Tag: قدیم عمارتیں

  • قاہرہ، قدیم عمارتوں‌ اور یادگاروں کا شہر

    قاہرہ، قدیم عمارتوں‌ اور یادگاروں کا شہر

    مصر کا دارُالحکومت قاہرہ برّاعظم افریقا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ قاہرہ کے مغربی علاقے کا طرزِ تعمیر فرانس کے مشہور اور قابلِ‌ دید شہر پیرس سے متاثر نظر آتا ہے جسے انیسویں صدی کے وسط میں شاہ اسماعیل نے بسایا اور تیّار کیا تھا۔

    یہاں‌ آج جدید تعمیرات ہوچکی ہیں، لیکن اب بھی قدیم شہر کی عام عمارات اور وہاں‌ کی سیکڑوں مساجد اپنے زمانے کی شان و شوکت کا حال بیان کرتی دکھائی دیں گی۔ جب کہ یہی شہر مشرق میں صحرا کی جانب پھیلتا جارہا ہے۔

    اگر ہم یہاں‌ کی قدیم عمارتوں کا ذکر کریں‌ تو ان میں چند نمایاں‌ اور قابل‌ ذکر عمارات میں‌ صدارتی محل بھی شامل ہے۔ مصر کے دارُالحکومت قاہرہ کے پوش علاقے میں قصر الاتحادیہ یا اتحادیہ محل ہلیو پولس ہے۔ یہ ایک سو چار سال قدیم ہے۔ 1910ء میں اسے ‘گرینڈ ہوٹل بنایا گیا، تاہم بعد ازاں اسے ایوانِ صدر کا درجہ دے دیا گیا۔ اس محل میں 400 کمرے اور کئی بڑے ہال ہیں۔

    یہ قصر پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں عالمی شخصیات کی آمد ورفت کا مرکز رہا۔1960ء کی دہائی میں یہ عمارت میں متعدد وزارتوں اور اہم محکموں کے دفاتر کے طور پر استعمال کی جاتی رہی۔

    مصر کی جامعہ الازھر کا نام کس نے نہیں‌ سنا۔ قاہر میں موجود کم و بیش ایک ہزار سال پرانی اور مسلم دنیا میں سب سے بڑی درس گاہ جامعۃُ الازھر قدیم یادگار اور اس دور کے فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔

    مسلمان معماروں کی ہنر مندی اور فن کاری اس عمارت سے جھلکتی ہے جس کا دنیا بھر میں شہرہ ہوا۔ مشہور ہے کہ صقلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک فاطمی مسلمان گورنر المعزالدین اللہ الفاطمی کے حکم پر 970ء میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور مسجد کی تعمیر تقریباً 28 ماہ میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ آج یہ درس گاہ عالم میں مسلمانوں کی علمی و دینی شناخت و علامت جب کہ مصر کی سیاست کا اہم ستون ہے۔

    قاہرہ کی دیگر جدید دور کی ممتاز بلند عمارات میں نائل سٹی ٹاور، نیو قاہرہ سٹی ٹاورز، فیئرمونٹ قاہرہ وغیرہ شامل ہیں۔

  • کراچی پورٹ ٹرسٹ: ایک صدی پرانی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت

    کراچی پورٹ ٹرسٹ: ایک صدی پرانی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت

    کراچی شہر انگریز دور میں بھی علم و فنون کا مرکز، تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور کاروباری و تجارتی سرگرمیوں کے لیے مشہور رہا ہے جہاں مختلف اقوام اور مذاہب کے ماننے والے بستے تھے جس کی ایک جھلک یہاں کے فنِ تعمیر میں بھی نظر آتی ہے۔

    کراچی میں کئی قدیم عمارتیں دیکھی جاسکتی ہیں جو آج بھی رہائشی اور کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ ان میں سے اکثر عمارتیں ہندو راجائوں، امرا اور برطانوی حکم رانوں کی بنوائی ہوئی ہیں، جو اس زمانے کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہیں۔ ایک ایسی ہی مشہور اور اہم عمارت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر کی ہے جسے ایک صدی قبل تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس عمارت کا سمندری راستوں سے سامان کی ترسیل میں کلیدی کردار رہا ہے اور اس عمارت سے متعلقہ عملہ شہر کی اہم ترین بندر گاہ کے لیے کئی دہائیوں سے خدمات فراہم کررہا ہے۔

