا خدشہ ظاہر کردیا

    اقوامِ متحدہ کی جانب سے غزہ میں بہت جلد قحط پڑنے کی وارننگ جاری کردی گئی ہے۔

    بین الاقوامی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یو این انڈر سیکریٹری مارٹن گریفیتھ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہفتوں سے کہہ رہے ہیں ہر گزرتا دن غزہ میں بھوک بڑھا رہا ہے، غزہ کی پوری آبادی قحط کا شکار ہوسکتی ہے۔

    دوسری جانب غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے، شہداء کی تعداد 21 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ صیہونی حملوں میں اب تک 20 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، شہدا میں 8 ہزاربچے، 6200 خواتین شامل، 6700 افراد لاپتہ ہیں۔

    وزارت صحت کے مطابق مظالم کی انتہاء یہ ہے کہ 11 نہتے فلسطینیوں کو اہلخانہ کے ساتھ شہید کردیا گیا، اسرائیلی فضائیہ کی بمباری سے رفع اورخان یونس میں 55 افرادشہید ہوگئے۔

    غزہ اور خان یونس میں رہائشی عمارتوں، مہاجر کیمپس اور اسپتالوں پرمسلسل حملے کئے جارہے ہیں، غزہ میں جاری جھڑپوں میں مزید 3 اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ 8 زخمی ہوچکے ہیں۔

    ویڈیو: مصری نوجوان سرحدی دیوار سے مظلوم فلسطینیوں کو روٹیاں پہنچانے لگا

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ شمالی غزہ میں کوئی بھی اسپتال فعال نہیں ہے، غزہ میں پانی کی شدید قلت کے باعث اموات اوربیماریوں میں اضافہ ہورہاہے۔

  • دریائے ایمیزون میں سیکڑوں ڈولفنوں کی پراسرار ہلاکت کی وجہ معلوم ہو گئی

    دریائے ایمیزون میں سیکڑوں ڈولفنوں کی پراسرار ہلاکت کی وجہ معلوم ہو گئی

    دریائے ایمیزون میں ڈولفنوں کی پراسرار ہلاکت کی وجہ معلوم ہو گئی، ماہرین نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ایمیزون ڈولفنیں شدید خشک سالی اور گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے برازیل میں دریائے ایمیزون کی ایک معاون دریا میں 120 دریائی ڈولفنوں کی لاشیں تیرتی ہوئی اس طرح پائی گئی تھیں، جن کے بارے میں اب ماہرین کو شبہ ہے کہ یہ شدید خشک سالی اور گرمی کی وجہ سے مر گئی تھیں۔

    محققین کا خیال ہے کہ شدید خشک سالی کے دوران دریا کی سطح کم ہو گئی جس کی وجہ سے پانی گرم ہو گیا اور درجہ حرارت اتنا بڑھا کہ ڈولفن کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا۔ ایمزون دریا میں درجہ حرارت 102 ڈگری فارن ہائیٹ تک ریکارڈ کیا گیا۔

    پانی میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے حال ہی میں ایمیزون کے دریاؤں پر ہزاروں مچھلیاں مر چکی ہیں۔ برازیل کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایک تحقیقی گروپ نے کہا ہے کہ پیر کو ٹیفے جھیل کے آس پاس کے علاقے میں دو اور مردہ ڈولفنیں پائی گئی ہیں۔

    ڈولفنیں مرنے کے بعد گل سڑ گئی تھیں اور علاقے میں بدبو پھیلنے لگی، حفاظتی لباس پہنے ماہرین حیاتیات نے ان کی لاشیں نکال کر پوسٹ مارٹم کیا تاکہ مرنے کی وجہ معلوم کی جا سکے، پیر کے روز بھی ماہرین نے ایک جھیل سے مردہ ڈولفنوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے نکالنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

