Tag: قحط سالی

  • پاکستان میں قحط سالی : ماہر ماحولیات نے رواں سال بڑے خطرے کی نشاندہی کردی

    پاکستان میں قحط سالی : ماہر ماحولیات نے رواں سال بڑے خطرے کی نشاندہی کردی

    دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ بہت بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے، ماحولیاتی آلودگی کے باعث کرہ ارض کو زلزلوں، طوفان قحط سالی اور دیگر قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    اسی خطرے کے پیش نظر ماہر ماحولیات مریم شبیر عباسی کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان قحط سالی کے خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

    ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین پاکستان میں موسمی حالات کے سبب آنے والی قدرتی آفات میں سے سیلاب کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر ماحولیات نے بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان ماحولیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل قرار دیا گیا ہے۔

    ماضی میں آنے والے تباہ کن سیلابوں ہیٹ ویو اور دن بدن بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں پاکستان کو ایسے مقامات میں شامل کیا ہے جو انسانوں کے رہنے کیلیے نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ سال 2018 کی رپورٹ میں پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ 2025 میں پاکستان پانی کی شدید کمی بلکہ قحط سالی کا شکار ہوسکتا ہے، جو کسی حد تک ہوتا ہوا نظر بھی آرہا ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں مریم شبیر عباسی نے بتایا کہ بد قسمتی سے حکومتی سطح پر پہلے سے کوئی پالیسی مرتب نہیں کی جاتی جب کوئی آفت یا سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس وقت اقدامات کیے جاتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلیے پہلے سے تیاری کی جاتی ہے۔

    بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کے اثرات سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ بھارت کیلیے ایسا کرنا اتنا آسان نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ اب وہاں بھی مون سون شروع ہوگیا ہے اور اگر وہ پاکستان کا پانی نہیں کھولتے تو وہ خود سیلابی صورتحال کا شکار ہوجائیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پالیسی ساز اداروں نے اس مسئلے کے سدباب کیلئے کوئی عملی منصوبہ بندی یا کردار ادا نہ کیا تو ہماری زمین کو شدید نقصانات پہنچ سکتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ اثر ہماری زراعت پر پڑے گا۔

  • غزہ میں قحط سالی سے متعلق اقوام متحدہ کی ہوشربا رپورٹ

    غزہ میں قحط سالی سے متعلق اقوام متحدہ کی ہوشربا رپورٹ

    اقوام متحدہ نے غزہ کو قحط زدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے کے کچھ حصوں میں وہاں کے مکین شدید بھوک اور پیاس کا شکار ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی ورلڈ فوڈ پروگرام کی سربراہ سنڈی میک کین نے بتایا ہے کہ غزہ کے موجودہ حالات کو دیکھنا بہت مشکل ہے اور سننا اس سے زیادہ دشوار ہے!۔

    اپنے ایک بیان میں انہوں نے بتایا کہ جنگ کے بعد سے وہاں وحشت کا ماحول ہے، ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہر ممکن حد تک کشیدگی کم کرکے جنگ بندی کا معاہدہ کرواسکیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ کی پٹی کے کچھ حصے شدید قحط سالی کا شکار ہیں اور یہ صورتحال بہت تیزی کے ساتھ جنوبی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

    gaZa

    دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فوج کے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ تاحال جاری ہے جبکہ غزہ کیلئے آنے والی امداد کو بھی شہر میں جانے نہیں دیا جارہا۔

    اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری اور پابندیوں کی وجہ سےغزہ اس وقت شدید نوعیت کے بحرانات سے دوچار ہے جس میں بھوک کا سنگین بحران سار فہرست ہے۔

    مسلسل گولہ باری اور پابندیوں کی وجہ سے علاقے میں متاثرین کو مالی اور طبی امداد پہنچانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ غزہ میں داخل ہونے والی امداد کی مقدار میں حال ہی میں اضافہ ہوا ہے لیکن امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔

  • غزہ میں قحط سالی کی صورتحال، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    غزہ میں قحط سالی کی صورتحال، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

    اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے سینئر امدادی افسر کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ جنگ زدہ غزہ کی ایک چوتھائی آبادی قحط کے دہانے پرپہنچ گئی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے سینئر امدادی افسر راجیش راج سنگھم کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو آنے والے دنوں میں پٹی کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔

    سیکورٹی کونسل کو آگاہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ شمالی غزہ میں دو سال سے کم عمر کے ہر چھ بچوں میں سے ایک شدید کمزوری کا شکار ہے۔ افسر نے کہا کہ فلسطینی علاقے کے تمام 22 لاکھ افراد بقاء کے لیے انتہائی ناکافی خوراک کی امداد پر انحصار کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں تقریباً 575000 افراد بھوک اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو وسیع پیمانے پر قحط سالی کا منہ دیکھنا پڑ سکتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے نیوز پورٹل پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق ہنگامی امدادی خوراک مہیا کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے بتایا ہے کہ غزہ میں بنیادی ضرورت کی خوراک اور طبی مدد میسر نہ آنے کے باعث حاملہ اور حالیہ ایام میں بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کی حالت خاص طور پر خراب ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اتوار کو ‘ڈبلیو ایف پی’ کا پہلا امدادی قافلہ متاثرہ علاقے میں پہنچا تو بھوک کے ستائے افراد نے انہیں گھیر لیا، اس موقع پر ہونے والی فائرنگ کے باعث بہت کم مقدار میں امداد تقسیم ہوسکی۔

    اسپتال کے آئی سی یو میں خاتون سے زیادتی

    ادارے کے مطابق شمالی علاقوں میں حالات مزید خراب ہورہے ہیں، جہاں متاثرہ افراد کے بھوک سے مرنے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔

  • برطانوی دور میں لاکھوں ہندوستانیوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

    برطانوی دور میں لاکھوں ہندوستانیوں کی موت کا ذمہ دار کون؟

    ‘دا گریٹ بُک آف ہاریبل تھنگز'( The Great Book of Horrible Things) مشہور امریکی مؤرخ میتھیو وائٹ کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے دنیا کی تاریخ میں‌ سو بدترین سفاکیوں اور ہولناک واقعات کا تذکرہ کیا ہے جن میں‌ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اسی کتاب میں برطانوی دور میں ہندوستان میں‌ آنے والے قحط سے ہلاکتوں کو تاریخ کی چوتھی بدترین سفاکی کے طور پر جگہ دی گئی ہے۔ مؤرخ کے مطابق انسانی سفاکی نے دو کروڑ 66 لاکھ ہندوستانیوں کی جانیں لے لی تھیں۔

    کہتے ہیں کہ اس تعداد میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران بنگال کے قحط میں ہلاک ہونے والے شامل نہیں‌ ہیں جن کی تعداد 30 سے 50 لاکھ تک تھی۔ اگر یہ تعداد بھی شامل ہو تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں اور بعد میں براہِ راست برطانوی دور حکومت میں تقریباً تین کروڑ ہندوستانی زندگی سے محروم ہوئے۔

    ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے زرخیز خطوں میں ہوتا تھا جسے برطانیہ نے اپنی کالونی بنایا اور یہاں راج کرتا رہا، لیکن جب یہاں انسانوں پر قحط کا قہر ٹوٹا، بھوک نے زندگیاں چھینیں تو برطانیہ کیسے بے نیاز نظر آیا۔ میتھیو وائٹ کے مطابق ہندوستان میں‌ آنے قحطوں کی وجہ ‘تجارتی استحصال’ تھا۔

    کسی انگریز نے برطانوی دور کے ایک قحط کے بعد امید اور امکان کے ڈولتے لمحوں اور بکھرتی زندگی کا منظر یوں بیان کیا ہے:

    ‘دسیوں لاکھ لوگ چند بقیہ ہفتوں تک زندہ رہنے کی آس لیے مر گئے جو انھیں فصل تیار ہونے تک گزارنے تھے۔ ان کی آنکھیں ان فصلوں کو تکتی رہ گئیں جنھیں اس وقت پکنا تھا جب انھیں بہت دیر ہو جاتی۔’

    تاریخ شاہد ہے کہ طاقت ور اور مال دار ممالک دنیا کے مختلف خطّوں کی کم زور اور پسماندہ اقوام کی مجبوریوں کا سودا کرنے میں کام یاب ہونے کے بعد ان کے قدرتی وسائل پر نہ صرف قابض ہوئے بلکہ مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کرکے اپنا خزانہ بھرتے رہے جسے مشہور فلسفی ول ڈیورانٹ نے یوں عیاں کیا ہے:

    ‘ہندوستان میں آنے والے خوف ناک قحطوں کی بنیادی وجہ اس قدر بے رحمانہ استحصال، اجناس کی غیر متوازن درآمد اور عین قحط کے دوران ظالمانہ طریقوں سے مہنگے ٹیکسوں کی وصولی تھی کہ بھوک سے ہلاک ہوتے کسان انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے۔ حکومت مرتے ہوئے لوگوں سے بھی ٹیکس وصول کرنے پر تلی رہتی تھی۔’