    کراچی پورٹ ٹرسٹ کی عمارت کا یہ مرکزی دفتر برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کے امتزاج کا نمونہ ہے اور ماہرین کے مطابق اس میں‌ رومن فنِ تعمیر کی آمیزش بھی ہے، جب کہ عمارت کا مرکزی گنبد اسلامی طرزِ تعمیر کا عکاس ہے۔

    یہ کراچی کی اہم اور نمایاں عمارات میں سے ایک ہے جسے بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ آرکیٹکچر جارج وائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے انتظامی دفاتر کی تعمیر 1916ء میں مکمل ہوئی تھی جہاں سے آج تک کراچی پورٹ کے لیے عملہ سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔

    اس قدیم عمارت کی تعمیر کا کام 1912ء میں شروع کیا گیا تھا جو چار سال کی مدت میں‌ مکمل کیا گیا اور اس وقت کے ممبئی کے گورنر لارڈ ویلنگٹن نے اس کا افتتاح کیا تھا، اس دور میں‌ اس کی تعمیر پر 9 لاکھ سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ اس عمارت کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران انڈیا جنرل اسپتال کا نام دے دیا گیا تھا جب کہ مئی 1919ء تک یہ عمارت فوجی اسپتال کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

    یہ عمارت دو منزلہ ہے جس کے دروازے کھڑکیاں بڑے اور محرابیں کشادہ و بلند ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں میں مہنگی ساگون لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ عمارت کا داخلی اور خارجی حصّہ سادہ اور پُرکشش ہے، جب کہ کمرے کشادہ ہیں جن کی چھت اونچی ہے۔

    یہ عمارت ماضی کی یادگار اور اہم قومی ورثہ ہے جہاں یومِ‌ آزادی اور دیگر اہم تہواروں پر
    برقی قمقمے روشن کیے جاتے ہیں اور سجاوٹ و آرائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

  • وہ پُل جسے چار صدیوں کا بوجھ بھی نہیں‌ جھکا سکا

    وہ پُل جسے چار صدیوں کا بوجھ بھی نہیں‌ جھکا سکا

    لاہور مغل دور میں شاہانِ وقت کا پایہ تخت اور پنجاب کے مختلف شہر شہنشاہوں اور ان کے خاص مصاحبوں، امرائے سلطنت کی عارضی قیام گاہیں یا شکار اور سیر و تفریح کے مقامات رہے ہیں جس کی وجہ یہاں کا سبزہ، آب و ہوا اور قدرتی حسن ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ لاہور کے قریب شیخو پورہ کے گردونواح کو شکار گاہ کے طور پر پسند کیا جاتا تھا۔ اسی علاقے میں ایک پُل موجود ہے جو مغل دور کی یادگار ہے۔ اس پُل کو چار صدی قبل تعمیر کیا گیا تھا۔

    بدقسمتی سے ہمارے ہاں نہ تو اسے تاریخی یادگار کے طور پر دیکھا گیا اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ہزاروں برس بعد بھی یہ پُل کیسے مضبوطی سے اپنی جگہ قائم ہے جب کہ اس سے روزانہ ہر قسم کا ٹریفک گزرتا ہے۔

    کہتے ہیں تزک جہانگیری میں اس پُل کا ذکر ملتا ہے اور تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ یہ پُل شہنشاہ جہانگیر کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا اور 1620 میں اس پر کام شروع ہوا۔

    اس زمانے میں‌ شہنشاہ شیخو پورہ قلعے میں مقیم تھے۔ تاریخی کتب کے مطابق اس سال بہت بارشیں ہوئیں، جس کے بعد شہنشاہ نے شاہی شکار گاہ کا رخ کیا، لیکن واپسی میں دشواری پیش آئی کیوں کہ ندی نالوں میں طغیانی آ گئی تھی۔ ان کے راستے میں بپھری ہوئی ڈیگ ندی پڑی تو قافلے کو کنارے پر تین چار روز رکنا پڑا۔

