Tag: قدیم عراق

  • انسانوں کے دشمن ’’ننگرسو اور تیامت‘‘

    انسانوں کے دشمن ’’ننگرسو اور تیامت‘‘

    عراق دراصل دجلہ و فرات کا عطیہ ہے۔ وہاں کے باشندوں کی زندگی کا انحصار انہی دریاؤں پر ہے۔ اگر یہ دریا خشک ہو جائیں تو عراق ویران ریگستان ہو جائے۔

    دریائے فرات شمال میں کوہِ ارارات سے نکلتا ہے (یعنی وہی پہاڑ ہے جس پر روایت کے مطابق سیلاب کے بعد حضرت نوح کی کشتی جاکر ٹھہری تھی) اور ملک شام میں سے گزرتا ہوا شمال مشرق کی سمت سے عراق میں داخل ہوتا ہے۔ اور میدان میں کئی سو میل کا سفر طے کر کے بالآخر خلیج فارس میں سمندر سے جا ملتا ہے۔

    دریائے فرات کی لمبائی 1780 میل ہے۔ دریائے دجلہ جس کی لمبائی 1150 میل ہے، جھیل وان کے جنوب سے نکلتا ہے۔ اور راستے میں دریائے زاب کلاں، زاب خورد اور دریائے دیالہ کو اپنی آغوش میں لیتا ہوا بصرے سے ساٹھ میل شمال میں قرنا کے مقام پر دریائے فرات میں شامل ہو جاتا ہے۔

    علمائے ارض کا کہنا ہے کہ اب سے کئی ہزار برس پہلے خلیج فارس کا شمال ساحل قرنا کے قریب تھا اور دجلہ و فرات سمندر میں الگ الگ گرتے تھے۔ اتفاقاً دو اور دریاؤں کے دہانے بھی وہیں واقع تھے۔ ایک دریائے قرون جو مشرق میں ایران سے آتا تھا اور دوسرا وادی الباطن کا نالہ جو جنوب مغرب میں عرب سے آتا تھا۔ یہ دونوں خلیج فارس میں تقریباً آمنے سامنے گرتے تھے۔ ان دریاؤں کی مٹی دہانوں کے پاس جمع ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ خلیج فارس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک رفتہ رفتہ مٹی کی ایک دیوار سی کھڑی ہو گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دجلہ اور فرات کے بہاؤ کے ساتھ آنے والی مٹی کی نکاسی رک گئی اور یہ مٹی سمندر میں بہہ جانے کی بجائے دیوار کے شمال میں جمع ہوتی گئی۔ وہ پانی جو دیوار کے سبب سمندر میں نہ جا سکتا تھا پہلے دلدل بنا پھر آہستہ آہستہ خشک ہوگیا۔ اس طرح وہ ڈیلٹا وجود میں آیا جہاں اب بصرہ آباد ہے۔

    دجلہ اور فرات پہاڑوں سے نکل کر جب میدان میں آتے ہیں تو ان کو ایک پتھریلے پلیٹو سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ اونچی اونچی پہاڑیوں کو کاٹتے ہوئے بہت نشیب میں بہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ چھ ہزار برس میں بھی ان کے دھارے کا رخ اس علاقے میں بہت کم بدلا ہے۔ چنانچہ اس علاقے میں پرانے شہر دریاؤں کے کناروں پر بدستور موجود ہیں مثلاً ماری (حریری) اور جربلوس دریائے فرات پر اور نینوا اور اشور (قلعۃ الشرغاط) دریائے دجلہ پر۔ اس کے برعکس وسطی اور جنوبی خطوں میں جہاں مسطح میدان ہیں دریاؤں کا رخ بدلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب کے قدیم شہر سیپر (ابوجبہ) کیش (للاحمر) بابل، ایرک (درکا) ارء (مقیر) العبید اور اریدو (ابوشہرین) جو کسی زمانے میں دریائے فرات کے کنارے آباد تھے، اب دریا سے میلوں دور ہیں۔ ان شہروں کے انحطاط اور زوال کا بڑا سبب دریا کے بہاؤ کا یہی تغیر ہے۔

