Tag: قحط

  • کیا ہماری زمین بنجر صحرا میں بدل جائے گی؟

    کیا ہماری زمین بنجر صحرا میں بدل جائے گی؟

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’مستقبل کو مل کر اگائیں‘۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔

  • پاک بھارت ممکنہ جنگ: پوری دنیا بھوک سے مرجائے گی

    پاک بھارت ممکنہ جنگ: پوری دنیا بھوک سے مرجائے گی

    پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی روز سے سخت کشیدگی دیکھی جارہی ہے جو آج بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کے بعد کئی گنا بڑھ گئی، دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں جنگ کی صورت میں ہونے والے نقصانات کس قدر تباہ کن ہوں گے؟

    سنہ 2007 میں امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سے کی جانے والی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق پاک بھارت جنگ میں اگر 100 نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے (یعنی دونوں ممالک کے مشترکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کا نصف)، تو 2 کروڑ 21 لاکھ لوگ براہ راست اس کی زد میں آ کر موت کا شکار ہوجائیں گے۔

    ہلاکتوں کی یہ تعداد دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی ہلاکتوں کی نصف ہے۔ یہ ہلاکتیں صرف پہلے ہفتے میں ہوں گی اور مرنے والے تابکاری اور آتش زدگی کا شکار ہوں گے۔

    اوزون کی تہہ غائب ہوجائے گی

    انٹرنیشنل فزیشن فار دا پریوینشن آف نیوکلیئر وار کی سنہ 2013 میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پاک بھارت جنگ میں نیوکلیئر ہتھیار استعمال ہوں گے اور یہ ہتھیار دنیا کی نصف اوزون تہہ کو غائب کردیں گے۔

    اوزون تہہ زمین کی فضا سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی مضر اور تابکار شعاعوں کو زمین پر آنے سے روک دیتی ہے۔ اوزون تہہ کی بربادی سے پوری دنیا کی زراعت شدید طور پر متاثر ہوگی۔

    رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں کے استعمال سے گاڑھا دھواں پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو کئی عشروں تک قائم رہے گا۔ اس دھوئیں کی وجہ سے زمین کی 40 فیصد زراعت ختم ہوجائے گی۔

    موسمیاتی تبدیلیوں اور تابکاری کے باعث زراعت کے متاثر ہونے سے دنیا کے 2 ارب افراد بھوک اور قحط کا شکار ہوجائیں گے۔

    برفانی دور جیسے حالات

    پاک بھارت ممکنہ جنگ میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد ان کا دھواں زمین کی فضا کے اوپر ایک تہہ بنا لے گا جو سورج کی روشنی کو زمین پر آنے سے روک دے گا۔ یہاں سے زمین پر سرد موسم کا آغاز ہوجائے گا جسے ‘نیوکلیئر ونٹر‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس وقت زمین پر آئس ایج یعنی برفانی دور جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے۔ یہ موسم بالواسطہ زراعت کو متاثر کرے گا۔

    سورج کی حرارت اور روشنی کی عدم موجودگی سے بچی کھچی زراعت میں بھی کمی آتی جائے گی یوں قحط کی صورتحال مزید خوفناک ہوجائے گی۔

    پڑوسی ممالک بھی براہ راست زد میں آئیں گے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بھارت پر نیوکلیئر حملہ اور بھارت کا پاکستان پر حملہ خود ان کے اپنے علاقوں کو بھی متاثر کرے گا۔ دوسری جانب افغانستان کے سرحدی علاقے بھی ان حملوں سے براہ راست متاثر ہوں گے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت سے متصل ممالک میں بھی ہلاکتیں ہونے کا خدشہ ہوگا جبکہ تابکاری سے لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے۔

  • حوثی جنگجو یمنی شہریوں کو قحط کا شکار بنارہے ہیں، خالد بن سلمان

    حوثی جنگجو یمنی شہریوں کو قحط کا شکار بنارہے ہیں، خالد بن سلمان

    واشنگٹن : امریکا میں تعینات سعودی سفیر خالد بن سلمان نے کہا ہے کہ عرب اتحاد یمن میں حوثیوں کی مکمل پسپائی تک یمن کی معاونت جاری رکھے گا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں تعینات سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ پر ٹویٹ کیا ہے کہ جس میں ان کا کہنا تھا کہ حوثی جنگجؤ یمن کو قحط سے بچانے کے بجائے شہریوں کو بھوکا مار رہے ہیں۔

