Tag: قدیم شعرا

  • امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    امیر مینائی کی دُعا اور بارش

    یہ اس زمانے کی بات ہے جب رام پور میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہوگئے تھے اور عوام سخت پریشان تھے۔

    والیٔ رام پور نواب یوسف علی خان نے مشہور شاعر حضرت امیرؔ مینائی سے کہا کہ بارش کے لیے بارگاہِ الٰہی میں التجا کریں۔ امیر مینائی کا خاندان زہد و تقویٰ، خدمتِ خلق کے لیے مشہور تھا اور آپ بھی نیک طینت اور پرہیز گار شمار ہوتے تھے۔

    کہتے ہیں امیر مینائی ان دنوں کسی کام کی غرض سے رام پور آئے ہوئے تھے۔ نواب صاحب کی پریشانی اور اپنے لوگوں کے لیے ان کا درد سنا تو سبھی کو دُعا کا کہتے ہوئے خود بھی اپنے رب کی بارگاہ میں‌ ہاتھ اٹھائے۔ کہتے ہیں ان کی دُعا کے بعد وہاں خوب بارش ہوئی۔

    حضرت امیرؔ مینائی کی شاعری کے موضوعات میں خدا پرستی، دین داری، حسنِ خلق کی تلقین اور آخرت کی فکر بھی ملتی ہے۔ انھوں نے بارش کے لیے اپنا ایک دعائیہ کلام پڑھا جس کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    یا خدا خلق کو جینے کا سہارا ہو جائے
    ابرِ رحمت کو برسنے کا اشارہ ہو جائے

    جوش میں ابرِ کرم آئے تو جل تھل بھر جائیں
    کب سے ناکام ہیں اب کام ہمارا ہو جائے

    باغ شاداب ہو، کھیتی ہو ہری، دل ہوں نہال
    عیش و آرام سے خلقت کا گزارا ہو جائے

    اپنے مخلوق کو تو کال کے پھندے سے نکال
    یہ مصیبت نہیں ایسی کہ گوارا ہو جائے

    اس تباہی میں ہے تھوڑی سی عنایت ہی بہت
    ڈوبتے کے لیے تنکے کا سہارا ہو جائے

    ایک چھینٹا جو پڑے ابر و کرم کا تیرے
    درد و دُکھ دور ہمارا ابھی سارا ہو جائے

    (حضرت امیر مینائی کا یہ قصہ ڈاکٹر امیر علی نے ہندوستان کے اہم شعرا کے فن اور ان کی زندگی سے متعلق ادبی تحقیق پر مبنی مضمون میں رقم کیا ہے)

  • یہ اصل زندگی ہے….

    یہ اصل زندگی ہے….

    اصغر گونڈوی کا اصل نام اصغر حسین ہے۔ ان کا شمار کلاسیکی دور کے شعرا میں کیا جاتا ہے۔ 1884 میں متحدہ ہندوستان کے ضلع گورکھ پور میں‌ پیدا ہوئے، لیکن ان کا خاندان گونڈہ منتقل ہو گیا تھا جہاں ان کے والد بسلسلہ ملازمت قیام پذیر تھے۔

    اصغر گونڈوی کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی۔ علم و ادب اور مطالعے کے شوق نے شعر کہنے کی طرف مائل کیا۔ منشی جلیل اللہ وجد اور منشی امیر اللہ تسلیم سے اصلاح لیتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کو سادہ طبیعت اور پاکیزہ خیالات کا مالک کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق کے مضامین کے علاوہ فلسفہ اور تصوف کے موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔ وہ 1936 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    اصغر گونڈوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    جانِ نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
    جنت ہے ایک خونِ تمنا کہیں جسے

    اس جلوہِ گاہِ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
    ایسا حجاب، چشمِ تماشا کہیں جسے

    یہ اصل زندگی ہے، یہ جانِ حیات ہے
    حسنِ مذاق شورشِ سودا کہیں جسے

    اکثر رہا ہے حسنِ حقیقت بھی سامنے
    اک مستقل سراب، تمنا کہیں جسے

    اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے
    شکلِ صفات معنیِ اشیا کہیں جسے

    زندانیوں کو آ کے نہ چھیڑا کرے بہت
    جانِ بہارِ نکہتِ رسوا کہیں جسے

    سرمستیوں میں شیشۂ مے لے کے ہاتھ میں
    اتنا اچھال دیں کہ ثریا کہیں جسے

    شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
    وہ ربطِ خاص، رنجشِ بے جا کہیں جسے

    میری نگاہِ شوق پہ اب تک ہے منعکس
    حسنِ خیال، شاہدِ زیبا کہیں جسے

    دل جلوہ گاہِ حسن بنا فیض عشق سے
    وہ داغ ہے کہ شاہدِ رعنا کہیں جسے

    اصغرؔ نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر
    رازِ حیات، ساغر و مینا کہیں جسے

  • مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو زبان اور ادب کے ارتقائی دور میں غزل کہی اور اسے خاص طور پر ابہام سے دور رکھتے ہوئے معاصر شعرا کے برعکس اپنے کلام میں شستہ زبان برتی۔

    وہ اپنے دور کے اہم شعرا میں شمار کیے گئے۔ مختلف ادبی تذکروں میں مظہرؔ جانِ جاناں کی پیدائش کا سال 1699 درج ہے۔

    ان کے والد اورنگریب عالم گیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے۔ کہتے ہیں بادشاہ اورنگزیب نے ان کا نام جانِ جان رکھا تھا، لیکن مشہور جانَ جاناں کے نام سے ہوئے۔ ان کی عرفیت شمسُ الدین تھی اور شاعری شروع کی تو مظہرؔ تخلص اختیار کیا۔

    شاعری کے ساتھ علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ انھیں ایک صوفی اور روحانی بزرگ کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    اولیائے کرام کے بڑے محب اور ارادت مند رہے اور خود بھی رشد و ہدایت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سیکڑوں لوگ خصوصاً روہیلے آپ کے مرید تھے۔

    1780 میں مظہرؔ جانِ جاناں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر تھے، لیکن ان کا بہت کم کلام منظرِ عام پر آسکا۔

    مظہرؔ جانِ جاناں کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    چلی اب گُل کے ہاتھوں سے لٹا  کر  کارواں اپنا
    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
    اگر   ہوتا    چمن اپنا،    گُل اپنا، باغباں اپنا

    الم سے  یاں تلک روئیں کہ آخر  ہو  گئیں رُسوا
    ڈوبایا  ہائے آنکھوں نے  مژہ کا خانداں اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    مرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
    کہ جن نے آسرے پر گُل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا