Tag: قرارداد لاہور

  • ’’قراردادِ پاکستان‘‘ اور ہندو پریس کا طنز

    ’’قراردادِ پاکستان‘‘ اور ہندو پریس کا طنز

    لاہور کے تاریخی اجتماع میں‌ پیش کی گئی قرارداد کو ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کہہ کر ہندو پریس نے بہت شور مچایا تھا اور اپنی رپورٹوں میں مسلم اکابرین اور راہ نماؤں پر تنقید کرتے ہوئے اس اجتماع سے متعلق طنزیہ انداز اپنایا تھا۔

    اس سے قبل قائد اعظم نے وائسرائے ہند سے کہہ دیا تھا کہ’’ اگر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی اطمینان بخش صورت نہیں نکالی جاسکتی، تو مسلمانوں کو ملک کی تقسیم کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔‘‘ اور یہ وہی محمد علی جناح تھے جو کبھی کانگریس کے ہم نوا تھے، لیکن بعد میں‌ ان پر واضح ہوگیا کہ ہندو قیادت کبھی مسلمانوں کو ان کا حق نہیں‌ دے گی۔ پنجاب میں جہاں قراردادِ لاہور پیش کی گئی، اس وقت یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی جو پنجاب کے اتحاد کی حامی اور برصغیر کی تقسیم کی مخالف تھی۔ ان دنوں خاکسار تحریک بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ نہیں تھی اور خدشہ تھا کہ منٹو پارک میں اس جلسے کے دوران ان کی جانب سے بد نظمی پھیلانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے اسی مقام پر جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس تاریخی جلسے اور اس موقع پر پیش کی گئی قرارداد کو مسلمان قیادت نے قرارداد لاہور کہا تھا، لیکن یہ ہندو پریس تھا جس نے اسے قراردادِ پاکستان کا نام دیا۔

    قراردادِ لاہور مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی جس نے آزادی کی جدوجہد کو ایک نئی اور واضح شکل دے دی۔ اسی لیے 23 مارچ 1940 کے اس جلسے کو پاکستان کی تاریخ میں‌ مرکزی اہمیت دی جاتی ہے۔

    قرارِ داد لاہور کے بعد جس تیزی سے مسلم اکثریتی علاقوں میں قیادت نے جلسے اور مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹھا کرنا شروع کیا، وہ ایک مثال ہے اور اس کے سات برس بعد ہی پاکستان کا قیام عمل میں‌ آیا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے زور پکڑنے اور ایک نکتے پر قائم ہوجانے کا گواہ لاہور کا منٹو پارک ہے جہاں مینارِ پاکستان کی صورت میں اس تاریخی اجتماع کی ایک یادگار بھی موجود ہے۔

    مینار پاکستان لاہور کے منٹو پارک جسے بعد میں‌ اقبال پارک کا نام دیا گیا، عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا جہاں مرکزی قیادت جلسہ کے لیے جمع ہوئی تھی۔ 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے قبل کئی مسلمان اکابرین اس خدشے کا اظہار کرچکے تھے کہ ہندوستان میں انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے اور آزادی کے بعد بھی مسلمانوں کو ہندوؤں‌ کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا، تو یہ قابل قبول نہ ہوگا۔

    اس ضمن میں ایک مثال 23 اگست 1890ء کی ہے جب مشہور ادیب، ناول نگار، مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’’تہذیب‘‘ کے اداریے میں لکھا، ’’ہندو، مسلم نظریات کے اختلافات میں اس قدر شدت آگئی ہے کہ اب مسلمان اپنی مذہبی رسومات تک آزادانہ طور پر ادا نہیں کرسکتے۔ اس عالم میں بہتر یہی ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم صوبوں میں تقسیم کردیا جائے۔‘‘ اس سے قبل سرسیّد احمد خان بھی کہہ چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی فکر کرنی چاہیے اور تعلیمی میدان میں ترقی کرکے ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ورنہ کچلے جائیں‌ گے۔

