Tag: قدیم

  • سعودی عرب: قدیم محلات اور قلعوں کی بحالی

    سعودی عرب: قدیم محلات اور قلعوں کی بحالی

    ریاض: سعودی عرب میں عسیر کے علاقے میں واقعے قدیم محلات اور قلعوں کو کیفے، ریستوراں اور دیگر جدید سہولتوں والے ہوٹلوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب کے علاقے عسیر ریجن میں قدیم محلات اور قلعوں کو بحال کیا گیا ہے تاکہ سیاحوں کو جدید ماحول میں تاریخ کا تجربہ کرنے کی طرف راغب کیا جا سکے۔

    یہ محلات اور قلعے 6 مختلف علاقوں میں موجود ہیں جو سائز اور اونچائی میں مختلف ہیں۔

    جن کے ڈھانچے کو بحال کیا گیا ہے ان میں ابہا کے قریب بطباب میں ابو نقطہ محل، ابہا کے قریہ الدارہ میں واقع لحج محل، السودہ کے قریہ ابو سارہ میں واقع وزیر اور عزیز محل اور المصلی قلعہ شامل ہیں۔

    ان محلات میں سے کچھ 200 سال سے زیادہ پرانے، پتھروں اور لکڑی سے بنے ہیں، انہیں اصل تعمیراتی جمالیات کو محفوظ رکھتے ہوئے، کیفے، ریستوراں اور دیگر جدید سہولتوں والے ہوٹلوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔

    ابو نقطہ المتحمی سینٹر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سعید بن سعود المتحمی نے کہا کہ پرانے محلات کی بحالی کا خیال اس کے امیر ورثے کی بنیاد پر مملکت میں ثقافتی سیاحت کو فروغ دینا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ تاریخی مقامات نہ صرف سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو خطے کی ثقافت اور تاریخ کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہیں جس پر ہم سب کو فخر ہے۔

    سعود المتحمی نے کہا کہ محلات کی بحالی سے مقامی معیشت کو سہارا ملے گا اور خطے کے لیے کئی مواقع میسر آئیں گے۔

  • ڈھائی ہزار سال قدیم دنیا کی پہلی یونیورسٹی جو پاکستان میں بنی

    ڈھائی ہزار سال قدیم دنیا کی پہلی یونیورسٹی جو پاکستان میں بنی

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کی پہلی باقاعدہ یونیورسٹی ڈھائی ہزار سال قبل آج کے پاکستان میں قائم کی گئی تھی جہاں سے سینکڑوں ایسی شخصیات نے تعلیم حاصل کی جنہوں نے مذہبی و سیاسی، ثقافتی اور سماجی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

    راولپنڈی سے 22 میل کے فاصلے پر شمال مغرب کی جانب موجود شہر ٹیکسلا ایک تاریخی شہر ہے جو 600 قبل مسیح میں قائم کیا گیا، تاریخ کے اوراق میں اس کا نام ٹکشاشلا ملتا ہے۔

    2600 سال قبل یہاں قائم کی جانے والی درسگاہ کو دنیا کی پہلی یونیورسٹی قرار دیا جاتا ہے۔

    اس یونیورسٹی میں 16 مختلف ممالک کے 10 ہزار سے زائد طالب علم زیر تعلیم رہے، جنہیں ہندو وید، فلکیات، فلسفہ، جراحت، سیاسیات، جنگ، تجارت اور موسیقی کی تعلیم دی گئی۔

    بدھ ازم کی مقدس کتابوں جتاکا میں اس یونیورسٹی کو صدیوں قدیم علمی مرکز کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی طویل ترین اور منظوم داستان مہا بھارت میں بھی، جسے مذہبی صحیفے کی حیثیت حاصل ہے، اس یونیورسٹی کا ذکر ہے۔

    یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے مختلف شعبوں کے ماہر، مختلف ریاستوں کے راجا اور جنگی سپہ سالار بنے جن میں سے چند قابل ذکر نام یہ ہیں۔

    چانکیہ ۔ وشنو گپت جو بعد میں چانکیہ کے نام سے مشہور ہوا، تاریخ کا مشہور جنگی حکمت ساز، مدبر اور فلسفی ہے جس نے ارتھ شاستر جیسی معرکۃ الآرا کتاب لکھی، جنگی اور معاشی حکمت سازی پر لکھی گئی یہ کتاب آج بھی عسکری و سیاسی فیصلہ سازی میں استعمال کی جاتی ہے۔

