Tag: قدرت اللہ شہاب

  • قدرت اللہ شہاب: افسانوں سے خود نوشت تک

    قدرت اللہ شہاب: افسانوں سے خود نوشت تک

    اردو ادب میں قدرت اللہ شہاب نے بطور افسانہ نگار اپنے اوّلین تعارف کے بعد خود کو ایک ادیب اور نثر نگار کی حیثیت سے اس وقت منوایا جب اردو ادب کے افق پر کئی بڑے نام پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے۔ ان میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر اور ممتاز مفتی و دیگر شامل تھے جن کے درمیان شہاب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ قدرت اللہ شہاب کا پہلا افسانہ 1938ء میں چندراوتی کے نام سے شائع ہوا تھا۔

    قدرت اللہ شہاب کی ایک وجہِ شہرت ان کا بیورو کریٹ ہونا بھی ہے اور وہ ایسی ادبی شخصیت بھی ہیں جن پر کچھ الزامات بھی ہیں اور کی تخلیقات پر اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917 کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم جموں و کشمیر اور انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ماسٹرز کیا اور 1941 میں انڈین سول سروس جوائن کی۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران بہار اور اڑیسہ میں خدمات انجام دینے کے بعد 1943 میں بنگال میں تعینات رہے۔ 1947 کے اوائل میں ان کی قائداعظم سے بھی ملاقات ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد شہاب کی بیوروکریسی میں خدمات اور ان کے وسیع تجربہ کو دیکھتے ہوئے انھیں‌ یہاں متعدد انتظامی عہدوں پر تقرری دی گئی۔ وہ آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور بطور سیکریٹری ایجوکیشن بھی رہے۔ جنرل یحیی خان کے دور میں شہاب نے سول سروس سے استعفٰی دے کر یونیسکو سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔

    قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سوانح حیات ’شہاب نامہ‘ قابل ذکر ہیں۔ قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل بھی ہے۔ وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اردو زبان کے دوسرے ممتاز ادیبوں اور اہل قلم کے مقابلے میں شہاب ایک نہایت بااثر شخص بھی تھے اور انھوں نے بھرپور اور نہایت مصروف زندگی بھی گزاری۔ سرکاری ملازمت اور مختلف شہروں‌ میں قیام کے سبب ان کے تجربات و مشاہدات، اور زندگی کے واقعات و تذکروں میں بھی کئی رنگ اور وسعت پائی جاتی ہے۔ دیکھا جائے تو شہاب نے معاصر قلم کاروں کے مقابلے میں بہت کم لکھا مگر ان کی کتابیں اردو ادب کے نثری سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ فسادات کو اس دور کے ہر ادیب نے موضوع بنایا ہے اور شہاب نے بھی فسادات پر مبنی ایک ناولٹ یاخدا یادگار چھوڑا ہے۔ یہ 1948ء میں شائع ہوا تھا۔ ان کے تین مشہور افسانوی مجموعے ان کی زندگی میں متعدد بار شائع ہوئے لیکن جس تصنیف نے قدرت اللہ شہاب کو جاودانی عطا کی وہ 1987ء میں شہاب نامہ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس سے قبل قدرت اللہ شہاب اس کے ابتدائی چند ابواب ادبی رسائل و جرائد میں شائع کروا چکے تھے اور جب کتاب چھپی تو اتنی مقبول ہوئی کہ ایک ہی سال میں اس کتاب کے متعدد ایڈیشن شائع کرنے پڑے۔

    شہاب نامہ ایک اہم اور دلچسپ آپ بیتی ہے۔ اردو خودنوشت سوانح عمریوں میں اس کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کی اہمیت مختلف حوالوں سے ہے۔ اوّلا یہ نہ صرف اردو کے غیر افسانوی ادب کا شاہ کار ہے بلکہ اپنے عہد کا ایک اہم سیاسی و تاریخی مرقع بھی ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں بیسویں صدی کے کئی بڑے اور اہم سیاسی و تاریخی حالات و واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ شہاب نامہ میں مصنف نے اپنی زندگی کے شب و روز اور حالات و واقعات کو بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کیا ہے۔

    بھاگلپور اور ہندو مسلم فسادات، ایس ڈی او، نندی گرام اور لارڈ ویول، بملا کماری کی بے چین روح، پاکستان کا مطلب کیا اورسادگی مسلم کی دیکھ شہاب نامہ کے ایسے ابواب ہیں جنھیں پڑھ کر قاری قدرت اللہ شہاب کی زندگی کو جان سکتا ہے۔ انھوں نے ان ابواب میں اس دور کے اہم حالات و واقعات کی دل چسپ معلومات بھی ہم تک پہنچائی ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب کو پاکستان کے ایوانِ صدر، اس دور کے اہم اجلاسوں میں شرکت اور بہت سی بااثر اور فیصلہ ساز شخصیات کو بھی قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں ہمیں سیاست اور تاریخ کے عروج و زوال کے ساتھ بیوروکریسی اور اداروں کے بارے میں‌ بھی بہت کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔

  • احسانِ عظیم!

    احسانِ عظیم!

    سنگلاخ پہاڑیوں اور خار دار جنگل میں گھرا ہوا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جس میں مسلمانوں کے بیس پچیس گھر آباد تھے۔

    ان کی معاشرت، ہندوانہ اثرات میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ رمیش علی، صفدر پانڈے، محمود مہنتی، کلثوم دیوی اور بھادئی جیسے نام رکھنے کا رواج عام تھا۔ گاؤں میں ایک نہایت مختصر کچی مسجد تھی جس کے دروازے پر اکثر تالا پڑا رہتا تھا۔ جمعرات کی شام کو دروازے کے باہر ایک مٹی کا دیا جلایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ نہا دھو کر آتے تھے اور مسجد کے تالے کو عقیدت سے چوم کر ہفتہ بھر کیلئے اپنے دینی فرائض سے سبکدوش ہوجاتے تھے۔

    ہر دوسرے تیسرے مہینے ایک مولوی صاحب اس گاؤں میں آکر ایک دو روز کے لئے مسجد کو آباد کر جاتے تھے۔ اس دوران میں اگر کوئی شخص وفات پا گیا ہوتا، تو مولوی صاحب اس کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھتے تھے۔ نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دیتے تھے۔ کوئی شادی طے ہوگئی ہوتی تو نکاح پڑھوا دیتے تھے۔ بیماروں کو تعویذ لکھ دیتے تھے اور اپنے اگلے دورے تک جانور ذبح کرنے کے لئے چند چھریوں پر تکبیر پڑھ جاتے تھے۔ اس طرح مولوی صاحب کی برکت سے گاؤں والوں کا دین اسلام کے ساتھ ایک کچا سا رشتہ بڑے مضبوط دھاگے کے ساتھ بندھا رہتا تھا۔

