Tag: قصہ چہار درویش

  • باغ و بہار: جادوئی اسلوب والی دو صدی پرانی کتاب

    باغ و بہار: جادوئی اسلوب والی دو صدی پرانی کتاب

    باغ و بہار (قصہ چہار درویش) کے مؤلف میر امن دہلوی جدید اردو نثر کے بانیوں میں سے ہیں۔

    باغ و بہار وہ کتاب ہے جس کی مقبولیت دو صدی گزرنے کے باوجود آج بھی برقرار ہے۔ اس کے مقدمے میں مؤلف نے اپنا تعارف کروایا ہے جو ان کے نثری اسلوب کی خوب صورت جھلک ہے۔

    اردو کے متوالے، ادب کے شائق اور داستان کے رسیا اس تعارف کو پڑھ کر ضرور خود کو کتاب پڑھنے پر مجبور پائیں‌ گے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "پہلے اپنا احوال یہ عاصی گنہگار، میر امن دلی والا بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک بادشاہ کی رکاب میں، پشت بہ پشت، جاں فشانی بجا لاتے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے، قدر دانی جتنی چاہیے، فرماتے رہے۔

    جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے سرفراز کر کر، مالا مال اور نہال کر دیا اور خانہ زاد موروثی، اور منصب دار قدیمی، زبانِ مبارک سے فرمایا، چنانچہ یہ لقب بادشاہی دفتر میں داخل ہوا۔ جب ایسے گھر کی (کہ سارے گھر اس گھر کے سبب آباد تھے) یہ نوبت پہنچی، ظاہر ہے۔ (عیاں را چہ بیاں) تب سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا اور احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کیا۔ ایسی ایسی تباہی کھا کر ویسے شہر سے (کہ وطن اور جنم بھوم میرا ہے، اور آنول نال وہیں گڑا ہے) جلا وطن ہوا، اور ایسا جہاز کہ جس کا ناخدا بادشاہ تھا، غارت ہوا۔

    میں بے کسی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ہے۔ کتنے برس بلدۂ عظیم آباد میں دم لیا۔ کچھ بنی کچھ بگڑی، آخر وہاں بھی پاؤں اکھڑے، روزگار نے موافقت نہ کی۔ عیال و اطفال کو چھوڑ کر تن تنہا کشتی پر سوار ہوا، اشرف البلاد کلکتے میں آب و دانے کے زور سے آ پہنچا۔ چندے بیکاری گزری۔

    اتفاقاً نواب دلاور جنگ نے بلوا کر، اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کی اتالیقی کے واسطے مقرر کیا۔ قریب دو سال کے وہاں رہنا ہوا، مگر نباہ اپنا نہ دیکھا۔ تب منشی میر بہادر علی جی کے وسیلے سے، حضور تک، جان گلکرسٹ صاحب بہادر (دام اقبالہ) کے، رسائی ہوئی۔

    بارے، طالع کی مدد سے ایسے جواں مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے، چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں۔ نہیں تو یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر، پاؤں پھیلا کر سو رہتا ہوں اور گھر میں دس آدمی، چھوٹے بڑے، پرورش پا کر دعا اس قدردان کو کرتے ہیں۔ خدا قبول کرے۔

  • فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے

    فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے

    ادب کی دنیا میں عہد کا درجہ رکھنے والی فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے‘ آپ طویل عرصے تک اردو ادب کے دامن میں اپنے نایاب فن پارے ٹانکنے کے بعد گزشتہ برس 85 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا پاکستان ٹیلی وژن اورادبی دنیا کی معروف شخصیت ہیں اوران کا نام ناول نگاری، ڈراما نگاری کے حوالے سے بے پناہ مشہور ہے۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اوراسٹیج پر بھی کام کیا جب کہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدرہیں۔

    محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جیسا کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود جبکہ بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اورزبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ہیں۔