    جتوپل ۔ قدیم بنارس کا کمانڈر ان چیف بنا

    جیواکا ۔ گوتم بدھ کا طبیب بنا

    پنینی ۔ ماہر لسانیات جس نے سنسکرت زبان میں خاصی تبدیلیاں کیں

    چراکا ۔ قدیم طبی طریقہ علاج آیور ویدا کے بانیوں میں سے ایک

    اس عظیم درسگاہ کے کھنڈرات آج بھی ٹیکسلا میں موجود ہیں۔

  • ڈائنو سار کے زمانے سے موجود مچھلی

    ڈائنو سار کے زمانے سے موجود مچھلی

    ڈائنو سار کے زمانے سے تاحال زمین پر موجود ایک مچھلی نے ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔ یہ مچھلی 40 کروڑ سال قبل زمین پر نمودار ہوئی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈائنوسار کے عہد سے اب تک زمین پر موجود مچھلی سی لا کینتھ کے بارے میں ایک زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے معدوم ہوچکی ہے۔

    مگر 1938 میں اسے جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقے میں غیر متوقع طور پر زندہ دریافت کیا گیا اور اب اس نے ایک بار پھر سائنسدانوں کو حیران کردیا ہے۔

    سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق میں بتایا کہ یہ بڑی اور گہرے سمندر میں رہنے والی مچھلی توقعات سے 5 گنا زیادہ وقت تک یعنی لگ بھگ ایک صدی تک زندہ رہتی ہے، اسی طرح دنیا کے کسی بھی جاندار کے مقابلے میں اس مچھلی کے حمل کی مدت 5 سال تک ہوتی ہے۔

    اس کی دو میں سے ایک قسم پر تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے یہ بھی جانا کہ اس مچھلی کی نشوونما کسی بھی مچھلی کے مقابلے میں سست روی سے ہوتی ہے اور جنسی طور پر باشعور ہونے کی عمر 55 سال ہے۔

    فرانس کے آئی فریمر انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مچھلی ممکنہ طور پر پہلی بار 40 کروڑ سال پہلے زمین پر نمودار ہوئی تھی۔ فوسل ریکارڈ کے مطابق عرصے تک خیال کیا جاتا تھا کہ اس مچھلی کی نسل کا خاتمہ ڈائنو سار کے ساتھ ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے ہوگیا تھا۔

    تاہم اسے زندہ دریافت کرنے کے بعد اسے لیونگ فوسل قرار دیا گیا تھا، اس کے فنز کی ساخت کے باعث اسے لوب فنڈ مچھلی کہا جاتا ہے جو دیگر مچھلیوں سے مختلف ہے۔

    یہ مچھلی گہرے سمندر میں 800 میٹر گہرائی میں پائی جاتی ہے جبکہ دن کے وقت یہ آتش فشانی غاروں میں اکیلے یا چھوٹے گروپس کے ساتھ قیام کرتی ہے۔ اس مچھلی کی لمبائی 7 فٹ جبکہ وزن 110 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔

    اس وقت اس کی دونوں اقسام کے معدم ہونے کا خطرہ ہے جن میں سے ایک افریقہ اور ایک انڈونیشیا میں پائی جاتی ہے اور تحقیق میں افریقن قسم پر کام کیا گیا تھا۔

  • مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدیم غاروں کی بابت کیا مشہور ہے؟

    مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدیم غاروں کی بابت کیا مشہور ہے؟

    کہتے ہیں مغل دور میں ایک درویش شاہ اللہ دتّہ گزرے ہیں جن سے صدیوں پرانا ایک گاؤں بھی منسوب ہے۔

    یہ گاؤں پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے مشہور پہاڑی مقام مارگلہ کے دامن میں ہے جو کہ مختلف آثار اور قدیم غاروں کی وجہ سے سیاحتی مقام جانا جاتا ہے۔ ان غاروں کی بابت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا بدھ مت سے تعلق ہے۔

    اس گاؤں کی وجہِ شہرت اس کا قدرتی حسن ہے جو سبزہ، بلند و بالا درخت، چشمے اور تالاب ہی نہیں بلکہ وہ غار بھی ہیں جو یقینا انسانوں نے کبھی آباد کر رکھے تھے۔ مقامی لوگ اس حوالے سے مختلف باتیں اور قصے سناتے ہیں۔ تاہم اس پر ماہرینِ آثار کو تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم غاروں کے قریب ہی بزرگ کا مزار موجود ہے.