    برہام پور گنجم کے اس گاؤں کو دیکھ کر زندگی میں پہلی بار میرے دل میں مسجد کے ملّا کی عظمت کا کچھ احساس پیدا ہوا۔ ایک زمانے میں ملّا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہوا کرتے تھے لیکن سرکار انگلشیہ کی عملداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا، اسی رفتار سے ملّا اور مولوی کا تقدس بھی پامال ہوتا گیا۔ رفتہ رفتہ نوبت بایں جارسید کہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیر بن گئے۔ داڑھیوں والے ٹھوٹھ اور ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملّا کا لقب ملنے لگا۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنز و تشنیع کے طور پر مولوی کہا جاتا تھا۔ مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذے ملّاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں۔ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھ رہا تھا۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی، نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع ، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔

    برہام پور گنجم کے گاؤں کی طرح جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہوچکی تھی، ملّا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔ یہ ملّا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعداد و شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا اندارج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا۔ برصغیرکے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسان عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہوسکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔

    (شہاب نامہ سے اقتباس)

  • جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچّوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔

    ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ایئر کنڈیشن ڈبّے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

    منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحائف دیے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لیے بَر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزّت لوگوں میں ہوتا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لیے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

    کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دوبھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے۔ دیکھیے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

    ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا! ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

    ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں۔ ‘میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔’

    ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھے برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سَر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اوّل آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالبِ علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

    اڑتے اڑتے یہ خبر سَر سیّد کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انّیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچر ہو گئے۔

    سَر سیّد کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

    پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

    اس حرکت پر سر سیّد کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا بجھایا، ڈرایا دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

    ‘کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟’ سر سیّد نے کڑک کر پوچھا۔

    ‘جی ہاں۔’ عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔ یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سیّد آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔

    عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چنانچہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہوگئے۔

    (‘ماں جی’ سے اقتباس، از قلم قدرت اللّہ شہاب)

  • کٹک کی آسیب زدہ کوٹھی اور بملا کماری کی چِتا

    کٹک کی آسیب زدہ کوٹھی اور بملا کماری کی چِتا

    قدرت اللہ شہاب پاکستان کے نام وَر ادیب اور مشہور بیورو کریٹ تھے۔ ’’شہاب نامہ‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے جو بہت مقبول ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے ادب کے میدان میں اور بیوروکریسی میں رہتے ہوئے اپنی خدمات اور کاموں‌ کے وہ نقوش چھوڑے جو دوسروں کے لیے چراغِ راہ ثابت ہوئے۔

    قدرت اللہ شہاب کو پاکستان بننے سے قبل کٹک (انڈیا) میں جو سرکاری رہائش گاہ ملی وہ کوٹھی آسیب زدہ مشہور تھی۔ اس کا ایڈریس 81 سول لائنز تھا۔ اس رہائش گاہ میں پیش آنے والے بعض دہشت انگیز اور سنسنی خیز واقعات کا بھی قدرت اللہ شہاب نے اپنی اس کتاب میں تذکرہ کیا ہے جو ہر نہایت دل چسپ بھی ہے۔ یہاں ہم بملا کماری کا آسیب نامی واقعے کی تفصیل قارئین کی توجہ کے لیے پیش کررہے ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت کے اس پراسرار اور آسیبی واقعات کے باب میں بتایا ہے کہ ہلکے زرد رنگ کی خوش نما کوٹھی کے اطراف ڈیڑھ دو ایکڑ پر وسیع لان پھیلا ہوا تھا، جس میں گھٹنوں گھٹنوں تک گھاس اگی تھی، ہر طرف سوکھے کالے اور پیلے پتوں کے انبار، ایک طرف آم اور جامن کے کچھ درخت جن کے نیچے کتّے اور بلیاں روتے رہتے تھے۔ دوسری طرف برگد کا ایک گھنا پیڑ تھا جس سے سیکڑوں چمگادڑیں الٹی لٹکی رہتی تھیں۔

    کوٹھی کے عقب میں ایک کچا تالاب تھا جس پر سرسبز کائی کی دبیز تہ جمی ہوئی تھی۔ کوٹھی سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر باورچی خانہ اور سرونٹ کوارٹرز تھے جہاں میرا خانساماں اور ڈرائیور رہائش پذیر تھے۔

    یہ ایک طویل باب ہے جس میں کئی محیّرالعقل اور خوف زدہ کردینے والے واقعات لکھے ہوئے ہیں کہ شہاب صاحب کے بیڈ روم کی روشنی خود بخود جلتی بجھتی رہتی اور سوئچ کے اوپر نیچے ہونے کی آواز آتی۔ عطر حنا اور انگریزی پرفیوم کی خوشبو پھیل جاتی۔ ایک لڑکی کا ہیولا بھی نظر آتا۔ اس کے بعد اچانک غیظ وغضب کا طوفان آجاتا۔ پتھروں کی بارش ہونے لگتی۔ کمرے کا فرنیچر فضا میں معلق ہو جاتا۔ شہاب صاحب صبح سویرے یہ پتھر ٹوکروں کے حساب سے اٹھا کر تالاب میں ڈال آتے تاکہ خانساماں اور ڈرائیور یہ سب دیکھ کر خوف زدہ نہ ہوں۔

    اس عمارت میں رہائش کے دوران مصنّف کو مختلف واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ واقعات تواتر سے رات دس ساڑھے دس بجے شروع ہوتے اور صبح تین بجے تک جاری رہتے۔ اس کے بعد مکمل امن ہوجاتا تھا۔ ایک رات پتھروں کے بجائے انسانی ہڈیوں کی برسات شروع ہوگئی جن میں چند انسانی کھوپڑیاں بھی شامل تھیں۔ یہ منظر ایسا کریہہ اور گھناؤنا تھا کہ شہاب صاحب نے صبح کا انتظار کیے بغیر ان ہڈیوں کو ایک چادر میں لپیٹا اور تالاب میں ڈالنے کی غرض سے پچھلے حصّے کی طرف نکلے تو تالاب سے سبز کائی میں لپٹا ایک ہیولا ان کی جانب بڑھا۔ یہ جناب ہڈیوں کو وہیں پھینک کر گرتے پڑتے اپنے کمرے کی طرف بھاگے۔ یہ شہاب نامہ کے کئی صفحات پر پھیلے ہوئے واقعات ہیں جن کے پیش آنے کا سبب قدرت اللہ شہاب نے یوں بیان کیا ہے:

    "کئی ماہ کی لگاتار ہیبت، وحشت اور آسیب کی تہ میں انجامِ کار یہ راز کھلا کہ اٹھارہ بیس برس پہلے اس گھر میں آئی سی ایس کا ایک اوباش افسر رہا کرتا تھا۔شادی کا جھانسہ دے کر اس نے الٰہ آباد میں کالج کی ایک طالبہ بملا کماری کو ورغلایا اور خفیہ طور پر اسے اپنے ساتھ کٹک لے آیا۔ شادی اس نے کرنی تھی نہ کی۔ سات آٹھ ماہ بعد جب بملا ماں بننے کے قریب ہوئی تو ظالم نے اس کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور لاش کو ڈرائنگ روم کے جنوب مشرقی کونے میں دفن کر دیا۔”

