Tag: قدیم مصر

  • مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصر: ملکہ اور عام عورت زندگی

    مصری تہذیب اور اس کے قدیم ادوار اور وہاں دریافتوں‌ کا جو سلسلہ جاری ہے، اس نے دنیا کو حیران کر رکھا ہے اور لوگ قدیم مصر اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں جاننے میں‌ گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اہرامِ مصر کے بعد وہاں کی تہذیب و ثقافت اور معاشرتی حالات یقیناً اہلِ علم ہی نہیں عام لوگوں‌ کے لیے بھی دل چسپ موضوع ہے۔

    قدیم مصر میں عورت کا کردار اور مقام بھی اہم موضوع ہے اور محققین نے اس حوالے سے بعض تاریخی دستاویزات، مخطوطوں اور دریافت شدہ دیگر اشیاء کی مدد سے یہ جانا ہے کہ اس دور میں عورت کو معاشرے میں کس طرح دیکھا جاتا تھا۔ یہاں‌ ہم مختلف خطّوں کے محققین کی مستند کتب کے اردو تراجم سے یہ پارے نقل کررہے ہیں‌ جن میں قدیم مصر میں عورتوں کا مقام واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    تاریخی دستاویزات کے مطابق ایک دور میں عورتوں کو مرد سے کم تر درجہ میں رکھا گیا تھا جب کہ اس کے اگلے دور میں ان کو مرد کے برابر کے حقوق دے دیے گئے تھے۔ کچھ عورتیں تو باقاعدہ ریاستوں کی ملکہ تک بنائی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ شاہی خاندان کی عورتوں کو شادی کے لیے اپنے بڑوں سے اجازت لینی پڑتی تھی جب کہ عام عورتیں اپنی مرضی سے شادی کر لیا کرتی تھیں۔ قدیم مصری عورتوں کی سماجی درجہ بندی اور ان کے حالات کچھ اس طرح تھے:

    شاہی خاندان کی عورتیں
    شاہی خاندان کی عورتوں کی قدیم مصری معاشرے میں بہت اہمیت تھی۔ ان کی طاقت فراعین مصر کے برابر تو نہیں تھی لیکن شاہی عورتوں کا سرکاری نظام میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ یہ عورتیں یا تو فرعون کی بیویاں ہوتیں یا اس کی باندیاں۔ ایک وقت میں فرعون بہت ساری بیویاں اور باندیاں رکھا کرتے تھے۔ ان عورتوں میں سے فراعین ایک عورت کو اپنا خاص مشیر بنا لیا کرتے تھے۔ اکثر یہ خاص عورت فرعون کی بہن یا سوتیلی بہن ہوتی تھی جس سے وہ نکاح کر لیا کرتے تھے۔ ان کے مطابق اس طرح‌ شاہی خون پاک رہتا اور حکومت بھی ان کے پاس رہتی تھی۔

    یہ خاص عورتیں فرعون کے ساتھ مل کر تمام شاہی کاموں میں اس کی معاونت کرتی تھیں۔ سفارتی معاملات میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان عورتوں کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کی جنگ اندرونِ خانہ چلتی رہتی تھی اور اکثر یہ خواتین محل میں فساد برپا کرتی رہتی تھیں۔ بعض عورتیں تو اتنی طاقتور ہوگئی تھیں کہ انہوں نے پورے مصر کی حکومت تک سنبھال لی تھی لیکن ایسے واقعات شاذ و نادر ہی رونما ہوئے تھے۔

    حرم کی عورتیں
    مصر کا ہر فرعون اپنے لیے خاص عورتوں کا ایک حرم قائم رکھتا تھا جو فرعون کو سکون و عیاشی کی سہولیات میسر کرنے کے لیے مختص تھا۔ ان عورتوں کی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی جو غیر ملکی ہوتیں اور جنگ کے بعد غلام بنا کر یا پھر کسی غلام منڈی سے خرید کر یا فرعون کی منشا کے مطابق کسی کے بھی گھر سے اٹھا کر لائی جاتی تھیں۔ یہ عورتیں ناچنے، گانے، اور دیگر حرم کے مشاغل میں ماہر ہوا کرتی تھیں۔ ان کے فرائض میں یہ بات شامل تھی کہ بادشاہ کو دربار میں بھی محظوظ کریں۔ بادشاہ کے حرم میں صرف کنیزیں اور قیدی عورتیں ہی نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں شرفا کی بیٹیاں اور وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو بطور تحفہ بادشاہ کے پاس بھیجی جاتی تھیں۔