    مختلف تاریخی روایات کے مطابق یہ راستہ اور اس گاؤں سے کسی زمانے میں الیگزینڈر اور شیر شاہ سوری جیسی شخصیات کا گزر ہوا۔ یہ افغانستان اور ہندوستان آنے جانے کے لیے استعمال ہونے والا راستہ بتایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مغل بادشاہوں اور دیگر نے بھی افغانستان اور ہندوستان آمدورفت کے لیے یہی راستہ اپنایا۔

    اس گاؤں میں پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے قدیم مانا جاتا ہے جب کہ گھنے اور مضبوط درخت بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کئی سو سال پرانے ہیں۔ قدرتی حسن اور تاریخی آثار کی وجہ سے یہ علاقہ قابلِ دید ہے۔

  • ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    قدیم آثار و کھنڈرات سے دریافت اشیا میں سے کھانے پینے کی چیزیں بھی نکل آتی ہیں اور انہیں احتیاط سے محفوظ کرلیا جاتا ہے، تاہم ان اشیا کو پکانے اور پھر سے استعمال کرنے کا خیال کم ہی آتا ہے۔

    تاہم معروف ویڈیو گیم ڈیزائنر سیمز بلیکلے نے ایسے ہی ایک قدیم خمیر کو بیک کرنے کا تجربہ کیا اور ان کا یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا۔

    بلیکلے نے اپنے ایک ماہر آثار قدیمہ اور ایک مائیکرو بائیولوجسٹ دوست کی مدد سے 4 ہزار 5 سو سال قدیم خمیر حاصل کیا۔ یہ خمیر قدیم مصر کے کھنڈرات سے دریافت ہوا تھا۔

    یہ خمیر کھنڈرات سے دریافت کردہ برتنوں میں موجود تھا اور ماہرین کا خیال تھا کہ اس خمیر سے قدیم مصر میں بریڈ اور شراب بنائی جاتی تھی۔

    بلیکلے نے اس خمیر کو بیک کرنے سے قبل اس میں ایک قسم کا آٹا شامل کیا تاکہ خمیر کے بیکٹریا کو جگا سکے۔ ایک ہفتے بعد یہ خمیر بیک کرنے کے لیے تیار تھا۔

    بلیکلے نے زیتون کے تیل کی آمیزش سے نہایت احتیاط سے اسے بیک کیا، بیک ہونے کے بعد اس کے نہایت غیر متوقع نتائج ملے اور اوون سے ایک نہایت خوشبو دار مہکتی ہوئی بریڈ برآمد ہوئی۔

    ’اس کی خوشبو ویسی تو نہیں تھی جیسی آج کی بریڈ میں ہوتی ہے، یہ اس سے خاصی مختلف لیکن بہترین تھی‘، بلیکلے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹس میں کہا۔

    بلیکلے کا کہنا ہے کہ وہ بے حد خوش ہے کہ اس کا یہ تجربہ کامیاب ہوا، اب اس کی اگلی کوشش ہوگی کہ وہ اس خمیر سے شراب بھی تیار کرسکے۔

  • انسانی قد کے نصف طوطے کی باقیات دریافت

    انسانی قد کے نصف طوطے کی باقیات دریافت

    نیوزی لینڈ میں ایک طویل القامت طوطے کی باقیات دریافت کی گئی ہیں جس کا قد انسانی قد کے نصف ہے، طوطوں میں یہ سب سے طویل القامت طوطا خیال کیا جارہا ہے۔

    بائیولوجی لیٹرز نامی رسالے میں حال ہی میں شائع کیے جانے والے تحقیقی مقالے کے مطابق نو دریافت شدہ طوطے کی قامت کا اندازہ اس کے پنجوں کی ہڈیوں سے لگایا گیا۔ طوطے کا قد تقریباً ایک میٹر یعنی 37 انچ ہے۔

    اس کا وزن 7 کلو گرام یعنی 15.5 پاؤنڈز ہے اور دیگر پرندوں کے برعکس یہ ممکنہ طور پر گوشت خور تھا۔

    کنٹربری میوزیم کے نیچرل ہسٹری شعبے کے سربراہ پال اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ اڑتا بھی ہو مگر ہم فی الحال اس نظریے پر مزید تحقیق کر رہے ہیں کہ یہ اڑتا نہیں تھا۔

    مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    اس طوطے کی باقیات کو سنہ 2008 میں پہلی بار دریافت کیا گیا تھا تاہم اس وقت اس کے بارے میں زیادہ تحقیقات نہیں کی گئیں۔ پروفیسر اسکو فیلڈ کے مطابق ہمارے خیال میں یہ کسی عقاب کی باقیات ہوسکتی ہیں لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ طوطا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے اس طوطے کی قامت کو دیکھتے ہوئے اس کا نام ہرکولیس ان ایکسپیکٹیٹس رکھا ہے۔

    طوطے کی باقیات نیوزی لینڈ کے جنوبی حصے میں سینٹ باتھنز کے علاقے سے دریافت ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ رکازیات کے حوالے سے خاصا زرخیز ہے اور یہاں سے ملنے والی باقیات لگ بھگ ڈھائی کروڑ سال سے لے کر 50 لاکھ سال تک قدیم ہیں۔

    پروفیسر اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اس علاقے میں گزشتہ 20 سال سے کھدائیاں کر رہے ہیں اور اب تک کافی غیر متوقع دریافتیں کی جاچکی ہیں جبکہ امکان ہے کہ مستقبل میں بھی ایسی ہی انوکھی دریافتیں سامنے آئیں گی۔

    گزشتہ برس اس علاقے سے ایک طویل القامت چمگاڈر کی باقیات بھی دریافت کی گئی تھیں، یہ چمگاڈر جسامت میں جدید چمگاڈر سے 3 گنا بڑی تھی اور اس کا وزن 40 گرام تھا۔

  • یخ چل ۔ قدیم دور میں استعمال ہونے والا فریج

    یخ چل ۔ قدیم دور میں استعمال ہونے والا فریج

    کیا آپ جانتے ہیں قدیم ادوار میں جب بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو لوگ کھانے پینے کی اشیا کو محفوظ کرنے اور ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا شے استعمال کرتے تھے؟

    چوتھی صدی قبل مسیح میں مصر کے لوگوں نے، جو دنیا کا عظیم عجوبہ اہرام مصر تعمیر کر کے رہتی دنیا تک اپنی ذہانت و قابلیت کی دھاک بٹھا چکے ہیں، غذا کو محفوظ کرنے کے لیے زیر زمین ’فریج‘ ایجاد کیا تھا جو اس وقت آس پاس کے علاقوں میں بھی بے حد مقبول ہوا تھا۔

    یہ فریج جسے ’یخ چل‘ کہا جاتا تھا، نصف زمین کے اندر اور نصف زمین کے باہر ہوتا تھا۔ زمین کے باہر یہ ایک گنبد کی طرح 60 فٹ تک اونچا ہوتا تھا جبکہ زمین کے اندر 6 ہزار 5 سو گز تک وسیع ہوتا تھا۔

    یخ چل عمل تبخیر کے ذریعے اپنے اندر موجود اشیا کو سرد رکھتا تھا۔

    اس زمانے میں ہر مقام پر بے تحاشہ پانی کی زیر زمین گزر گاہیں موجود ہوتی تھیں جو ایک سے دوسری جگہ پانی پہنچاتی تھیں۔ یہ فریج اپنے قریب موجود آبی گزر گاہوں سے پانی اور ٹھنڈک لے کر مختلف غذائی اشیا کو سرد رکھتا اور خراب ہونے سے بچاتا تھا۔

    اس فریج میں برف بھی جمائی جا سکتی تھی جبکہ اس کے اندر کھڑے ہو کر ایسا ہی محسوس ہوتا جیسے آپ کسی ریفریجریٹر کے اندر کھڑے ہیں۔

    یخ چل کو ریت اور چکنی مٹی سے بنایا جاتا تھا جبکہ اسے بنانے میں انڈے کی سفیدی اور بکری کے بال بھی استعمال کیے جاتے تھے۔

  • زندگی کو خوبصورت اور پرسکون بنانے کے راز چینیوں سے جانیں

    زندگی کو خوبصورت اور پرسکون بنانے کے راز چینیوں سے جانیں

    چین زمانہ قدیم سے ہی حیرت و اسرار کی سر زمین رہا ہے جہاں کے طور طریقے ہمیشہ ہی الگ رہے ہیں۔ دنیا کی معیشت پر راج کرنے والی چینی قوم ہمیشہ سے ہی عقل و دانش کا مرقع رہی ہے۔