    "اس وقت سے بملا کی نخیف و نزارماں الٰہ آباد میں بیٹھی بڑی شدّت سے اپنی بیٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ اُسی وقت سے بملا کماری بھی اسی کوشش میں سرگرداں تھی کہ کسی طرح وہ اپنی ماں تک صحیح صورت حال کی خبر پہنچا دے تاکہ انتظار کے اس کرب ناک عذاب سے اسے نجات حاصل ہو۔ اس کے علاوہ اس کی اپنی خواہش بھی تھی کہ اس کی ہڈیوں کا ڈھانچہ کھود کر باہر نکالا جائے اور اس کے دھرم کے مطابق اس کا کِریا کرم کیا جائے۔ اس عرصہ میں قاتل خود بھی مر چکا تھا اور اب بملا کی طرف سے پیغام رسانی کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم عمل تھا۔”

    "جس روز بملا کی ماں کو اصل صورتِ حال کی خبر ملی اور بملا کی بوسیدہ لاش کو چِتا میں رکھ کر جلا دیا گیا اسی روز 81 سول لائنز کے در و دیوار، سقف و فرش سے آسیب کا سایہ اس طرح اٹھ گیا جیسے آسمان پر چھائے ہوئے بادل یکایک چھٹ جاتے ہیں۔ اس رات نہ مینڈکوں کا ٹرّانا بند ہوا نہ جھینگروں کی آواز خاموش ہوئی، نہ پیپل کے درخت سے لٹکی ہوئی چمگادڑوں کا شور کم ہوا۔”

    "صبح تین بجے کے قریب اچانک فضا میں لا الٰہ الا اللہ کی بے حد خوش الحان صدا بلند ہوئی، ایسے محسوس ہوتا تھا کہ یہ آواز مشرق کے افق سے اُبھرتی ہے، 81 سول لائنز کے اوپر قوس بناتی ہوئی گزرتی ہے اور مغرب کے افق کو جا کر چھوتی ہے۔ تین بار ایسے ہی ہوا اور اس کے بعد اس مکان پر امن اور سکون کا طبعی دور دورہ از سرِ نو بحال ہو گیا۔ اس عجیب وغریب واقعہ نے ایک طرف تو خوف و ہیبت کے تھپیڑوں سے میرا اچھا خاصا کچومر نکال دیا اور دوسری طرف اس کی بدولت مجھے حقیقتِ روح کا قلیل سا ادراک حاصل ہوا۔”

  • ہندو لڑکی چندراوتی کے عاشق کی مشہور آپ بیتی

    ہندو لڑکی چندراوتی کے عاشق کی مشہور آپ بیتی

    ’’شہاب نامہ‘‘ ایک اہم اور دل چسپ آپ بیتی ہے۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس میں بیسویں صدی کے تمام اہم سیاسی و تاریخی انقلابات کو قید کیا گیا ہے اور نسلِ انسانی پر ان انقلابات کے کیا اثرات مرتب ہوئے اس کی بھی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے۔

    یہ مصنف کی زندگی کے شب و روز کے حالات و واقعات کی ایک دل چسپ کہانی بھی ہے اور ان کے عہد کی ایک تلخ داستان بھی۔ اس کے اوراق معلومات افزا بھی ہیں اور درد انگیز بھی۔ اس کے صفحات تقسیم ہند کے دوران کے اُن وحشت ناک اور خوں ریز فسادات کی تصویر کشی سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے روئے زمین پر انسانیت کو ہمیشہ کے لیے شرمسار کر کے چھوڑا۔

    اس کے مطالعہ سے 1947ء سے قبل کے ہندوستان کی سیاسی و سماجی صورتِ حال کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس میں ایک طرف حصول پاکستان کے سلسلے میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین سیاسی رسہ کشی کا عالمانہ تجزیہ کیا گیا ہے وہیں دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد اس کی ابتدائی مشکلات اور وہاں کے سیاست دانوں کے بارے میں دل چسپ معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر اور اس کی تاریخ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ غرض اس کتاب میں مختلف موضوعات کو احاطۂ تحریر میں لیا گیا ہے لیکن قدرت اللہ شہاب نے ان تمام موضوعات کو آپ بیتی کی ہئیت میں اپنی ذات کے وسیلے سے بیان کیا ہے اور یہی اس خود نوشت سوانح عمری کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

    قدرت اللہ شہاب پاکستان کے نام ور سول سرونٹ اور ادیب تھے جو 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ انڈین سول سروس میں شامل رہے اور قیام پاکستان کے بعد متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شر انگیزیوں اور زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ 1986ء میں وفات پاگئے تھے۔

    شہاب نامہ کا آغاز ’’اقبالِ جرم‘‘ سے ہوتا ہے۔ یہ کتاب کا ابتدائیہ ہے جس میں قدرت اللہ شہاب نے اپنی آپ بیتی کے حوالے سے چند اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں اور اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ’’شہاب نامہ‘‘ کا بنیادی مقصد بت شکنی یا بت تراشی کے بجائے ان واقعات، مشاہدات اور تجربات کی روداد کو بے کم و کاست بیان کرنا ہے جنہوں نے انھیں متاثر کیا۔ قدرت اللہ شہاب اپنے اس دعویٰ پر پورا اترتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پوری خود نوشت میں کہیں بھی اس بات کا شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی بت شکنی یا بت تراشی کررہے ہیں۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری کا باقاعدہ آغاز اپنے بچپن کی حسین یادوں سے کیا ہے۔ اس میں ایسے نقوش دیکھنے کو ملتے ہیں جو ان کی آنے والی زندگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اس میں سطحیت اور قناعت پسندی کے بجائے ارتقا کے عناصر نمایاں ہیں اور ایک اونچی پرواز بھرنے کا جذبہ بھی موجزن ہے۔ یہ بچپن شرارتوں، شوخیوں، بے باکیوں، نادانیوں اور رومان بھرے جذبات سے بھی عبارت ہے۔

    قدرت اللہ شہاب کا بچپن جموں شہر کے اسکولوں اور وہاں کے گلی کوچوں میں اپنے ہم نواؤں کے ساتھ عیش وعشرت میں گزرا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جموں و کشمیر ڈوگرا حکمرانوں کے زیرِ نگیں تھا اور ریاست کے مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے جموں شہر کے گلی کوچوں، وہاں کے بازاروں نیز ان اسکولوں اور کالجوں جہاں انھوں نے تعلیم حاصل کی تھی، کا ذکر جس دل چسپ انداز میں کیا ہے وہ جموں سے ان کی گہری عقیدت اور محبت کا مظہر ہے۔