    دریائے فرات جب ڈیلٹا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا بہاؤ بہت دھیما ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مٹی جسے دریا پلیٹو سے بہا کر لاتا ہے، تہہ میں بالخصوص کناروں پر جمتی جاتی ہے اور دریا کی سطح قرب و جوار کی زمین سے بھی اونچی ہوتی جاتی ہے اور کناروں پر مصنوعی بند سے بن جاتے ہیں۔ مثلاً ناصریہ کے قریب نشیب کا یہ عالم ہے کہ اُر کے کھنڈروں کے پاس سے گزرنے والی ریلوے لائن دریائے فرات کی تہہ سے بھی چھ فٹ نیچی ہے۔ اس سے یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ فرات کا پانی بڑی آسانی سے آب پاشی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن کنارے کے بندوں کی دیکھ بھال آسان نہیں ہے۔ سیم اور تھور کی تباہ کاریاں اس پر مستزاد ہیں۔

    ان دریاؤں کی ایک خصوصیت ان کا اچانک اور ناوقت سیلاب ہے۔ یہ سیلاب اپریل اور جون کے درمیانی ہفتوں میں آتا ہے جب کہ خریف کی فصلیں ابھی کھیتوں میں کھڑی ہوتی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے دریاؤں کا پانی آناً فاناً کئی گز چڑھ جاتا ہے۔ طغیانی کے زور سے بند ٹوٹ جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں ایکڑ زمین، فصلیں، جھونپڑیاں اور مویشی پانی کی چادر میں چھپ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے قدیم باشندے سیلاب کے دیوتاؤں ’’ننگرسو اور تیامت‘‘ کو انسان کا دشمن خیال کرتے تھے۔

    (سبط حسن کے "ماضی کے مزار” سے اقتباسات)

  • "سومیر دراصل اپنے زمانے کا برطانیہ یا جاپان تھا”

    "سومیر دراصل اپنے زمانے کا برطانیہ یا جاپان تھا”

    قدیم تہذیبوں اور ثقافتوں میں عراق کی سومیری قوم کو دنیا کی سب سے پہلی پڑھی لکھی قوم مانا جاتا ہے جن کا‌ دور ہر لحاظ سے شان دار اور قابلِ ذکر ہے۔ اس حوالے سے معروف ترقّی پسند ادیب اور علمی و فکری موضوعات پر اپنی تصانیف کے لیے مشہور سیّد سبطِ حسن کی کتاب "تہذیب سے تمدّن تک” سے یہ پارہ قدیم اقوام کے بارے میں آپ کی معلومات میں اضافے اور دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    وہ لکھتے ہیں: سومیر کی زمین معدنیات سے خالی تھی۔ وہاں نہ تانبا ہوتا تھا، نہ ٹن، نہ سونا، نہ چاندی حتّٰی کہ کھجور کے علاوہ کوئی لکڑی بھی میسرنہ تھی، مگر اہلِ سومیر کے پاس اناج کی افراط تھی اور اناج ایسا مال تھا جس کے عوض وہ ہر قسم کی دھات اور لکڑی دوسرے ملکوں سے درآمد کر سکتے تھے۔

    چناں چہ تانبہ اناطولیہ اور آرمینا اور آذربائیجان سے، کانسہ عمان سے، ٹن ایران اور افغانستان سے، چاندی کوہِ تاؤراس (اناطولیہ) سے، سونا ہاتھی دانت اور قیمتی لکڑی وادیِ سندھ سے اور دیودار کی لکڑی لبنان سے آتی تھی۔

    اہلِ سومیر اِن خام اشیا سے نہایت عمدہ قسم کی مصنوعات تیار کرتے تھے۔ اور پھر انہیں دوسرے ملکوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے۔ سومیر دراصل اپنے زمانے کا برطانیہ یا جاپان تھا۔

    دراصل اشیائے خام کی قلّت کسی محنتی اور ہوشیار قوم کے لیے کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتی بلکہ حوصلہ اور ہمّت کی آزمائش انہی نامساعد حالات ہی میں ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے قویٰ کم زور اور دل و دماغ ضعیف ہوتے ہیں وہ حالات کی سخت گیریوں اور جفا طلبیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ البتہ جو قومیں کار زارِ ہستی میں جہد اور جفاکشی کو اپنا شعار بناتی ہیں، وہ ترقّی کی دوڑ میں دوسرے پر سبقت لے جاتی ہیں۔

