Tag: قرۃ العین حیدر

  • قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃ العین حیدر اور حجرِ اسود

    قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ”بنات“ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ”چاکلیٹ کا قلعہ“ بنات میں شایع ہوئی تھی۔ قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ماری پور میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں۔ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی۔

    آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک بی نارتھ ناظم آباد میں ہوئی، کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے اپنے ضخیم ناول ”آگ کا دریا“ اور “سفینۂ غم دل“ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں۔

    مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ”عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں، اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔“ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ”عصمت“ اور ”تہذیبِ نسواں“ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔

    باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھا کر حجرِ اسود کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔

    ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچّے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔ پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں۔ ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔

    (مصنّف حاذق الخیری، ماخذ خود نوشت ’جاگتے لمحے‘)

  • عینی آپا کی رائے اور فوٹو جینک حافظہ

    عینی آپا کی رائے اور فوٹو جینک حافظہ

    قرۃ العین حیدر اردو ادب کا ایک بڑا نام تھا اور ایک ناول نگار کی حیثیت سے ان کی وجہِ‌ شہرت بالخصوص ان کے سوانحی ناول ہیں جن میں ان کا منفرد انداز، تاریخی اور سماجی شعور قارئین کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ انھیں اہلِ علم و دانش ہی نہیں پاک و ہند میں موجود ان کے قارئین بھی عینی آپا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    یہاں ہم ابوالکلام قاسمی کی ایک تحریر سے دو پارے نقل کررہے ہیں جس میں وہ عینی آپا سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وہ باتیں رقم کررہے ہیں جو ان کی یادوں میں محفوظ ہیں۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

    ایک بار دردانہ نے انھیں (عینی آپا) کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا۔ اس زمانے میں ہمارا گھر محض دو چھوٹے چھوٹے کمروں اور ایک ناکافی ورانڈے پر مشتمل تھا۔ پہلے سے تو انھوں نے کھانے میں نمک نہ ڈالنے یا سبزی اور گوشت کے بارے میں اپنی پسند و ناپسندیدگی پر متعدد ہدایات دے دی تھیں مگر جب آئیں تو حد درجہ خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔ دروازے کی چوکھٹ، کمروں کے دروازوں اور ریفریجریٹر وغیرہ پر جو آیتیں اور دعائیں لگائی گئی تھیں ان کو پڑھتیں اور مجھ سے ان کے معنی دریافت کرتی رہیں۔ ویسے ان آیتوں اور دعاؤں کا ہلکا سا مفہوم ان پر پہلی نظر میں واضح بھی لگتا تھا۔ پھر بولیں کہ خدا کا شکر ہے کہ کوئی تحریر بے موقع اور نامعقولیت سے نہیں لگی ہوئی۔ بھئی تم تو خاصے معقول آدمی ہو۔ چوکھٹ پر گھر کی حفاظت، دروازوں پر عام صحت و عافیت اور فریج پر رزق سے متعلق آیتوں کو پڑھ کر انھیں خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ جو آیت جس جگہ تھی اسے وہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ معمولی معمولی باتوں سے انسان کے معمولات اور رویوں کے بارے میں گہرائی سے رائے قائم کیا کرتی تھیں۔

    ابوالکلام قاسمی نے ایک قصّہ یوں رقم کیا:
    ایک بار مجھے عینی آپا کے ساتھ یونیورسٹی کے رجسٹرار آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ شاید امتحان کے کسی کام کے معاوضے کا معاملہ تھا۔ (پیسے وغیرہ کے معاملے میں وہ اپنے واجبات کو کبھی ثانوی حیثیت نہ دیتی تھیں) وہ تھوڑی دیر بیٹھی رہیں اور ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہنے لگیں کہ شاید یہ وہی عمارت ہے جو بچپن ہمارا گھر ہوا کرتا تھا، جس میں میری پیدائش ہوئی تھی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی کوٹھی سچ مچ وہی تھی جس میں کئی سال تک یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار سجاد حیدر یلدرم قیام پذیر رہ چکے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ میرا حافظہ یوں تو بہت اچھا نہیں مگر جیسا بھی ہے، ہے فوٹو جینک ہے۔ یعنی ان کی یادیں تصویری شکلوں میں ان کے حافظے میں محفوظ رہا کرتی تھیں۔ یادوں کی بازگشت کے اس عمل کی انوکھی کارفرمائی ان کی تحریروں میں جگہ جگہ بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔

  • عینی آپا کا پرس

    قرۃُ العین حیدر اردو ادب میں اپنے فکشن اور افسانہ نگاری کے سبب ممتاز اور بالخصوص ایک ادیبہ کی حیثیت سے انھیں ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ کی وجہ سے پاک و ہند میں‌ پذیرائی ملی۔ ان کے تخلیقی جوہر نے تاریخ اور تہذیب کو شاہکار بنا دیا ہے

    یہاں ہم اس نام وَر ادیبہ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "ان کی تعلیم لکھنؤ سے لے کر کیمرج یونیورسٹی اور لندن کے مایہ ناز اسکولوں میں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ سارا پس منظر ان کا مزاج بنانے میں اپنا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور پھر انھیں اپنے معیار پر پورا اترنے والا کوئی فرد ملا ہی نہیں اس لیے انھوں نے زندگی کا سفر تنہا ہی طے کرنے کی ٹھانی۔ اسی لیے مزاج میں خود سری (DOGMATISM) تھی۔

    ’’بعض وقت وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خفا ہو جاتی تھیں۔ انٹرویو دینے سے تو بہت گریز کرتی رہیں۔ فوٹو کھنچوانے کے سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ ڈاکٹر ابرار رحمانی نے بیان کیا ہے کہ ماہنامہ ’’آج کل‘‘(دہلی) کے دفتر میں وہ محوِ گفتگو تھیں کہ سرکاری فوٹو گرافر نے فوٹو کھینچ لیا۔ پھر کیا تھا تھوڑی دیر کے لیے ان کی خوش کلامی کو بریک سا لگ گیا اور سخت ناراضی کے آثار ان کے چہرے پر نظر آنے لگے۔

    کچھ دیر تک وہ بھڑاس نکالتی رہیں، جب بھڑاس نکال چکیں تو اپنے پرس سے آئینہ اور کنگھی نکالی اور رخِ زیبا سنوارنے لگیں۔ تھوڑی سی لپ اسٹک بھی لگائی، تب چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا، اب تصویر کھینچیے۔‘‘

    (رؤف خیر، ماہ نامہ ایوانِ اردو 2008ء)

  • جب قرۃُ العین حیدر عمرہ کرنے گئیں!

    جب قرۃُ العین حیدر عمرہ کرنے گئیں!

    قرۃُ العین حیدر نے بچیوں کے رسالے ’’بنات‘‘ سے لکھنا شروع کیا، ان کی پہلی کہانی ’’چاکلیٹ کا قلعہ‘‘ ’’بنات‘‘ میں شایع ہوئی تھی۔

    قرۃُ العین حیدر اپنی کزن ڈاکٹر نور افشاں کے ساتھ ’ماری پور‘ میں رہتی تھیں، جو ان دنوں پاکستان ایئر فورس میں اسکوارڈن لیڈر تھیں، میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے گھر پر ہوئی، آخری ملاقات ڈاکٹر نور افشاں کے بنگلے واقع بلاک ’بی‘ نارتھ ناظم آباد میں ہوئی۔ کوئی سات، آٹھ سال پہلے جب وہ ہندوستان سے آئی تھیں، تو انہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی، مشفق خواجہ اور مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔

    میں نے بڑے عرصے بعد ان کو دیکھا تھا، وہ ضعیف ہو چکی تھیں، مجھ کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ دائیں ہاتھ سے مفلوج ہوگئی ہیں، جس ہاتھ نے ان کا عمر بھر ساتھ دیا، اس ہی ہاتھ سے انہوں نے ضخیم ناول ’’آگ کا دریا‘‘ اور ‘‘سفینۂ غم دل‘‘ اور بے شمار کہانیاں تحریر کیں، مجھے اس کا علم اس وقت ہوا، جب میں نے انہیں ایک قلم پیش کرتے ہوئے کہا ’’عینی بہن! ہمارے اور آپ کے خاندانی تعلقات 100 سال کے قریب ہوگئے ہیں۔

    اس موقع پر میں ایک قلم آپ کو پیش کرنا چاہتا ہوں، جو ان تعلقات کی نشانی ہے۔‘‘ انہوں نے بڑی خوشی سے قلم قبول کیا، اور خاص طور سے ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریکِ نسواں میں ’’عصمت‘‘ اور ’’تہذیب نسواں‘‘ کا ذکر کیا، کہنے لگیں کہ پروفیسر وقار عظیم نے مردانہ ادب اور نسوانی ادب اس طرح بانٹ دیا ہے، جیسے ٹرین میں مردانہ ڈبے اور زنانہ ڈبے ہوتے ہیں۔

    باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ جب وہ عمرہ کرنے گئی تھیں، تو انہوں نے خانۂ کعبہ کے کئی چکر لگائے، لیکن ’حجرِ اسود‘ تک رسائی نہ ہو سکی کہ اسے چوم سکیں، انہیں اپنی آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھی، کہ یک لخت انہیں ایک کالی لمبی چوڑی عورت نے پورا اٹھاکر ’حجرِ اسود‘ کے قریب کر دیا کہ وہ اسے چوم سکیں اور اس طرح ان کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔

    ڈاکٹر نور افشاں کے مطابق قرۃُ العین حیدر کی تحریریں بکھری رہتی تھیں۔ کبھی وہ بیٹھے بیٹھے ریپر پر، کسی بچے کی کاپی پر، لفافے کے پیچھے کہیں بھی، کسی وقت بھی لکھنا شروع کر دیتی تھیں اور تیزی سے لکھتی تھیں۔

    پھر انہیں یک جا کر کے ایک ترتیب اور تسلسل سے ’فیئر‘ کر لیتی تھیں، ان کے انتقال پر ان کے چچا زاد بھائی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس زوار حسین کی نواسی نے قرۃُ العین کی ساری چیزیں سمیٹ کر ’جامعہ ملیہ‘ میں ان کے نام سے میوزیم میں رکھوا دیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے چالیس، پچاس ہزار پونڈ لندن کے ایک بینک کے جوائنٹ اکاؤنٹ میں جمع تھے، جو کسی عزیز کے ساتھ کھلوایا گیا تھا۔ ڈاکٹر نور افشاں نے قبل از وقت ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

    ان کی شادی تحریکِ پاکستان کے لیڈر حسین امام صاحب کے بڑے بیٹے مظہر امام سے ہوئی، انہوں نے نارتھ ناظم آباد میں ’’امام کلینک‘‘ قائم کیا تھا، جو اب ایک بڑے اسپتال میں تبدیل ہو چکا ہے۔

    (جسٹس (ر) حاذقُ الخیری کی خود نوشت ’جاگتے لمحے‘ سے انتخاب)

  • عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    دوستو! اردو زبان کی نام وَر ادیب قرۃ العین حیدر کی تاریخِ پیدائش 20 جنوری ہے۔ وہ 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ قرۃُ العین حیدر نے دنیائے ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کی وجہ سے شہرت اور بلند مقام حاصل کیا۔ وہ ممتاز فکشن رائٹر تھیں‌ جن کا ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ بہت مشہور ہے۔ انھیں‌ علم و ادب کی دنیا کے کئی معتبر اعزازات سے نوازا گیا اور ادب کی نام وَر شخصیات نے ان کے فن اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