    ابتدائی زندگی

    بجیا یکم ستمبر1930ء کو بھارتی شہر حیدرآباد کے ضلع کرناٹک میں پیدا ہوئیں ۔ انہوں نے باقاعدہ کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن سنہ 2007ء میں اپنی تحریروں کی بدولت عبداللہ دادابھائی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پرڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی۔

    پاکستان ہجرت

    ایک غیرملکی ویب سائٹ وائس آف امریکہ کو دئیے گئے انٹرویو مں انہوں نے ہجرت سے متعلق کہا کہ ’’پاکستان ہجرت کی تاریخ مجھے ازبر ہے کیوں کہ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی کا انتقال ہوا تھا اور 18 اکتوبر کو ان کے چہلم کے دن ہم پاکستان آئے تھے‘‘۔

    قلم سے رشتہ

    بجیا نے 14 برس کی عمر میں 250 صفحات پر مشتمل ایک مکمل ناول تحریر کیا تھا، جس کی 1000 کاپیاں چھپیں تھیں۔ پھر جس دور میں انہوں نے ٹی وی کے لئے لکھنا شروع کیا اس وقت ڈرامے کی ایک قسط کے صرف ڈھائی سو روپے انہیں ملا کرتے تھے۔حالانکہ بقول بجیا ”حیدرآباد دکن میں ان کے یہاں 60ملازم ہوا کرتے تھے۔“ ان باتوں کا ذکر مرحومہ اکثر اپنے انٹرویوز میں بھی کیا کرتی تھیں۔

    فاطمہ ثریا کا پہلا ڈرامہ ’قصہ چہار درویش‘ تھا جو انہوں نےملک میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے صرف ایک سال بعد یعنی آج سے 52 سال پہلے سنہ 1965میں لکھا تھا۔

    ’قصہ چہاردرویشن‘ اسلام آباد سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا جس نے خوب شہرت پائی۔ اس قدر کہ بجیا کو اس کے بعد مسلسل ڈرامے تخلیق کرنا پڑے۔’الف لیلیٰ‘، ’بنو عباس‘ وغیرہ اسی دور کے لازوال ڈرامے ہیں، جبکہ بجیا نے ٹیلی فلمز بھی لکھیں اور اس کا آغاز ’چندن کا پلنا‘ سے کیا تھا۔

    بجیا کا یہ کارنامہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ہی مطبوعہ ناولز کو ڈرائی تشکیل کی صورت بخشی۔ مثلاً ’شمع‘، ’افشاں‘، ’عروسہ‘ اور ’تصویر کائنات‘ وغیرہ جن کی مصنفہ اے آر خاتون اور اسما خاتون تھیں۔ لیکن، انہیں بجیا نے ٹی وی ڈرامے کا روپ دیا اورامر کردیا جبکہ ’آگہی‘ اور ’انا‘ سمیت انہوں نے ایک سینکڑوں ڈرامے لکھے۔

    بجیا ’پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن‘ سے بھی کئی سال تک وابستہ اور صدر کے عہدے پر فائز رہیں اور اسی عرصے میں انہوں نے ایک جاپانی ناول پر اردو میں اسٹیج ڈرامہ میں تخلیق کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جاپانی طرز کی شاعری ’ہائیکو‘ اور ’واکلا‘ کو 11 پاکستانی زبانوں میں متعارف بھی کروایا۔

    ان خدمات کے عوض انہیں 1999ء میں جاپان کے شہنشاہ کی طرف سے خصوصی طور پر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ملکی ایوارڈز کی بات کریں تو انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت انگنت ایوارڈ مل چکے تھے۔

    بیماری اورانتقال

    فاطمہ ثریا بجیا طویل عرصے سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھیں جس کے سبب ان کی زندگی کے آخری ایام گھر اوربستر تک محدود رہتے ہوئے گزرے۔ بالاخر10 فروری 2016 کوداعی اجل کی پکارپرلبیک کہتے ہوئے ادب، علم و آگہی، اخلاق و مروت اورمہرووفا کی پیکربجیا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ فاطمہ ثریا بجیا کو کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    fatima-suraya-bajya-post-2