Tag: قدیم غار

  • قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    قدیم غار: ’’کھل جا سم سِم‘‘ کے طلسمی بول سے تاریخ کی کتابوں تک

    غار افسانہ بھی ہیں اور تاریخ بھی۔

    وہم کی آنکھوں سے دیکھو تو ان غاروں میں ہر سمت موت کے مہیب سائے ناچتے نظر آئیں گے۔ آدم خور دیوؤں کی چنگھاڑیں، بیتالوں اور بھوتوں کے خوف ناک قہقہے، چمگادڑوں کے روپ میں ادھر ادھر اڑتی ہوئی بدروحیں اور پچھل پائیاں۔منھ سے آگ اگلنے والے اژدہے اور انہیں کے آس پاس بھٹوں میں چھپے ہوئے شیر، بھالو، بھیڑیے، ڈاکو اور راہ زن۔ غرض روایت نے غاروں کے ان دہشت ناک باشندوں کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں۔

    1940ء: جب چار لڑکوں نے زمین پر ایک حیرت انگیز مقام دریافت کیا

    وہ غار ہی تھا جس میں کانے دیو نے ہومر کے ہیرو اوڈیسیس کو ساتھیوں سمیت قید کیا تھا اور چالاک اوڈیسیس نے دیو کو نشہ پلایا تھا اور جب دیو مدہوش ہوگیا تھا تو اس کی آنکھ میں لوہے کی گرم سلائی پھیر دی تھی اور بھیڑ کے پیٹ سے لپٹ کر غار سے فرار ہوا تھا اور وہ بھی غار تھا جس میں علی بابا کے بھائی کو دولت کی ہوس لے گئی تھی مگر وہ ’’کھل جا سم سم‘‘ کا طلسمی کلمہ بھول گیا تھا اور ڈاکوؤں نے اسے قتل کرنے کے لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔

    مگر تاریخ کی آنکھ سے دیکھو تو یہی غار انسان کی قدیم ترین پناہ گاہ نظر آئیں گے جہاں اس نے اپنی 25، 30 لاکھ سالہ زندگی کی بیش تر مدت بسر کی ہے۔ وہیں اس نے افزائشِ نسل کے راز سیکھے، موسم کی سخت گیریوں سے بچنے کے طریقے وضع کیے، آگ جلانے کے تجربے کیے، اور اس طرح تسخیر قدرت اور کیمیاوی عمل کے ایک ایسے انقلابی راز سے آگاہ ہوا جس نے آگے چل کر اسے اقلیمِ ارض کی فرماں روائی عطا کی۔

    یہ غار اس کے اوّلین مولد و مسکن بھی تھے اور معبد و مقابر بھی۔ یہاں پہنچ کر وہ تمام ارضی و سماوی آفتوں سے محفوظ ہو جاتا تھا۔ یہ غار رحمِ مادر سے بھی کسی قدر مشابہ تھے۔ اپنی ظاہری شکل میں بھی اور باطنی کیفیت میں بھی۔ وہی پُراسرار تاریکی، وہی پیچ وخم اور امن وعافیت کا وہی احساس۔

    مگر انسان کی فراموش طبعی دیکھو کہ لاکھوں سال ان غاروں میں رہنے کے بعد جب اس نے یہ مسکن ترک کیے اور جھونپڑے، گاؤں اور شہر بسائے تو پھر ان غاروں کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں ایسا بھولا گویا ان سے کبھی وابستہ ہی نہ تھا۔ غاروں کے دہانے، چٹانوں، مٹی کے ملبوں اور جنگلی جھاڑیوں سے پٹ گئے۔ ان کی تلخ اور شیریں یادیں ذہنوں سے محو ہو گئیں اور آنے والی نسلیں اس حقیقت سے بھی واقف نہ رہیں کہ ان کے آباء و اجداد کبھی غاروں میں رہتے تھے۔

    وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے۔ رومۃ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہو گیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ و جلال سے لہرائے اور سرنگوں ہوگئے۔ مغربی علوم کی روشنی دور دور تک پھیلی مگر انسانی تہذیب کے اوّلین گہواروں میں اندھیرا ہی رہا۔

