Tag: قدیم مسجد

  • سعودی عرب: قدیم مسجد چار صدیوں بعد بھی اصل حالت میں موجود

    سعودی عرب: قدیم مسجد چار صدیوں بعد بھی اصل حالت میں موجود

    سعودی عرب کے حائل ریجن میں چار صدیوں قدیم مسجد آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب کے حائل ریجن میں چار صدی قدیم تاریخی مسجد جس کی دیکھ بھال کے فرائض ’المطلق‘ خاندان کی جانب سے انجام دیئے جاتے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق تاریخی مسجد کو اس کی اصل شکل میں بحال رکھا گیا ہے تاکہ ماضی سے رشتہ برقرار رہے۔

    سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ایس پی اے‘ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے شمالی شہر حائل کے الحدریین محلے میں قائم تاریخی مسجد ’المطلق‘ علاقے کی سب سے قدیم مسجد شمار کی جاتی ہے۔

    قدیم مسجد کے چوپی دروازے اور مٹی و گارے سے بنی ہوئی دیواریں آج بھی اسی انداز میں موجود ہیں، مسجد کے در و دیوارعہد رفتہ کی قدیم داستانیں سمیٹے ہوئے ہیں۔

    لکڑی کے تنوں سے بنے ہوئے ستون اور تنوں پر مشتمل چھت عہد رفتہ کی یاد تازہ کرتی ہیں جبکہ مسجد کا اندرونی صحن کچی مٹی کا ہے جس پرجائے نمازیں بچھی ہیں۔

    مٹی اور گارے سے بنی مسجد کا مجموعی رقبہ 200 مربع میٹر ہے اس میں 100 افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے، مسجد جو کہ ’مطلق‘ خاندان سے وابستہ ہے کو عہد رفتہ کی طرز تعمیر کو اجاگر کرنے کیلیے خاندان کے افراد کی جانب سے مثالی کوششیں کی گئی ہیں۔

    ماہی گیروں کی گہرے سمندر میں نماز کی ویڈیو وائرل

    مسجد میں ہوا اور روشنی کے لیے خصوصی کھڑکیاں اور روشن دان بھی بنائے گئے ہیں، مسجد کا ممبر اور محراب مستطیل شکل کا ہے جو اس عہد کی طرز تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔

  • بھارتی حکومت نے 700 سالہ قدیم مسجد کو شہید کردیا

    بھارتی حکومت نے 700 سالہ قدیم مسجد کو شہید کردیا

    مہرولی: بھارت کے دارالحکومت دہلی میں دہلی ڈیولپمنٹ اتھار  نے منگل کی صبح ایک 700 سال پرانی مسجد کو من مانی طور پر شہید کردیا۔

    تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بعد اب انتہا پسندوں کی کئی اور تاریخی مساجد اور مزاروں پر نظر ہے، اسی تناظر میں دہلی کے علاقے مہرولی میں قائم 700 سالہ قدیم مسجد کو منہدم کر دیا۔

    مقامی لوگوں کے کہنا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی سرکار نے ہائی کورٹ کے انیس سو ستاسی کے حکم کے خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد کو گرا دیا۔

    مسجد کے امام ذاکر حسین نے بتایا کہ مسجد اخونجی میں مدرسہ بحرالعلوم اور قابل احترام شخصیات کی قبریں تھیں، انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ عوام کی نظروں سے چھپانے کے لیے ملبہ کو احتیاط سے ہٹایا گیا۔

    مسجد کے امام نے مزید دعویٰ کیا کہ اہلکاروں نے انہیں قرآن پاک کے نسخے لے جانے کی اجازت نہیں دی جو مسجد کے اندر رکھی گئی تھیں جبکہ مدرسہ میں زیر تعلیم 22 طلباء کے کپڑے اور کھانے کے سامان کی توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔

  • سعودی ولی عہد کی ہدایت پر 70 برس قدیم مسجد کی تعمیر نو

    سعودی ولی عہد کی ہدایت پر 70 برس قدیم مسجد کی تعمیر نو

    ریاض: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ریاض میں واقع 70 برس قدیم الروسا مسجد کی توسیع کروائیں گے، ولی عہد ملک بھر کی تاریخی مساجد کی تعمیر نو کروا رہے ہیں۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ریاض کی المجمعہ کمشنری کی الروسا مسجد کی توسیع کروائیں گے۔