    چونکہ حرم میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہوا کرتی تھی اس لیے ایک عورت کو فرعون کے ساتھ سال میں ایک یا دو بار ہی رات گزارنے کا موقع ملتا تھا۔ اگر کوئی باندی فرعون کو پسند آجاتی تو پھر فرعون اس کو اپنے آس پاس رکھتا تھا۔ اگر فرعون کی بیوی اس کو لڑکا جن کر نہ دے پاتی تو فرعون اپنی من پسند باندی کے ساتھ تعلق قائم کر کے اس سے اولاد حاصل کرتا اور یہ لڑکا شہزادہ کہلاتا اور اسے بعد میں تخت پر بٹھایا جاتا۔

    عورتوں کی ذمہ داریاں
    اکثر عورتوں کا کام گھر سنبھالنا اور اولاد کی پرورش کرنا تھا۔ دیگر عورتیں یا تو دائی بن جاتیں، یا کپڑے بنانے والے کارخانوں میں کام کرتیں یا پھر گریہ کرنے والی، حاتھور دیوتا کی کاہنہ یا پجارن، یا پھر جسم فروشوں کے بازار میں کام کرنے لگ جاتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورت کو اس کی جنس کے مطابق کام دیا جاتا تھا اور یہ کام وقتا ًفوقتاً تبدیل بھی کر دیا جاتا تھا۔ ان کو کاروبار کرنے کی بھی اجازت تھی۔ طبیب بھی بننے دیا جاتا اور جب ضرورت نہیں ہوتی تو پھر ان کو صرف بچوں کی دیکھ بھال، ناچنے، گانے اور مردوں کا دل بہلانے کے کام میں لگا دیا جاتا تھا۔

    غلام کی مالکن
    قدیم مصر میں عام رواج تھا کہ عورتیں غلام کے طور پر صرف عورتوں کو ہی رکھتی تھیں لیکن بعض کو مرد غلام رکھنے کی بھی اجازت تھی۔ یہ مرد غلام عموماً ان کی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے رکھے جاتے اور اگر وہ غلام ایسا نہ کرتے یا کسی اور عورت کے ساتھ ناجائز تعلق بناتے تو ان کو مارا پیٹا جاتا اور سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

    شادی
    زرخیزی چاہے انسانوں میں ہو یا جانوروں میں یا فصل کی پیداوار میں، قدیم مصریوں کے نزدیک اس کی بہت اہمیت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مصری لوگ جلد سے جلد شادی کر کے بچّے پیدا کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ مصریوں کے ہاں محرمات سے شادی کی اجازت تھی اور شاہی خاندان تو اکثر اسی رسم کو اپنایا کرتے تھے۔ اس دور میں‌ بہن بھائی کے درمیان شادی کا عام رواج تھا۔ اس کے علاوہ فرعون اپنی سلطنت کو اپنے ہی خاندان میں رکھنے کے لیے اپنی ماں، بیٹی اور دیگر محرمات کو بھی اس تعلق میں اپنا لیتے تھے۔

    شادی کے لیے کوئی مذہبی یا قانونی رسوم ادا نہیں کی جاتی تھیں۔ اکثر نکاح والدین کی باہم رضامندی سے مقرر ہوتے اور سارے معاملات پہلے طے کر لیے جاتے تھے۔ کچھ مقامات پر محبت کی شادیاں بھی ہوئیں لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا تھا۔ جب لڑکا پندرہ سے بیس سال کا ہوتا اور لڑکی بارہ سے چودہ سال کی ہوجاتی تو ان کی شادی کردی جاتی تھی۔ بادشاہ ایک سے زائد شادیاں کر سکتا تھا لیکن عام لوگ صرف ایک ہی شادی کرتےتھے۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کو اجازت تھی کہ وہ ایک محبوبہ یا باندی رکھ لیں جس سے خواہش کے مطابق تسکین پوری کرسکیں۔

