Tag: قدیم محل

  • مشہور حویلیاں‌ جو خستہ حال اور مخدوش حالت میں ہیں

    مشہور حویلیاں‌ جو خستہ حال اور مخدوش حالت میں ہیں

    ہندوستان میں جہاں‌ شان دار محلّات اور قلعے عہدِ کہنہ کی یادگار ہیں‌، وہیں صدیوں قبل تعمیر کی گئیں امرا اور رؤسا کی حویلیاں بھی دیدنی ہیں۔ اگرچہ آج ان کی چمک دمک ماند پڑچکی ہے اور ان میں‌ سے بیش تر خستہ حال اور مخدوش ہیں، لیکن ان کے در و دیوار شان و شوکت اور اپنے زمانے کی کہانی ضرور سناتے ہیں۔ یہاں‌ ہم قارئین کی دل چسپی کے لیے لاہور کی ایسی ہی چند حویلیوں کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    مبارک حویلی کو تین بھائیوں میر بہادر علی، میر نادر علی اور میر بابر علی نے تعمیر کروایا تھا۔ سکھ عہد کے آخری سالوں میں سردار کہر سنگھ سندھانوالیہ کے زیرِ تصرف آگئی۔ اس دوران اس کی عمارت میں بے شمار تغیر و تبدل کیا گیا۔ مشرق کی طرف بڑا دروازہ نکالا گیا۔ بڑے بڑے دالان، صحن و عمارات جدید طرز پر بنوائی گئیں۔

    وزیر خان نے شاہ عالمی دروازے کے اندر پری محل کے نام سے ایک حویلی تعمیر کروائی۔ اس کے دو درجے تھے۔ ایک زنانہ دوسرا مردانہ۔ سکھ عہد کے اوّلین دور میں پہلے تو تین سکھ سرداروں نے اس کے پتھر نکلوائے اور فروخت کیے۔ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور آیا تو اس نے اس حویلی میں فوج اور گولہ بارود رکھا۔ اس کی بڑی بڑی عمارات گرا کر کھلا میدان بنا دیا گیا۔ انگریزی عہد میں محمد سلطان ٹھیکیدار نے اس کو خرید کر یہاں سے اینٹیں نکلوائیں اور پھر لنڈا بازار و سرائے کی عمارات تعمیر کروائیں۔

    قدیم عمارات میں ایک اندھی حویلی بھی شامل ہے۔ چوں کہ اس کی مسقّف ڈیوڑھی میں بہت اندھیرا رہتا تھا، اس لیے اندھی حویلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ شاہ جہاں کے عہد میں نواب وزیر خان کی نظامت کے وقت یہ حویلی ایک امیر ہندو نے تعمیر کروائی تھی۔ سکھ عہد کی غارت گری کے وقت اس کے وارث حویلی سے نکل گئے۔ لاہور شہر جب تین سرداروں کے قبضے میں تھا، آرائیں خاندان کے تین افراد حویلی میں متمکن ہوگئے۔

    نواب زکرّیا خان کے عہد میں، میر جواد نے حویلی میر جواد دہلی دروازے میں تعمیر کروائی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنڈت گنگا رام کو یہ حویلی دی جو اس کا مالیاتی امور کا وزیر تھا۔

    شہرِ قدیم کے وسطی حصّہ چوک رنگ محل کے نزدیک چوک ڈبی اور موتی بازار کے درمیان کابلی مَل نے اپنی حویلی تعمیر کی جو اس وقت (1763 – 67ء) لاہور کا گورنر تھا۔

    رنجیت سنگھ کے عہد میں لوہاری دروازے کے اندر مہاراجہ کھڑک سنگھ نے حویلی تعمیر کی۔ اس کے ایک طرف کونے میں مسجد تھی۔ کھڑک سنگھ نے اپنی حویلی کی عمارت میں خم ڈال لیا، مگر مسجد کو نہ گرایا، جب تک زندہ رہا امام مسجد کے لیے دس روپے ماہوار مقرر کیے رکھا۔

    مہاراجہ کھڑک سنگھ کے فرزند نونہال سنگھ نے موری دروازے کے قریب اپنی حویلی تعمیر کروائی جس میں بڑے بڑے دالان سہ نشین، تہ خانے اور بالا خانے بنائے گئے۔ چھتوں پر طلائی اور شیشے کا کام کروایا۔ بوقتِ تعمیر حویلی کی وسعت کے لیے رعایا کے مکانات زبردستی لے لیے گئے۔

    بھاٹی دروازہ کے اندر بازارِ حکیماں میں فقیر خاندان کے تین بھائیوں سید عزیز الدین، سید نور الدین، اور سید قمر الدین نے اپنی حویلی تعمیر کی۔ اس کے کچھ حصے میں آج کل فقیر خانہ میوزیم بنا دیا گیا ہے۔

    سکھ عہد کے کشمیر کے گورنر نواب امامُ الدّین خان نے لوہاری دروازے کے پاس ہی اپنی حویلی نواب امام دین تعمیر کی۔