    تب شہنشاہ نے اس جگہ ایک پل کی تعمیر کا حکم دیا اور مغل ماہر تعمیرات نے 1621 تک اس کام کو اپنی نگرانی میں مکمل کروایا۔

    یہ پل ضلع شیخو پورہ کے گاؤں کوٹ پندی داس سے لگ بھگ ایک کلو میٹر جنوب مشرق کی طرف واقع ہے۔

    ماہرین نے اس پُل کو چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کیا ہے موٹے ستونوں کے ساتھ پانی کے لیے گزر گاہیں بنائی ہیں‌ جو قوس نما ہیں۔ اسی طرح اُس زمانے میں خوب صورتی کے لیے پُل پر برجیاں تعمیر کی گئی تھیں جو اب باقی نہیں رہیں۔

  • صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    پنجابی زبان میں ٹیلے کے لیے لفظ ٹلہ برتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ جوگیاں کا اضافہ کر لیں تو ہم اسے ٹلہ جوگیاں کہیں گے، یعنی ایک پہاڑی یا زمین سے کچھ اونچائی پر واقع جوگیوں کے اٹھنے بیٹھنے یا عبادت کرنے کی جگہ۔

    جہلم سے جنوب مغرب کی جانب لگ بھگ 35 کلو میٹر فاصلہ طے کریں تو آپ ٹلہ جوگیاں پہنچتے ہیں جہاں صدیوں پرانے آثار آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔

    یہ سطح زمین سے بلند اور ایک پُرفضا مقام ہے جسے صدیوں پہلے جوگیوں نے اپنے لیے پسند کیا اور یہاں عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ محققین کے مطابق اس علاقے میں آریہ قوم نے لگ بھگ چار ہزار سال پہلے قدم رکھا تھا۔ اس قوم کے مذہبی پیشواﺅں نے پوجا پاٹ کے لیے اس بلند مقام کا انتخاب کیا۔

    آئین اکبری میں ابوالفضل نے ٹلہ کو ہندوﺅں کا ایک قدیم معبد لکھا ہے۔ کہتے ہیں یہاں بعد میں گرو گورکھ ناتھ آئے اور اس مقام پر ان کے پیرو کاروں نے قیام کیا۔ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ سکندرِ اعظم نے بھی یہاں کے جوگیوں اور ٹلہ کے بارے میں مختلف پُراسرار باتیں سن کر یہاں کا دورہ کیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ گرو نانک نے بھی ٹلہ میں قیام کیا تھا۔

    تاریخ میں اس مقام کو ٹلہ گورکھ ناتھ اور ٹلہ بالناتھ بھی لکھا گیا ہے جو دو مختلف ادوار میں جوگیوں کے پیشوا رہے۔
    تاریخی آثار کے علاوہ یہ ایک پُرفضا مقام ہے۔ گرمیوں میں یہاں گرمی اور سرد موسم میں ٹھنڈی ہوائیں آنے والوں کا استقبال کرتی ہیں۔ قریب ہی جنگل اور ہریالی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔

    ٹلہ میں مختلف ادوار کے آثار موجود ہیں۔ ان میں مندر، سمادھیاں اور جوگیوں کے رہائشی غار بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مغل طرز کا ایک تالاب بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے جوگیوں کی درخواست پر بادشاہ اکبر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس خطے میں مختلف ادوار میں سلاطین اور امرا نے بھی ٹلہ کے مذہبی پیشواؤں اور جوگیوں کا خیال رکھا اور انھیں سہولیات فراہم کیں۔ کہتے ہیں کہ اکبر نے علاقہ نوگراں کو ٹلہ کی جاگیر کا درجہ دے کر اس کے محاصل سے ٹلہ اور مضافات کی تزئین و آرائش کا کام کروایا تھا۔