    علیحدگی
    شادی کے وقت دولھا دلھن یہ گمان کرتے کہ ان کا ساتھ مرتے دم تک قائم رہے گا لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہو پاتا تھا۔ ان میں سے کچھ جوڑوں کے درمیان طلاق بھی واقع ہو جاتی تھی۔ طلاق کے بعد مرد اور عورت الگ الگ رہا کرتے۔ طلاق قانونی طریقہ سے ہوتی تھی جس کے بعد مرد اور عورت کو دوسری شادی کی اجازت تھی۔ اگر مرد عورت کو طلاق دیتا تو اس پر واجب تھا کہ وہ عورت کا تمام جہیز واپس لوٹا دے بلکہ کچھ معاملات میں تو اس کا دگنا بھی لوٹانے کا کہا جاتا تھا۔ اگر عورت طلاق دیتی تو اس پر واجب تھا کہ جو اسے شادی کے وقت مرد کی طرف سے تحفہ ملا ہو، اس کی آدھی مقدار واپس کرے۔ طلاق کے بعد بھی مرد پر واجب تھا کہ وہ عورت کو نان نفقہ دیتا رہے جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے۔

    لباس
    مصری لباس میں زمانہ کےساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ قدیم سلطنت کے دور میں عورتیں اور مرد نیم برہنہ رہتے تھے۔ جسم کا بالائی حصہ بالعموم کھلا رہتا تھا۔ پروہتوں کو بھی مجسموں میں نیم برہنہ دکھایا گیا ہے۔ سلطنت وسطی اور سلطنت جدید میں کُرتے، تہبند اور دستار کا اضافہ ہوا تھا۔ عورتوں کے لباس میں کُرتے اور تہبند کےعلاوہ ایک لمبا چوڑا دوپٹہ بھی شامل کیا گیا تھا جو شانے اور سینے پر پھیلا ہوتا مگر کھلا رہتا تھا۔ اونچے طبقے کی عورتیں ایک قسم کا تاج پہنتی تھیں۔ لباس پر گاڑھے اور زردوزی کا کام ہوتا تھا۔ بالوں کو تراشنے اور مانگ نکالنے کے بھی مختلف طریقے رائج تھے۔ رؤسا کے کپڑے بالعموم باریک دھاگے کے ہوتے تھے جن پر زر کا کام کیا جاتا تھا۔ منقش اور چھپے ہوئے کپڑوں کا استعمال بھی عام تھا۔ مرد و عورت دونوں مصنوعی بال کی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ اونچے طبقے میں چپلوں کا رواج تھا۔غرض مصری زندگی میں نفاست اور خوش سلیقگی کے ساتھ ساتھ نزاکت اور عریانیت بھی آگئی تھی۔

    (ماخذ: مختلف محققین کی کتب کے اردو تراجم)

  • قاہرہ کی سیر

    قاہرہ کی سیر

    چند سال قبل آپریشنل ہونے والے اسفنکس ائیرپورٹ پر لینڈنگ ہوئی تو ویرانی دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی۔ رات کے ڈیڑھ بجے لینڈ ہونے والی واحد فلائٹ، چار کاؤنٹرز اور چند افراد پر مشتمل عملہ ہی اس نئے ائیرپورٹ پر دکھائی دیا۔

    امیگریشن کے بعد قاہرہ کا رخ کیا اور تقریبا چار بجے تک ہوٹل گرینڈ پیلس میں پڑاؤ ڈالا۔ وقت ضائع کئے بغیر فوری قاہرہ کی مشہور مسجد جامع الانور جو کہ مسجد حاکم کے نام سے معروف ہے وہاں پہنچے اور فجر کی نماز ادا کی۔ المعزیہ القاہرہ کو "سٹی آف تھاؤزنڈز مینرٹ” یعنی ہزاروں میناروں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک زمانے میں اندازے کے مطابق چھتیس ہزار مساجد تھیں۔ اس وقت بھی قاہرہ میں مساجد کی تعداد ہزاروں میں ہی ہے ۔ اور ان میں سے بیشتر صدیوں قدیم ہیں ۔ سڑک ، محلے ، گلی میں ایک سے زائد مساجد سایہ کئے ہوئے ہے ۔ فاطمی سلطنت میں المعزیہ القاہرہ میں پانچ جامعہ تعمیر ہوئیں ، جبکہ دو جامعہ کو آباد کیا گیا ۔ ان پانچ مسجدوں میں الجامع الازہر، الجامع الانور ، الجامع لؤلؤہ، الجامع الجیوشی ، اور الجامع الاقمر شامل ہیں ، جبکہ الجامع العتیق اور الجامع احمد ابن طلون کو فاطمی دور کے دوران آباد کیا گیا ۔۔ دنیا کی قدیم آبادی کے ساتھ مساجد اس شہر کی پہچان ہے ۔ یہ تہذیب یافتہ معاشرے کی بھی عکاس ہے اور اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ جہاں اتنی مساجد ہوں گی وہاں نمازی بھی ہوں گے ۔ ان مساجد نے مصر کی تاریخ بلخصوص قاہرہ کی تعمیر و ترقی میں ایک ثقافتی مرکز کا کردار ادا کیا ہے ۔۔

    الجامع الازہر کا شمار آج بھی قدیم ترین درس گاہ میں ہوتا ہے ۔ جہاں حصول علم کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے تھے ۔ آج بھی اس مسجد کی رونق برقرار ہے ، طالبعلموں سے یہ مسجد آباد رہتی ہے۔

    اوپن ائیر واکنگ میوزیم

    قاہرہ میں دنیا کا سب سے بڑا اوپن ائیر واکنگ میوزیم بھی موجود ہے ۔ اس مقام کو یونیسکو نے ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے ۔ یہ تاریخی مقام بین الحرمین یعنی دو محلوں کے درمیان کا راستہ ہے ۔ جس کا آغاز جامع الانور کے داخلی دروازے باب الفتوح سے ہوتا ہے اور یہ شاہراہ باب الزویلہ تک جاتی ہے ۔۔ فاطمی دور سلطنت کےدو قصر اور کئی مساجد اس راستے کا حصہ ہیں ۔ فاطمی سلطنت کے بعد آنے والی ایوبی اور مملوک سلطنت نے ان بیش قیمتی آثار کو ملیا میٹ کردیا ۔ سلطنت عثمانیہ میں بین الحرمین میں مزید تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ۔ دور حاضر میں اس مقام پر بازار قائم ہے ۔ ایوبی ، مملوک اور سلطنت عثمانیہ کی مساجد بھی موجود ہیں ۔ جن کی شناخت انکے میناروں کی بناوٹ سے کی جاتی ہے۔

    قاہرہ کی روشن راتیں

    العمزالدین اسٹریٹ ثقافتی ورثہ اور اوپن ایئر میوزیم ہونے کے ساتھ ، قاہرہ کی رونقوں اور حسن کا منبع بھی ہے ۔ یہاں ہر رات میلہ لگتا ہے ۔ دکانوں سے سجی اس اسٹریٹ پر مصر کی سوغاتیں ہیں ۔۔ سیاح اس شاہراہ کا رخ کئے بغیر قاہرہ سے باہر نہیں جاسکتے ۔ کونے کونے پر یہاں ایک فیسٹیول سجا رہتا ہے ۔ کھانے پینے کے مشہور اسٹالز ہیں جہاں گھومنے پھرنے والوں کی بیٹھکیں لگی رہتی ہیں ۔ یہ قاہرہ کے اصل حسن و جمال کا ایک عکس ہے ۔ اس پرکشش اور دلفریب ماحول میں شاہراہ کی سیر کرتے ہوئے کئی بار بین الاحرمین کے قصر کی سیر کرنے کا گمان ہوا ۔ اور دل نے کئی بار اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ منظر محسوس کرنا نصیب ہوا ۔ بیشتر سیاحوں کے لئے یہ ایک تفریحی مقام ہے ، لیکن تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کو یہ شاہراہ شاہانہ ماضی کے دور میں لے جاتی ہے ۔ جس کے احساس کو لفظوں میں پرویا نہیں جاسکتا ۔

    قاہرہ اور کراچی کی یاد

    اولڈ سٹی کی عمارتیں دیکھ کر قاہرہ پر کراچی کا گمان ہوتا تھا ، لیکن پاکستانی سفیر نے ملاقات میں اس سوچ کو غلط ثابت کیا ۔ بتایا کہ ظاہری طور پر خستہ اور بوسیدہ لگنے والی عمارتیں اندر سے بے حد شاندار ہیں ، لوگوں کے گھر کشادہ اور عالی شان ہیں ۔ عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر لگے ہوئے ڈش انٹینا بہت نمایاں ہیں ۔ دن کی روشنی میں اینٹوں کی بوجھل اور افسردہ عمارتیں رات میں سنہری قمقموں سے روشن ہوتی تھیں ۔۔ ان عمارتوں ، مساجدوں کی تزئین کے لئے پیلی روشنی کے بلب کچھ اس انداز میں استعمال کئے گئے ہیں کہ دیکھنے والوں کو لائٹ شو لگتا ہے ۔ کراچی کی طرح قاہرہ میں بے ہنگم ٹریفک اور پارکنگ ایک بڑا مسئلہ ہے ، جگہ جگہ پل تعمیر کئے گئے ہیں ، لیکن پیدل چلنے والوں کے لئے اوور ہیڈ برج کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہاں موٹر سائیکلوں کا راج ہے اور رکشہ بھی چلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان ملتی جلتی خصوصیات کے باوجود قاہرہ کراچی کو کچرے کے معاملے میں پیچھے چھوڑنے میں ناکام ہے ۔۔ اولڈ سٹی ہو یا نیو ، قاہرہ صاف ستھرا شہر ہے ۔ یہاں گندگی کے ڈھیر نہیں لگے، صفائی کا انتظام رہتا ہے ۔

    قاہرہ کی اہمیت اور سنہری تاریخ کے باعث یہاں قدم قدم پر گوہرنایاب ملتا ہے ، لیکن چار روز کے قلیل عرصے میں ان جواہرات کو جمع کرنا ممکن نہ تھا۔ دریائے نیل ، میوزیم ، اور اہرام مصر کے دیدار کئے بغیر قاہرہ سے واپسی ممکن نہیں لہذا یہ بھی کام انجام دیا گیا ۔ شاپنگ کا فریضہ بھی ادا کیا ۔ یہاں کا پیپر جسے پیپرس کہتے ہیں اور کاٹن مشہور ہیں ۔ مٹھائی اور چاکلیٹ کی مٹھاس کا دنیا میں مقابلہ نہیں ۔ قاہرہ میں کئی مالز اور شاپنگ سینٹر قائم ہیں، ان میں زیادہ مشہور سٹی اسٹارز ہے، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مال سمجھا جاتا ہے ۔۔ قاہرہ مصر کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ اس کا اہم ثقافتی مرکز ہے ۔۔ اور مصر کی کل آبادی کا پچیس فی صد اس شہر میں آباد ہے ۔۔

  • انطونی کی خودکُشی اور ملکۂ مصر قلوپطرہ کی موت

    انطونی کی خودکُشی اور ملکۂ مصر قلوپطرہ کی موت

    قلو پطرہ دنیا کی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں کئی قصّے اور کہانیاں مشہور ہیں۔ اسے داستانوں میں سمیٹا گیا۔ اس کے حُسن، عشق اور پھر موت کو بھی افسانہ بنایا گیا اور شاید رہتی دنیا تک قلو پطرہ اسی طرح ‘زندہ’ رہے۔

    قبلِ مسیح کا یہ کردار دنیا بھر میں تاریخ اور افسانوی ادب کا حصّہ ہے جب کہ جدید دور میں قلو پطرہ پر فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک ڈرامے میں اس کردار کے بارے میں‌ لکھا تھا؛

    "قلو پطرہ دنیا کی حسین ترین عورت تھی۔ اس کا حُسن کئی انقلابوں، اور خونریزیوں کا باعث ہوا۔ اس ساحرہ کے حُسن و عشق کے قصّے جہاں دریائے نیل کے ملاحوں کو ازبر یاد ہیں، وہاں تمام دنیا کو معلوم ہیں۔”

    "قلو پطرہ مصر کے نالائق بادشاہ بطلیموس اولیت کی بیٹی تھی۔ یہ بادشاہ 80 قبل مسیح تک حکمران رہا۔ اپنی سترہ برس کی بیٹی قلوپطرہ کے سر پر اپنا زنگ خوردہ تاج رکھ کر اُس نے دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔”

    "ملکۂ مصر قلوپطرہ فاتحوں کی فاتح تھی۔ اس نے جولیس سیزر کو، اس کی موت کے بعد مارک انطونی کو جس کے ہاتھ میں ان دنوں دنیا کی باگ ڈور تھی، اپنے حُسن و جمال سے مسحور کیا۔”

    "اس حسین قاتلہ نے انطونی کو تو ہمیشہ کے لیے تباہی کے سیلاب میں بہا دیا۔ تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ انطونی نے اپنی بیوی کے ناپسندیدہ رویّہ سے مجبور ہو کر اس کے بھائی اوکتے ویانوس کی سخت توہین کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی۔ پارتھنیوں پر فتح حاصل کر کے اوکتے ویانوس نے انطونی کے روم کو مکمل طور پر تاراج کرنے کی کوشش کی اور اسکندیہ کی پرانی عظمت کو زبردست دھکا لگایا۔ اس نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ روم کی سلطنت کا اصل حق دار قلوپطرہ اور اس کا بیٹا سیرزین ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر اوکتے ویانوس اور انطونی کی جماعتوں میں جنگ ناگزیر تھی۔ چنانچہ اکتی ایم کے مقام پر ایک معرکہ خیز جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں قلوپطرہ بھی شریک تھی مگر اپنی جان بچا کر بھاگ نکلی اور اسکندریہ میں پناہ لی۔ انطونی شکست کھا کر واپس چلا آیا جہاں اس نے اپنی وفادار فوجوں کو دوبارہ جمع کرنے کی کوشش کی۔”

    "انطونی اور قلوپطرہ اب محسوس کرنے لگے تھے کہ انہوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ چنانچہ دونوں کے دلوں پر غم و الم کی گھٹائیں چھا گئیں لیکن ایک آرزو ابھی تک ان کے دلوں میں باقی تھی کہ انجام کار ان کا ملاپ ہو جائے۔”

    "انطونی لیبیا سے ناامید ہو کر اسکندریہ آیا۔ اس اثنا میں اوکتے ویانوس کی فوجیں اسکندریہ کے دروازوں تک پہنچ گئیں۔ انطونی نے ایک بار پھر اپنی کھوئی طاقت اور دلیری سے کام لے کر دشمن کا مقابلہ کیا لیکن فوج نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔بالکل تنہا دل میں ہزارو ں حسرتو ں کا خون لیے محل میں آیا تو قاصد نے خبر دی کہ قلوپطرہ نے خو دکشی کر لی۔ یہ دراصل قلوپطرہ کی ایک چال تھی۔ اسے ڈر تھا کہ انطونی اس کی غداری پر خشمگیں ہو گا لیکن قلوپطرہ کو معلوم نہ تھا کہ اس کی یہ چال اس کے عاشق پر بہت مہلک اثر کرے گی۔ انطونی دل میں بہت شرمندہ ہوا کہ ایک عورت کی محبت اس سے بڑھ گئی۔ چنانچہ جوش میں آکر اس نے اپنے سینے میں تلوار بھونک لی۔”

    "جب قلوپطرہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے بڑی منتوں سے اپنے عاشق کو کہلا بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو وہ اس کے پاس چلا آئے۔ چنانچہ انطونی کے ملازم اپنے زخمی آقا کو اُٹھا کر اس عمارت کے دروازے تک آئے جہاں قلو پطرہ نے خود کو چُھپا رکھا تھا۔ قلوپطرہ نے خوف سے دروازہ نہ کھولا۔ ایک کھڑکی سے رسیاں نیچے پھینکی گئیں جن کی مدد سے زخمی انطونی کو کمرے کے اندر لایا گیا۔”

    اس افسانوی روداد سے آگے ڈرامہ کے طرز پر مکالمے ہیں جس کے اختتام پر ملکۂ مصر قلوپطرہ کو سانپ ڈس لیتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتی ہے۔

    زیرِ نظر ادب پارے سعادت حسن کی کتاب بعنوان "جنازے” سے لیے گئے ہیں جو دراصل ریڈیو کے لیے تحریر کردہ ان کے فیچرز پر مشتمل ہے۔ منٹو نے یہ فیچرز مشہور ہستیوں کی موت کے عنوان سے لکھے تھے جن میں قلوپطرہ بھی شامل تھی۔

    کسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ انطونی کی خودکشی کی خبر سن کر پچھتاوے کی آگ میں جلتی ہوئی قلوپطرہ بھی خود کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔ قلوپطرہ کے دور اور اس کی زندگی سے متعلق محققین نے جو کچھ بیان کیا ہے، اسے بھی صدیوں پرانی داستانوں اور افسانوں نے مشکوک بنادیا ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں، قلوپطرہ 30 ویں صدی قبلِ مسیح میں 39 برس کی عمر میں وفات پا گئی تھی۔ وہ مصر کی ملکہ تھی۔

    محققین کے مطابق قلوپطرہ سلطنتِ روم میں اقتدار کے جھگڑے میں الجھی رہی اور اس کی موت زہریلے سانپ کے کاٹنے سے ہوئی تھی۔ مشہور ہے کہ اس نے خود کو سانپ سے ڈسوا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔

    شہرۂ آفاق قلوپطرہ فرعون ملکہ تھی جس کے ہوش رُبا حسن نے سلطنتِ روم کے نام ور جرنیلوں کو اپنی ذہانت اور سیاسی تدبّر سے شکست دی، وہ سلطنتِ روم پر قابض ہونا چاہتی تھی۔

    اس کے لیے قلوپطرہ نے ہر سازش کی اور ہر موقع کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اس کے عشق کا پہلا شکار روم کا شہرۂ آفاق حکم راں جولیس سیزر تھا، جو اس عورت کے خاوند سے اس کا ایک جھگڑا نمٹانے کے لیے بطور ثالث مصر آیا تھا، مگر اسے قلوپطرہ نے اپنی زلفوں کا اسیر بنالیا اور اس کی قربت اختیار کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے روم میں قیام پذیر ہوئی۔

    جب جولیس سیزر قتل ہوا تو قلوپطرہ نے اس کے نائب جنرل انطونی سے تعلقات استوار کرلیے، مگر اسے بھی دھوکا دیا اور پھر انطونی کی خودکشی کے بعد خود بھی موت کو گلے لگا لیا۔

  • کئی سو سال قدیم زمرد کی کانیں دریافت

    کئی سو سال قدیم زمرد کی کانیں دریافت

    مصر میں 13 سے 14 سو سال قبل پرانی زمرد کی کانیں دریافت ہوئی ہیں جو رومیوں کے زیر استعمال رہی تھیں۔

    حال ہی میں ہونے والی دریافت سے علم ہوا کہ مصر کے مشرقی صحرا میں بحیرہ احمر کے قریب رومی زمرد کے لیے کان کنی کیا کرتے تھے، اس جگہ کو قدیم دور میں مونس سمیرگڈس اور رومی دور کے آخر میں رومی اس کو سکیٹ کہا کرتے تھے۔

    یہ جگہ رومی سلطنت میں واحد جگہ تھی جہاں زمرد پائے جاتے تھے۔

    تحقیق کے مطابق رومن آرمی براہ راست مصر کے زمرد کی کانوں میں ملوث ہوتی تھی۔

    بارسلونا کی ایک یونیورسٹی کے لیکچرر جون اولر کا کہنا تھا کہ رومن فوج کے وہاں ملوث ہونے کا مقصد صرف ان کو بچانا نہیں بلکہ ممکنہ طور پر ان کی تعمیر میں مدد بھی تھا۔

    چوتھی سے چھٹی صدی قبل مسیح میں رومی دور کے آخر میں کھودی جانے والی سطحوں سے یہ بھی سامنے آیا کہ کچھ عمارتیں مقبوضہ تھیں یا ممکنہ طور پر بلیمائز نے بنائی تھیں جو اس علاقے مین چوتھی صدی کے آخر میں آباد تھے۔

    تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ممکنہ طور پر بلیمائز نے زمرد کی کانوں کو چوتھی سے چھٹی صدی قبل مسیح کے درمیان سنبھالا اور تب تک کان کنی کی جب تک ان سرگرمیوں کا اختتام نہیں ہوا۔