    مسلم لیگ کے قیام کے بعد جب محمد علی جناح نے اس کی قیادت سنبھالی اور ہندوؤں کی سازشیں‌ اور بدلے ہوئے تیور دیکھے تو ایک الگ وطن کے قیام کی کوششیں تیز کردیں اور وہ وقت آیا جب قائد اعظم نے پہلی بار وائسرائے سے کہا کہ’’ اگر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی اطمینان بخش صورت نہیں نکالی جاسکتی، تو مسلمانوں کو ملک کی تقسیم کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔‘‘ یہ وہی محمد علی جناح تھے جو کبھی کانگریس کے ہم نوا تھے، لیکن درحقیقت وہ اور ان جیسے دوسرے مسلم زعماء، جذبۂ حبّ الوطنی سے سرشار تھے، اور ہندوستان سے محبت کرتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ ملک کو بہرحال انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونا چاہیے۔ لیکن بعد میں‌ ان پر واضح ہوگیاکہ ہندو قیادت کبھی مسلمانوں کو ان کا حق نہیں‌ دے گی، کیوں کہ ان کے دل اور دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ کئی سو سال تک مسلمانوں کی حکم رانی کو وہ قبول ہی نہیں‌ کرسکے تھے اور وہ مسلمانوں کو اپنا محکوم بنا کر رکھنا چاہتے تھے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ ہندوستان کا ہر فرد انگریزوں کے تسلّط سے مکمل آزادی چاہتا ہے، تو قائداعظم نے سنجیدگی سے مسلمانوں کے مستقبل کا مسئلہ اٹھایا۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کی آزادی قریب آرہی ہے، لہٰذا اب یہ بھی طے ہوجانا چاہیے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ اسی خیال کے پیشِ نظر 1928ء میں ان کے مشہور زمانہ چودہ نکات سامنے آئے، جو مسلمانوں کو ان ہندوستان میں ان کے مستقبل پر مطمئن کرسکتے تھے، لیکن اسی موقع پر ہندو ذہنیت اور ہندو قیادت کی اصلیت بھی سامنے آگئی۔ موتی لعل نہرو نے قائد اعظم کے ان نکات کو یک سر مسترد کر دیا۔

    حالات بگڑتے رہے اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں اور ان کی بدنیّتی کھلنے لگی تو اکابرین نے قائداعظم سے درخواست کی کہ وہ وطن واپس آکر مسلمانوں کی قیادت کریں اور مسلمانوں کی سیاسی جماعت، مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اسلامی تشخص اور آزادی کی جدوجہد شروع کریں۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کی صدارت سنبھال کر 1940ء میں 23 مارچ کو لاہور کا وہ اجلاس منعقد کیا، جس میں ببانگِ دہل اعلان کر دیا گیا کہ ’’برصغیر میں ایک نہیں، دو قومیں بستی ہیں، یعنی ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں، لہٰذا مسلمان اپنے لیے علیحدہ وطن حاصل کر کے رہیں گے۔‘‘

    قائد اعظم محمد علی جناح نے اجلاس کے بارے میں پہلے ہی فرما دیا تھا کہ’’ مسلم لیگ کا لاہور کا یہ اجلاس اسلامی ہند کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔ ہمیں اس اجلاس میں متعدد نہایت اہم معاملات طے کرنے ہیں۔‘‘ مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے جو تاریخی قرارداد پیش کی، اسے قراردادِ لاہور کہا گیا، مگر ہندو پریس نے اس پر کڑی تنقید کی تھی اور اس کے لیے ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔

  • یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جسے ہم قرارداد لاہور بھی کہتے ہیں۔ اس دن کو ہم یومِ پاکستان کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔ قرار داد پاکستان کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے حصول کی تحریک شروع کی تھی۔

    یومِ پاکستان کی مناسبت سے یہ کہانی خاص طور پر والدین اور اساتذہ بچوں کو سنا سکتے ہیں جس سے انھیں اس دن کی اہمیت اور تاریخی جدوجہد سے آگاہی حاصل ہوگی۔ اس کہانی کی مصنف شائستہ زرؔیں ہیں۔

    بچّہ: مسلم لیگ کے سرگرم کارکن عبدالستار مظہری

    آغا جان: کیا ارادے ہیں بچّو؟ میرے کمرے میں کیوں ڈیرا ڈالے بیٹھے ہو؟

    نصر: بہت ہی معصوم ارادے ہیں آغا جان! بس ایک جلسے کا آنکھوں دیکھا حال سننا ہے آپ سے۔

    آغا جان: کیوں نہیں، مگر کون سے جلسے کا؟ ہم نے تو بہت سارے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کی ہے۔

    عمر: جس جلسے میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ ابو بتا رہے تھے آپ نے اُس میں شرکت کی تھی۔ ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

    آغا جان: برسوں بیت گئے لیکن آج بھی یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں بچّہ مسلم لیگ میں شامل تھا اور برصغیر کے دیگرمسلمانوں کی طرح نہ صرف آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بساط بھر آزادی کی جدوجہد میں حصّہ بھی لے رہا تھا۔ اُس دن تو ہمارے جوش و خروش اور خوشی کا عالم ہی اور تھا جب وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو(Lord linlithgow) نے اپنی ایک تقریرمیں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرلیا۔ مسلم لیگ کی اتنی بڑی کامیابی پر ہم خوشی سے پُھولے نہیں سمارہے تھے۔