    دہلی دروازے کے اندر چوک وزیر خان کے قرب میں سکھ عہد میں حویلی راجہ ناتھ تعمیر کی گئی۔ سکھ عہد میں تعمیر کی جانے والی حویلیوں کے فنِ تعمیر کا اگر جائز ہ لیا جائے تو کئی پہلو سامنے آتے ہیں اور ان حویلیوں کے فنِ تعمیر کی بنتی بگڑتی شناخت کے خدوخال واضح ہونے لگتے ہیں۔

    ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے لکھا ہے کہ یہ حویلیاں وقوع کے اعتبار سے یا تو قلعے کے قریب ہیں یا پھر ان کی جائے تعمیر شہر پناہ کے دروازوں کے قرب میں ہے۔ سکھ عہد کی حویلیوں میں چھتوں پر نقّاشی، شیشے کا کام اور دیواروں پر تزئین و آرائش کے بہت اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی صنّاعیِ مہارت اور دل کشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

    آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی عہدِ کہنہ کی یہ یادگاریں اور عہدِ پارینہ کے یہ مٹتے ہوئے نقوش بہت دل کش اور نظر گرفتہ ہیں۔

    (پاکستان کے آثارِ قدیمہ سے اقتباس)

  • دولما باغچہ محل: سلطنتِ عثمانیہ کی ایک خوب صورت یادگار

    دولما باغچہ محل: سلطنتِ عثمانیہ کی ایک خوب صورت یادگار

    ترکی کا شہر استنبول تاریخِ عالم میں حکم راںی کے مختلف ادوار اور طاقت و اختیار کے مرکز کے طور پر ہی نہیں‌، تہذیب و تمدّن اور فنون کی وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم و تاریخی آثار اور یادگاروں کے لیے بھی مشہور ہے۔

    سیروسیّاحت کے لیے مشہور اس شہر میں‌ کئی قدیم اور تاریخی عمارتیں بھی موجود ہیں جو اپنے دور کے طرزِ تعمیر کا شاہ کار ہیں۔ ان عمارات میں‌ کئی محلّات اور قلعے بھی شامل ہیں جو اس زمانے کے صناع اور کاری گروں کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ انہی میں ایک دولما باغچہ محل یا دولمہ باغچہ سرائے بھی شامل ہے جو 1853ء سے 1922ء تک سلطنتِ عثمانیہ کا انتظامی مرکز رہا ہے۔ یہ محل استنبول کے یورپی حصّے میں آبنائے باسفورس کے کنارے پر واقع ہے۔

    دولما باغچہ کو استنبول کا پہلا یورپی طرز کا محل کہا جاتا ہے جسے سلطان عبد المجید اوّل کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس محل کی تعمیر کا سلسلہ 1842ء میں شروع ہوا تھا، اور 1853ء میں یہ کام مکمل کیا گیا جس پر 35 ٹن سونے کی مالیت کے برابر رقم خرچ ہوئی۔صرف محل کی چھت کی سجاوٹ میں 14 ٹن سونا استعمال ہوا۔

    اس محل کے مرکزی ہال میں ایک بڑا فانوس نصب کیا گیا ہے جو برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا نے تحفتاً پیش کیا تھا۔ اس فانوس میں 750 چراغ ہیں۔ کرسٹل کا یہ فانوس 4 اعشاریہ 5 ٹن وزنی ہے۔ محل کے مختلف حصّوں میں بھی متعدد فانوس موجود ہیں‌ جو اس کا حُسن اور خوب صورتی بڑھاتے ہیں۔

    دولما باغچہ دراصل باسفورس کی ایک خلیج اور کھاڑی تھی جسے پُر کرکے شاہی باغ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس محل کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کی تعمیر ایک کھاڑی کو پُر کرکے ممکن بنائی گئی۔ دولما کا معنٰی "پُر کیا گیا” اور باغچہ سے مراد ایک چھوٹا باغ ہے جسے ہم "باغیچہ” کہتے ہیں۔

    دولما باغچہ محل کو بعد میں‌ ایک عجائب گھر کا درجہ دے دیا گیا۔ جدید ترکی کے بانی اور پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک نے اسی محل میں اپنی زندگی کے آخری ایّام بسر کیے تھے۔

    اس محل کو ماہرینِ تعمیر غرابت امیرا بلیان اور ان کے صاحبزادے نگوگایوس بلیان نے تعمیر کیا جو آرمینیائی ترک تھے۔ اس محل کے تین بڑے حصّے ہیں جن میں اس دور کے رسم و رواج اور شاہی تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور ایک حصّہ مردوں کی رہائش گاہ، دوسرا دربار کے لیے مخصوص تھا جب کہ تیسرا سلطان کے اہلِ خانہ کی قیام گاہوں پر مشتمل ہے۔ دولما باغچہ 45 ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس میں 285 کمرے اور 46 درباری ہال ہیں۔