    خالد بن سلمان کا کہنا تھا کہ یمن میں برسرپیکار حوثی جنگجوؤں کی جانب سے جنگ زدہ ملک کے شہریوں کی امداد کے لیے بھیجا امدادی سامان لوٹ لیا جاتا ہے یا نذر آتش کردیا جاتا ہے اور حوثی اس کو ایک جنگی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

    سعودی سفیر نے ٹویٹ میں کہا کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی لوٹ مار کے باوجود عرب اتحاد عالمی تنظیموں کی مدد سے یمن میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے گا اور انسانی بحران کے خاتمے کےلیے وسائل مہیا کرتا رہے گا۔

    خالد بن سلمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والے عرب اتحاد کی جانب سے سویڈن میں ہونے والے امن مذاکرات اور معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسکی پاسداری کی لیکن حوثی جنگجوؤں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

    خالد بن سلمان نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ کیے گئے ٹویٹ میں ایک ویڈیو بھی شیئر کی جس میں امدادی سامان کے گودام کو نذر آتش ہوتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے، ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ کیا عالمی برادری سویڈن معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائے گی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل سعودی عرب کے سفیر خالد بن سلمان نے حوثیوں اور یمن کی آئینی حکومت کے در میان ہونے والے مذاکرات سے متعلق پیغام میں کہا  تھا کہ سعودی عرب یمن میں جاری سیاسی بحران کا پُر امن حل چاہتا ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سعودی حکومت حوثیوں کے مسلسل ٹال مٹول کے باوجود یمن کے سیاسی بحران کو مذاکرات کےذریعے حل پر پُرامید ہے۔

  • بلوچستان میں خشک سالی، لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور، قحط کی صورتِ حال

    بلوچستان میں خشک سالی، لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور، قحط کی صورتِ حال

    کوئٹہ: ملک کے اہم صوبے بلوچستان میں خشک سالی شدید نوعیت اختیار کر گئی ہے، لوگ اپنے باغات بھی کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان شدید طور پر خشک سالی کی لپیٹ میں ہے، جس کے باعث لوگ اپنے باغات کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں‘ مستونگ کی تحصیل دشت میں ڈھائی سو سے زائد ایکڑ اراضی پر مشتمل پھلوں کے درخت کاٹ دیے گئے۔

    [bs-quote quote=”علاقے میں اب تک 250 سو ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل سیب‘ خوبانی اور دیگر پھلوں کے باغات کاٹے جا چکے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے منظور احمد کی رپورٹ کے مطابق خشک سالی سے متاثرہ مستونگ کی تحصیل دشت میں پھلوں کے درخت مسلسل سوکھ رہے ہیں۔

    مقامی لوگوں نے گزشتہ روز مزید 20 ایکڑ پر محیط باغات کاٹ دیے‘ باغ بانوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب تک 250 سو ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل سیب‘ خوبانی اور دیگر پھلوں کے باغات کاٹے جا چکے ہیں۔

    باغ بانوں کا کہنا ہے کہ اگر صورتِ حال یہی رہی تو علاقہ بنجر ہو جائے گا اور لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔


    یہ بھی پڑھیں:  بلوچستان حکومت اور ایشیائی ترقیاتی بینک میں قرض اور امداد کا معاہدہ طے


    مقامی زمین داروں کے مطابق بارشوں میں مسلسل کمی اور گزشتہ برس خاطر خواہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح 12 سو فٹ نیچے تک گر چکی ہے، جہاں سے پانی کا حصول بہت مشکل ہے۔

    صوبے میں خشک سالی کی دن بہ دن بھیانک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، محکمۂ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے دوران صرف 978 ملی میٹر بارش ہوئی جو معمول سے 733.5 ملی میٹر کم ہے۔

    بارش نہ ہونے سے بلوچستان کے 20 اضلاع شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں جن میں چاغی‘ نوشکی اور خاران کے بعض علاقوں میں قحط کی سی صورتِ حال بن گئی ہے۔

