Tag: قرارداد پاکستان

  • پاکستانی قوم اقبال اور قائد اعظم کے اصولوں پر عمل کرنے میں کامیاب رہی، روسی سفیر البرٹ خوریف

    پاکستانی قوم اقبال اور قائد اعظم کے اصولوں پر عمل کرنے میں کامیاب رہی، روسی سفیر البرٹ خوریف

    اسلام آباد: یوم پاکستان پر روسی سفیر نے تہنیتی پیغام جاری کیا ہے، جس میں انھوں نے کہا میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت اور عوام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

    روسی سفیر نے یوم پاکستان کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ قرارداد پاکستان کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں نے ایک بے مثال آزاد اسلامی جمہوریہ قائم کرنے کی بنیاد رکھی۔

    روسی سفیر البرٹ خوریف نے کہا شدید مشکلات کے باوجود پاکستانی قوم نے اپنی روایتی اقدار کو برقرار رکھا ہے، پاکستانی قوم شاعر مشرق علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں پر عمل کرنے میں کامیاب رہی۔

    البرٹ خوریف کا کہنا تھا کہ پاکستان زندگی کے تمام شعبوں میں بھرپور صلاحیتوں کا حامل ملک ہے، پاکستان کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے محنتی اور مخلص لوگ ہیں۔


    جاپانی قائم مقام قونصل جنرل ناکاگاوا یاسوشی کی اردو میں قرارداد پاکستان کی مبارک باد کی ویڈیو


    روسی سفیر نے پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔

    واضح رہے کہ آج ملک بھر میں یوم پاکستان ملی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، دن کے آغاز پر وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔

  • جاپانی قائم مقام قونصل جنرل ناکاگاوا یاسوشی کی اردو میں قرارداد پاکستان کی مبارک باد کی ویڈیو

    جاپانی قائم مقام قونصل جنرل ناکاگاوا یاسوشی کی اردو میں قرارداد پاکستان کی مبارک باد کی ویڈیو

    کراچی: جاپان کے قائم مقام قونصل جنرل نے پاکستانیوں سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ’اردو دانی‘ کا ہنر خوب صورتی سے آزمایا، جنھیں ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں جاپانی قائم مقام قونصل جنرل ناکاگاوا یاسوشی نے اردو زبان میں قرارداد پاکستان کی مبارک باد دی ہے، اس سلسلے میں انھوں نے خاصا طویل ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔

    ناکاگاوا یاسوشی نے کہا ’’پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو سلام پیش کرتا ہوں، 23 مارچ کا دن پاکستان کے لیے تاریخی لحاظ سے بہت اہم اور فخر کا دن ہیں۔‘‘

    قائم مقام قونصل جنرل نے کہا ’’میں اپنی طرف سے قونصل جنرل جاپان ہاتوری ماسارو اور پورے جاپانی قونصل خانے کے عملے کی جانب سے پاکستانیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘


    یوم پاکستان پر گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ کی مزار قائد پر حاضری


    ناکاگاوا یاسوشی نے مزید کہا ’’قونصل جنرل جاپان ہاتوری ماسارو نے خصوصی پیغام جاپان سے پاکستانیوں کے لیے بھجوایا ہے، یہ دن پاکستان اور اس کے عوام کے لیے امن، استحکام اور خوشیوں کی ماند ہے۔‘‘

    واضح رہے کہ آج ملک بھر میں یوم پاکستان ملی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، دن کے آغاز پر وفاقی دارالحکومت میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔

  • ’’قراردادِ پاکستان‘‘ اور ہندو پریس کا طنز

    ’’قراردادِ پاکستان‘‘ اور ہندو پریس کا طنز

    لاہور کے تاریخی اجتماع میں‌ پیش کی گئی قرارداد کو ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کہہ کر ہندو پریس نے بہت شور مچایا تھا اور اپنی رپورٹوں میں مسلم اکابرین اور راہ نماؤں پر تنقید کرتے ہوئے اس اجتماع سے متعلق طنزیہ انداز اپنایا تھا۔

    اس سے قبل قائد اعظم نے وائسرائے ہند سے کہہ دیا تھا کہ’’ اگر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی اطمینان بخش صورت نہیں نکالی جاسکتی، تو مسلمانوں کو ملک کی تقسیم کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔‘‘ اور یہ وہی محمد علی جناح تھے جو کبھی کانگریس کے ہم نوا تھے، لیکن بعد میں‌ ان پر واضح ہوگیا کہ ہندو قیادت کبھی مسلمانوں کو ان کا حق نہیں‌ دے گی۔ پنجاب میں جہاں قراردادِ لاہور پیش کی گئی، اس وقت یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی جو پنجاب کے اتحاد کی حامی اور برصغیر کی تقسیم کی مخالف تھی۔ ان دنوں خاکسار تحریک بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ نہیں تھی اور خدشہ تھا کہ منٹو پارک میں اس جلسے کے دوران ان کی جانب سے بد نظمی پھیلانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے اسی مقام پر جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اس تاریخی جلسے اور اس موقع پر پیش کی گئی قرارداد کو مسلمان قیادت نے قرارداد لاہور کہا تھا، لیکن یہ ہندو پریس تھا جس نے اسے قراردادِ پاکستان کا نام دیا۔

    قراردادِ لاہور مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی جس نے آزادی کی جدوجہد کو ایک نئی اور واضح شکل دے دی۔ اسی لیے 23 مارچ 1940 کے اس جلسے کو پاکستان کی تاریخ میں‌ مرکزی اہمیت دی جاتی ہے۔