    واضح رہے کہ دریائے ایمیزون کی ڈولفن زیادہ تر حیرت انگیز گلابی رنگ کی ہوتی ہے، یہ میٹھے پانی کی ایک منفرد ڈولفن ہے جو صرف جنوبی امریکی دریاؤں میں پائی جاتی ہے، جب کہ دنیا میں میٹھے پانی کی ڈولفنوں کی انواع بہت کم رہ گئی ہیں، اس کی وجہ سست تولیدی سائیکل ہے، جس کے سبب ان کی آبادی خطرات کا شکار ہے۔

  • ہر ایک منٹ میں درجنوں ایکڑ زمین بنجر ہورہی ہے

    ہر ایک منٹ میں درجنوں ایکڑ زمین بنجر ہورہی ہے

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی قرارداد 30 جنوری 1995 کو منظور کی تھی جس کے بعد سے یہ دن ہر سال 17 جون کو منایا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خواتین کی زیر ملکیت زمین اور ان کے حقوق سے متعلق ہے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین کسانوں اور زمین داروں کی زمین پر ان کا حق ملکیت تسلیم کیا جانا اور اس حوالے سے انہیں یکساں حقوق دینا فوڈ سیکیورٹی اور پوری انسانیت کی بھلائی کا ضامن ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت صحرا زدگی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک سو ممالک اور ایک ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں آبی ذرائع کی مینجمنٹ کرنا اور انہیں احتیاط سے استعمال کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔

  • یورپ کو 500 سال بعد بڑے خطرے نے گھیر لیا

    یورپ کو 500 سال بعد بڑے خطرے نے گھیر لیا

    برسلز: یورپ کو 500 سال میں پہلی بار بدترین خشک سالی کے عفریت نے گھیر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق برِّ اعظم یورپ کا تین تہائی علاقہ خشک سالی کی زد میں آ گیا ہے، گلوبل ڈراٹ آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق بر اعظم یورپ کے 47 فی صد علاقوں میں خشک سالی جیسے حالات موجود ہیں۔

    سینتالیس فی صد یورپی خطے میں زمین کی مٹی سوکھ چکی ہے، 17 فی صد یورپی علاقوں میں گھاس، پھوس اور سبزے کے خاتمے کی علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔

    گلوبل ڈراٹ آبزرویٹری نے انتباہ میں کہا کہ خشک سالی کا اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑے گا، اور خشک سالی کے باعث جنگلات میں آگ بھی بھڑک سکتی ہے، اور خشک سالی یورپ کے کچھ جنوبی علاقوں میں مزید کئی ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔

    برطانیہ کے مختلف حصوں میں خشک سالی کا اعلان

    رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ یورپ کے تقریباً تمام دریا کسی نہ کسی حد تک خشک ہو چکے ہیں۔

    امریکا میں خشک سالی سے صورت حال انتہائی خراب ہو گئی

    یورپی یونین کی پیش گوئیوں کے مطابق پچھلے پانچ سالوں کے مقابلے میں مکئی کی فصل 16 فی صد، سویابین کی 15 فی صد اور سورج مکھی کی فصل 12 فی صد کم ہوگی۔

    خیال رہے کہ خشک سالی کی آبزرویٹری یورپی کمیشن کے ریسرچ ونگ کا حصہ ہے، اس رپورٹ پر کمیشن نے متنبہ کیا ہے کہ ابتدائی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ موجودہ خشک سالی کم از کم 500 سالوں کے بعد بدترین دکھائی دیتی ہے۔

  • خشک سالی اور قحط سے بچنے کے لیے درخت لگانا ضروری

    خشک سالی اور قحط سے بچنے کے لیے درخت لگانا ضروری

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی قرارداد 30 جنوری 1995 کو منظور کی تھی جس کے بعد سے یہ دن ہر سال 17 جون کو منایا جاتا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں آبی ذرائع کی مینجمنٹ کرنا اور انہیں احتیاط سے استعمال کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔

  • کیا ہماری زمین بنجر ہونے کو ہے؟

    کیا ہماری زمین بنجر ہونے کو ہے؟

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ریسٹوریشن اینڈ لینڈ ریکوری یعنی زمین کی بحالی۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • برطانوی دور میں لاکھوں ہندوستانیوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