    آج قرۃُ العین حیدر ہمارے درمیان موجود نہیں‌، لیکن ان کی ادبی تخلیقات ہمیشہ ان کی اور ان کے کمالِ فن کی یاد تازہ کرتی رہیں‌ گی۔2007ء میں قرۃُ العین حیدر وفات پاگئی تھیں۔ انھیں ہندوستان میں‌ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    دوستو! قرۃُ العین حیدر کے یومِ پیدائش پر ان کے اس مختصر تعارف کے ساتھ ہم یہاں بچّوں کے لیے لکھی گئی اُن کی ایک کہانی بھی نقل کررہے ہیں‌۔ یہ کہانی جہاں آپ کو مطالعے کی طرف راغب کرے گی، وہیں یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث بنے گی کہ اپنے عہد کی ایک عظیم تخلیق کار کی نظر میں بچّوں‌ کی کتنی اہمیت تھی‌ کہ ان کے لیے وقت نکالا اور یہ دل چسپ کہانی بُنی۔

    "ایک پرانی کہانی”
    لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر بسنے والے تنگ آگئے تھے۔

    کبھی تو وہ کسی ننھے سے ستارے کو گیند کی طرح لڑھکا دیتا اور وہ ستارہ قلابازیاں کھاتا دنیا میں آ گرتا یا کبھی وہ انہیں اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیتا اور وہ بے چارے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے۔

    آخرایک دن تنگ آکر وہ سات ستارے جنہیں سات بہنیں کہتے ہیں۔ چاند کے عقل مند بوڑھے آدمی کے پاس گئے اور ریچھ کی شرارتوں کا ذکر کرکے اس سے مدد چاہی۔

    بوڑھا تھوڑی دیر تو سَر کھجاتا رہا۔ پھر بولا ’’اچھا میں اس نامعقول کی خوب مرمت کروں گا۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘

    ساتوں بہنوں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور خوش خوش واپس چلی گئیں۔

    دوسرے دن چاند کے بوڑھے نے ریچھ کو اپنے قریب بلا کر خوب ڈانٹا اور کہا کہ ’’اگر تم زیادہ شرارتیں کرو گے تو تم کو آسمانی بستی سے نکال دیا جائے گا۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان ننھے منّے ستاروں کی روشنی سے دنیا میں انسان اور جہاز اپنا اپنا راستہ دیکھتے ہیں، لیکن تم انہیں روز کھیل کھیل میں ختم کر دیتے ہو۔ تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جب یہ ستارے اپنی اصلی جگہ پر نہیں رہتے تو دنیا کے مسافر اور جہاز رستہ بھول جاتے ہیں۔

    میاں ریچھ نے اِس کان سنا اور اُس کان نکال دیا اور قہقہہ مار کے بولے۔ ’’میں نے کیا دنیا کے جہازوں اور مسافروں کی روشنی کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو ان کی فکر کروں۔ یہ کہہ کر ریچھ چلا گیا۔

    ریچھ کے جانے کے بعد بوڑھے نے بہت دیر سوچا کہ اس شیطان کو کس طرح قابو میں لاؤں۔ یکایک اسے خیال آیا کہ اورین دیو سے مدد لینی چاہیے۔ اورین دیو ایک طاقت وَر ستارے کا نام تھا جو اس زمانے میں بہت اچّھا شکاری سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کی طاقت کی وجہ سے سب اسے دیو کہتے تھے۔

    یہ سوچ کر بوڑھے نے دوسرے دن اورین دیو کو بلا بھیجا۔ اس کے آنے پر بڑی دیر تک دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ آج شام ریچھ کو پکڑنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ رات گئے اورین دیو نے شیر کی کھال پہنی اور ریچھ کے غار کی طرف چلا۔ جب ریچھ نے ایک بہت بڑے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ ننھے منے ستاروں سے بنی ہوئی اس سڑک پر جو پریوں کے ملک کو جاتی ہے اور جسے ہم کہکشاں کہتے ہیں، بے تحاشا بھاگا۔