    عمر: آغا جان! کون سی تاریخ تھی؟

    آغا جان: 10 اکتوبر 1939ء

    نصر: اور پھر اچانک 23 مارچ 1940ء کو جلسے کی قرارداد پیش کر کے قائد اعظم نے وائسرائے کو حیران کر دیا۔

    آغا جان: ہرگز نہیں، کیونکہ مسلمان ایک بہادر قوم ہے۔ 6 فروری 1940ء کو ایک ملاقات میں قائداعظم نے وائسرائے ہند کو بتا دیا تھا کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہم علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے بعد قائد اعظم نے میرٹھ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں مسلم لیگی راہ نماؤں نے سوچ بچار اور باہمی گفتگو کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جس میں تقسیم ہند کے بارے میں تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا، یوں اس سلسلے میں کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

    ردا: کمیٹی کے ارکین میں کون کون شامل تھا؟

    آغا جان: نواب زادہ لیاقت علی خان، سر سکندر حیات، خواجہ ناظم الدّین، سرعبداللہ ہارون، نواب محمد اسمٰعیل خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان، سید عبد العزیز وغیرہ شامل تھے۔ بہت غور و فکر کے بعد کمیٹی نے ایک رپورٹ ترتیب دی جسے 23 مارچ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس تھا جو 22 سے 24 مارچ تک جاری رہا۔ پہلا اجلاس 22 مارچ کو لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں کے نمائندے ان میں شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم نے کی تھی۔ اور اجلاس کی کاروائی کا آغاز سر شاہنواز نے کیا تھا۔ اور آپ نے وضاحت کر دی تھی کہ ”ہندو اور مسلمان میں اس کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں کہ وہ ایک ملک میں آباد ہیں، تمام قوم کو محمد علی جناح کی قیادت پر اعتماد ہے۔ اس موقع پرقائد اعظم نے برملا کہا۔”ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی چیز ایک جیسی نہیں ہے اور وہ دو مختلف واضح تہذیبوں کے وارث ہیں۔ چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔“

    مسلم لیگ کا دوسرا عام اجلاس 23 مارچ کو ہُوا جس میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی اور اس اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی۔ قائد اعظم کی خواہش پر بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”آئین پر ایک مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 1935ء کے ایکٹ میں وفاق کی جو اسکیم دی گئی ہے وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسکیم مسلمانوں کو مرکز میں نہ صرف ایک دائمی اقلیت میں تبدیل کر دے گی بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں صوبائی خود مختاری منسوخ کر دے گی۔ مسلمان ہر ایسے آئین کو ناقابل عمل بنا دیں گے جو اُن کی مرضی و منشاء کے مطابق نہ ہو۔“

    رکن مرکزی قانون ساز اسمبلی مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کی حمایت کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ یہ بات قابلِ اطمینان ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دن سے شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلمانوں نے مکمل آزادی کا اعلان کردیا ہے۔

    نصر: آج کل تو کوئی جلسہ فائرنگ اور فساد کے بغیر ہوتا ہی نہیں وہ تو بہت پُر امن جلسہ ہو گا۔

    آغا جان: اُن دنوں مسلمانوں کی اکثریت قائد اعظم کے ساتھ تھی۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے خاکساروں کی فائرنگ سے بے چینی پھیل گئی تھی جس پر قائد اعظم نے نہایت سمجھداری اور ذہانت سے قابو پالیا۔

    حرا: آخری اجلاس میں کتنے افراد شریک تھے؟

    آغا جان: 35 ہزار افراد شریک تھے۔ اجلاس کے آغاز پر آگرہ کے سید ذاکر علی نے وہ مرکزی قرارداد پیش کی جس پر گزشتہ اجلاس میں گفتگو کی گئی تھی۔ یہ قرارداد نہایت جوش و خروش کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی۔
    عمر: آغا جان! جب قائد اعظم نے اتنے بڑے مجمع کو منتشر ہونے سے بچایا تو اُن کے ساتھی تو بہت خوش ہوں گے؟

    آغا جان: کیوں نہیں بیٹا! مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے نواب بہادر یارجنگ نے قائد اعظم کو مبارکباد دی تھی کہ اُنہوں نے خاکسار مسئلے کو نہایت عقلمندی اور سوجھ بوجھ سے حل کیا۔ قائداعظم کو بھی اس شان دار کام یابی کی بے حد خوشی تھی آپ نے اجلاس کے آخر میں کہا، ”مسلمانوں نے دنیا کے سامنے اپنے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، دشمن کی چالیں ناکام ہو گئیں، مسلمانوں نے بالآخر اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے اور موجودہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔“