    سومیر ایسے ہی جیالوں کی بستی تھی۔ چناں چہ محل اور معبد کی سخت گیریاں بھی اہلِ سومیر کی تخلیقی اور صنعتی صلاحیتوں کو کچل نہ سکیں۔ اسی بنا پر پروفیسر وولی کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’’مقامی حالات ہی نے اہلِ سومیر کو مہذّب بننے پر مجبور کر دیا۔ وہ برآمد کے لیے مصنوعات تیار کرتے تھے تاکہ اپنی ملکی ضروریات کے لیے خام مال حاصل کرسکیں۔ وہ دھاتوں کے سب سے اچّھے کاری گر تھے۔ حالاں کہ ان کے ملک میں دھاتیں ناپید تھیں۔‘‘

    سومیر کے شہر تجارتی اور صنعتی شہر تھے۔ ہر پیشے کی اپنی ایک برادری (گلڈ) ہوتی تھی اور اس برادری میں کوئی باہر والا داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ پیشے آبائی ہوتے تھے۔ اور نسلاً بعد نسل اولاد میں منتقل ہوتے رہتے تھے۔ اس لیے سونار کا بیٹا عام طور پر سونار اور بڑھئی کا بیٹا بڑھئی ہوتا تھا۔ بعض ایسے پیشے تھے جن کے لیے چھوٹی دکانیں یا کوٹھریاں بھی ہوتی تھیں۔ مثلا ٹھٹھیرے یا درزی کا پیشہ لیکن بعض پیشوں کے لیے زیادہ جگہ درکار ہوتی ہے۔ مثلاً جلاہوں کا پیشہ، چناں چہ کپڑا بُننے کے لیے عام طور پر کارگاہوں میں کام کرتے تھے۔

    اکثر و بیش تر کارگاہیں تو مندر کی ملکیت ہوتی تھیں لیکن بعض بیوپاریوں کی اپنی نجی کارگاہیں بھی تھیں۔ مندر کی کارگاہوں میں مردوں کے دوش بہ دوش عورتیں بھی کام کرتی تھیں۔ کاری گروں کو اجرت چاندی میں ادا کی جاتی تھی۔ گو اس وقت تک سکّے ایجاد نہیں ہوئے تھے، لیکن چاندی کا ایک خاص وزن جس پر ٹھپہ لگا ہوتا تھا، بہ طور سکّہ استعمال ہوتا تھا۔

  • "نمرود” کب اور کیسے برباد ہوا ہو گا؟

    "نمرود” کب اور کیسے برباد ہوا ہو گا؟

    صدیوں‌ پہلے روئے زمین پر مختلف تہذیبوں کے فن کاروں اور ہنرمندوں نے اس زمانے کے دست یاب وسائل کی مدد سے اپنے فن کو یوں آزمایا کہ دورِ جدید میں‌ صنّاعی اور کاری گری کے یہ نمونے اور آثار دیکھنے والا انسان حیران رہ جاتا ہے۔

    دنیا کی مختلف اقوام اور قدیم تہذیبوں کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی تو ماہرینِ آثار نے "اشوریہ سلطنت” اور اس قدیم تہذیب کے بارے میں‌ بھی جانا۔ آج ہم آپ کو "نمرود” شہر کے بارے میں‌ بتائیں‌ گے جہاں‌ اشوریہ سلطنت کی عظیم نشانیاں‌ اور یادگار موجود ہیں۔

    یقینا آپ یہ جاننا چاہتے ہیں‌ کہ نمرود موجودہ دنیا کے کس ملک کا شہر ہے؟

    نمرود، عراق کا ایک شہر ہے جو موصل سے 20 میل دوری پر جنوب مشرق کی طرف ہے۔

    اس شہر پر چند سال پہلے شدّت پسندوں‌ نے قبضہ کرلیا تھا اور یہاں‌ کے قدیم تہذیبی ورثے اور تاریخی یادگاروں کو نقصان پہنچا تھا۔