    امیر محمد بن سلمان مملکت بھر میں تاریخی مساجد کے احیا، تجدید، توسیع اور اصلاح و مرمت کا منصوبہ نافذ کروا رہے ہیں، پہلے مرحلے میں 10 علاقوں کی 30 مساجد پر کام مکمل کر لیا گیا ہے۔

    ااب دوسرے مرحلے میں 13 علاقوں کی 30 مساجد کو شامل کیا گیا ہے، ان میں ریاض ریجن کی 6 مساجد شامل ہیں۔ الروسا مسجد ان میں سے ایک ہے۔

    الروسا مسجد 70 برس قبل تعمیر کی گئی تھی، یہ جبل منیخ کے مغربی دامن میں واقع ہے، یہ نجدی طرز تعمیر پر 1365 سے 1370 ہجری کے دوران بنائی گئی تھی۔

    امیر محمد بن سلمان اس کے رقبے میں توسیع کروائیں گے، اس وقت اس کا رقبہ 663 مربع میٹر ہے جو توسیع کے بعد 705 مربع میٹر ہو جائے گا۔

    توسیع کے بعد نمازیوں کی گنجائش 210 تک ہو جائے گی، تعمیر و توسیع مقامی تعمیراتی سامان، مٹی اور گارے سے کی جائے گی۔

  • صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    صدیوں پرانی مسجد جو وادیِ سوات کی پہچان ہے!

    وادیِ سوات ایک پُرفضا اور سیاحتی مقام ہی نہیں بلکہ یہ علاقہ قدیم تہذیبوں کا مسکن اور ثقافت کے لحاظ سے کئی رنگ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

    صدیوں پہلے بھی یہاں مختلف فنون اور ہنر میں لوگ باکمال اور قابلِ ذکر رہے ہیں۔ قدیم دور کا انسان پتھروں اور لکڑیوں کے کام میں ماہر تھا اور اس نے نقاشی، کندہ کاری میں لازوال اور یادگار کام کیا۔

    سوات کے لوگ کندہ کاری کے ہنر کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں پہچان رکھتے ہیں۔ کندہ کاری وہ ہنر ہے جسے سوات میں 1300 عیسوی سے بیسویں صدی تک ہنرمندوں نے گویا حرزِ جاں بنائے رکھا۔ یہاں گندھارا آرٹ اور لکڑی پر کندہ کاری کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔

    ہم آپ کو سوات کے ایک گاؤں سپل بانڈئی کی اس مسجد کے بارے میں بتا رہے ہیں جو تین سو سال قدیم ہے۔ اس مسجد کے در و بام کو جس خلوص اور محبت سے مقامی ہنر مندوں کے ہاتھوں نے سجایا تھا، اُسی طرح وہاں کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی عقیدت اور سجدوں سے اسے بسایا تھا۔ مگر پھر گردشِ زمانہ اور ہماری عدم توجہی نے اس تاریخی ورثے کو دھندلا دیا۔

    سپل بانڈئی وادیِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے چند کلومیٹر دور واقع ہے جہاں یہ مسجد قائم کی گئی تھی۔ سرسبز و شاداب پہاڑی پر واقع اس گاؤں کو جانے کب بسایا گیا، لیکن محققین کا خیال ہے کہ اسے محمود غزنوی کی افغان فوج میں شامل لوگوں نے آباد کیا تھا۔

    یہ تین سو سالہ تاریخی مسجد اب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک قدیم اور دوسرا موجودہ دور میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ستون اور چھت سواتی کاری گری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ماہرینِ آثار کے مطابق اس مسجد کی تزئین و آرائش میں جس لکڑی سے کام لیا گیا ہے وہ ‘‘دیار’’ کی ہے۔ تاہم پوری مسجد میں مختلف درختوں کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ محرابوں کی بات کی جائے تو اس دور میں ہنرمندوں نے اسے تین مختلف اقسام کی لکڑیوں سے جاذبیت بخشی ہے۔ اس میں کالے رنگ کی خاص لکڑی بھی شامل ہے جو اس علاقے میں نہیں پائی جاتی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کے لیے دوسرے علاقوں سے بھی لکڑی منگوائی گئی تھی۔ دیار کے علاوہ عمارت میں چیڑ کی لکڑی بھی استعمال ہوئی ہے۔

    اگر صرف مسجد میں‌ استعمال کی گئی لکڑی کی بات کی جائے تو تین سو سے زائد سال بعد بھی وہ بہتر حالت میں ہے اور ستون نہایت مضبوط ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسجد کا پرانا طرزِ تعمیر سوات کے علاوہ کسی اور علاقے میں نہیں دیکھا گیا.