    پھر یوں ہوا کہ انیسویں صدی کی ایک روشن سہ پہر میں اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک کتّا ایک لومڑی کا پیچھا کرتے کرتے ایک بھٹ میں گھس گیا۔ کتے کا مالک مارسیلوو اساؤ تولا کتّے کو نکالنے کی غرض سے بھٹ میں اترا تو پتہ چلا کہ اندر اچھا بڑا غار ہے۔ مار سیلوو اساؤ تولا کو آثارِ قدیمہ کا شوق تھا۔ اس نے غار کو کھودنا شروع کیا کہ شاید اس کے اندر پرانے زمانے کی کچھ چیزیں مل جائیں۔ ایک دن وہ غار میں اترا تو اس کی کمسن بچّی ماریا بھی اس کے ہمراہ تھی۔ ساؤتولا غار کھودنے میں مصروف ہوگیا اور ماریا پتھر کے ٹکڑوں سے کھیلنے لگی۔ دفعتاً ساؤتولا نے ماریا کی چیخ سنی۔ ’’تورو، تورو (بیل بیل) ساؤ تولا بچی کی طرف لپکا مگر وہ حیران تھا کہ اس تنگ غار میں بیل کہاں سے آئے۔ وہ ماریا کے پاس پہنچا تو ماریا غار کی چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ ساؤتولا کو جب بیل کہیں نظر نہ آئے تواس نے بچّی سے پوچھا اور تب بڑی مشکل سے اس کی آنکھوں نے وہ نظارہ دیکھا جسے بیس ہزار سال سے کسی انسان نے نہ دیکھا تھا۔ سرخ اور سیاہ رنگ کے بیلوں کی ایک لمبی قطار تھی جو چھت پرایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ التمیرا کا غار تھا جس میں قدیم حجری انسان نے اپنی فن کاری کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کو ساؤتولا نے 1879ء میں اتفاقاً دیکھ لیا۔

    ساؤتولا نے غار کی دیواروں کو غور سے دیکھا تو کہیں رنگین بھنسیے اور بیل بنے ہوئے، کہیں جنگلی سور، کہیں ہرن اور چیتل، کہیں ہاتھ کے چھاپے۔ شمار کیا تو اس نگار خانے میں جانوروں کی 170 تصویریں تھیں۔ ان کے رنگ اس قدر شوق اور روشن تھے گویا یہ تصویریں ابھی کل بنی ہوں۔ ساؤتولا نے اپنے اس حیرت انگیز انکشاف کا اعلان اخباروں میں کیا اور آثارِ قدیمہ کے ماہروں سے درخواست کی کہ وہ آکر غار کا مطالعہ کریں لیکن دانایانِ مغرب نے ساؤتولا کا مذاق اڑایا۔ کسی نے کہا یہ اسکول کے لڑکوں کا کھلواڑ ہے۔ کسی نے کہا مقامی چرواہوں نے اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر مویشیوں کی تصویریں بنائی ہوں گی۔ بعضوں نے کہا کہ غریب ساؤتولا نے میڈرڈ کے کسی مصوّر سے ساز باز کیا ہوگا۔ تجارت اور شہرت کی خاطر۔ غرض کہ نہ حکومت نے ان دیواری تصویروں کی طرف توجہ کی اور نہ ماہرینِ فن نے اس غار کو درخورِ اعتنا سمجھا۔ بے چارہ ساؤتولا خاموش ہو رہا ہو۔

    یہ درست ہے کہ التمیرا کی دریافت سے بہت پہلے آثار قدیمہ کے ماہروں کو عہد قدیم کے پتھر کے اوزار، ہاتھی دانت کے ٹکڑوں پر کھدے ہوئے نقوش اور سیپ اور ہڈی کے زیورات دست یاب ہو چکے تھے۔ مثلاً بروئیلے (Brouillet) نامی ایک فرانسیسی ماہر کو سوینی (ِِSavigny) کے مقام پر ہڈی کا ایک ٹکڑا انیسویں صدی کی ابتدا میں ملا تھا۔ اس ٹکڑے پر دو ہرن کندہ تھے۔ کلونی کے عجائب گھر نے 1851ء میں ہڈی کے اس منقوش ٹکڑے کو حاصل کر لیا تھا مگر کسی کو اس کی قدامت پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔

    اسی طرح 1833ء میں میئر Mayor نامی ایک انگریز محقق کو ہڈی کی ایک چھڑی ملی تھی جس کے ایک رخ پر ایک گھوڑا کندہ تھا اور دوسری طرف ایک پودا بنا تھا۔ 1852ء میں آری ناک (فرانس) کے مقام پر ہڈیوں کا ایک ہار اور ہیڈ اور ہاتھی دانت کے چند زیورات بھی دریافت ہوئے تھے۔ ایڈوارڈ لارتیت کو مسات Massat کے مقام پر بارہ سنگھے کی ہڈی پر ریچھ کا سر کھدا ہوا ملا تھا اور 1863ء میں اسے وزیر ندی کی وادی میں جو پیرس سے ڈھائی سو میل جنوب مغرب میں واقع ہے متعدد چھوٹی چھوٹی چیزیں اور آلات و اوزار دستیاب ہوئے تھے۔ چنانچہ 1864ء میں اس نے ان دریافتوں پر ایک مختصر سا رسالہ فرانسیسی زبان میں شائع بھی کیا تھا۔ اسی سال اس کو مارلین (فرانس) کے مقام پر میمتھ کا ایک دانت ملا تھا جس پر نہایت باریک خطوں میں اس ناپید جانور کی شکل کندہ تھی۔

    یہ تو خیر چھوٹی چھوٹی منقولہ اشیا تھیں جن سے قدیم انسان کی فن کاری کا کوئی واضح تصور قائم کرنا قدرے دشوار تھا، مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ التمیرا سے پیش تر دنیا کے مختلف گوشوں میں چٹانوں پر اور غاروں میں جو تصویریں اور نقوش ملے، ان کی تاریخی اہمیت کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ مثلاً 1837ء میں سر جارج گرے نے آسٹریلیا کی سیاحت کے دوران اقلیدسی انداز کی بڑی پراسرار رنگین تصویریں کمبرلے کی کوہستانی پناہ گاہوں میں دریافت کی تھیں۔ 1848ء میں جھیل اورنیگا (روس) کے مشرقی ساحل پر غاروں میں متعدد نقوش دیواروں پر کھدے ہوئے ملے تھے۔ یہ وہیل مچھلی، بارہ سنگھے اور ایلک کے نقوش تھے۔ انہی دنوں سٹو (Stowr) کو جنوبی افریقہ کی چٹانوں پر اقلیدسی انداز کی مصوّری کے چند نادر نمونے نظر آئے تھے اور اس نے ان کو بڑی محنت سے نقل کر لیا تھا مگر یہ نقش و نگار تہذیب کے اصل مرکز یعنی یورپ سے بہت دور پسماندہ علاقوں میں پائے گئے تھے۔ ان کو نہ تو ایک رشتے میں جوڑا جا سکتا تھا اور نہ تہذیبِ انسانی کی ارتقائی تاریخ مرتب کرنے میں ان سے مدد مل سکتی تھی۔ کم سے کم اس دور کے دانشوروں کا یہی خیال تھا۔

    ساؤتولا کے دس سال بعد موسیو شیرون (cheron) نے شیوت (Chabot) (فرانس) کے غار کی تفصیلات شائع کیں، اس غار کا سراغ انہوں نے کئی سال پیشتر لگایا تھا، لیکن ان کا حشر بھی وہی ہوا جو ساؤتولا کا ہو چکا تھا۔

    انیسویں صدی کے اختتام کو ابھی پانچ سال باقی تھے کہ ایک اور مصوّر غار لاموتھ (فرانس) کے مقام پر دریافت ہوا، وہ بھی اتفاقاً۔ ایک کاشت کار اپنے مویشیوں کے لیے ایک پہاڑی پناہ گاہ صاف کررہا تھا کہ اچانک غار کا دہانہ کھل گیا۔ گاؤں میں یہ خبر پھیلی تو چند نڈر لڑکوں نے غار میں اترنے کی ٹھانی۔ انہوں نے موم بتیاں لیں اور غار میں گھس گئے۔ واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ غار کی دیواروں پر جا بجا گھوڑے، بیل، بارہ سنگھے، گینڈے، بیسن اور بیسن سے بھی بڑے بڑے جانوروں کی تصویریں بنی ہیں۔

