Tag: قدیم کراچی

  • کراچی پورٹ ٹرسٹ: ایک صدی پرانی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت

    کراچی پورٹ ٹرسٹ: ایک صدی پرانی تاریخی اہمیت کی حامل عمارت

    کراچی شہر انگریز دور میں بھی علم و فنون کا مرکز، تہذیب و ثقافت کا گہوارہ اور کاروباری و تجارتی سرگرمیوں کے لیے مشہور رہا ہے جہاں مختلف اقوام اور مذاہب کے ماننے والے بستے تھے جس کی ایک جھلک یہاں کے فنِ تعمیر میں بھی نظر آتی ہے۔

    کراچی میں کئی قدیم عمارتیں دیکھی جاسکتی ہیں جو آج بھی رہائشی اور کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ ان میں سے اکثر عمارتیں ہندو راجائوں، امرا اور برطانوی حکم رانوں کی بنوائی ہوئی ہیں، جو اس زمانے کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہیں۔ ایک ایسی ہی مشہور اور اہم عمارت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیڈ کوارٹر کی ہے جسے ایک صدی قبل تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس عمارت کا سمندری راستوں سے سامان کی ترسیل میں کلیدی کردار رہا ہے اور اس عمارت سے متعلقہ عملہ شہر کی اہم ترین بندر گاہ کے لیے کئی دہائیوں سے خدمات فراہم کررہا ہے۔

    کراچی پورٹ ٹرسٹ کی عمارت کا یہ مرکزی دفتر برطانوی، ہندو اور گوتھک ثقافتوں کے امتزاج کا نمونہ ہے اور ماہرین کے مطابق اس میں‌ رومن فنِ تعمیر کی آمیزش بھی ہے، جب کہ عمارت کا مرکزی گنبد اسلامی طرزِ تعمیر کا عکاس ہے۔

    یہ کراچی کی اہم اور نمایاں عمارات میں سے ایک ہے جسے بمبئی حکومت کے کنسلٹنٹ آرکیٹکچر جارج وائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے انتظامی دفاتر کی تعمیر 1916ء میں مکمل ہوئی تھی جہاں سے آج تک کراچی پورٹ کے لیے عملہ سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔

    اس قدیم عمارت کی تعمیر کا کام 1912ء میں شروع کیا گیا تھا جو چار سال کی مدت میں‌ مکمل کیا گیا اور اس وقت کے ممبئی کے گورنر لارڈ ویلنگٹن نے اس کا افتتاح کیا تھا، اس دور میں‌ اس کی تعمیر پر 9 لاکھ سے زائد رقم خرچ ہوئی تھی۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ اس عمارت کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران انڈیا جنرل اسپتال کا نام دے دیا گیا تھا جب کہ مئی 1919ء تک یہ عمارت فوجی اسپتال کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔

    یہ عمارت دو منزلہ ہے جس کے دروازے کھڑکیاں بڑے اور محرابیں کشادہ و بلند ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں میں مہنگی ساگون لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ عمارت کا داخلی اور خارجی حصّہ سادہ اور پُرکشش ہے، جب کہ کمرے کشادہ ہیں جن کی چھت اونچی ہے۔

    یہ عمارت ماضی کی یادگار اور اہم قومی ورثہ ہے جہاں یومِ‌ آزادی اور دیگر اہم تہواروں پر
    برقی قمقمے روشن کیے جاتے ہیں اور سجاوٹ و آرائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

  • 30 اپریل: کراچی میں 90 سال بعد ٹرام سروس بند کردی گئی

    30 اپریل: کراچی میں 90 سال بعد ٹرام سروس بند کردی گئی

    1975ء میں آج ہی کے روز 90 سالہ قدیم ٹراموے کمپنی نے کراچی میں اپنی سروسز بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کراچی جیسے بڑے اور تجارتی شہر کو کئی دہائیوں تک سفر کی سہولت فراہم کرنے کے بعد 30 اپریل کو ٹراموے کی بندش کا اعلان ایک تاریخی موقع تھا۔

    کراچی کے بزرگ شہریوں سے کبھی اہم اور مرکزی سڑکوں اور نصف صدی قبل اس شہر کی پبلک ٹرانسپورٹ یا ذرایع نقل و حمل کے بارے میں‌ دریافت کریں تو وہ “ٹرام” کا ذکر ضرور کریں گے جو اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔

    دہائیوں قبل اندرونِ شہر آمدورفت کے لیے عام طور پر سائیکل رکشا اور گھوڑا گاڑی کے بعد ٹرام ایک بڑی اور آرام دہ سہولت تھی جو اس اعلان کے بعد ہمیشہ کے لیے ساکت و جامد ہوگئی۔

    کراچی میں ٹراموے کا سلسلہ اسی شہر کے میونسپل سیکریٹری جیمز اسٹریچن نے شروع کیا تھا، جو ایک انجینئر اور آرکیٹکٹ بھی تھے۔

    شہر میں ٹرام کے لیے لائنیں بچھانے کا کام 1883ء میں شروع ہوا جسے اکتوبر 1884ء میں مکمل کرلیا گیا اور اس سے اگلے سال اپریل ہی کے مہینے میں کراچی کے شہریوں کو آمدورفت اور نقل و حمل کے لیے ٹرام کی سہولت میسّر آگئی۔ 20 اپریل کو کراچی میں پہلی بار مخصوص ٹریک پر ٹرام رواں دواں‌ ہوئی۔

    اس زمانے میں بھاپ کے انجن کی وجہ سے شہر کی فضا آلودہ اور شور پیدا ہونے کی شکایات کے بعد چھوٹی اور ہلکی ٹرامیں متعارف کرائی گئیں جنھیں گھوڑے کھینچتے تھے، لیکن پھر یہ ٹرامیں ڈیزل سے چلنے لگیں۔

    یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی کی ملکیت تھیں جنھیں قیامِ پاکستان کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے خرید کر سروس جاری رکھی اور پھر انھیں بند کردیا۔

    20 اپریل 1885ء کو کراچی میں پہلی ٹرام کے مسافروں میں اُس وقت کے سندھ کے کمشنر مسٹر ہنری نیپئر بی ارسکن بھی شامل تھے۔ کچھ عرصے کے لیے کراچی میں دو منزلہ ٹرامیں بھی چلائی گئیں۔ شہر میں ٹراموے نظام کا مرکز صدر میں ایڈولجی ڈنشا ڈسپنسری تھی۔ اس مقام سے ٹرامیں مختلف روٹ کے لیے روانہ ہوتی تھیں جو گاندھی گارڈن، بولٹن مارکیٹ اور کینٹ ریلوے اسٹیشن تک جایا کرتے تھے۔