    آخر بڑی دوڑ دھوپ کے بعد طاقت وَر شکاری نے میاں ریچھ کو آلیا اور ان کو پکڑ کر آسمان پر ایک جگہ قید کر دیا جہاں وہ اب تک بندھے کھڑے ہیں۔ اگر تم رات کو قطب ستارے کی طرف دیکھو تو تمہیں اس کے پاس ہی ریچھ بندھا نظر آئے گا جس کو ان سات بہنوں میں سے چار پکڑے کھڑی ہیں۔ باقی تین بہنوں نے اس کی دُم پکڑ رکھی ہے۔

    اگر تم آسمان پر نظر دوڑاؤ تو تمہیں اورین دیو بھی تیر و کمان لیے ریچھ کی طرف نشانہ لگائے کھڑا نظر آئے گا۔

    (یہ کہانی 1967ء میں‌ پٹنہ (بھارت) سے نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    سترھویں صدی کے نامعلوم مصنف کی زندہ تحریر!

    ممتاز ادیب اور فکشن نگار قرۃ العین حیدر کا ناول "کارِ جہاں دراز ہے” شاید آپ نے بھی پڑھا ہو۔ ان کی اس سوانحی تصنیف میں ایک ایسی تحریر سے اقتباس بھی شامل ہے جس کا مصنف نامعلوم ہے۔

    کہتے ہیں یہ تحریر سترھویں صدی کے کسی مفکر اور دانا کی ہے جو انگلستان کے ایک قدیم گرجا گھر سے ملی تھی۔ یہ اقتباس ہم آپ کے لیے یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    ’’شور اور ہنگامے میں سے پُرسکون گزرو۔ اور یاد رکھو کہ امن خامشی میں ہے۔ خود کو جھکائے بغیر سب سے نبھائو۔ اپنی سچائی کو شانتی اور صراحت کے ساتھ بیان کرو اور دوسروں کی سنو خواہ وہ لوگ غیر دل چسپ یا کم علم ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ ان کے پاس بھی ان کی کہانی موجود ہے۔

    چھچھورے لوگوں سے احتراز کرو کہ وہ روح کے لیے ناگوار ہیں اور اگر تم نے اپنا موازنہ دوسروں سے کیا تمھارے اندر نخوت یا تلخی پیدا ہو جائے گی، اپنے کارناموں اور منصوبوں سے لطف اندوز ہو، اپنے کام اور فرضِ منصبی میں دل لگائو خواہ وہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو کیوں کہ تھارا ہنر ہی وہ شے ہے جسے گردشِ ایام کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔

    اپنے معاملات میں سوجھ بوجھ سے کام لو۔ دنیا مکروفریب سے پُر ہے۔ لیکن اہلِ دنیا کے چھل کپٹ سے دل برداشتہ ہو کر اچھے انسانوں کی نیکیوں کو نظر انداز نہ کرو۔

    بہت سے لوگ ہیں کہ اعلیٰ سے اعلیٰ نصب العین کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اور ہر جگہ زندگی دلاوری سے معمور ہے۔ تم جو خود ہو، وہی رہو مصنوعی جذبات کا اظہار نہ کرو۔ نہ محبت کے متعلق کلبیت کا رویہ اختیار کرو کیوں کہ ساری خشک سالی اور مایوسیوں کے درمیان محبت سدا بہار گھاس کی مانند اگتی رہتی ہے۔

    گزرتے برسوں کے مشوروں کو نرم مزاجی سے قبول کرو۔ اور نوعمری کے مشاغل سے وقار کے ساتھ دست بردار ہونا سیکھو۔ اپنی اندرونی قوت کو پروان چڑھائو جو کسی اچانک مصیبت کے وقت تمھارے کام آسکے۔ لیکن توہمات سے خود کو پریشان نہ کرو کہ بہت سے خوف اور خدشے درماندگی اور تنہائی کی وجہ سے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔

    ایک معقول حد تک ضبط وتوازن قائم کرکے اپنی ذات سے نرمی برتو۔ اپنے اوپر بلاوجہ ظلم نہ کرو اور یاد رکھو کہ زمین کی گھاس اور آسمان کے درخشاں ستاروں کی طرح تم بھی کائنات کے بچے ہو اور چاہے تمھاری سمجھ میں یہ بات نہ آوے، مگر کائنات متواتر اور پیہم اپنے اسرار منکشف کررہی ہے چناں چہ جو بھی تمھارا تصور خدا کے متعلق ہے، راضی برضائے پرورد گار ہو جائو اور زندگی کی پرُشور الجھنوں کے درمیان اپنی روح کے ساتھ امن سے رہو کیوں کہ اپنی تمام بیہودگیوں اور کلفتوں کے باوجود دنیا بڑی خوب صورت جگہ ہے۔‘‘

  • طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    میاں مصطفیٰ باقر کے مرنے کے بعد ان کے اسکول کا رزلٹ آیا۔

    آٹھویں کلاس میں فرسٹ پاس ہوئے تھے۔ ہیضے کی وبا میں ابھی کمی نہیں آئی تھی۔

    بھتیجے ممتاز حیدر تو اللہ کے فضل سے اچھے ہوگئے، لیکن اب بھانجے عثمان حیدر کو کالرا ہوگیا۔ ماموں ممانی نے متوحش ہوکر بار بار اُن کے ناخن دیکھنا شروع کیے۔ فوراً گاڑی بھیج کر جھوائی ٹولے کے نامی طبیب حکیم عبدالوالی کو بلوایا۔

    حکیم صاحب نے کہا حالت تشویش ناک نہیں۔ ان کا نسخہ بندھوایا گیا۔ دوا ماموں ممانی وقت پر خود کھلاتے رہے۔

    اسی ہفتے علامہ اقبال مصطفیٰ باقر کی تعزیت کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ رات کو اس ہوا دار برآمدے میں ان کا پلنگ بچھتا جہاں عثمان حیدر سوتے تھے۔ دن میں دو چار بار عثمان حیدر کے کمرے میں جاکر علامہ ان کی مزاج پرسی کرتے۔

    ڈاکٹر اقبال کو لکھنؤ آئے دو تین روز ہوئے تھے کہ علی محمد خاں راجا محمود آباد نے اُن کی زبردست دعوت کی۔

    وہاں خوب ڈٹ کر شاعرِ مشرق نے لکھنؤ کا مرغّن نوابی ماحضر تناول فرمایا۔ رات کے گیارہ بجے ہلٹن لین واپس آئے۔ کپڑے تبدیل کیے۔ برآمدے میں جاکر اپنے پلنگ پر سو رہے۔

    رات کے ڈھائی بجے جو اُن کے نالہ ہائے نیم شبی کا وقت تھا، افلاک سے جواب آنے کے بجائے پیٹ میں اٹھا زور کا درد۔ شدت کی مروڑ۔ سوئیٹ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا۔

    سارا گھر سورہا تھا۔ میزبانوں کو زحمت نہ دینے کے خیال سے چپکے لیٹے رہے۔ نزدیک پلنگ پر نو عمر عثمان حیدر بے خبر سورہے تھے۔ اقبال نے آہستہ سے اٹھ کر غسل خانے کا رخ کیا، وہاں سے تیسری بار لوٹ کر آئے۔

    برآمدے کی لائٹ جلائی۔ عثمان حیدر کے سرہانے میز پر حکیم عبدالوالی کی دوا کا قدّح رکھا تھا۔ آپ اس کی چوگنی خوراک پی گئے۔ پھر لیٹ رہے۔ پھر غسل خانے گئے۔ واپس آکر مزید دو خوراکیں نوشِ جان کیں۔