    ’’شہاب نامہ ‘‘ کے ابتدائی ابواب میں دو کہانیاں ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ ایک کا تعلق مصنف کی نجی زندگی سے ہے اور دوسری اس وقت کے جموں و کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں کہانیاں دل چسپ بھی ہیں اور معلومات افزا بھی۔ پہلی کہانی میں مصنّف نے اپنے بچپن کے احوال و کوائف اور تعلیمی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی پس منظر کو بھی دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے، نیز بچپن کی ایک ناکام محبت کی روداد کو بھی اپنی تمام تر کیفیات کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے اپنے والد محمد عبداللہ کا بھی ایک خوب صورت اور جاذب نظر خاکہ کھینچا ہے۔

    جموں و کشمیر کا سیاسی و سماجی منظر نامہ پیش کرنے کے بعد قدرت اللہ شہاب نے’’چندراوتی‘‘ کے عنوان کے تحت گورنمنٹ ڈگری کالج لاہور کا ذکر کیا ہے جہاں سے انھوں نے ایم۔ اے کیا تھا۔

    اس باب کا مرکزی موضوع قدرت اللہ شہاب اور چندراوتی کی عشقیہ داستان ہے۔چندراوتی ایک ہندو لڑکی تھی جس کے عشق میں قدرت اللہ شہاب مبتلا ہو گئے تھے۔ وہ لیڈی میکلیکن کالج میں پڑھتی تھی۔ دونوں کی پہلی ملاقات پنجاب پبلک لائبریری، لاہور میں ایک ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو دھیرے دھیرے عشق کے گہرے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ لیکن یہ عشق ابھی پروان ہی چڑھ رہا تھا کہ اس پر اداسی کے سائے لہرانے لگے۔ چندراوتی اچانک ٹی۔ بی جیسی بیماری کا شکار ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں قدرت اللہ شہاب کو غمِ ہجر کے دائمی درد سے ہمکنار کر کے دنیائے فانی سے کوچ کر گئی۔

    قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں خارجی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی دنیا کی بھی تصویر کشی کی ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے ان واقعات کو بھی سچائی اور دیانت داری کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتارا ہے جن کو عام طور پر خود نوشت سوانح نگار مصلحتاً صیغۂ راز میں رکھتے ہیں یا اپنے گرد و پیش کی سماجی اور تہذیبی قدروں کو مدِنظر رکھ کر رمز و کنایہ کا سہارا لے کر بیان کرتے ہیں لیکن قدرت اللہ شہاب نے اپنی زندگی کے ایسے نازک معاملات اور سر بستہ اسرار و رموز کو بے کم و کاست بیان کیا ہے۔ انھوں نے نہ رمز و کنایہ کا سہارا لیا ہے، نہ تشبیہات و استعارات کا اور نہ اپنے معیار و مرتبے کی پروا کی ہے جو عام طور پر ایسے واقعات کو بیان کرنے میں رکاوٹ حائل کرتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے گورنمنٹ ڈگری کالج، لاہور سے ایم۔اے کر نے کے بعد 1940 میں آئی۔ سی۔ ایس کا امتحان پاس کر کے جموں و کشمیر کا پہلا مسلم آئی۔ سی۔ ایس افسر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے اس کام یابی کا ذکر اپنی آپ بیتی کے ایک مخصوص باب میں ’’آئی۔ سی۔ ایس میں داخلہ‘‘ کے عنوان کے تحت بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ اس باب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں انھوں نے سر گورڈن ایرے، سرعبدالرحمٰن اور ڈاکٹر سر رادھا کرشنن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو آئی۔ سی۔ ایس انٹرویو بورڈ کے ممبر تھے۔

    قدرت اللہ شہاب نے اپنی ملازمت کا باقاعدہ آغاز بھاگلپور، بہار کے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کیا۔ انھوں نے بھاگلپور میں اپنے قیام کے دوران کی روداد کو ’’بھاگلپور اور ہندو مسلم فسادات ‘‘ کے عنوان کے تحت بڑے دل چسپ انداز میں تحریر کیا ہے۔ یہاں سے ان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور ان کی خود نوشت سوانح عمری میں بھی ایک نیا موڑ آتا ہے۔ یہی وہ مقام بھی ہے جہاں سے ’’شہاب نامہ‘‘ کی فضاؤں پر سیاسی اور تاریخی عنصر کا گہرا رنگ بھی نمایاں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے تقسیم ہند کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے حالات و واقعات کا بڑے عالمانہ اور دانش ورانہ انداز میں تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہر انسان کی طرح ان کا بھی اپنا ایک نقطۂ نظر ہے اور جس کا انھیں حق بھی حاصل ہے۔

    دیکھا جائے تو ’’شہاب نامہ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جو قاری کو پاکستان کے ایوانِ اعلیٰ کے اندر کے ماحول سے متعارف کراتی ہے اور اس کے سامنے ایسے راز کھول کر رکھ دیتی ہے جن تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی۔ یہ پاکستانی سیاست کے در پردہ رازوں کی سچی عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ اس عہد میں پاکستان کے ایوانِ حکومت میں ہونے والی ان خفیہ سیاسی ریشہ دوانیوں کی بھی چشم دید داستان ہے جنہوں نے سیاسی، سماجی، معا شی اور دفاعی معاملات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے جغرافیہ پر بھی اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔

    انھوں نے حکمرانوں کے دل چسپ خاکے بھی کھینچے ہیں اور ان کے مزاج، کردار، عادات و اطوار، مذہبی عقائد اور گھریلو ماحول کے ساتھ ساتھ ان کی عملی زندگی کے خوب صورت نقش بھی ابھارے ہیں۔ نیز صحافت، سیاست، تعلیم، ادب، بیورو کریسی، معاشیات،خارجہ پالیسی اور عوام سے متعلق ان کے نظریات کو بھی مثالوں اور حوالوں کے ساتھ احاطۂ تحریر میں لیا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں تقسیم ہند، کشمیر اور پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز کے حوالے سے جو حالات و واقعات تحریر کیے ہیں وہ اخباری رپورٹوں، سنی سنائی باتوں یا محض کسی جذباتی و انسانی وابستگی کے بجائے آنکھوں دیکھے حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ براہ راست مشاہدات پر مبنی ہیں۔

    شہاب نامہ کی دنیا میں اگرچہ بہت وسعت، گہرائی، گیرائی ہے، موضوعات کا تنوع ہے، ضخامت ہے لیکن زبان ایسی دل کش ہے کہ پڑھنے والا اس کے سحر میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ اسے کتاب کے اختتام تک اس وسعت، گہرائی، گیرائی، موضوعات کے تنوع اور ضخامت کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی الفاظ، تشبیہات، استعارات اور محاورات کے مناسب استعمال سے پیدا ہونے والی سحر خیزی اس کا احساس ہونے دیتی ہے۔