    برطانوی دور میں لاکھوں ہندوستانیوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

    ‘دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز'( The Great Book of Horrible Things) مشہور امریکی مؤرخ میتھیو وائٹ کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے دنیا کی تاریخ میں‌ سو بدترین سفاکیوں اور ہولناک واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن میں‌ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اسی کتاب میں برطانوی دور میں ہندوستان میں‌ آنے والے قحط سے ہلاکتوں کو تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی کے طور پر جگہ دی گئی ہے۔ مؤرخ کے مطابق انسانی سفاکی نے دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں لے لی تھیں۔

    کہتے ہیں کہ اس تعداد میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال کے قحط میں ہلاک ہونے والے شامل نہیں‌ ہیں جن کی تعداد 30 سے 50 لاکھ تک تھی۔ اگر یہ تعداد بھی شامل ہو تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں اور بعد میں براہِ راست برطانوی دور حکومت میں تقریباً تین کروڑ ہندوستانی زندگی سے محروم ہوئے۔

    ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا جسے برطانیہ نے اپنی کالونی بنایا اور یہاں راج کرتا رہا، لیکن جب یہاں انسانوں پر قحط کا قہر ٹوٹا، بھوک نے زندگیاں چھینیں تو برطانیہ کیسے بے نیاز نظر آیا۔ میتھیو وائٹ کے مطابق ہندوستان میں‌ آنے قحطوں کی وجہ ‘تجارتی استحصال’ تھا۔

    کسی انگریز نے برطانوی دور کے ایک قحط کے بعد امید اور امکان کے ڈولتے لمحوں اور بکھرتی زندگی کا منظر یوں بیان کیا ہے:

    ‘دسیوں لاکھ لوگ چند بقیہ ہفتوں تک زندہ رہنے کی آس لیے مر گئے جو انھیں فصل تیار ہونے تک گزارنے تھے۔ ان کی آنکھیں ان فصلوں کو تکتی رہ گئیں جنھیں اس وقت پکنا تھا جب انھیں بہت دیر ہو جاتی۔’

    تاریخ شاہد ہے کہ طاقت ور اور مال دار ممالک دنیا کے مختلف خطّوں کی کم زور اور پسماندہ اقوام کی مجبوریوں کا سودا کرنے میں کام یاب ہونے کے بعد ان کے قدرتی وسائل پر نہ صرف قابض ہوئے بلکہ مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کرکے اپنا خزانہ بھرتے رہے جسے مشہور فلسفی ول ڈیورانٹ نے یوں عیاں کیا ہے:

    ‘ہندوستان میں آنے والے خوف ناک قحطوں کی بنیادی وجہ اس قدر بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد اور عین قحط کے دوران ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہوتے کسان انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔ حکومت مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی۔’

  • اگلا سال آفت زدہ ثابت ہوسکتا ہے: اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    اگلا سال آفت زدہ ثابت ہوسکتا ہے: اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ آئندہ برس بدترین انسانی بحران کا سال ثابت ہوسکتا ہے اور 12 ممالک قحط کے خطرات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

    ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقدہ کووڈ 19 سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال صحیح معنوں میں آفت زدہ سال ثابت ہوگا۔

    وبا اور جنگوں کے باعث انسانی ضروریات میں 2 گنا اضافہ ہونے پر توجہ مبذول کروانے والے بیسلے کا کہنا ہے کہ قحط اور فاقہ کشی 12 ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔

    انہوں نے ان 12 ممالک کے نام تو نہیں دیے تاہم فی الفور اقدامات سے اس خطرے کا سدباب کیے جانے پر زور دیا ہے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل رواں سال کے وسط میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق متعدد ممالک میں کرونا وائرس کے وبائی مرض نے جاری جنگوں کے اثرات پر ایک نیا بوجھ ڈال دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پہلے سے زیادہ افراد غربت کی طرف چلے گئے ہیں اور وہ خوراک حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی امداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