    کھٹر پٹر سے عثمان حیدر کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بستر کے کنارے بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری اور اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔

    مصطفیٰ باقر مرحوم کے ناخن نیلے پڑنے کا قصہ انھیں بتایا جا چکا تھا۔

    عثمان حیدر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ادب سے دریافت کیا۔ ”ڈاکٹر صاحب خیریت؟“
    بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ”مجھے بھی کالرا ہوگیا۔ جاکر سجّاد کو جگا دو۔“

    اس وقت پو پھٹ رہی تھی۔ باغ میں چڑیوں نے گنجارنا شروع کردیا تھا۔ بڑی خوش گوار ہوا چل رہی تھی اور بارش کی آمد آمد تھی۔ عثمان حیدر نے تیر کی طرح جاکر دوسرے برآمدے میں ماموں جان کو جگایا۔ اس وقت ڈاکٹر اقبال نیم جاں سے اپنے پلنگ پر لیٹ چکے تھے۔

    ماموں نے فوراً آکر منفردِ روزگار مہمان کی یہ حالت دیکھی۔ حواس باختہ سرپٹ پھاٹک کی طرف بھاگے۔

    لکھنؤ کا انگریز کرنل سول سرجن نزدیک ہی ایبٹ روڈ پر رہتا تھا۔ اس کو جاکر جگایا۔ کرنل بھاگم بھاگ ہلٹن لین پہنچا۔ انجکشن لگایا۔ مریض کی تسلی تشفی کی۔

    آدھ گھنٹے بعد علاّمہ پر غنودگی طاری ہوئی۔ کرنل نے نسخہ لکھا۔ مشتاق بیرہ حضرت گنج سے دوا بنوا کر لایا۔ دو گھنٹے بعد علامہ کو پھر اسہال شروع ہوگیا۔ اس وقت تک ڈرائیور آچکا تھا۔ وہ حکیم عبدالوالی کو لینے جھوائی ٹولہ گیا۔

    حکیم صاحب بوکھلائے ہوئے ہلٹن لین پہنچے۔ کرنل کی شیشی دیکھی۔ پھر نسخہ لکھنے بیٹھے۔

    علامہ نے تکیہ سے سَر اٹھا کر نسخہ ملاحظہ فرمایا۔ بولے، ”حکیم صاحب یہ دوائی تو میں پہلے ہی آدھی بوتل پی چکا ہوں۔“

    حکیم صاحب ہکّا بکّا اقبال کو دیکھنے لگے۔ عثمان حیدر والی بوتل اٹھائی۔ اس میں پوری چھے خوراکیں کم تھیں۔

    شاعر مشرق نے بھولپن سے فرمایا، ”حکیم صاحب بات یہ ہوئی کہ میں نے سوچا یہ لڑکا کم عمر ہے۔ اس کی خوراک سے چار گنا زیادہ مجھے کھانی چاہیے، جبھی فائدہ ہوگا۔“

    حکیم عبدالوالی نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ”ڈاکٹر صاحب آپ واقعی فلسفی ہیں۔ خدا نے بڑی خیریت کی۔ اگر دو ایک خوراکیں اور پی ہوتیں، لینے کے دینے پڑجاتے۔“

    شام تک علّامہ کی حالت سنبھل گئی، لیکن ان کی علالت کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ہلٹن لین میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ راجہ صاحب محمود آباد، مشیر حسین قدوائی، جسٹس سمیع اللہ بیگ، سید وزیر حسن صبح شام آکر مزاج پرسی کرتے۔ حکیم عبدالوالی اور کرنل روزانہ آیا کرتے۔

    پانچویں دن راجہ محمود آباد نے فرسٹ کلاس کا درجہ ریزور کروا کے دو ملازموں کے ساتھ علامہ اقبال کو لاہور روانہ کیا۔

    (قرۃ العین حیدر کی کتاب ”کارِ جہاں دراز ہے“ سے انتخاب)