    قرارِ داد لاہور کے بعد جس تیزی سے مسلم اکثریتی علاقوں میں قیادت نے جلسے اور مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے اکٹھا کرنا شروع کیا، وہ ایک مثال ہے اور اس کے سات برس بعد ہی پاکستان کا قیام عمل میں‌ آیا۔ پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے زور پکڑنے اور ایک نکتے پر قائم ہوجانے کا گواہ لاہور کا منٹو پارک ہے جہاں مینارِ پاکستان کی صورت میں اس تاریخی اجتماع کی ایک یادگار بھی موجود ہے۔

    مینار پاکستان لاہور کے منٹو پارک جسے بعد میں‌ اقبال پارک کا نام دیا گیا، عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا جہاں مرکزی قیادت جلسہ کے لیے جمع ہوئی تھی۔ 23 مارچ 1940ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے قبل کئی مسلمان اکابرین اس خدشے کا اظہار کرچکے تھے کہ ہندوستان میں انگریز اور ہندو گٹھ جوڑ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے اور آزادی کے بعد بھی مسلمانوں کو ہندوؤں‌ کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا، تو یہ قابل قبول نہ ہوگا۔

    اس ضمن میں ایک مثال 23 اگست 1890ء کی ہے جب مشہور ادیب، ناول نگار، مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے ’’تہذیب‘‘ کے اداریے میں لکھا، ’’ہندو، مسلم نظریات کے اختلافات میں اس قدر شدت آگئی ہے کہ اب مسلمان اپنی مذہبی رسومات تک آزادانہ طور پر ادا نہیں کرسکتے۔ اس عالم میں بہتر یہی ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم صوبوں میں تقسیم کردیا جائے۔‘‘ اس سے قبل سرسیّد احمد خان بھی کہہ چکے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی فکر کرنی چاہیے اور تعلیمی میدان میں ترقی کرکے ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے ورنہ کچلے جائیں‌ گے۔

    مسلم لیگ کے قیام کے بعد جب محمد علی جناح نے اس کی قیادت سنبھالی اور ہندوؤں کی سازشیں‌ اور بدلے ہوئے تیور دیکھے تو ایک الگ وطن کے قیام کی کوششیں تیز کردیں اور وہ وقت آیا جب قائد اعظم نے پہلی بار وائسرائے سے کہا کہ’’ اگر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی اطمینان بخش صورت نہیں نکالی جاسکتی، تو مسلمانوں کو ملک کی تقسیم کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔‘‘ یہ وہی محمد علی جناح تھے جو کبھی کانگریس کے ہم نوا تھے، لیکن درحقیقت وہ اور ان جیسے دوسرے مسلم زعماء، جذبۂ حبّ الوطنی سے سرشار تھے، اور ہندوستان سے محبت کرتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ ملک کو بہرحال انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہونا چاہیے۔ لیکن بعد میں‌ ان پر واضح ہوگیاکہ ہندو قیادت کبھی مسلمانوں کو ان کا حق نہیں‌ دے گی، کیوں کہ ان کے دل اور دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ کئی سو سال تک مسلمانوں کی حکم رانی کو وہ قبول ہی نہیں‌ کرسکے تھے اور وہ مسلمانوں کو اپنا محکوم بنا کر رکھنا چاہتے تھے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ ہندوستان کا ہر فرد انگریزوں کے تسلّط سے مکمل آزادی چاہتا ہے، تو قائداعظم نے سنجیدگی سے مسلمانوں کے مستقبل کا مسئلہ اٹھایا۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کی آزادی قریب آرہی ہے، لہٰذا اب یہ بھی طے ہوجانا چاہیے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ اسی خیال کے پیشِ نظر 1928ء میں ان کے مشہور زمانہ چودہ نکات سامنے آئے، جو مسلمانوں کو ان ہندوستان میں ان کے مستقبل پر مطمئن کرسکتے تھے، لیکن اسی موقع پر ہندو ذہنیت اور ہندو قیادت کی اصلیت بھی سامنے آگئی۔ موتی لعل نہرو نے قائد اعظم کے ان نکات کو یک سر مسترد کر دیا۔

    حالات بگڑتے رہے اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں اور ان کی بدنیّتی کھلنے لگی تو اکابرین نے قائداعظم سے درخواست کی کہ وہ وطن واپس آکر مسلمانوں کی قیادت کریں اور مسلمانوں کی سیاسی جماعت، مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اسلامی تشخص اور آزادی کی جدوجہد شروع کریں۔ قائداعظم نے مسلم لیگ کی صدارت سنبھال کر 1940ء میں 23 مارچ کو لاہور کا وہ اجلاس منعقد کیا، جس میں ببانگِ دہل اعلان کر دیا گیا کہ ’’برصغیر میں ایک نہیں، دو قومیں بستی ہیں، یعنی ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں، لہٰذا مسلمان اپنے لیے علیحدہ وطن حاصل کر کے رہیں گے۔‘‘

    قائد اعظم محمد علی جناح نے اجلاس کے بارے میں پہلے ہی فرما دیا تھا کہ’’ مسلم لیگ کا لاہور کا یہ اجلاس اسلامی ہند کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہو گا۔ ہمیں اس اجلاس میں متعدد نہایت اہم معاملات طے کرنے ہیں۔‘‘ مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ بنگال مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے جو تاریخی قرارداد پیش کی، اسے قراردادِ لاہور کہا گیا، مگر ہندو پریس نے اس پر کڑی تنقید کی تھی اور اس کے لیے ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔

  • یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جسے ہم قرارداد لاہور بھی کہتے ہیں۔ اس دن کو ہم یومِ پاکستان کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔ قرار داد پاکستان کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے حصول کی تحریک شروع کی تھی۔

    یومِ پاکستان کی مناسبت سے یہ کہانی خاص طور پر والدین اور اساتذہ بچوں کو سنا سکتے ہیں جس سے انھیں اس دن کی اہمیت اور تاریخی جدوجہد سے آگاہی حاصل ہوگی۔ اس کہانی کی مصنف شائستہ زرؔیں ہیں۔

    بچّہ: مسلم لیگ کے سرگرم کارکن عبدالستار مظہری

    آغا جان: کیا ارادے ہیں بچّو؟ میرے کمرے میں کیوں ڈیرا ڈالے بیٹھے ہو؟

    نصر: بہت ہی معصوم ارادے ہیں آغا جان! بس ایک جلسے کا آنکھوں دیکھا حال سننا ہے آپ سے۔

    آغا جان: کیوں نہیں، مگر کون سے جلسے کا؟ ہم نے تو بہت سارے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کی ہے۔

    عمر: جس جلسے میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ ابو بتا رہے تھے آپ نے اُس میں شرکت کی تھی۔ ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

    آغا جان: برسوں بیت گئے لیکن آج بھی یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں بچّہ مسلم لیگ میں شامل تھا اور برصغیر کے دیگرمسلمانوں کی طرح نہ صرف آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بساط بھر آزادی کی جدوجہد میں حصّہ بھی لے رہا تھا۔ اُس دن تو ہمارے جوش و خروش اور خوشی کا عالم ہی اور تھا جب وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو(Lord linlithgow) نے اپنی ایک تقریرمیں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرلیا۔ مسلم لیگ کی اتنی بڑی کامیابی پر ہم خوشی سے پُھولے نہیں سمارہے تھے۔

    عمر: آغا جان! کون سی تاریخ تھی؟

    آغا جان: 10 اکتوبر 1939ء

    نصر: اور پھر اچانک 23 مارچ 1940ء کو جلسے کی قرارداد پیش کر کے قائد اعظم نے وائسرائے کو حیران کر دیا۔

    آغا جان: ہرگز نہیں، کیونکہ مسلمان ایک بہادر قوم ہے۔ 6 فروری 1940ء کو ایک ملاقات میں قائداعظم نے وائسرائے ہند کو بتا دیا تھا کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہم علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے بعد قائد اعظم نے میرٹھ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں مسلم لیگی راہ نماؤں نے سوچ بچار اور باہمی گفتگو کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جس میں تقسیم ہند کے بارے میں تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا، یوں اس سلسلے میں کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

    ردا: کمیٹی کے ارکین میں کون کون شامل تھا؟

    آغا جان: نواب زادہ لیاقت علی خان، سر سکندر حیات، خواجہ ناظم الدّین، سرعبداللہ ہارون، نواب محمد اسمٰعیل خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان، سید عبد العزیز وغیرہ شامل تھے۔ بہت غور و فکر کے بعد کمیٹی نے ایک رپورٹ ترتیب دی جسے 23 مارچ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس تھا جو 22 سے 24 مارچ تک جاری رہا۔ پہلا اجلاس 22 مارچ کو لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں کے نمائندے ان میں شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم نے کی تھی۔ اور اجلاس کی کاروائی کا آغاز سر شاہنواز نے کیا تھا۔ اور آپ نے وضاحت کر دی تھی کہ ”ہندو اور مسلمان میں اس کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں کہ وہ ایک ملک میں آباد ہیں، تمام قوم کو محمد علی جناح کی قیادت پر اعتماد ہے۔ اس موقع پرقائد اعظم نے برملا کہا۔”ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی چیز ایک جیسی نہیں ہے اور وہ دو مختلف واضح تہذیبوں کے وارث ہیں۔ چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔“

    مسلم لیگ کا دوسرا عام اجلاس 23 مارچ کو ہُوا جس میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی اور اس اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی۔ قائد اعظم کی خواہش پر بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”آئین پر ایک مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 1935ء کے ایکٹ میں وفاق کی جو اسکیم دی گئی ہے وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسکیم مسلمانوں کو مرکز میں نہ صرف ایک دائمی اقلیت میں تبدیل کر دے گی بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں صوبائی خود مختاری منسوخ کر دے گی۔ مسلمان ہر ایسے آئین کو ناقابل عمل بنا دیں گے جو اُن کی مرضی و منشاء کے مطابق نہ ہو۔“

    رکن مرکزی قانون ساز اسمبلی مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کی حمایت کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ یہ بات قابلِ اطمینان ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دن سے شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلمانوں نے مکمل آزادی کا اعلان کردیا ہے۔

    نصر: آج کل تو کوئی جلسہ فائرنگ اور فساد کے بغیر ہوتا ہی نہیں وہ تو بہت پُر امن جلسہ ہو گا۔

    آغا جان: اُن دنوں مسلمانوں کی اکثریت قائد اعظم کے ساتھ تھی۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے خاکساروں کی فائرنگ سے بے چینی پھیل گئی تھی جس پر قائد اعظم نے نہایت سمجھداری اور ذہانت سے قابو پالیا۔

    حرا: آخری اجلاس میں کتنے افراد شریک تھے؟

    آغا جان: 35 ہزار افراد شریک تھے۔ اجلاس کے آغاز پر آگرہ کے سید ذاکر علی نے وہ مرکزی قرارداد پیش کی جس پر گزشتہ اجلاس میں گفتگو کی گئی تھی۔ یہ قرارداد نہایت جوش و خروش کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی۔
    عمر: آغا جان! جب قائد اعظم نے اتنے بڑے مجمع کو منتشر ہونے سے بچایا تو اُن کے ساتھی تو بہت خوش ہوں گے؟

    آغا جان: کیوں نہیں بیٹا! مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے نواب بہادر یارجنگ نے قائد اعظم کو مبارکباد دی تھی کہ اُنہوں نے خاکسار مسئلے کو نہایت عقلمندی اور سوجھ بوجھ سے حل کیا۔ قائداعظم کو بھی اس شان دار کام یابی کی بے حد خوشی تھی آپ نے اجلاس کے آخر میں کہا، ”مسلمانوں نے دنیا کے سامنے اپنے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، دشمن کی چالیں ناکام ہو گئیں، مسلمانوں نے بالآخر اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے اور موجودہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔“

    ردا: آغا جان! اتنے بڑے اجلاس کے انتظام میں مسئلہ نہیں ہوا؟

    آغا جان: تقسیم سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کا اتحاد مثالی تھا، مسلم لیگی راہ نماؤں نے باہمی اتفاق سے منٹو پارک کے میدان کا انتخاب اجلاس کے لیے کیا۔ اُس زمانے میں یہ میدان کُشتیوں کے لیے مخصوص تھا حکومت نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا کہ چند روز قبل سکھوں کے اجتماع نے اس کا حلیہ خراب کردیا اب مزید خراب ہو جائے گا۔ مسلم لیگی راہ نماؤں کے دباؤ ڈالنے پر جلسے کی مشروط اجازت دی کہ جلسے کے منتظمین پانچ ہزار روپے بطور ضمانت داخل کریں تاکہ نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کی جا سکے۔ اور یہ منتظم کے لیے ممکن نہ تھا، اس کا حل یہ نکالا کہ ہم خیال مسلم لیگی افسروں سے رابطہ کیا یوں اس سلسلے میں چھوٹ مل گئی۔

    حرا: آغا جان! اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان معاشی اعتبار سے بہت خوش حال نہیں تھے اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوا؟

    آغا جان: بڑوں کے ساتھ بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بچہ مسلم لیگیوں کے لیے تو یہ عید کا سماں تھا ریڑھیوں پر فروخت ہونے والی سستی اشیاء پر قیمتوں کی چٹیں لگادی گئی تھیں، اس سے پہلے نواب کالا باغ نے ایک ہزار کی رقم مسلم لیگ کو دی۔ اور ساتھ ہی یہ پیغام بھیجا کہ اگر کوئی صاحب اس سے زیادہ رقم دیں گے تو وہ اتنی ہی رقم اور دیں گے۔ نواب سر شاہنواز خان نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کرفوری اخراجات کے لیے 6000 روپے دیے، مجلس استقبالیہ نے رکنیت فیس 50 روپے مقرر کی، اس سے خاصی رقم جمع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق جلسے کے لیے 20 ہزار روپے کی رقم جمع ہو گئی تھی۔

    عمر: (حیرت سے) 20 ہزار میں جلسے کے انتظامات ہوگئے تھے؟

    آغا جان: جلسے کا انتظامات پر تقریباً پونے گیارہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

    حرا: باقی رقم کا کیا ہوا آغا جان؟

    آغا جان: باقی ماندہ رقم آل انڈیا مسلم لیگ کے خزانے میں جمع کردی گئی تھی۔ تم میں سے کس کو معلوم ہے کہ قرارداد پاکستان میں کیے جانے والے مطالبے کے اصل الفاظ کیا تھے؟

    ردا: آغا جان! میں بتاؤں گی۔ وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں مسلم ریاستیں قائم کر دی جائیں۔“

    آغا جان: لیکن بیٹا یہ جواب صد فی صد درست نہیں ہے۔ چونکہ میں خود اس جلسے میں موجود تھا اس لیے مجھے علم ہے کہ لفظ ”ریاست“استعمال ہوا تھا۔ ریاستیں تو ٹائپ کی غلطی تھی، قرارداد پاکستان میں صرف ایک پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    نصر: (جوش و مسرت سے) قائداعظم نے درست کہا تھا، واقعی قرارداد پاکستان تو پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔

    حرا: آغا جان ماضی کی یادیں تازہ کرنا آپ کو کیسا لگا؟

    آغا جان: بہت اچھا لگا بیٹی۔ ہم نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آزاد وطن حاصل کیا ہے۔ میرے بچو! تم ہمارے وارث بھی اور امین بھی ہو۔ تم سے بس اتنی سی درخواست ہے کہ ہمارے خوابوں کو پائمال نہ کرنا، اس پاک سر زمین کی حفاظت فرض سمجھ کر کرنا، پاکستان ہمارے اسلاف کے خواابوں کی تعبیر اور جذبوں کا امین ہے۔ ہمیں پاکستان کی موجودہ نسل سے بہت سی اچھی توقعات ہیں۔

    نصر: آغا جان ہم پاکستان کے وارث اور امین ہی نہیں محافظ بھی ہیں۔

    آغا جان: شاباش میرے بچو! ہم نے جو دیا جلایا ہے اس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑنے دینا۔ پاکستان میں اُجالا بکھیر دینا۔ تم سے اور تمہاری نسل سے مجھے یہی کہنا ہے کہ

    ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
    اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر

    ردا: آغا جان ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار رہیں گے، اس کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔

    آغا جان: ان شاء اللہ میرے بچو! تم پاکستان کے پاسبان ضرور بنو گے۔

    (بحوالہ: قرارداد پاکستان، تاریخ و تجزیہ : خواجہ رضی حیدر)

  • قراردادِ پاکستان اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی صدارتی تقریر

    قراردادِ پاکستان اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی صدارتی تقریر

    لاہور میں 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قرارداد نے مسلمانانِ ہند کو جو حوصلہ دیا اور ان میں جو جوش و ولولہ پیدا کیا، اس نے منزل کی سمت کا تعین کر دیا تھا جس کے بعد 1946ء میں منعقدہ انتخابات نے منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اسی سال 9 اپریل کو دہلی کنونشن منعقد ہوا جسے لاہور کے اجلاس کا تسلسل بھی کہا جاتا ہے، اس نے قیامِ پاکستان کی راہ ہموار کر دی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہم ہر سال 23 تاریخ کو یومِ پاکستان کے طور پر مناتے ہیں۔ اسی موقع پر وہ قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری کے صرف سات سال بعد ہی ہندوستان کے طول و عرض میں بسے مسلمان پاک سرزمین کی آزاد فضا میں سانس لے رہے تھے۔

    برصغیر کی تقسیم ایک غیرمعمولی واقعہ اور تحریکِ پاکستان ایک عظیم الشّان تحریک تھی جس کے پس منظر میں جائیں تو آغاز محمد بن قاسم سے کیا جاسکتا ہے۔ سندھ کے راستے برصغیر میں مسلمانوں‌ کی آمد اور مختلف خاندانوں کے بعد مغلیہ سلطنت کا قیام اور بعد میں‌ انگریزوں کا قبضہ ایک طویل باب ہے جس میں ہندو لیڈروں کی یہ کوشش رہی کہ کسی طرح وہ مسلمانوں کو اپنا محکوم بنا سکیں اور ہندوستان پر راج کریں۔

    ہندوستان کی تاریخ کا ادنیٰ طالبِ‌ علم بھی جانتا ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی ناکام ہوئی اور انگریزوں کا ملک پر مکمل قبضہ ہو گیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہو گئی اور بادشاہ کو گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔

    اس کے بعد مسلمان راہ نماؤں نے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی اور جدید تعلیم کی طرف توجہ دینے کی تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہندوؤں کی سازشوں سے آگاہ کرتے رہے۔ انہی اکابرین نے انڈین نیشنل کانگریس کے ارادوں سے بھی ہمیں باخبر رکھا اور وہ وقت آیا جب 1906ء میں نواب وقارُ الملک کی صدارت میں ڈھاکہ میں مسلمانوں کا اجتماع ہوا اور نواب آف ڈھاکہ نواب سلیم اﷲ خان کی تحریک پر مسلمانوں کی سیاسی جماعت مسلم لیگ قائم ہوئی۔ بعد میں جب قائداعظم محمد علی جناح نے اس کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لی تو علیحدہ وطن کے حصول کی کوششیں تیز تر ہوگئیں۔

    علامہ اقبال نے 1930 ء میں الٰہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کے آزاد وطن کا تصور پیش کیا۔ ہندوؤں اور کانگریس کا رویہ شروع ہی سے نامناسب تھا اور وہ مسلمانوں کو قوم کی حیثیت سے تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی طرح‌ انگریز بھی مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں کررہے تھے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔

    آخر کار مارچ 1940ء میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس کی صدارت قائداعظم نے کی تو شیر بنگال مولوی فضل الحق کی پیش کردہ قرارداد منظور کرلی گئی جس میں برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہی قرارداد اس جدوجہد اور تقسیم کے بعد قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد نے اسلامیانِ ہند کو تصورات سے نکال کر ان کی منزل کی صورت گری کر دی تھی۔ قائدِ اعظم نے اجلاس میں کہا:

    ’’ہندو اور مسلمان الگ الگ فلسفۂ مذہب رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے اور دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان میں باہمی شادیاں نہیں ہوتیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے۔ وہ دو الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر قائم ہیں۔ ان کا تصور حیات اور طرزِ حیات الگ الگ ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف تاریخوں سے وجدان اور ولولہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کا رزمیہ ادب الگ ہے۔ ان کے مشاہیر الگ الگ ہیں اور ان کا تاریخی سرمایہ جدا جدا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کے ہیرو دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں اور اسی طرح ان کی فتح اور شکست ایک دوسرے کے لیے مختلف حیثیت رکھتی ہے۔

    دو ایسی قوموں کو ایک نظامِ سلطنت میں جمع کر دینا جہاں ایک قوم عددی لحاظ سے اقلیت ہو اور دوسری اکثریت ہو، نہ صرف باہمی مناقشت کو بڑھائے گا بلکہ بالآخر اس نظام کی بربادی کا باعث ہو گا جو ایسے ملک کی حکومت کے لیے وضع کیا جائے گا۔ مسلمان ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں اور انہیں ان کا الگ وطن، ان کا اپنا علاقہ، اور اپنی حکومت ملنی چاہیے۔‘‘

    14 اگست 1947ء کو مسلمانانِ ہندوستان کی آزادی کا وہ سورج طلوع ہوا جس نے انھیں پیارا وطن پاکستان دیا۔ ہم اسی لیے قراردادِ پاکستان کا جشن ہر سال مناتے ہیں اور رہتی دنیا تک ہر سال اس موقع پر اپنے راہ نماؤں کی سیاسی بصیرت پر انھیں‌ خراجِ تحسین پیش کرتے رہیں‌ گے۔

    آج ہم کسی کے غلام نہیں بلکہ آزاد قوم ہیں اور پاکستان میں ہر فرد اپنی مرضی اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کررہا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم کے اصولوں پر عمل کر کے ہم نے اپنی منزل حاصل کی تھی اور آج ہمارا فرض ہے کہ اپنے ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے کام کریں اور آپس میں پیار محبت کی فضا کو پروان چڑھائیں، ملک میں امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

  • تحریکِ آزادی: مولوی فضل الحق کا تذکرہ جنھیں شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے

    تحریکِ آزادی: مولوی فضل الحق کا تذکرہ جنھیں شیرِ بنگال بھی کہا جاتا ہے

    23 مارچ 1940ء کو قرار دادِ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ بنگال کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے عظیم راہ نما تھے جنھوں نے آزادی کی تحریک میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔

    وطنِ عزیز میں جشنَ‌ آزادی کی تیّاریاں عروج پر ہیں اور زندہ قوموں کی طرح اس موقع پر ہم اپنے ان عظیم راہ نماؤں کو یاد کررہے ہیں جنھوں نے آزادی کے راستے میں جان و مال اور ہر قسم کی قربانی دی۔ ابو القاسم فضل الحق جو تاریخ میں اے۔ کے۔ فضل الحق کے نام سے بھی معروف ہیں، 26 اکتوبر 1873ء کو متحدہ بنگال میں پیدا ہوئے۔

    پریزیڈنسی کالج کلکتہ سے گریجویشن کیا اور اس کے بعد کلکتہ یونی ورسٹی سے ریاضی میں ایم اے کی ڈگری لی۔ انھوں نے پہلے 1917ء میں بحیثیت جوائنٹ سیکریٹری کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ بعدازاں نظریاتی اختلافات کے باعث کانگریس سے استعفا دے دیا اور مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جو مسلمانوں کی واحد سیاسی نمائندہ جماعت بن کر ابھری تھی۔

    مولوی فضل الحق 1935ء میں کلکتہ کے مئیر رہے، 1937ء سے 1943ء تک مغربی بنگال کے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔ انھیں سیاسی حکومتی امور کا خاصا تجربہ تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1954ء میں مشرقی بنگال کے وزیر اعلٰی بنے۔

    انھوں نے بنگال کے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ’’کراشک پرجا پارٹی‘‘ قائم کی، جو بعدازاں ایک سیاسی جماعت بن گئی۔

    قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد جب اس کی تنظیم نو کی تو مولوی فضل الحق اس سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے تاریخی قرارداد پیش کرنے کے موقع پر اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے انھیں شیرِ بنگال کا خطاب دیا گیا۔

    مولوی فضل الحق 27 اپریل 1962ء کو ڈھاکا میں وفات پاگئے تھے۔

  • تحریکِ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کا کردار

    تحریکِ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کا کردار

    تحریکِ پاکستان کے حوالے سے اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں۔

    یہ موضوع تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی ناممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خونِ جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈال کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیامِ پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

    اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علّامہ اقبال ہی دراصل مفکرَ پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علّامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنما اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے۔

    مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسیّد احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں، لیکن ان سب زعما میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علّامہ کی فکرِ حریّت نے ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا:

    دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
    جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

    علّامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑ پانے اور گرمانے کا جتن کیا۔

    جب ہم تحریکِ پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلہ وار نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائدِاعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔‘‘

    یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کو ٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریکِ پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آجائے۔

    خوش قسمتی سے مولانا حسرت موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے، اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سب سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔

    تحریکِ پاکستان میں ایسی پیاری و ہر دل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگرچہ 1904ء میں کانگریس میں شامل ہوئے، لیکن جلد ہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انھیں کانگریس چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلّٰی‘‘ شائع کیا۔ انھیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اُس وقت ہوا جب ایک مصری اخبار میں عربی میں شائع شدہ مضمون کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔

    یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنّف کا نام دریافت کیا تو انھوں نے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں انھیں دو سال قیدِ بامشقت اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ ٕ

    یوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی غزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزّلین‘‘ کا لقب دیا جاچکا تھا، لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھایا جو بڑی بڑی تقریریں کر نہ پائیں۔

    سرسیّد احمد خاں نے اسی عہد میں ایک اخبار’’ تہذیبُ الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوں میں بیداری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، اگر نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نامکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دستِ راست بن گئے اور اکثر مقامات پر انھوں نے قائدِاعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شور میں پیش کیا۔ ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظامِ دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انھوں نے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔ وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری، ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسی نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔

    میں اپنی تجزیہ کو محدود وقت کے پیشِ نظر یہیں ختم کرتا ہوں، ورنہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہونے والوں میں مولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل فہرست بھی ہنوز تشنہِ تحریر ہے۔

    (غالب عرفان کے طویل مضمون سے اقتباسات)

  • جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    جدوجہدِ آزادی: ہندوستان میں جداگانہ مسلم تشخّص اور تحریکِ پاکستان

    مسلمانوں کے ساتھ ساتھ صدیوں تک ہندوستان میں‌ ہر مذہب کے ماننے والے اسلامی احکامات، علما اور بزرگانِ دین کی تعلیمات اور صوفیائے کرام کے پیار و محبّت کے درس کی بدولت امن و سکون سے زندگی بسر کرتے رہے، لیکن انگریزوں کی آمد کے بعد جب اس اتحاد و اتفاق اور یگانگت نے دم توڑا تو ہندوستان بھی تقسیم ہوگیا۔

    برصغیر اور مسلم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سب سے نمایاں اور اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ یہاں مسلم قومیت کا تصوّر پہلے سے موجود تھا۔ جب ہندوؤں نے انگریزوں سے گٹھ جوڑ کرکے مسلمانوں کو سیاست و سماج، تعلیم و معیشت غرض ہر شعبے میں پیچھے رکھنے کی کوششیں شروع کیں اور مسلمانوں میں‌ احساس محرومی پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی تفریق اور نفرت پھیلا کر ہندوستان پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے لگے جس نے جداگانہ تشخّص کو برقرار رکھنے کے تصّور کو تقویت دی اور تحریکِ پاکستان کا سفر شروع ہوا۔

    تحریکِ پاکستان کے یوں کئی عوامل ہیں، لیکن یہاں ہم اس حوالے سے چند بنیادی اور نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    جداگانہ تشخص اور تحریکِ پاکستان
    تحریکِ پاکستان کا ایک وسیع پس منظر ہے جسے جاننے کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں جداگانہ تشخص اور علیحدہ وطن کی خواہش نے متعصب اور انتہا پسند ہندوؤں کی وجہ سے جنم لیا اور حالات کو بگاڑتے ہوئے مسلمان قیادت کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں انھوں نے اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے ہر محاذ پر انگریزوں اور متعصب ہندوؤں کا مقابلہ کیا۔ 1920ء کے بعد جو حالات پیدا کردیے گئے تھے، ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے سبب اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔

    حالات میں بگاڑ اور ہندوؤں کا انگریزوں سے گٹھ جوڑ
    جنگِ بلقان کے دوران 1913ء میں کانپور میں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا جس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ، اور مسلمانوں کو یہ احساس ہوگیا کہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی اور سماجی اعتبار سے پامال کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، چناں چہ سانحہ کانپور سے اسلامیانِ ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔

    اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف
    غم و غصہ پیدا ہوا اور ہر طرف ہلچل مچ گئی۔ مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہ نماؤں اور اکابرین نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘، دہلی سے ’’کامریڈ‘‘ اور کلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری اور مسلمانوں کا مؤقف سامنے رکھتے ہوئے انگریز سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ، محلی، مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے ایسے واقعات کو انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی قرار دے کر کڑی نکتہ چینی کی۔

    اسی واقعے کے بعد جب مسلمانوں پر فائرنگ اور مسلم راہ نماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو ان راہ نماؤں نے شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملّی بیداری اور عملی سیاست میں حصّہ لینے کی سوچ کو تقویت پہنچی۔

    ہندو مسلم فسادات
    1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریز سرکار کی مسلم دشمن پالیسیوں اور ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کر کے نقصان پہنچانے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ نہ صرف برطانوی دور کی بدترین یاد ہے بلکہ مسلسل فسادات نے ایک خونیں تاریخ رقم کی۔ اس عشرے میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوگئیں۔ مسلمانوں پر عیاں ہوگیا کہ انگریز اور ہندو ان کے بدترین دشمن ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جسے پاٹنا ممکن نہ تھا۔

    محمد علی جناح اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں
    محمد علی جناح جو اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے ایک سفیر اور اہم راہ نما تھے، وہ بھی حالات سے دل گرفتہ نظر آئے۔ اسی عشرہ میں اتحاد و اتفاق بڑھانے اور انگریزوں سے ہندوستان کو آزاد کرانے کے حوالے سے کانفرنسیں بھی ہوئیں اور ہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویز سامنے آئیں جن میں قائد اعظم کے ایما پر دہلی تجاویز اہم ترین تھیں۔ یہ تجاویز 1937 میں مسلم زعما کے ایک اجلاس میں مرتب کی گئی تھیں، مگر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غور کیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندوؤں کے زیرِ اثر ان میں سے چند مطالبات کو رد کر دیا گیا۔

    کانگریس کی چالیں اور مسلمانوں کو کم زور کرنے کی سازشیں
    اس کے بعد جب نہرو رپورٹ سامنے آئی جو کانگریس نے ہندوستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی، ان میں بھی مسلم حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء میں جب نہرو رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناح کے تین بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا گیا۔

    ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا
    محمد علی جناح اور ان ساتھیوں کے لیے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی۔ محمد علی جناح نے اپنے پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہا کہ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو گئے ہیں کہ اب کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے۔‘‘

    اس رپورٹ کے بعد اس وقت مختلف معاملات پر گروہ بندی اور اختلافات کی وجہ سے دور ہو جانے والے مسلمان راہ نماؤں کو بھی جب کانگریس کی مسلم دشمنی کا یقین ہوگیا تو وہ سب متحد ہوگئے۔

    مسلمان قیادت کا اتحاد اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس
    جنوری 1929ء میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سر سلطان محمد آغا خان نے کی۔ اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اور سر شفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اور تحریک خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور حسرت موہانی جیسے جید علما اور سیاست دانوں نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔

    قائدِ اعظم کے 14 نکات
    ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے اور اسے برصغیر کی تاریخ میں اسلامیانِ ہند کے منشور کی حیثیت حاصل ہوئی۔ بعد کے برسوں میں مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی قیادت میں مختلف مسلم جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں جاری رہیں اور لندن میں تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں جس کے بعد ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا۔

    انتخابات اور کانگریس کی غیر متوقع کام یابی
    1906ء سے 1938ء تک ہندو مسلم مفاہمت کی کوششیں اور اس ضمن میں تجاویز مسلمانوں کی ہی جانب سے پیش کی جاتی رہی تھیں لیکن کانگریس اور ہندوؤں کی جانب سے منفی رویہ اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا جس نے 1937ء کے انتخابات کے بعد شدت اختیار کرلی۔ انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت ہو جائے گی اور دونوں جماعتیں مل کر مخلوط وزارتیں قائم کریں گی، لیکن انتخابات میں کانگریس کی غیر متوقع کام یابی کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست کانگریس نے کچھ اور ہی منصوبہ بنا لیا۔

    کانگریس کے متعصب اور مفاد پرست ہندو راہ نماؤں نے دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کرکے ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جانے کا سوچا اور مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کش کو ٹھکرا دیا، یہی نہیں جن ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔

    کانگریس کی پالیسیاں اور مسلم کش اقدامات
    سیاسی طاقت کے حصول کے بعد کانگریس کی جانب سے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کیے جن میں بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا، تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا، اردو کی جگہ ہندی زبان، گائے کو ذبح کرنے پر پابندی، ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اور مقررہ حقوق سے محروم کرنا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت
    مسلم قیادت اور اکابرین نے یہ سب دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے قائدِ اعظم کے ساتھ 1934ء میں‌ کوششوں کا آغاز کیا اور جب مسلم لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں 1937ء میں ہوا تو اس نے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو ایک ایسے جوش وجذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس اجلاس کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ کی نئی شاخیں قائم ہونے لگیں اور رکنیت سازی زوروں پر تھی۔

    محمد علی جناح کی حکمت عملی، صبر و تحمل اور سیاسی بصیرت کے باوصف تحریک کام یاب ہوتی چلی گئی اور ہندوستان بھر میں ترقی کی اور بڑے صوبوں میں اسلامیانِ ہند کے کام یاب ترین اجلاس منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ کی روز افزوں قوّت اور مقبولیت بڑھنے کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتا ہے جس نے سیاسی طور پر مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔ مسلم لیگ کی مقبولیت کا ایک ثبوت 1939ء میں یومَِ نجات منانے کی جناح صاحب کی اپیل تھی جس پر برصغیر کے مسلمانوں نے والہانہ انداز اور جوش و جذبے سے لبیک کہا۔

    مسلم قومیت کا فروغ اور علیحدہ ریاست کا قیام
    وہ وقت بھی آیا جب قائداعظم نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس طرح توضیح اور تشریح کی کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک علیحدہ مملکت کے قیام پر سب رضامند ہوگئے۔ چنانچہ قائداعظم کی زیرِ قیادت مسلم لیگ نے لاہور میں 1940ء میں منعقدہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دے دیا جو بعد میں پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔

    یہ پہلا موقع تھا جب اسلامیانِ ہند نے اتنے واضح اور مدلل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اور دعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ وطن کی تشکیل پر بھی زور دیا اور 14 اگست 1947ء میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر مسلمانوں نے پاکستان حاصل کیا۔

  • یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    آج تحریکِ آزادی کے ایک جرأت مند اور بے باک راہ نما اور شیرِ بنگال کے لقب سے یاد کیے جانے والے مولوی فضل الحق کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 27 اپریل 1962ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انہیں 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخی اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

    مولوی ابوالقاسم فضل الحق 26 اکتوبر 1873ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1895ء میں وکالت کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ 1912ء میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1935ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ 1937ء میں انہوں نے بنگال کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا اور 1943ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    اس دوران لاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تو مولوی فضل الحق کو وہ تاریخی اہمیت کی حامل قرارداد پیش کرنے کا موقع ملا جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا گیا اور متحدہ ہندوستان میں آزادی کی تحریک میں‌ نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر اور بعد میں مرکز میں وزیرِ داخلہ کے عہدے پر فرائض انجام دیے۔

    1958ء میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد وہ عملی سیاست سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہوگئے۔ 1960ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلالِ پاکستان کا اعزاز عطا کیا۔ مولوی فضل الحق ڈھاکا میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یوم پاکستان ہماری تاریخ کا تابناک اورناقابل فراموش دن ہے‘ نوازشریف

    یوم پاکستان ہماری تاریخ کا تابناک اورناقابل فراموش دن ہے‘ نوازشریف

    لاہور: سابق وزیراعظم نوازشریف نے یوم پاکستان پر اپنے پیغام میں کہا کہ آج قرارداد پاکستان کے مقاصد،ان کے حصول کی جدوجہد کےعزم کا دن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے یوم پاکستان پرقوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یوم پاکستان ہماری تاریخ کا تابناک اورناقابل فراموش دن ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ مادروطن کے دفاع، سلامتی اور حفاظت کے لیے لازوال قربانیاں دی گئیں، ہم اپنے شہدا کوخراج عقیدت پیش کرتے ہیں، قربانیوں کی بدولت ملک سے دہشت گردی مٹ رہی ہے۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان جمہوری جدوجہد، ووٹ کی طاقت سے دنیا کے نقشے پرنمودار ہوا جبکہ ملکی ترقی جمہوری نظام کے تسلسل اورووٹ کے تقدس میں پنہاں ہیں۔

    نوازشریف نے کہا کہ جمہوریت، آئین وقانون کی حکمرانی ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے، آج قائد کا مقصد اوراقبال کا خواب مکمل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ ملک سےاندھیرے مٹ رہے ہیں، ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہورہا ہے، ملک اقتصادی ترقی پرگامزن ہے، دنیامیں با وقارتشخص سے ابھررہا ہے۔


    پاکستان کوعظیم سےعظیم تربنا کرقائد کا خواب پورا کریں گے‘ شہبازشریف


    خیال رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے یوم پاکستان پر اپنے پیغام میں کہا کہ قوم کو مسائل سے نکالنے کے لیے مخلصانہ کاوشیں کررہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