    ردا: آغا جان! اتنے بڑے اجلاس کے انتظام میں مسئلہ نہیں ہوا؟

    آغا جان: تقسیم سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کا اتحاد مثالی تھا، مسلم لیگی راہ نماؤں نے باہمی اتفاق سے منٹو پارک کے میدان کا انتخاب اجلاس کے لیے کیا۔ اُس زمانے میں یہ میدان کُشتیوں کے لیے مخصوص تھا حکومت نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا کہ چند روز قبل سکھوں کے اجتماع نے اس کا حلیہ خراب کردیا اب مزید خراب ہو جائے گا۔ مسلم لیگی راہ نماؤں کے دباؤ ڈالنے پر جلسے کی مشروط اجازت دی کہ جلسے کے منتظمین پانچ ہزار روپے بطور ضمانت داخل کریں تاکہ نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کی جا سکے۔ اور یہ منتظم کے لیے ممکن نہ تھا، اس کا حل یہ نکالا کہ ہم خیال مسلم لیگی افسروں سے رابطہ کیا یوں اس سلسلے میں چھوٹ مل گئی۔

    حرا: آغا جان! اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان معاشی اعتبار سے بہت خوش حال نہیں تھے اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوا؟

    آغا جان: بڑوں کے ساتھ بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بچہ مسلم لیگیوں کے لیے تو یہ عید کا سماں تھا ریڑھیوں پر فروخت ہونے والی سستی اشیاء پر قیمتوں کی چٹیں لگادی گئی تھیں، اس سے پہلے نواب کالا باغ نے ایک ہزار کی رقم مسلم لیگ کو دی۔ اور ساتھ ہی یہ پیغام بھیجا کہ اگر کوئی صاحب اس سے زیادہ رقم دیں گے تو وہ اتنی ہی رقم اور دیں گے۔ نواب سر شاہنواز خان نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کرفوری اخراجات کے لیے 6000 روپے دیے، مجلس استقبالیہ نے رکنیت فیس 50 روپے مقرر کی، اس سے خاصی رقم جمع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق جلسے کے لیے 20 ہزار روپے کی رقم جمع ہو گئی تھی۔

    عمر: (حیرت سے) 20 ہزار میں جلسے کے انتظامات ہوگئے تھے؟

    آغا جان: جلسے کا انتظامات پر تقریباً پونے گیارہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

    حرا: باقی رقم کا کیا ہوا آغا جان؟

    آغا جان: باقی ماندہ رقم آل انڈیا مسلم لیگ کے خزانے میں جمع کردی گئی تھی۔ تم میں سے کس کو معلوم ہے کہ قرارداد پاکستان میں کیے جانے والے مطالبے کے اصل الفاظ کیا تھے؟

    ردا: آغا جان! میں بتاؤں گی۔ وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں مسلم ریاستیں قائم کر دی جائیں۔“

    آغا جان: لیکن بیٹا یہ جواب صد فی صد درست نہیں ہے۔ چونکہ میں خود اس جلسے میں موجود تھا اس لیے مجھے علم ہے کہ لفظ ”ریاست“استعمال ہوا تھا۔ ریاستیں تو ٹائپ کی غلطی تھی، قرارداد پاکستان میں صرف ایک پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    نصر: (جوش و مسرت سے) قائداعظم نے درست کہا تھا، واقعی قرارداد پاکستان تو پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔

    حرا: آغا جان ماضی کی یادیں تازہ کرنا آپ کو کیسا لگا؟

    آغا جان: بہت اچھا لگا بیٹی۔ ہم نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آزاد وطن حاصل کیا ہے۔ میرے بچو! تم ہمارے وارث بھی اور امین بھی ہو۔ تم سے بس اتنی سی درخواست ہے کہ ہمارے خوابوں کو پائمال نہ کرنا، اس پاک سر زمین کی حفاظت فرض سمجھ کر کرنا، پاکستان ہمارے اسلاف کے خواابوں کی تعبیر اور جذبوں کا امین ہے۔ ہمیں پاکستان کی موجودہ نسل سے بہت سی اچھی توقعات ہیں۔

    نصر: آغا جان ہم پاکستان کے وارث اور امین ہی نہیں محافظ بھی ہیں۔

    آغا جان: شاباش میرے بچو! ہم نے جو دیا جلایا ہے اس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑنے دینا۔ پاکستان میں اُجالا بکھیر دینا۔ تم سے اور تمہاری نسل سے مجھے یہی کہنا ہے کہ

    ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
    اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر

    ردا: آغا جان ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار رہیں گے، اس کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔

    آغا جان: ان شاء اللہ میرے بچو! تم پاکستان کے پاسبان ضرور بنو گے۔

    (بحوالہ: قرارداد پاکستان، تاریخ و تجزیہ : خواجہ رضی حیدر)