    ’’شہاب نامہ‘‘ میں ایسی تحریریں بھی شامل کی ہیں جن کو آپ بیتی میں شامل کرنے کا نہ تو کوئی جواز بنتا تھا اور نہ ہی اس کے امکانات موجود تھے۔ یہ وہ تحریریں ہیں جو ان کی مشہور تخلیقات پر اردو کے نامور ادیبوں اور ناقدین نے لکھی ہیں۔

    ہر چند کہ اس کتاب کے مواد اور قدرت اللہ شہاب کے نظریات کی مخالفت میں بہت کچھ لکھا بھی گیا لیکن اس کے باوجود اس کی مقبولیت میں کبھی کمی نہ آئی۔ اردو خود نوشت سوانح نگاری کی تاریخ میں موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے اس نوع کی خود نوشتیں اگرچہ نایاب تو نہیں لیکن کم یاب ضرور ہیں۔

  • "گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را”

    "گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را”

    ایک روز ایک ملاقاتی آیا جس کا نام عبداللہ تھا۔ آتے ہی اس نے زور سے السلامُ علیکم کہا اور بولا کسی نے بتایا کہ آپ بھی جمّوں کے رہنے والے ہیں۔ میرا بھی وہاں بسیرا تھا، بس یونہی جی چاہا کہ اپنے شہر والے کے درشن کر آؤں اور کوئی کام نہیں۔

    میں نے اسے تپاک سے بٹھایا اور کرید کرید کر اس کا حال پوچھتا رہا، جسے سن کر میں سَر سے پاؤں تک لرز گیا۔ جمّوں میں عبداللہ کی کوئی دکان تو نہیں تھی لیکن وہ اپنے گھر پر ہی رنگریزی کا کام کرکے گزر اوقات کیا کرتا تھا۔ بیوی تین بیٹیوں کو چھوڑ کر فوت ہو گئی تھی۔

    اکتوبر 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ذاتی نگرانی میں جمّوں کے مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا پروگرام بنایا تو مسلمان خاندانوں کو پولیس لائن میں جمع کر کے اس بہانے بسوں اور ٹرکوں میں سوار کرا دیا جاتا تھا کہ انہیں پاکستان میں سیالکوٹ کے بارڈر تک پہنچا دیا جائے گا۔ راستے میں راشٹریہ سیوک سنگ کے ڈوگرہ اور سکھ درندے بسوں کو روک لیتے تھے، جوان لڑکیوں کو اغوا کرلیا جاتا، جوان مردوں کو چن چن کر تہِ تیغ کر دیا جاتا اور بچے کھچے بچوں اور بوڑھوں کو پاکستان روانہ کردیا جاتا۔

    جب یہ خبریں جموں شہر میں پھیلنا شروع ہوئیں تو عبداللہ پریشان ہو کر پاگل سا ہو گیا۔ اس کی زہرہ، عطیہ اور رشیدہ پر بھی جوانی کے تازہ تازہ پھول کھل رہے تھے۔ عبداللہ کو یقین تھا کہ اگر وہ ان کو ساتھ لے کر کسی قافلے میں روانہ ہوا تو راستے میں اس کی تینوں بیٹیاں درندہ صفت ڈوگرہ جتھوں کے ہتھے چڑھ جائیں گی۔ اپنے جگر گوشوں کو اس افتاد سے بچانے کے لیے عبداللہ نے اپنے دل میں پختہ منصوبہ تیار کر لیا۔ نہا دھو کر مسجد میں کچھ نفل پڑھے۔ قصاب کی دکان سے ایک تیز دھار چھری مانگ لایا اور گھر آکر تینوں بیٹیوں کو عصمت کی حفاظت اور سنتِ ابراہیمی کے فضائل پر بڑا مؤقر وعظ دیا۔ زہرہ اور عطیہ کم عمر تھیں اور گڑیا گڑیا کھیلنے کی حد سے آگے نہ بڑھی تھیں۔ وہ دونوں اپنے باپ کی باتوں میں آگئیں۔ دلہنوں کی طرح سج دھج کر انہوں نے دو دو نفل پڑھے اور پھر ہنسی خوشی دروازے کی دہلیز پر سر ٹکا کر لیٹ گئیں۔ عبداللہ نے آنکھیں بند کیے بغیر اپنی چھری چلائی اور باری باری دونوں کا سر تن سے جدا کر دیا۔

    چنانچہ دہلیز پر زہرہ اور عطیہ کی گردنیں کٹی پڑی تھیں۔ کچے فرش پر گرم گرم خون کی دھاریں بہہ بہہ کر بیل بوٹے کاڑھ رہی تھیں۔ کمرے کی فضا میں بھی ایک سوندھی سوندھی سی خوشبو رچی ہوئی تھی اور اب عبداللہ اپنے ہاتھ میں خون آشام چھری تھامے رشیدہ کو بلا رہا تھا لیکن رشیدہ اس کے قدموں میں گری کپکپا رہی تھی، تھر تھرا رہی تھی، گڑگڑا رہی تھی۔ اگر وہ پڑھی لکھی ہوتی تو بڑی آسانی ے اپنے باپ کو للکار سکتی تھی کہ میں کوئی پیغمبر زادی نہیں ہوں اور نہ تم کوئی پیغمبر ہو، کیونکہ ہمارا دین تو صدیوں پہلے کامل ہو چکا ہے، پھر تمہیں کیا مصیبت پڑی ہے کہ خواہ مخواہ میری گردن کاٹ کر ادھوری سنتیں پوری کرو، لیکن رشیدہ انجان تھی، کم عقل تھی اور فصاحت و بلاغت کی ایسی تشبیہات اور تلمیحات استعمال کرنے سے قاصر تھی۔ وہ محض عبداللہ کے قدموں پر سر رکھے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ ابّا۔۔۔ابّا۔۔۔ آپا۔۔۔۔آپا۔۔۔۔رشید کی گڑگڑاہٹ پر عبداللہ کے پاؤں بھی ڈگمگا گئے۔ اس نے چھری ہاتھ سے پھینک دی، بہروپیوں کی طرح اس نے رشیدہ کو ایک بدصورت سی بڑھیا میں ڈھال دیا اور کلمہ کا ورد کرتے ہوئے اسے ساتھ لے کر ٹرک میں بیٹھ گیا۔ جب ٹرک والے نے قافلے کو سوچیت گڑھ اتارا اور وہ لوہے کا پھاٹک عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو گئے تو یکایک عبداللہ کو زہرہ اور عطیہ کی یاد آئی جن کے سر جموں میں دروازے کی دہلیز پر کٹے ہوئے پڑے تھے اور جو پھٹی پھٹی منجمد آنکھوں سے چھت کی طرف دیکھتے دیکھتے دم توڑ گئی تھیں۔ وہ کمر تھام کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا اور رشیدہ کو گلے سے لگائے دیر تک دھاڑیں مار مار کر روتا رہا۔