    اشوریہ اور نمرود شہر
    اندازہ ہے کہ یہ شہر تیرہویں صدی قبلِ مسیح سے قائم ہے۔ قدیم آثار اور تہذیبوں‌ کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ 3300 برس پرانا شہر ہے۔ اشوریہ کی قدیم سلطنت سے تعلق رکھنے والا یہ شہر دریائے دجلہ کے کنارے پر آباد ہے۔

    نمرود شہر سے اشوری قوم نے مشرقِ وسطیٰ کے خطّوں پر تین ہزار برس تک اپنا اثر قائم رکھا تھا۔ کوئی نہیں‌ جانتا کہ نمرود کی شان وشوکت کیسے اور کب مکمل طور پر برباد ہوئی ہو گی۔ اس شہر کی بعض قدیم عمارات اور وہاں‌ کے آثار سے محققین نے اندازہ لگایا ہے کہ اس شہر کا امتیاز یہ تھا کہ یہ قدیم اشوریہ سلطنت میں 150 برس تک دارالخلافہ بھی رہا۔

    1840ء میں‌ پہلی بار یہاں‌ یورپی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے کھدائی کا آغاز کیا اور ایک عظیم تہذیب کے بارے میں‌ دنیا کو جاننے کا موقع ملا۔

    کھدائی کے دوران وہاں سے شاہی محلّات کے مختلف حصّے، بُت، مختلف مجمسے اور دیگر اہم اشیا نکالی گئیں۔ تاہم کسی وجہ سے یہ کام کئی دہائیوں‌ تک رکا رہا اور 1949ء میں سَر میکس مالووان اور ان کی ٹیم نے دوبارہ عراق جاکر موجودہ نمرود کے نیچے دفن تہذیبی اور ثقافتی خزانے کو نکالنے کا کام شروع کیا۔

    اشوریہ علوم و فنون کے دل دادہ تھے۔ ان کی سلطنت زبردست اور وہ نہایت بااثر تھے۔ اس شہر کے کھنڈرات اس سلطنت کے بامراد ہونے اور عظیم الشان ماضی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

    اشوریہ کے ہنر مند اور کاری گروں‌ کے علاوہ علم و فنون سے وابستہ لوگوں نے شاہی محلّات، امرا و رئیسوں کے مکانات سے لے کر چوک چوراہوں، معبدوں، غاروں اور مختلف مقامات پر اپنی صنّاعی اور اختراع کاری کے نمونے یادگار چھوڑے۔

    کھدائی کے دوران اس قدیم شہر سے بڑے پروں والا ایسا بیل بھی ملا جسے ماہرین کے مطابق وہاں‌ کے لوگ اپنا محافظ اور مددگار مانتے تھے۔

    شہر کے لگ بھگ وسط میں ایک ایسی بلند عمارت کا ڈھانچا موجود تھا جس کے بارے میں‌ قیاس کیا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں‌ حکومتی ایوان رہا ہو گا۔ اس عمارت کا نام "زقورہ” یا "زیگورٹ” تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کا ڈھانچا بتاتا ہے کہ یہ عمارت مصر کے اہرام جیسی رہی ہو گی۔

    نمرود شہر کی قدیم عمارتوں‌ کے آثاروں‌ کے ساتھ وہاں‌ غاروں کی دیواروں، چٹانوں پر مختلف جانوروں، جنگجوؤں اور ایسی اشیا کی تصاویر بنی ہوئی ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح‌ سلطنت اور عوام سے تعلق ہے۔ بعض بُت اور شخصیات کے مجسمے بھی اس تہذیب اور ثقافت میں آرٹ کے عمل دخل کا ثبوت ہیں۔

    ماہرین کو اس تہذیب کے کھنڈرات سے بعض ایسے نشانات اور حوالے ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں‌ وہاں کتب خانے بھی موجود تھے جن میں مذہب، تاریخ، جغرافیہ اور دوسرے موضوعات پر کتب موجود تھیں۔ بدقسمتی سے عراق میں‌ خانہ جنگی اور مختلف گروہوں‌ نے اس قدیم تہذیب کے کئی نشان برباد کردیے۔