Tag: قدیم مندر

  • اَمب مندر: فطرت کے دامن میں صدیوں پرانے شاہ کار

    اَمب مندر: فطرت کے دامن میں صدیوں پرانے شاہ کار

    دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر آباد قدیم شہر خوشاب اور یہاں کی وادیِ سون اپنے پہاڑی سلسلے پر موجود صدیوں پرانے آثار کے لیے بھی مشہور ہے جن میں‌ امب مندر کے کھنڈرات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

    امب مندر سلسلہ کوہِ نمک اور وادیِ سون میں سکیسر کے پہاڑی سلسلہ میں واقع ہیں۔ تہذیب و ثقافت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مندر ساتویں سے نویں صدی عیسوی کے درمیان تعمیر کیے گئے تھے۔ یہاں متعدد مندر تھے جن میں‌ سے اب دو ہی عمارتیں شکستہ حالت میں دکھائی دیتی ہیں، جن سے اس زمانے کی تہذیب اور تمدن کے بارے میں کچھ جانا جاسکتا ہے۔

    یہاں‌ موجود بڑا مندر 15 سے 20 میٹر بلند ہے، جسے ایک مربع نما پایۂ ستون پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ کابل شاہی عہد کی یادگار عمارتیں‌ ہیں۔ اب اس بڑے مندر کی تین منازل ہی باقی رہ گئی ہیں جن تک رسائی کے لیے اندرونی جانب سیڑھیاں موجود ہیں۔ اس کے بیرونی حصّے اور داخلی محراب پر خوب صورت کشمیری نقاشی کا کام کیا گیا ہے۔ اسی طرح چھوٹا مندر جو ایک کھائی سے متصل ہے، اس کی بلندی 7 یا 8 میٹر ہے اور اس کی عمارت دو منزلہ ہے۔

    اَمب مندر کے مضبوط اور چوڑے ستونوں کے علاوہ اس کی محرابیں خوب صورت اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں جو آج بھی اس دور کے فنِ تعمیر اور ہنرمندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

    مشہور برطانوی آرکیالوجسٹ الیگزینڈر کننگھم نے یہاں خستہ حال مندر کو دیکھا تو برطانوی حکومت سے اس کی مرمت اور دیکھ بھال کی سفارش کی جس کے بعد وہاں‌ کے ایک بڑے مندر کی مرمت کروائی گئی۔ یہ کام 1922ء سے 1924ء کی درمیانی مدت میں مکمل کیا گیا تھا جس کے نگراں دیا رام ساہنی تھے۔

    بڑے مندر کے کمرے کے چاروں طرف اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں تنگ ضرور ہیں، لیکن ان کا طرزِ تعمیر بہت عمدہ ہے۔ روشنی کے لیے جا بجا سوراخ بنائے گئے ہیں۔ مندر کی شکستہ چھت سے دور تک نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

    مندر کے نودرات مختلف زمانوں میں لوٹ مار کی نذر ہوگئے، اور ان میں سے کچھ بعد میں‌ عجائب گھر، لاہور میں‌ محفوظ ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے اور وادی میں اس مقام پر اس کی شادابی، سبزہ و گُل کے سبب ہندوستان کے بادشاہوں اور امرا نے بھی قیام کیا جس کا ذکر ان کی تاریخ اور تذکروں میں ملتا ہے۔ اس علاقے کی جھیلیں بھی بہت مشہور ہیں، تاہم وہاں سیروتفریح کی غرض سے جانے والوں کے لیے مناسب انتظامات نہیں ہیں اور سڑکیں اور وہاں موجود قدیم آثاروں تک جانے والے راستوں کی حالت بھی خراب ہے۔

  • تھرپارکر میں جین مت کے قدیم معبد

    تھرپارکر میں جین مت کے قدیم معبد

    سندھ کے صحرائی علاقے تھر اور اس کے گردونواح میں کبھی جین مت کے ماننے والوں کی بڑی تعداد آباد تھی، مگر تقسیمِ ہند کے بعد حالات اور معاشی مسائل کی وجہ سے یہ لوگ ہجرت کر کے بھارت یا سات سمندر پار کہیں جا بسے۔

    آج تھر میں جین مت کے قدیم مندر مخدوش اور خستہ حال یادگار کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ جین مت کی بنیاد تقریباً چھے سو سال قبل رکھی گئی تھی۔

    بعض محققین اسے ہندو مذہب کی ایک شاخ کہتے ہیں، لیکن اکثریت کے مطابق یہ بدھ مت کی تعلیمات سے زیادہ قریب ہے۔ تاریخ کے صفحات میں جین مت کے بانی کا نام مہاویر بتایا گیا ہے۔

    تھر کا ضلعی ہیڈ کوارٹر مٹھی ہے جس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ویرا واہ، بھوڈیسر اور ننگر پارکر شہر میں جین مت کی عبادت گاہیں قائم ہیں اور یہ اس خطے کی قدیم عمارتیں ہیں۔ تاریخ نویسوں کے مطابق جین مت کے پیروکاروں کا ایک پیشہ تجارت تھا اور بحری راستے خریدوفروخت کا بہترین ذریعہ تھا۔

    تیرھویں صدی میں جب یہ لوگ خوش حال اور مال دار ہو گئے تو مل کر اپنے مندر تعمیر کیے اور جب تک یہاں رہے انھیں آباد رکھنے کے ساتھ ان کی دیکھ بھال اور ان کا انتظام بھی خوبی سے چلاتے رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی اور جنگوں نے ان لوگوں کو اپنے ٹھکانے بدلنے اور آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور یوں ستّر کی دہائی میں صدیوں پرانے ان مندروں میں ویرانی نے بسیرا کر لیا۔

    تھرپارکر کا گوری مندر اپنے منفرد اور قابلِ توجہ طرزِ تعمیر کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ جین مت کے سبھی مندروں میں مضبوط ستون، دیواریں، منقش محرابیں اور اندر چھت پر سنگ تراشی کے نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان مندروں میں دیواروں پر پتھروں کو تراش کر مختلف تصاویر بھی بنائی گئی ہیں۔