    چند سال بعد اسی غار کے نواح میں ایک پورا نگار خانہ ملا جس میں دو سو دیواری تصویریں موجود تھیں۔ یہ فونت دے گام کا مشہور غار تھا جو ستمبر 1901ء میں دریافت ہوا۔ اسی دوران میں مشرقی اسپین کی کھلی چٹانوں پر رنگین تصویروں کے آثار دیکھے گئے۔ ان تصویروں میں غلبہ جانوروں کا تھا، مگر ہیئت میں یہ تصویریں التمیرا اور فونت دے گام سے مختلف تھیں لیکن کتابی علم کا غرور اور پندار کی بےاعتنائی کہیے کہ دانشور ان روشن نشانیوں کو بھی جھٹلانے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ فرانس میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اس میں ان جدید دریافتوں پر بحث کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔

    مگر حقیقت سے بہت دن تک چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیر سویر ماننا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ یکم اکتوبر 1902ء کو ماہروں کا ایک گروہ ایبے بروئیل کے اصرار پر پہلی بار التمیرا کے غار میں داخل ہوا۔ اس مہم کا ذکر کرتے ہوئے ایبے بروئیل لکھتا ہے کہ روشنی کے لئے ہمارے پاس فقط موم بتیاں تھیں مگر اس نیم تاریک ماحول میں بھی ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ غار میں نمی تھی اس لیے سقفی تصویروں کا چربہ نہیں لیا جاسکا تھا کیوں کہ رنگ گیلا تھا اور کاغذ پر چپک جاتا تھا۔ چربہ لینے کے معنی ان تصویروں کو ضائع کرنے کے ہوتے لہٰذا ایبے بروئیل نے ان کو ہو بہو نقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ’’میں روزانہ آٹھ گھنٹے زمین پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ان تصویروں کو نقل کرتا جو چھت پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘ ایبے بروئیل نے یہ کام تین ہفتے میں مکمل کر لیا مگر کوئی پبلشر التمیرا کے اس رنگین مرقعے کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایبے بروئیل نے پرائیویٹ امداد سے التمیرا پر ایک مصور کتاب 1908ء میں شائع کی۔

    ان حجری فن پاروں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ایبے بروئیل جیسا دھن کا پکا اور لگن کا سچا فن کار مل گیا۔ ایبے بروئیل نے اپنی زندگی حجری فن پاروں کی نقل اور تفتیش و تحقیق کے لیے وقف کر دی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس میں موجود ہے کہ اس سے کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔

    اب چراغ سے چراغ جلنے لگا۔ غاروں کی دریافت نے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ ہر سال ایک نہ ایک مصوّر غار کا سراغ ملتا۔ کبھی اسپین اور فرانس میں، کبھی جرمنی اور اٹلی میں، کبھی روس اور چیکو سلواکیہ میں، کبھی سویڈن اور ناروے میں۔ آخری غار وہ ہے جو Baumed Dullins کے مقام پر مارچ 1951ء میں دریافت ہوا۔ اس سے پیشتر ایک نہایت اہم غار لاسکا میں ستمبر 1940ء میں دو لڑکوں نے دریافت کیا تھا۔

    (اقتباس: زندگی کی نقش گری از سید سبط حسن)

  • گونڈرانی: نصف صدی نہیں‌ ہزاروں برس پرانا قصہ

    گونڈرانی: نصف صدی نہیں‌ ہزاروں برس پرانا قصہ

    پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کئی تفریحی مقامات ہیں جن کے بارے میں حکومت اور متعلقہ محکمے کی غفلت کی وجہ سے ہم بنیادی معلومات اور آگاہی نہیں رکھتے، اگر اس حوالے سے کوشش کی جائے تو ان مقامات کی بدولت قومی خزانے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ان میں تاریخی عمارتیں، آثار اور قدرتی تفریح گاہیں شامل ہیں۔