  • تھر قحط سالی،  آج ایک اور ننھی کلی مرجھا گئی

    تھر قحط سالی، آج ایک اور ننھی کلی مرجھا گئی

    تھر : مٹھی اسپتال میں غذائی قلت کا شکار ایک اور معصوم پھول آج مرجھا گیا جبکہ عمرکوٹ میں پراسرار بیماری سے سولہ بچے متاثر ہوگئے۔

    تھر کے تپتے صحرا میں موت کے سائے ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے ہیں جبکہ حکام بالا کے دعوے کہیں پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، ذرائع کےمطابق مٹھی کےاسپتال میں زیرِ علاج غذائی قلت کا شکار دو سالہ ننھی بچی موت کے آغوش میں چلی گئی ۔

    جس کے بعد تھر میں قحط سے جاں بحق بچوں کی تعداد سینتیس ہوگئی ہے۔

    دوسری جانب عمر کوٹ میں انوکھی بیماری پنجے گاڑ رہی ہے، صحرائی گاوٴں جھمراڑی میں ایک سال سے پندرہ سال تک کی عمر کے سولہ بچے پُراسرار جسمانی معذوری کا شکار ہو گئے ہیں جو کہ انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

  • مٹھی: قحط سالی سے ایک اور بچی دم توڑ گئی

    مٹھی: قحط سالی سے ایک اور بچی دم توڑ گئی

    مٹھی: سرکاری اسپتال میں آج ایک اور بچی دم توڑ گئی جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد چھتیس ہوگئی ہے۔

    تھر میں قحط سالی کی صورت حال برقرار ہے، آج ایک اور بچی سول اسپتال مٹھی میں پانی کی قلت اور صحت کے ناقص انتظامات کی نظر ہوگئی، جس کےبعد ہلاکتوں کی تعداد چھتیس تک جا پہنچی ہے۔

    سول اسپتال مٹھی کے ڈاکٹر دیال کےمطابق صرف ان کے اسپتال میں اکتالیس بچے زیرِ علاج ہیں، اس کے علاوہ مٹھی کے دیگر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں بھی سینکڑوں بچے علاج کی غرض سے داخل کئے گئے ہیں۔

    دوسری جانب حکومت نے پینے کے صاف پانی کے ٹینکرز تھر کے مختلف علاقوں میں روانہ کردیئے ہیں جبکہ پاکستان ریلیف فاونڈیشن کے سربراہ حلیم عادل شیخ بھی امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لئے تھر پہنچ گئے۔

  • مٹھی :غذائی قلت سےایک خاتون اورایک بچہ دم توڑ گیا

    مٹھی :غذائی قلت سےایک خاتون اورایک بچہ دم توڑ گیا

    مٹھی :سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت سےایک خاتون اورایک بچہ دم توڑ گیا۔ ڈیڑھ ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 58 ہوگئی ،صحرائے تھرمیں قحط سالی لوگوں کی جان کے در پہ ہے ۔ خوراک کی کمی اور مناسب طبی سہولیات کے نہ ہونے کے باعث کئی افراد موت کی نیند سوگئے

    سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت سے ایک خاتون اورایک بچہ آج پھر دم توڑ گیا ،گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 58 ہوگئی ۔ مٹھی میں انسان تو انسان جانور اور مویشی بھی اس قلت کی نظر ہورہے ہیں ۔

    انتطامیہ کی جانب سے مناسب اقدامات نہ کئے جانے پر لوگ سراپا احتجاج ہیں اور ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

  • تھرپارکر:ایک مرتبہ پھر قحط سالی کے باعث،1بچی جاں بحق

    تھرپارکر:ایک مرتبہ پھر قحط سالی کے باعث،1بچی جاں بحق

    تھرپارکر: ایک مرتبہ پھر قحط سالی کے باعث موت کا رقص شروع ہوگیا، تھر میں تعینات ڈاکٹرز بھی چار ماہ سے تنخواہ سے محروم ہیں۔

    تھرمیں قحط سالی ایک مرتبہ پھرننھی کلیوں کونگلنے لگی، غذائی قلت کے باعث بیماری میں مبتلا مٹھی کے اسپتال میں ایک اور بچی جاں بحق ہوگئی، اسے سندھ حکومت کی نااہلی کہیے یا لاپروائی تھر کیلئے بھرتی کیے گئے اڑسٹھ ڈاکٹرز کوچارہ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔

    صوبائی حکومت نے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کااعلان تو کردیا ہے لیکن اسپتال کاعملہ بیمار بچوں کی نگہداشت کے بجائے انہیں ایک ہی دن میں صحت مند قرار دے کرفارغ کردیتا ہے، جب کہ کچھ بچوں کی حالت تشویشناک کہہ کرحیدرآباد منتقل کردیا جاتا ہے۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ صورتحال پر بروقت قابو نہ پایا گیا توصورتحال سنگین ہوسکتی ہے۔