  • سال 2018: بلوچستان کے متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں

    سال 2018: بلوچستان کے متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں

    کوئٹہ: رواں برس صوبہ بلوچستان میں معمول سے نہایت کم بارشیں ہوئیں جس کے باعث متعدد علاقے خشک سالی کی لپیٹ میں آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان میں گزشتہ 2 دہائیوں سے بارشوں میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018 میں بارشوں میں مزید کمی دیکھی گئی۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان میں سال بھر میں مجموعی طور پر نہایت کم بارشیں ہوئیں جس کے باعث صوبے کے 14 اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں آگئے۔

    بارشوں میں کمی کی وجہ سے رواں برس زراعت کا شعبہ بھی شدید متاثر رہا۔ دریاؤں میں پانی کی کمی کے باعث گرین بیلٹ اور خشک آبہ علاقوں میں بھی زرعی پیداوار معمول سے کم رہی۔

    موسمی تبدیلیوں اور کم ہوتے آبی ذخائر سے نمٹنے کے لیے رواں برس کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ نئی حکومت نے واٹر ایمرجنسی نافذ کردی تاہم کوئی بڑا ڈیم اس سال بھی مکمل نہ کیا جاسکا اور نہ ہی اینڈرڈ ڈیم منصوبے پر کوئی قابل ذکر پیشرفت ہوئی۔

    ماہرین کے مطابق صورتحال یہی رہی تو آئندہ برس صوبے کے بیشتر علاقوں میں قحط پڑنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

  • تھر کی صورتحال سے کیسے نمٹیں؟ سندھ حکومت حرکت میں آگئی

    تھر کی صورتحال سے کیسے نمٹیں؟ سندھ حکومت حرکت میں آگئی

    کراچی: تھرپارکر کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت حرکت میں آگئی، وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے آج شام اجلاس طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی زیرصدارت آج شام چار بجے اجلاس ہوگا، جس میں تھر کی موجودہ صورت حال پر گفتگو ہوگی اور قحط سے نمٹنے کے لیے تجاویز زیر غور آئیں گی۔

    اجلاس میں صوبائی وزرا، چیف سیکریٹری سندھ اور متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز شریک ہوں گے، اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے احکامات کاجائزہ لیا جائے گا۔

    تھر کی صورت حال پر جامع پالیسی مرتب کرکے عدالت میں پیش کی جائے گی، خیال رہے کہ رواں سال قحط کی وجہ سے 400 سے زائد بچوں کی اموات ہوئی تھیں۔

    حکومت جلد تھر کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کرے گی: وفاقی وزیر صحت

    خیال رہے کہ دو روز قبل وفاقی وزیر صحت عامرمحمود کیانی نے وزیر اعظم عمران خان کی خصوصی ہدایت پر سندھ کے علاقے تھرکا دورہ کیا تھا۔

    اس ضمن میں وفاقی وزیرصحت عامرمحمود کیانی نے کہا تھا کہ حکومت جلد تھر کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان کرے گی۔

    عامر کیانی نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت مشکل میں تھرکےباسیوں کوتنہانہیں چھوڑے گی، تھر کے باسیوں کے لئے جلد صحت کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ تھر میں صحت کی ناکافی سہولیات اور بچوں کی بڑھتی اموات کی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

  • درختوں کے وہ حیران کن فوائد جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے

    درختوں کے وہ حیران کن فوائد جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے

    ہم نے بچپن میں اپنی کتابوں میں درختوں کے بہت سے فوائد پڑھے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں جو سانس لینے کے لیے ضروری ہے۔

    اس کے علاوہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ یہ انسانوں کو لکڑیاں اور کاغذ جبکہ جنگلی حیات کو رہائش فراہم کرتے ہیں۔

    تاہم ان کے علاوہ بھی درختوں کے کچھ حیران کن فوائد ایسے ہیں جو آپ نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنے ہوں گے۔


    سیلاب سے بچاؤ

    جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت موجود ہوتے ہیں اس علاقے کو سیلاب کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔

    درخت کی جڑیں نہ صرف خود اضافی پانی کو جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد دیتی ہیں جس کے باعث پانی جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔


    قحط سے بچاؤ

    جس طرح درخت سیلابوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں اسی طرح یہ قحط اور خشک سالی سے بھی بچاتے ہیں۔

    یہ اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی کو ہوا میں خارج کرتے ہیں اور بادلوں کی تشکیل میں بھی مدد کا باعث بنتے ہیں۔


    لینڈ سلائیڈنگ سے تحفظ

    درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر رکھتی ہیں جس کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ یا لینڈ سلائیڈنگ نہیں ہونے پاتی۔


    زمین کی زرخیزی میں اضافہ

    کسی علاقے میں درختوں کی موجودگی اس علاقے کی زمین کی زرخیزی کی ضامن ہے۔

    درخت مسلسل مٹی اور زمین کو پانی فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے وہ بنجر نہیں ہونے پاتی اور اس کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔


    صوتی آلودگی میں کمی

    کیا آپ جانتے ہیں درخت شور کی آلودگی میں بھی کمی کرتے ہیں؟ یہ کسی جگہ پر موجود پرشور آوازوں کو بھی اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    صرف درخت ہی نہیں بلکہ اس کی شاخیں اور پتے بھی یہ کام کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اربن پلاننگ میں اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے ارد گرد اور پرشور مقامات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ یہ اس مقام سے شور کو جذب کر کے اسے پرسکون بنائیں۔


    لوگوں کی خوشگوار صحت

    شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جس مقام پر زیادہ درخت موجود ہوتے ہیں وہاں کے لوگ زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔

    درختوں کی موجودگی تناؤ اور ڈپریشن کو کم کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    زمین کو صحرا میں تبدیل ہونے سے بچانے کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں صحرا زدگی اور قحط سے حفاظت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد خشک سالی اور قحط کے اثرات میں کمی اور صحرا زدگی کے عمل کی روک تھام سے متعلق آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’زمین بہت قیمتی ہے، اس پر سرمایہ کاری کریں‘۔

    صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتا ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    یہ عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی علاقے میں خشک سالی پیدا ہوجائے، کسی مقام سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹ دیا جائے، یا زراعت میں ایسے ناقص طریقہ کار اور کیمیائی ادویات استعمال کی جائیں جو زمین کی زرخیزی کو ختم کر کے اسے بنجر کردیں۔

    براعظم افریقہ اس وقت سب سے زیادہ صحرا زدگی سے متاثر ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 1 سو ممالک اور 1 ارب افراد صحرا زدگی کے خطرے کا شکار ہوجانے کی زد میں ہیں۔

    اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہو کر بنجر ہو رہی ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں جاری خانہ جنگیاں بھی صحرا زدگی کو رونما کرنے کی ایک بڑی وجہ ہیں جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں، پھر بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں کچھ بھی اگانا ناممکن ہوجاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    علاوہ ازیں دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والا تغیر یعنی کلائمٹ چینج، شدید گرم درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی بھی زمین کو خشک کر رہی ہے اور صحرا زدگی کا عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں۔ اس کے لیے غیر آباد زمینیں بہترین ہیں جہاں کاشت کاری یا باغبانی کی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    کلائمٹ چینج مایا تہذیب کے خاتمے کی وجہ

    مایا تہذیب ایک قدیم میسو امریکی تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب موجودہ میکسیکو، ہونڈراس اور گوئٹے مالا کے علاقے پر محیط تھی۔

    یہ تہذیب حضرت عیسیٰ کی آمد سے کئی سو سال پہلے سے دنیا میں موجود تھی تاہم اس کا عروج 250 عیسوی کے بعد شروع ہوا جو تقریباً نویں صدی تک جاری رہا۔

    مایا تہذیب کے لوگ نہایت ذہین اور ترقی یافتہ تھے۔ یہ تہذیب میسو امریکا کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر اور رسم الخط تھا۔

    ان کی ایک اور خصوصیت ریاضی اور علم فلکیات میں ان کی مہارت تھی۔ مایا دور کی تعمیر کردہ عمارتوں کی پیمائش اور حساب آج بھی ماہرین کو دنگ کردیتی ہے۔ یہ قوم فن اور تعمیرات کے شعبے میں بھی یکتا تھی۔