    سیالکوٹ کے مہاجر کیمپ میں آکر رفتہ رفتہ رشیدہ کی زلفیں پھر لہرانے لگیں۔ اس کی سرمگیں آنکھوں میں پھر وہی پرانی چمک جگمگانے لگی، لیکن ہولے ہولے عبداللہ نے محسوس کیا کہ اس چمک میں جو شبنم کی سی تازگی اور ستاروں کی سی پاکیزگی جھلکا کرتی تھی وہ ماند پڑ رہی ہے اور ایک دن اس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ناموس ملّت کے جن انمول آبگینوں کو وہ ڈوگروں اور سکھوں کے نرغے سے بچا لایا تھا وہ خدا کی مملکت میں سرِ بازار بک رہے ہیں، آدھی آدھی رات گئے جب رشیدہ واپس آتی تو اس کا دامن پھلوں مٹھائیوں رنگ برنگ کپڑوں پاؤڈر اور کریم وغیرہ کے خوبصورت پیکٹوں سے بھرا ہوتا تھا۔

    عبداللہ غضب ناک ہو کر اسے مارتا پیٹتا اور رشیدہ کو پچھاڑ کر اس کا گلا گھونٹنے لگتا، جب رشیدہ کا سانس اکھڑنے لگتا اور اس کی آنکھیں باہر نکلنے لگتیں تو اچانک اسے جمّوں کی وہ خون آلود دہلیز یاد آجاتی جس پر وہ زہرہ اور عطیہ کی بے نور آنکھوں کو چھت کی طرف گھورتے چھوڑ آیا تھا۔ عبداللہ کے ہاتھ رعشہ کھا کر لرز اٹھتے، اس کا سَر لٹو کی طرح اس کی گردن پر گھومنے لگتا اور وہ رشیدہ کو چھوڑ کر کیمپ کے دوسرے کنارے پر بیٹھا ساری رات روتا رہتا۔ ایک روز رشیدہ نے ترس کھا کر خود ہی اپنے باپ کو روز روز کی اذیت سے نجات دے دی۔ اس نے کیمپ چھوڑ دیا اور راتوں رات کسی کے ساتھ فرار ہو کر نجانے کہاں غائب ہو گئی۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب ‘شہاب نامہ’ سے اقتباس)

  • علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    علّامہ اقبال کے خاص ملازم علی بخش کی ایک مربع زمین

    ایک روز میں کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک جگہ خواجہ عبدالرّحیم صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ علّامہ اقبال کے دیرینہ اور وفادار ملازم علی بخش کو حکومت نے اس کی خدمات کے سلسلے میں لائل پور میں ایک مربع زمین عطا کی ہے۔

    وہ بچارا کئی چکر لگا چکا ہے، لیکن اسے قبضہ نہیں ملتا، کیوں کہ کچھ شریر لوگ اس پر ناجائز طور پر قابض ہیں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔” جھنگ لائل پور کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم علی بخش کی کچھ مدد نہیں کرسکتے؟”

    میں نے فوراََ جواب دیا، "میں آج ہی اسے اپنی موٹر کار میں جھنگ لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔”

    خواجہ صاحب مجھے "جاوید منزل” لے گئے اور علی بخش سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ "یہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔ تم فوراََ تیار ہو کر ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ یہ بہت جلد تمہاری زمین کا قبضہ دلوا دیں گے۔”

    علی بخش کسی قدر ہچکچایا، اور بولا، ” سوچیے تو سہی میں زمین کا قبضہ لینے کے لیے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ قبضہ نہیں متا تو کھائے کڑھی۔ لاہور سے جاتا ہوں تو جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔ جاوید بھی کیا کہے گا کہ بابا کن جھگڑوں میں پڑ گیا”؟

    لیکن خواجہ صاحب کے اصرار پر وہ میرے ساتھ ایک آدھ روز کے لیے جھنگ چلنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جب وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ جاتا ہے تو غالباََ اس کے دل میں سب سے بڑا وہم یہ ہے کہ شاید اب میں بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح علّامہ اقبال کی باتیں پوچھ پوچھ کر اس کا سر کھاؤں گا۔ لیکن میں نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ میں خود علی بخش سے حضرت علّامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزو ہیں، تو یہ جوہر خودبخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہو کے رہے گا۔

    میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشانی کُن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاحب کی کوئی بات نہیں کرتا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک سنیما کے سامنے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر وہ بڑبڑانے لگا۔ "مسجدوں کے سامنے تو کبھی ایسا رش نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے۔”

    ایک جگہ میں پان خریدنے کے لیے رکتا ہوں، تو علی بخش بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو پان پسند نہیں تھے۔”

    پھر شاید میری دلجوئی کے لیے وہ مسکرا کر کہتا ہے۔” ہاں حقّہ خوب پیتے تھے۔ اپنا اپنا شوق ہے پان کا ہو یا حقّہ کا۔”

    شیخو پورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے ہیں۔ یہاں پر ایک مسلمان تحصیل دار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکّے مرید تھے۔ انہوں نے دعوت دی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو پلاؤ اور سیخ کباب بہت پسند تھے۔ آموں کا بھی بڑا شوق تھا۔ وفات سے کوئی چھے برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا تو کھانا پینا بہت کم ہو گیا۔”

    اب علی بخش کا ذہن بڑی تیزی سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا آتا ہے۔ ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے۔ جب تک علی بخش کا یہ نشہ پورا نہیں ہوتا، غالباََ اسے ذہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی۔

    "صاحب، جب ڈاکٹر صاحب نے دَم دیا ہے، میں ان کے بالکل قریب تھا، صبح سویرے میں نے انہیں فروٹ سالٹ پلایا اور کہا کہ اب آپ کی طبیعت بحال ہوجائے گی، لیکن عین پانچ بج کر دس منٹ پر ان کی آنکھوں میں ایک تیز تیز نیلی نیلی سی چمک آئی، اور زبان سے اللہ ہی اللہ نکلا۔ میں نے جلدی سے ان کا سَر اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا اور انہیں جھنجھوڑنے لگا، لیکن وہ رخصت ہوگئے تھے۔”

    کچھ عرصہ خاموشی طاری رہتی ہے۔ پھر علی بخش کا موڈ بدلنے کے لیے میں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں۔

    "حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں”؟

    علی بخش ہنس کر ٹالتا ہے۔ "میں تو ان پڑھ جاہل ہوں۔ مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل۔”

    "میں نہیں مانتا۔ ” میں نے اصرار کیا، "آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگا۔”

    ” کبھی اے حکیکتِ منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت گنگنایا کرتے تھے۔”

    ” ڈاکٹر صاحب عام طور پر مجھے اپنے کمرے کے بالکل نزدیک سُلایا کرتے تھے۔ رات کو دو ڈھائی بجے دبے پاؤں اٹھتے تھے اور وضو کر کے جائے نماز پر جا بیٹھتے تھے۔ نماز پڑھ کر وہ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ فارغ ہو کر بستر پر آ لیٹتے تھے۔ میں حقّہ تازہ کر کے لا رکھتا تھا۔ کبھی ایک کبھی دو کش لگاتے تھے۔ کبھی آنکھ لگ جاتی تھی۔ بس صبح تک اسی طرح کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔”