    یہ قوم نہایت محنتی اور امن پسند ہے جس کا ایک ثبوت دنیا کے عجائبات میں سے ایک دیوار چین ہے۔ یہ دیوار چین بیرونی حملہ آوروں سے تحفظ اور اپنا دفاع کرنے کے لیے بنائی گئی۔

    مزید پڑھیں: جاپان کو ترقی یافتہ بنانے والے 10 حقائق

    دیوار چین آج بھی جوں کی توں برقرار ہے اور اس کی بناوٹ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چینی قوم کس قدر جفاکش اور محنتی تھی جو کئی صدیوں قبل بھی ایسی مضبوط دیوار بنا گئی جو آج بھی موسموں کے آگے سینہ تانے کھڑی ہے۔

    چین میں 2 مذاہب کنفیوشس ازم اور تاؤ ازم کی بنیاد بھی پڑی۔ ان دونوں مذاہب کی تعلیمات نے دنیا کی تاریخ اور فلسفہ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ارشاد نبویﷺ ہے، ’علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے‘۔ یہ حدیث نبوی اس دور میں چین کے تعلیمی مرکز ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

    مزید پڑھیں: عظیم فلسفی کنفیوشس کے 12 رہنما افکار

    چین کے رہنے والے اپنی صحت کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔ آج ہم آپ کو چینیوں کے وہ راز بتارہے ہیں جو انہوں نے تا دیر صحت مند رہنے کے لیے صدیوں چھپا کر رکھے۔


    اپنی عمر کو فراموش کردو

    انسان کی عمر اسے کوئی بھی کام کرنے سے نہیں روکتی۔ زندگی سے لطف اندوز ہونا ہو، کچھ نیا سیکھنا ہو، یا کوئی نیا تجربہ کرنا ہو، یہ بھول جاؤ کہ تمہاری عمر اس کے لیے زیادہ یا بہت کم ہے۔


    کسی کو اس کی عمر سے مت جانچو

    ذہانت اور دانش مندی عمر کی قید نہیں ہوتی۔ یہ ایک خدا داد صلاحیت ہے اور کسی بچے میں بھی موجود ہوسکتی ہے۔ لہٰذا کسی کو اس کی عمر سے نہ جانچا جائے، بلکہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، کیا خبر اس میں علم کے خزانے چھپے ہوں۔


    اپنے لیے ضروری چیزیں

    قدیم چینی تعلیمات کے مطابق چند چیزوں کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنا لیا جائے۔ ورزش، موسم کے مطابق گرم یا سرد درجہ حرارت، اور درختوں اور گھاس کی خوشبو سے اپنے آپ کو محروم مت رکھو۔


    غذا

    چینی تعلیمات جن غذاؤں پر زور دیتی ہے ان میں چاول، چائے اور سبزی کے ساتھ گوشت شامل ہے۔


    گردوں کو فعال اور سر کو پرسکون رکھو

    چینی تعلیمات کے مطابق انسان کو صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے گردوں کو فعال رکھے اور سر کو پرسکون اور ٹھنڈا رکھے، یعنی غصہ سے پرہیز کرے۔


    کھل کر ہنسو

    ہنسنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ ہنسی انسانی دماغ سے دباؤ اور تناؤ پیدا کرنے والے کیمیائی عناصر کو ختم کر کے دماغ کو پرسکون کرتی ہے اور خون کی روانی کو بہتر بناتی ہے۔ قدیم چینی تعلیمات کے اس اصول کی جدید سائنس نے بھی تصدیق کردی ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ ہنسنے کے فوائد جانتے ہیں؟


    برے وقت کو بھول جاؤ

    برے وقت کو یاد کر کے اداس، پریشان اور مایوس رہنا ہرگز دانش مندی نہیں۔ یہ زندگی میں نئی آنے والی خوشیوں اور کامیابیوں کی طرف توجہ کرنے سے روک دے گی۔ لہٰذا برے وقت کی تکلیف کو ذہن سے نکال دیا جائے۔


    رحمدلی

    ہر انسان، جانور اور پودے سے رحمدلی کا برتاؤ کرو۔ یہ بہت سے نقصانات سے محفوظ رکھے گا۔ لیکن یاد رہے کہ دماغ پرسکون ہوگا تو رحمدلانہ جذبات پیدا ہوں گے، اور جسمانی طور پر صحت مند رہو گے تو دماغ پرسکون ہوگا۔


