Tag: قلی قطب شاہ

  • یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    آج ہندوستان کی عظیم اور خوش حال ترین ریاست حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جنھوں نے اردو کو ریاست کی زبان کا درجہ دیا اور اس کی سرپرستی اور علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنے وسائل اور دولت خرچ کی۔

    دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    اردو زبان اور ہندوستان بھر کی عالم فاضل شخصیات، شعرا و ادیب، محقق، ماہرِ لسانیات، لغت نویس، مترجم، معلم الغرض ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ نے دربارِ دکن سے عزؑت و توقیر، انعام و اکرام اور وظائف پائے اور یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن میں مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ اس خطے نے قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور 1724ء میں یہاں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اور بعد میں اس خاندان کے فرماں روا نظام دکن کے نام سے مشہور ہوئے۔

    میر محبوب علی خان اسی خاندان کے چھٹے حکم راں تھے۔ وہ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو قبول کیا اور اس کی سرپرستی کی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بدقسمتی کہیے یا کم علمی کہ آج ہندوستان کی ایک نہایت خوش حال اور مرفہ الحال ریاست کے اس فرماں روا کا ذکر کم ہی ہوتا ہے جس نے اردو کو اپنے دربارِ خاص میں جاودانی اور پائندگی دی تھی۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور فروغ پایا۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کا ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو زبان تھا۔

    میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو اس عالمِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

  • قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    محمد قلی قطب شاہ کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا، ایک بار جب وہ دلّی گیا تو شوق شوق میں اس نے ایک بہت اونچا مینار بنا دیا، جسے آج کل قطب مینار کہتے ہیں۔ جب یہاں کی رعایا کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان میں غیض و غضب کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دلّی میں مینار بنوانے کا کیا مطلب؟

    بادشاہ نے دلّی والے آرکٹیکٹ کو بلا کر اسے یہاں بھی ویسا ہی مینار بنانے کو کہا۔ لیکن قطب مینار بناتے بناتے وہ آرکیٹکٹ بے چارہ بوڑھا ہو گیا تھا اور اب اس میں اس بلندی پر پہنچے کی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ جب اس نے اپنی معذوری ظاہر کی تو بادشاہ نے کہا کوئی مضائقہ نہیں تم چار چھوٹے چھوٹے مینار بنا دو، ہم کسی اور نوجوان آرکٹیکٹ کو کہہ دیں گے کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کر کے ایک اونچا مینار تیار کر دے۔

    جب چاروں مینار علیحدہ علیحدہ تیار ہو گئے تو ایک مدبّر نے صلاح دی کہ عالم پناہ آپ کیوں نہ چار مینار علیحدہ علیحدہ ہی رہنے دیں۔ اس طرح آپ رعایا کو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دلّی میں ایک مینار بنوایا تو یہاں کے لوگوں کے لیے چار مینار بنوائے۔ اس کے علاوہ آپ کے نام کے چار حصّوں یعنی محمد، قلی، قطب اور شاہ کے لیے ایک ایک مینار یادگار رہے گا۔

    بادشاہ کو یہ صلاح پسند آئی اور نہ صرف فوری طور پر اس کی شخصیت کو چار چاند بلکہ چار مینار لگ گئے اور ہمیشہ کے لیے اس کا نام امر ہو جانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ اس مدبّر کو ایسی صلاح دینے کی پاداش میں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا اور اس طرح حیدرآباد کا امتیازی نشان وجود میں آیا۔

    چار مینار کی دھوم جب دلّی تک پہنچی تو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دل میں اسے دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے جب دکن کے دورہ کا پروگرام بنایا تو اس کا سپہ سالار اور فوج کے ہزاروں سپاہی سیاحت کے شوق میں اس کے ساتھ ہوئے، یہاں ٹورسٹ لوگوں کا رش اتنا تھا کہ اورنگ زیب کو چھے مہینے انتظار کرنا پڑا۔ بے تاب ہوکر اس نے شہر پر دھاوا بول دیا۔

    یہ عمارت دیکھی تو اتنی پسند آئی کہ سات سال تک یہیں ٹکا رہا۔ آخر چار مینار کی تصویر دل میں لیے ہوئے وہ دکن میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔

    (معروف ادیب، مزاح نگار اور مؤرخ نریندر لوتھر کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، یہ شگفتہ پارہ اسی شہر سے متعلق ان کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے، اس مضمون میں انھوں نے دکن کی ایک مشہور اور تاریخی اہمیت کی حامل یادگار "چار مینار” کے بارے میں شگفتہ بیانی کی ہے)

  • یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    21 جنوری 1611ء کو اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جنوبی ہند کے گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کے پانچویں حکم راں تھے۔ ان کا سنِ پیدائش 1565ء بتایا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ ہی وہ حکم راں تھے جنھوں نے حیدرآباد (دکن) شہر بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کو فنِ تعمیر سے خاص دل چسپی تھی جس کا ثبوت چار مینار، مشہور مکہ مسجد اور حیدرآباد شہر کی کئی دوسری عمارتیں ہیں۔

    اس باذوق حکم راں کو شعروادب سے خاص علاقہ تھا اور وہ فارسی، دکنی ، تلنگی اور اردو زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ادب کے مؤرخین و تذکرہ نگاروں نے انھیں اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر لکھا ہے۔ ان کا دیوان ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین سلطان محمد قطب شاہ نے مرتب کیا تھا جسے 1941ء میں ڈاکٹر محی الدین زور نے جدید ترتیب کے ساتھ شایع کیا۔

    قلی قطب شاہ نے پچاس ہزار سے زائد شعر کہے، سادگی اور شیرینی اس کے کلام کا جوہر ہے۔ تصوف اور عاشقانہ رنگ میں اشعار کہتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرقع نگاری اور مناظرِ فطرت کے بیان کی بنیاد اسی نے رکھی جسے بعد میں آنے والے شعرا نے بھی اپنایا۔

    محمد قلی قطب شاہ نے اس زمانے کی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزلیں خاص طور سے قابلِ توجہ ہیں۔

  • قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    قلی قطب شاہ اور بھاگ متی کی محبّت، حقیقت یا افسانہ؟

    جنوبی ہندوستان کی سلطنتِ گولکنڈہ اور قطب شاہی خاندان کے محمد قلی قطب شاہ کو اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا جاتا ہے۔

    وہ 1565ء میں‌ پیدا ہوا اور اس سلطنت کا پانچواں حکم راں تھا جس نے بعد میں شہر حیدرآباد دکن بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    اسی قلی قطب شاہ کے عشق کی کہانی بھی مشہور ہے جس کی حقیقت میں مؤرخین کا اختلاف ایک طرف، مگر یہ لوک گیتوں اور کہانیوں کا حصّہ ہے۔

    کہتے ہیں محمد قلی قطب شاہ ایک لڑکی پر فریفتہ ہو گیا۔ وہ چھپ چھپ کر اس سے ملاقاتیں کرنے لگا تھا۔ بادشاہ نے شہزادے کو اس سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ نہ رکا۔

    مشہور ہے کہ ایک بار محبوبہ سے ملاقات کے لیے شہزادے نے بپھرے ہوئے دریا میں گھوڑا ڈال دیا تھا۔ بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو پدرانہ شفقت اور محبت نے جوش مارا اور حکم دیا کہ دریائے موسیٰ پر پُل تعمیر کردیا جائے۔ غالباً یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے گزر کر شہزادہ اپنی محبوبہ سے ملنے جاتا تھا۔

    بالآخر وہ وقت آیا جب محمد قلی قطب شاہ سلطان بنا اور اس لڑکی سے شادی کرلی۔ کہتے ہیں اس کا نام ‘بھاگ متی’ تھا، جسے سلطان نے ‘قطبِ مشتری’ کے خطاب سے سرفراز کیا۔

    ادبی مؤرخین کا خیال ہے کہ قلی قطب شاہ جس لڑکی (بھاگ متی) کی محبّت میں‌ گرفتار ہوا تھا، وہ رقص و موسیقی میں کمال رکھتی تھی۔ اسی کے نام پر بادشاہ نے شہر ‘بھاگ نگر’ بسایا تھا جسے بعد میں حیدر آباد کا نام دے دیا گیا۔ اسی طرح بھاگ متی کو حیدر محل کہا جانے لگا تھا۔

    سلطان محمد قلی قطب شاہ کی محبّت کی داستان کو بعض مؤرخین نے من گھڑت داستان اور افسانہ لکھا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے قبولِ اسلام اور سلطان سے نکاح کے بعد ملکہ بن جانے پر بھی بحث کی جاتی ہے۔

    شہر حیدرآباد کی وجہِ تسمیہ وہ خطاب بتایا جاتا ہے جو قطبِ‌ مشتری سے ‘حیدر محل’ ہوگیا تھا، تاہم اس پر اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن سلطان اور محبوبہ سے محرم بننے تک بھاگ متی داستانوی ادب میں آج بھی زندہ ہیں۔