    مایا تہذیب کا زوال

    قدیم دور کی نہایت ترقی یافتہ یہ تہذیب کیوں زوال پذیر ہوئی، یہ سوال آج تک تاریخ کے پراسرار رازوں میں سے ایک تھا، تاہم کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق نے کسی حد تک اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

    مایا قوم ہسپانویوں کے حملے کا شکار بھی بنی اور ہسپانویوں نے انہیں بے تحاشہ نقصان پہنچایا، تاہم وہ اس قوم کو مکمل طور پر زوال پذیر کرنے میں ناکام رہے۔

    محققین کے مطابق ہسپانویوں کے قبضے کے دوران اور بعد میں بھی اس قوم کی ترقی کا سفر جاری تھا۔

    لیکن وہ کون سی وجہ تھی جس نے اس ذہین و فطین قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی تہذیب کے خاتمے کی عمومی وجوہات بیرونی حملہ آوروں کے حملے، خانہ جنگی، یا تجارتی طور پر زوال پذیر ہونا ہوتے ہیں۔

    تاہم ایک اور وجہ بھی ہے جس پر اس سے قبل بہت کم تحقیق کی گئی یا اسے بہت سرسری سی نظر سے دیکھا گیا۔

    سنہ 1990 سے جب باقاعدہ طور پر موجودہ اور قدیم ادوار کے موسموں کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا تب ماہرین پر انکشاف ہوا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اس عظیم تہذیب کے زوال کی وجہ بنا۔

    مزید پڑھیں: تاریخی دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 250 عیسوی سے 800 عیسوی تک یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں بے تحاشہ بارشیں ہوتی تھیں، اور یہاں کی زمین نہایت زرخیز تھیں۔

    تاہم حالیہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سنہ 820 عیسوی میں یہاں خشک سالی اور قحط کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا جو اگلے 95 سال تک جاری رہا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مایا تہذیب کے زیادہ تر شہر اسی عرصے کے دوران زوال پذیر ہونا شروع ہوئے۔ یہ نویں صدی کا شدید ترین کلائمٹ چینج تھا جس نے ایک عظیم تہذیب کو زوال کی طرف گامزن کردیا۔

    تاہم اس قحط سے تمام شہر متاثر نہیں ہوئے۔ کچھ شہر اس تباہ کن قحط کے عالم میں بھی اپنے قدموں پر کھڑے رہے۔

    تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط پورے خطے میں نہیں آیا بلکہ اس نے مایا تہذیب کے جنوبی حصوں کو متاثر کیا جہاں اس وقت گوئٹے مالا اور برازیل کے شہر موجود ہیں۔

    اس عرصے کے دوران شمالی شہر معمول کے مطابق ترقی کرتے رہے اور وہاں کاروبار زندگی بھی رواں رہا۔

    ماہرین موسم کے اس انوکھے تغیر پر مشکوک ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ موسمیاتی تغیر صرف ایک حصے کو متاثر کرے جبکہ دوسرا حصہ ذرا بھی متاثر نہ ہو، تاہم وہ اس کلائمٹک شفٹ کی توجیہہ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔


    عظیم قحط

    مایا تہذیب کے بارے میں حال ہی میں کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق نویں صدی کا یہ قحط جب اختتام پذیر ہوا تو دسویں صدی میں موسم ایک بار پھر سے معمول پر آنے لگا۔ قحط سے متاثر شہر ایک بار پھر خوشحال اور زرخیز ہونے لگے۔

    تاہم یہ بحالی عارضی تھی۔

    گیارہویں صدی کے آغاز سے ہی ایک ہولناک اور تباہ کن قحط اس خطے میں در آیا کہ جو 2 ہزار سال کی تاریخ کا بدترین قحط تھا۔ ماہرین نے اس قحط کو عظیم قحط کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قحط اس تہذیب کے لیے ایک کاری وار تھا جس کے بعد یہ تہذیب سنبھل نہ سکی اور بہت جلد اپنے زوال کو پہنچ گئی۔

    مضمون بشکریہ: بی بی سی ارتھ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