    میرا ڈرائیور احتراماََ علی بخش کو سگریٹ پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ غالباََ حجاب میں آکر اسے قبول نہیں کرتا۔

    "ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی۔ کبھی کبھی رات کو سوتے سوتے انہیں ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور وہ مجھے آواز دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ ایسے موقع پر میں فوراََ ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کہتے تھے بس۔ اور میں دبانا چھوڑ دیتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ مجھے اپنے نزدیک سلایا کرتے تھے۔”

    ہر چند میرا دل چاہتا ہے کہ میں علی بخش سے اس واردات کے متعلق کچھ مزید استفسار کروں لیکن میں اس کے ذہنی ربط کو توڑنے سے ڈرتا ہوں۔

    "ڈاکٹر صاحب بڑے دریش آدمی تھے۔ گھر کے خرچ کا حساب کتاب میرے پاس رہتا تھا۔ میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا۔ ان کا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہوجاتے تھے۔ کہا کرتے تھے، علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہیے۔ خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے نہ رہا کرو۔ اب اسی مربع کے ٹنٹنے کو دیکھ لیجیے، لائل پور کے ڈپٹی کمشنر صاحب، مال افسر صاحب اور سارا عملہ میری بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بڑے اخلاق سے مجھے اپنے برابر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔

    ایک روز بازار میں ایک پولیس انسپکٹر نے مجھے پہچان لیا اور مجھے گلے لگا کر دیر تک روتا رہا۔ یہ ساری عزّت ڈاکٹر صاحب کی برکت سے ہے۔ مربع کی بھاگ دوڑ میں میرے پر کچھ قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔ لیکن میں اس کام کے لیے بار بار لاہور کیسے چھوڑوں۔ جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔”

    "سنا ہے اپریل میں جاوید چند مہینوں کے لیے ولایت سے لاہور آئے گا۔ جب وہ چھوٹا سا تھا، ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اللہ کے کرم سے اب بڑا ہوشیار ہو گیا ہے۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اور منیرہ بی بی بہت کم عمر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نرس کے لیے اشتہار دیا۔ بے شمار جواب آئے۔ ایک بی بی نے تو یہ لکھ دیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی قدر پرشان ہوئے اور کہنے لگے علی بخش دیکھو تو سہی اس خاتوں نے کیا لکھا ہے۔ میں بڈھا آدمی ہوں۔ اب شادی کیا کروں گا۔ لیکن پھر علی گڑھ سے ایک جرمن لیڈی آگئی۔”

    علی بخش کا تخیّل بڑی تیز رفتاری سے ماضی کے دھندلکوں میں پرواز کر رہا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے اپنے ڈاکٹر صاحب یا جاوید یا منیرہ بی بی کی کوئی نہ کوئی خوش گوار یاد آتی رہتی ہے۔ جھنگ پہنچ کر میں اسے ایک رات اپنے ہاں رکھتا ہوں۔ دوسری صبح اپنے ایک نہات قابل اور فرض شناس مجسٹریٹ کپتان مہابت خان کے سپرد کرتا ہوں۔

    کپتان مہابت خان، علی بخش کو ایک نہایت مقدس تابوت کی طرح عقیدت سے چھو کر اپنے سینے سے لگا لیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ علی بخش کو آج ہی اپنے ساتھ لائل پور لے جائے گا اور اس کی زمین کا قبضہ دلا کر ہی واپس لوٹے گا۔” حد ہوگئی۔ اگر ہم یہ معمولی سا کام بھی نہیں کرسکتے تو ہم پر لعنت ہے۔”

    (قدرت اللہ شہاب کی مشہور تصنیف شہاب نامہ سے ایک پارہ)

  • جمّوں میں پلیگ

    جمّوں میں پلیگ

    گرمیوں کا موسم تھا اور جموں شہر میں طاعون کی وبا بڑی شدت سے پھوٹی ہوئی تھی۔

    اکبر اسلامیہ ہائی اسکول میں چوتھی جماعت کے کلاس روم کی صفائی کا کام میرے ذمہ تھا۔ ایک روز چُھٹی کے وقت جب میں اکیلا کمرے کی صفائی کر رہا تھا، تو ایک ڈیسک کے نیچے ایک مرا ہوا چُوہا پڑا ملا۔ میں نے اُسے دُم سے پکڑ کر اُٹھایا، باہر لا کر اُسے زور سے ہوا میں گُھمایا اور سڑک کے کنارے جھاڑیوں میں پھینک دیا۔

    یہ دیکھ کر لال دین زور سے پُھنکارا، اور اپنی لنگڑی ٹانگ گھسیٹتا ہوا دُور کھڑا ہو کر زور زور سے چلّانے لگا۔ لال دین ہمارے اسکول کا واحد چپڑاسی تھا۔ وہ گھنٹہ بھی بجاتا تھا، لڑکوں کو پانی بھی پلاتا تھا اور چھابڑی لگا کر بسکٹ اور باسی پکوڑیاں بھی بیچا کرتا تھا۔

    ارے بد بخت! لال دین چلا رہا تھا، “ یہ تو پلیگ کا چوہا تھا۔ اِسے کیوں ہاتھ لگایا؟ اب خود بھی مرو گے ، ہمیں بھی مارو گے۔“

    اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہی کھڑے لال دین نے پلیگ کے مرض پر ایک مفصل تقریر کر ڈالی۔ پہلے تیز بخار چڑھے گا۔ پھر طاعون کی گلٹی نمودار ہوگی، رفتہ رفتہ وہ مکئی کے بھٹے جتنی بڑی ہو جائے گی ۔ جسم سوج کر کُپّا ہو جائے گا۔ ناک ، کان اور منہ سے خون ٹپکے گا ۔ گلٹی سے پیپ بہے گی اور چار پانچ دن مین اللہ اللہ خیر صلا ہو جائے گی۔

    چند روز بعد میں ریذیڈنسی روڈ پر گھوم رہا تھا کہ اچانک ایک چُوہا تیز تیز بھاگتا ہوا سڑک پر آیا۔ کچھ دیر رُک کر وہ شرابیوں کی طرح لڑکھڑایا۔ دو چار بار زمین پر لوٹ لگائی اور پھر دھپ سے اوندھے منہ لیٹ گیا۔ میں نے پاس جا کر اُسے پاؤں سے ہلایا تو وہ مر چُکا تھا۔ بے خیالی میں مَیں نے اُسے دُم سے پکڑا اور اُٹھا کر سڑک کے کنارے ڈال دیا۔ چند راہ گیر جو دور کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے، پکار پکار کر کہنے لگے، “پلیگ کا چوہا ، پلیگ کا چوہا۔ گھر جا کر جلدی نہاؤ، ورنہ گلٹی نکل آئے گی۔“

