Tag: قدیم داستانیں

  • گیت کا اثر

    گیت کا اثر

    کسی خوش حال ملک میں ایک شاعر اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا جو کوئی کام نہیں کرتا تھا اور سارا دن شاعر دوستوں کی محفل جمائے رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت غریب تھا۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اس سے کہا۔ تم بادشاہ کے پاس جا کر کوئی گیت ہی سنا دو۔ شاید بادشاہ سے انعام مل جائے۔ شاعر کو یہ بات پسند آئی اور وہ کسی طرح دربان کی خوشامد کرکے بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اس سے آمد کا سبب دریافت کیا۔ شاعر نے کہا کہ وہ اپنا ایک گیت سنانے کی اجازت چاہتا ہے۔ بادشاہ نے اسے گیت سنانے کی اجازت دے دی۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کو گیت اچھا لگا۔ اس نے اُسے اپنے استعمال کے تمام برتنوں پر لکھوانے کا حکم جاری کر دیا۔

    چند دنوں بعد بادشاہ اور وزیر میں کسی بات پر تکرار اور ناراضی ہو گئی۔ وزیر مزاج کا اچھا آدمی نہیں تھا۔ وہ بادشاہ کو جان سے مار ڈالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس طرح حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ آ جاتی یعنی وہ خود بادشاہ بن جاتا۔

    وزیر نے بادشاہ کو ختم کرنے کے لیے کئی منصوبے ذہن میں ترتیب دیے اور آخر میں ایک پر عمل کرانے کے لیے تیار ہو گیا۔

    ایک حجام روزانہ بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے آتا تھا۔ وزیر نے حجام کو ڈھیر ساری دولت دینے کا لالچ دے کر اسے اس قتل کے لیے راضی کر لیا۔ اس نے کہا کہ جب حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے جائے تو اُسترا خوب تیز کر لے اور داڑھی بناتے وقت بادشاہ کی گردن کاٹ دے۔

    دوسرے دن حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لیے گیا۔ کٹورے میں پانی آیا۔ حجام پتھر پر پانی ڈال کر استرا تیز کرنے لگا۔ بیٹھے بیٹھے بادشاہ کی نظر کٹورے پر گئی۔ کٹورے پر شاعر کا وہ گیت کُھدا ہوا تھا۔ بادشاہ گیت گنگنانے لگا۔

    گھسے گِھساوے
    گِھس گِھس لگاوے
    پانی!
    جس کی وجہ سے تو گِھسے
    وہ بات میں نے جانی!

    بادشاہ کی گنگناہٹ سن کر حجام کانپنے لگا۔ وہ سمجھا کی بادشاہ کو وزیر کی سازش کا پتہ چل گیا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھا اور سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

    بادشاہ کو حجام کے اس طرح بھاگ جانے پر بڑی حیرت ہوئی، ساتھ ہی غصہ بھی آیا۔ اس نے حکم دیا کہ حجام کو پکڑ کر لایا جائے۔

    حجام جب بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا۔ "کیا بات ہے؟ تم نے ایسی حرکت کی جرأت کیسے کی”؟

    حجام جان کی امان چاہتے ہوئے گڑ گڑانے لگا۔ اور سب کچھ اگل دیا۔

    بادشاہ نے وزیر کو گرفتار کرانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اُس شاعر کو دربار میں طلب کر کے خوب سراہا اور کہا۔ "جس قدر بھی دولت اٹھا سکو، اٹھا کر اپنے گھر لے جاؤ۔” شاعر کے تو دن ہی پھر گئے۔ وہ بیٹھے بیٹھے امیر ہو گیا۔ ادھر بادشاہ نے وزیر کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    (قدیم لوک کہانی)

  • مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    مغرب اور یورپ میں مقبول "فردوسِ بریں” کا تذکرہ

    عبدالحلیم شرر کا مقبول ترین ناول "فردوسِ بریں” تاریخ کے ایک ایسے کردار کو ڈرامائی شکل میں ہمارے سامنے لاتا ہے جسے ہم حسن بن صباح کے نام سے جانتے ہیں۔

    شرر کو ان کی تاریخی داستان اور ‌ناولوں کی وجہ سے خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔

    یہاں‌ہم ان کے جس ناول کا ذکر کررہے ہیں یہ 1899 میں شایع ہوا تھا اور حسن بن صباح وہ کردار ہے جس کے بارے میں‌ مشہور ہے کہ اس نے زمین پر ایک جنّت بنائی تھی اور بڑا دعویٰ کرتا تھا۔ اس ناول میں‌ شرر نے اسی جنت کا احوال ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔

    اس ناول کو جہاں‌ اردو قارئین نے بہت شوق سے پڑھا اور اس کا چرچا ہوا، وہیں‌ شرر کا نام مغرب اور یورپ تک بھی پہنچا۔

    اس ناول کو خاصی پذیرائی ملی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کے علاوہ پچھلے چند برسوں‌ میں یورپ میں اس ناول کی کہانی کو تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ اس ناول کے دو پارے آپ کی توجہ کے لیے پیش ہیں جو شرر کی خوب صورت نثر اور ان کے فنِ ناول نگاری کا نمونہ ہیں۔

    "حسین نے نہایت ہی جوش و حیرت سے دیکھا کہ انہی چمنوں میں جا بہ جا نہروں کے کنارے کنارے سونے چاندی کے تخت بچھے ہیں جن پر ریشمی پھول دار کپڑوں کا فرش ہے۔”

    "لوگ پُرتکلف اور طلائی گاؤ تکیوں سے پیٹھ لگائے دل فریب اور ہوش ربا کم سن لڑکیوں کو پہلو میں لیے بیٹھے ہیں اور جنت کی بے فکریوں سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ خوب صورت، خوب صوت آفتِ روزگار لڑکے کہیں تو سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اور کہیں نہایت ہی نزاکت اور دل فریب حرکتوں سے ساقی گری کرتے ہیں۔ شراب کے دور چل رہے ہیں اور گزک کے لیے سدھائے یا قدرت کے سکھائے ہوئے طیور پھل دار درختوں سے پھل توڑ توڑ کے لاتے ہیں اور ان کے سامنے رکھ کے اڑ جاتے ہیں۔”

    عبدالحلیم شرر نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور جب تاریخی ناول نگاری کی طرف توجہ دی تو اپنے ناولوں کے ذریعے مغرب کی اسلام دشمنی اور بیزاری کا خوب جواب دیا۔ وہ اصلاحی اور بامقصد تخلیق کے قائل تھے۔

    فردوسِ بریں کو ایک تخلیقی کارنامہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے متعدد دوسرے ناول اور ڈرامے بھی پسند کیے گئے۔