    گونڈرانی بھی ایک ایسا ہی مقام ہے جسے شہرِ روغان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں پہاڑوں میں سیکڑوں غار ہیں، جو کسی زمانے میں رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ تاہم ان کی حقیقت، وہاں بسنے والوں کے بارے میں عام معلومات، اور ان کے رہن سہن، مذہب، ثقافت وغیرہ کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں۔ تاریخ اور قدیم آثاروں سے متعلق کتب بھی اس حوالے سے کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔

    گونڈارنی، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تقریبا 175 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع لسبیلہ میں واقع ہے اور قدیم قصبے بیلہ کے شمال میں 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ غار بدھ مت کے پیروکاروں نے تعمیر کیے تھے اور بلوچستان میں ایسے دوسرے پہاڑ بھی ہیں جن کو تراش کر رہنے کا ٹھکانہ بنایا گیا تھا اور یہ زیادہ تر بدھ مت کے پیروکاروں کے ہیں۔

    جس زمانے میں ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا، تو اس مقام پر 1500 غار تھے، جن کا نشان مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مٹ گیا اور اکثر موسم کی سختیوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور منہدم ہوگئے۔

    اب ان غاروں میں سے صرف 500 باقی بچے ہیں۔ بلوچستان کے اس قدیم تاریخی ورثے سے متعلق کئی قصے اور کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ ان غاروں کے پُراسرار اور تاریک ماحول نے یہاں آنے والوں کو طرح طرح کی کہانیاں گھڑ لینے پر مجبور کیا اور ویرانی کی وجہ سے لوگوں نے اسے جنات یا بد روحوں کا مسکن قرار دے دیا۔ یہ تصوراتی کہانیاں اور من گھڑت قصے اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیش قیمت اور تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کو نظرانداز کرنا ہماری سنگین غفلت اور کوتاہی کا واضح ثبوت ہے۔

  • سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔

    بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

    اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

    یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا شان دار نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

    کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔

    ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

    ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔

     

    اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

    ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔

     

    اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

    اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔

    1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

    1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

  • مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدیم غاروں کی بابت کیا مشہور ہے؟

    مارگلہ کی پہاڑیوں کے قدیم غاروں کی بابت کیا مشہور ہے؟

    کہتے ہیں مغل دور میں ایک درویش شاہ اللہ دتّہ گزرے ہیں جن سے صدیوں پرانا ایک گاؤں بھی منسوب ہے۔

    یہ گاؤں پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے مشہور پہاڑی مقام مارگلہ کے دامن میں ہے جو کہ مختلف آثار اور قدیم غاروں کی وجہ سے سیاحتی مقام جانا جاتا ہے۔ ان غاروں کی بابت یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا بدھ مت سے تعلق ہے۔

    اس گاؤں کی وجہِ شہرت اس کا قدرتی حسن ہے جو سبزہ، بلند و بالا درخت، چشمے اور تالاب ہی نہیں بلکہ وہ غار بھی ہیں جو یقینا انسانوں نے کبھی آباد کر رکھے تھے۔ مقامی لوگ اس حوالے سے مختلف باتیں اور قصے سناتے ہیں۔ تاہم اس پر ماہرینِ آثار کو تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم غاروں کے قریب ہی بزرگ کا مزار موجود ہے.

    مختلف تاریخی روایات کے مطابق یہ راستہ اور اس گاؤں سے کسی زمانے میں الیگزینڈر اور شیر شاہ سوری جیسی شخصیات کا گزر ہوا۔ یہ افغانستان اور ہندوستان آنے جانے کے لیے استعمال ہونے والا راستہ بتایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مغل بادشاہوں اور دیگر نے بھی افغانستان اور ہندوستان آمدورفت کے لیے یہی راستہ اپنایا۔

    اس گاؤں میں پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے قدیم مانا جاتا ہے جب کہ گھنے اور مضبوط درخت بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کئی سو سال پرانے ہیں۔ قدرتی حسن اور تاریخی آثار کی وجہ سے یہ علاقہ قابلِ دید ہے۔