    ان لوگوں نے بھی پلیگ کی جملہ علامات پر حسبِ توفیق روشنی ڈالی اور میرے عِلم میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

    ان دِنوں جموں شہر میں ہر روز دس دس پندرہ پندرہ لوگ طاعون سے مرتے تھے ۔ گلی کوچوں میں چاروں طرف خوف ہی خوف چھایا ہوا نظر آتا تھا۔ گاہک دکانوں کا کن انکھیوں سے جائزہ لیتے تھے کہ کہیں بوریوں اور ڈبوں اور کنستروں کے آس پاس چوہے تو نہیں گھوم رہے۔ دکان دار گاہکوں کو شک و شبہ سے گھورتے تھے کہ ان کے ہاں پلیگ کا کیس تو نہیں ہوا۔ لوگوں نے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا اور ملنا جلنا ترک کر دیا تھا۔ سڑک پر راہگیر ایک دوسرے سے دامن بچا بچا کر چلتے تھے۔ شہر کا ہر مکان دوسروں سے کٹ کٹا کر الگ تھلگ ایک قلعہ سا بنا ہوا تھا، جس میں پھٹی پھٹی سہمی آنکھوں والے محصور لوگ چپ چاپ اپنی اپنی گِلٹی کا انتظار کر رہے تھے۔

    میونسپل کمیٹی والے در و دیوار سونگھ سونگھ کر پلیگ کے مریضوں کا سراغ لگاتے تھے۔ جہاں اُن کا چھاپہ کام یاب رہتا تھا، وہاں وہ علی بابا چالیس چور کی مرجینا کی طرح دروازے پر سفید چونے کا نشان بنا دیتے تھے۔ تھوڑی بہت رشوت دے کر یہ نشان اپنے مکان سے مٹوایا اور اغیار کے دروازوں پر بھی لگوایا جا سکتا تھا۔ پلیگ کے عذاب میں مبتلا ہو کر مریض تو اکثر موت کی سزا پاتا تھا۔ باقی گھر والے مفرور مجرموں کی طرح منہ چُھپائے پھرتے تھے۔ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا رواج بھی بہت کم ہو گیا تھا۔ لوگ دور ہی دور سے سلام دعا کر کے رسمِ مروت پوری کر لیتے تھے۔

    یکے بعد دیگرے دو طاعون زدہ چوہوں کو ہاتھ لگانے کے باوجود جب میرے تن بدن میں کوئی گلٹی نمودار نہ ہوئی تو میرا دل شیر ہوگیا۔ اپنے اِردگرد سہمے ہوئے ہراساں چہرے دیکھ کر ہنسی آنے لگی۔

    (شہاب نامہ سے اقتباس)

  • "میل خوردہ قالین خرید لیا گیا…”

    "میل خوردہ قالین خرید لیا گیا…”

    ایک روز شہاب صاحب کی اپنی بیگم سے قالین خریدنے کے معاملے پر تکرار ہوگئی۔ شہاب صاحب سفید قالین خریدنا چاہتے تھے جب کہ بیگم کو اعتراض تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

    "عفّت اٹھ کر بیٹھ گئی اور استانی کی طرح سمجھانے لگی۔ ہمارے ہاں ابنِ انشا آتا ہے، پھسکڑا مار کرفرش پر بیٹھ جاتا ہے۔ ایک طرف مالٹے دوسری طرف گنڈیریوں کا ڈھیر۔ جمیل الدین عالی آتا ہے، فرش پر لیٹ جاتا ہے سگرٹ پر سگرٹ پی کر ان کی راکھ اپنے ارد گرد قالین پر بکھیر دیتا ہے۔ ایش ٹرے میں نہیں ڈالتا۔ ممتاز مفتی ایک ہاتھ میں کھلے پان دوسرے میں زردے کی پڑیا لیے آتا ہے۔ اشفاق احمد قالین پر اخبار بچھا کر تربوز چیرنا پھاڑنا شروع کر دیتا ہے۔

    ملتان سے ایثار راعی آم اور خربوزے لے کر آئے گا، ڈھاکہ سے جسیم الدین کیلے اور رس گُلے کی ٹپکتی ہوئی پیٹی لے کر آئے گا۔ وہ یہ سب تحفے بڑے تپاک سے قالین پر سجا دیتے ہیں۔ سال میں کئی بار سید ممتاز حسین بی۔ اے ساٹھ سال کی عمر میں ایم۔ اے انگلش کی تیاری کرنے آتا ہے اور قالین پر فاؤنٹن پین چھڑک چھڑک کر اپنی پڑھائی کرتا ہے۔

    صرف ایک راجہ شفیع ہے جب کبھی مکئی کی روٹی اور ساگ مکھن گاؤں سے لاتا ہے تو آتے ہی قالین پر نہیں انڈیلتا بلکہ قرینے سے باورچی خانے میں رکھ دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ نہ شاعر ہے، نہ ادیب بلکہ ہمارے دوستوں کا دوست ہے۔

    عفّت کی بات بالکل سچ تھی، لہٰذا ہم نے صلح کر لی اور ایک میل خوردہ رنگ کا قالین خرید لیا گیا۔

    (قدرت اللہ شہاب کی کتاب سے اقتباس)

  • نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی

    نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی

    آج اردو کے نام ور ادیب قدرت اللہ شہاب کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا انتقال 24 جولائی 1986 کو ہوا تھا۔

    قدرت اللہ شہاب ایک مشہور سول سرونٹ تھے جن کا تعلق گلگت سے تھا جہاں وہ 1917 میں پیدا ہوئے۔ 1941 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا اور انڈین سول سروس میں شامل ہوگئے۔ اس سروس کے دوران انھیں بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد قدرت اللہ شہاب نے متعدد اہم انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیں سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارتِ اطلاعات، ڈپٹی کمشنر، ڈائریکٹر اور منتخب سیاست دانوں اور وفاقی عہدے داروں کے پرائیویٹ سیکریٹری رہے۔ بعد میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے وابستہ ہوگئے اور فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کو بے نقاب کیا۔

    اردو زبان اور ادب کے لیے جہاں انھوں‌ نے اپنے قلم کا سہارا لیا اور تخلیقی کام کیا، وہیں قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔

    ان کی مشہور تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔ شہاب نامہ کو جہاں‌ قارئین نے بہت پسند کیا، وہیں‌ اس میں‌ شامل متعدد ابواب پر اعتراضات اور تنقید بھی کی گئی۔

    شہاب نامہ ایک خود نوشت سوانح حیات ہے جس میں مسلمانانِ برصغیر اور تحریکِ آزادی سے لے کر قیامِ پاکستان اور دیگر تاریخی واقعات کو نہایت دل چسپ انداز میں لکھا گیا ہے۔ روحانی شخصیات کا ذکر اور پراسرار واقعات کا بیان قاری کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے آج بھی نہایت شوق اور دل چسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔

    قدرت اللہ شہاب اسلام آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