    دوسروں سے محبت کرو

    دنیا میں موجود ہر شے سے محبت کرو اور جو لوگ دوسروں سے محبت نہیں کرسکتے ان سے کوئی تعلق نہ رکھو۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عجیب الخلقت سر والے بچے کا 2 ہزار سالہ قدیم ڈھانچہ دریافت

    عجیب الخلقت سر والے بچے کا 2 ہزار سالہ قدیم ڈھانچہ دریافت

    روس کے شہر کریمیا میں ماہرین آثار قدیمہ نے 2 ہزار سالہ قدیم ایک ڈھانچہ دریافت کیا ہے جو ایک چھوٹے بچے کا ہے اور اس کا سر غیر معمولی ہیئت کا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بچہ ممکنہ طور پر جنگجو قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جسے مستقبل میں جنگوں میں لڑنے کی تربیت دی جانی ہو۔

    اس ڈھانچے کا سر غیر معمولی طور پر لمبا ہے اور بعد ازاں ماہرین نے بتایا کہ یہ سرمتی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے جو پہلی صدی قبل مسیح کے جنگجوؤں کا نامور قبیلہ ہے۔

    اس قبیلے کی ایک جسمانی خصوصیت ان کے لمبوترے سر تھے۔ یہ لوگ بچوں کے پیدا ہونے کے بعد ان کے سر پر ایک نرم کپڑا اور لکڑی کا ایک لمبوترا فریم پہنا دیا کرتے تھے جس کے بعد ان بچوں کا سر اسی شکل میں نمو پاتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قبیلے میں اس نوعیت کے سر خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

    کریمیا میں اس بچے کی قبر ایک زیر تعمیر پل کے نزدیک دریافت ہوئی۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس بچے کی عمر 2 سال ہے۔ انہوں نے اسے خلائی مخلوق کی قبر کا نام بھی دیا۔

    قبر کی دریافت کے بعد ایک روسی خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا کہ قدیم دور کے بعض خلا باز ایسے لمبوتروں سروں کو خلائی مخلوق سے جوڑتے ہیں اور ان کے مطابق یہ خلائی مخلوق کی زمین پر پرورش پانے والی نسل ہے۔

    تاہم آرکیالوجی انسٹیٹیوٹ آف رشین اکیڈمی آف سائنس کے ایک پروفیسر نے اس بات کی نفی کی کہ ان کا تعلق خلائی مخلوق سے ہے۔

    ان کے مطابق لمبوترے سر سرمتی ثقافت کی اہم خصوصیت ہیں جو اس دور میں خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

    ماہرین کو امید ہے کہ اس ڈھانچے کی دریافت سے انہیں اس دور کے بارے میں اہم معلومات جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کا 700 سال قدیم مجسمہ

    ڈونلڈ ٹرمپ کا 700 سال قدیم مجسمہ

    لندن میں ایک کئی سو سال قدیم مجسمے کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے حیرت انگیز مشابہت نے سیاحوں کو حیرت اور خوف میں مبتلا کردیا۔

    لندن کے نوٹنگھم شائر کیتھڈرل میں نصب یہ مجسمہ جو صرف سر پر مشتمل ہے، چھت کے قریب کمان پر تراشا گیا ہے اور یہ 700 سال قدیم ہے۔

    trump-2

    اس عیسائی عبادت گاہ میں موجود ان گنت کمانوں میں بے شمار مجسمے تراشے گئے ہیں اور ٹرمپ سے مشابہت رکھنے والا یہ سر بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    اس مجسمے کو اس سے قبل بھی دیکھا گیا تھا تاہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔

    کیتھڈرل کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ اس مجسمے کو دیکھتے آرہے ہیں لیکن آج سے پہلے انہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس مجسمے کے بالوں کا انداز ہو بہو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ہے۔

    trump-3

    انہوں نے بتایا کہ ان مجسموں کو چودہویں صدی میں تراشا گیا۔ یہ مجسمہ ممکنہ طور پر کسی عام شخص کا ہے اور اس کا تعلق بادشاہوں کے خاندان سے نہیں ہے۔

    تو گویا یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ آج سے 700 سال قبل بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مشابہت رکھنے والا شخص موجود تھا، اور اگر وہ واقعی کوئی عام شخص تھا تو صدیوں بعد اس کی روح خوش ہوگئی ہوگی کہ آج اس کا ہم شکل شخص دنیا کے ایک طاقتور ترین ملک کا سربراہ ہے۔